تعجب ہوگا جب آپ کو یہ بتاوں کہ آیک دوست ایسا بھی ہے جسے
ہم خریدتے ہے، میری مراد کتابوں سے ہے، کتاب خرید کے گھر لانے تک اور اسے
آپنے ٹیبل پہ سجانے تک کا سفر بہت لطف اندوز ہوتا ہے، عموماً ہم آیک کتاب
خریدتے ہے اور اسے ختم کرنے سے پہلے نظریں دوسری کتاب کی جانب متوجہ ہوتی
ہے یوں ہم گھر کو کتابوں سے بھر دیتے ہے، ہمارے دکاندار خریدار کے ساتھ کیا
کیا فریب کر رہے ہے؟ سب سے پہلے بات کرتے ہے پبلیشرز کی
کسی کتاب کا ترجمہ پڑھنا اور دعویٰ کرنا کہ آپ مصنف کے ذہن کو سمجھ چکے ہو
بہت دشوار ہے۔ ترجمہ کرنے والا آپنی سمجھ اور آپنے الفاظ شامل کرتا ہے،
کتاب کا نام ہے سو پر اثر شخصیات اور جب اردو میں اس کا ترجمہ ہوا تو
لکھاری نے لکھا "سو عظیم شخصیات" اب پڑھنے والا سمجھے گا کہ ہلاکو خان جیسے
درندے بھی عظمت کی انتہا پہ ہیں، حلانکہ یہ لفظ ہے "پراثر" اور اثر کے
فلسفے کو آگر میں بیان کروں تو کسی کراد کا آپنی کارکردگی اور روزمرہ کاموں
میں عوام کے دل پہ نقش چھوڑ جانا، یہ یا تو آچھا ہوسکتا ہے یا برا حالانکہ
عظیم لوگ ہمیشہ مثبت نقش چھوڑ جاتے ہے۔ ہر پر اثر شخص عظیم نہیں ہوتا لیکن
ہر عظیم شخص پر اثر ہوتا ہے۔ محمد مصطفی (ص) پر اثر بھی ہے اور عظیم بھی۔
دوسری بات جب ہمارے لکھاری یا پبلیشرز کسی انگریز کی کتاب کا اردو میں
ترجمہ کرتے ہے تو وہ اس میں ردوبدل ضرور کرتے ہے، آگر آنگریز لکھاری نے
لکھا ہے لفظ خدا تو بجائے خدا لکھنے کے وہ اللہ کا نام مبارک لکھتے ہے،
حلانکہ اللہ لکھنے کا مصنف کا کوئی ارادہ ہی نہیں ہے، پتہ نہیں مصنف کتنے
خداوں یا دیوتاؤں کو مانتا ہیں، پھر آپ کسے مطمئن کرنے کے لیے لفظ بدل دیتے
ہو؟ آگر سنگین مطالعے کا کوئی شوقن آیسے الفاظ پہ عمل کرئے گا جن کے معنی و
مطلب بدل چکے ہے تو وہ شخص مطالعہ نہیں کر پائے گا، اس کی راہ دشوار اور
کنفیوژن میں گزر جائے گی۔ حال ہی میں آیک نفیساتی کتاب کا سامنا ہوا جس میں
کہی الفاظ بدل چکے تھے مثلاً لفظ "گوڈ" کو اللہ پاک لکھا گیا تھا، گورج فوک
کہتے ہے "میرے نزدیک بہترین کتاب وہی ہے جس میں بھوک ہو، ذندگی کو جاننے کی
بھوک" آگر ہمیں ہوبہو مصنف کے الفاظ ترجمے میں ملے تو ہم میں آیک کھوج پیدا
ہوگی ہم تلاش کرئیں گے حقیقی معنی کو سمجھے گے، اس معنی کو جس کا ذکر مصنف
نے کیا ہے۔
اس کے علاوہ جب ہم پرانی کتابیں خریدنے کی غرض سے اردو بازار یا کہی اور
جاتے ہے تو کتاب کا پہلا صفحہ جہاں قیمت لکھی ہوئی ہے کاٹ دی جاتی ہے، یا
مارکر سے مٹایا جاتا ہے فقط اسے مہنگے داموں فروخت کرنے کے لیے، خدا کا خوف
ہی نہیں ہے ہمیں بے وقوف بنا رہے ہے۔ لاہور کے آیک پرانے بازار سے میں نے
آیک کتاب خریدی اس کی قیمت کیسے دیکھتا مٹادیا تھا کسی ظالم نے۔
میں نے دو سو میں خرید لیا اور خوشی خوشی واپس آیا کہ چار سو کہ کتاب پچاس
فیصد ڈسکونٹ میں ملی ہے، گھر آکے اس کا پی ڈی آیف ڈاونلوڈ کیا تو پتہ لگا
اس کی اصلی قیمت ہی دو سو تھی، یعنی پرانی کتاب دس سال بعد بھی مجھے اسی
قیمت پہ پچاس فیصد ڈسکونٹ کا ڈھونگ رچا کے ملی۔
اس طرح عوام کو بے وقوف بنانا وہ بھی علم کی راہ پہ تعجب ہے۔ فرمان ہے "جو
علم حاصل کرنے نکلتا ہے فرشتے بھی اس کے لیے دعا کرتے ہیں، لیکن یہاں ہمارے
ملک والے دعا نہیں دغا کرتے ہے۔
علم کے متلاشی پھر بھی جستجو و تلاش میں مگن ان چیزوں کی پرواہ کئے بغیر
آپنے مطالعے کو جاری رکھتے ہے، دکاندار حضرات کے مطالبہ ہمارے مطالعہ سے
عظیم نہیں لیکن اصول ہو تو کیا ہی بات ہے۔
میں اکثر سوچھتا ہوں کاش کہ صبح آنکھ کھلے اور ایسا ماحول ہو کہ جو دکاندار
جو چیز بیجھ رہا ہے اس کی مناسب اور آیک ہی قیمت ہو، نہ خریدار بحث کرئیں
نہ ہی دکاندار دوگنا ریٹ بتائیں، لیکن یہ سب ممکن نہیں، ہم عجیب و غریب
دلدل میں پھنس چکے ہے یہاں ہر کوئی آپنے مطابق آپنی مرضی سے لوٹ رہا ہے۔ اس
کے علاوہ آیک اور فراڈ یہ ہے کہ اصلی کتاب کو کہی پبلیشر ناقص اوراق پہ
چھاپتے ہے تاکہ ان کو بیجھ کے پیسے کما سکے، ان اوراق کو پڑھتے ہوئے نیند
سی آجاتی ہے، ان کے اندار گرافیکس اور لکھائی ناقص ہوتی ہے، چند پیجز آگے
پیچھے ہوتے ہے یا پھر رنگت کی وجہ سے ہمارے خوشگوار ذہن میں خلل بن جاتا
ہے۔
اس کے باوجود میری التجاء ہے کتابیں پڑھے اور ان میں مصنف کو سمجھے آپ آیک
کتاب پڑھتے ہوئے یوں گمان کرئیں کہ آپ آیک ہستی کے عمر بھر کی سوچ کو الفاظ
میں پڑھ رہے ہو۔
از قلم: سبیل
اقتباس : سبیل لائبریری
|