لیپا پوتی کا لفظ تقسیم ہند سے قبل ہی سے رائج العام ہے
اور کثیر المعانی ہونے کے علاوہ اپنے اندر معنی خیزی بھی رکھتا ہے۔ ماضی
قریب میں تقسیم ہند سے قبل اور ما بعد جب کچے صحنوں کا زمانہ تھا اور پکے
فرش خال خال ہی نظر آتے تھے تو خواتین ان صحنوں کی صفائی ستھرائی کیلئے
چکنی مٹی کے گارے اور گائے کے گوبر کے آمیزے کو لیپا پوتی کیلئے استعمال
کرتی تھیں۔ آج کچے صحنوں کی باقیات صرف پاک و ہند کے دیہی علاقوں کے گھروں
میں ہی ملیں گی ورنہ شہری علاقوں کے گھروں میں صحنوں اور فرشوں کو سنگ مرمر،
سنگ سرخ و سیاہ اور چپس کا میک اپ کرنے کے بعد صرف پانی کا پونچھا لگا کر
چمکایا جاتا ہے ۔ شہری علاقوں میںکچے صحن اور ان کی لیپا پوتی تو ختم ہوگئی
ہے لیکن لیپا پوتی کا لفظ دوسرے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے۔ کسی کی بے
جا خوشامد یا کسی برائی پر پردہ ڈالنے پر ناگواری کے انداز میں اس کی حوصلہ
شکنی کرنے کیلئے لیپا پوتی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً ’’ زیادہ
لیپا پوتی کی ضرورت نہیں ہے، ہم خود بہتر جانتے ہیں‘‘۔ گوبر اور چکنی مٹی
کے گارے سے شہروں میں صحن کے میک اپ اور تزئین و آرائش کا رجحان تو ختم
ہوگیا لیکن صحنوں کی لیپا پوتی کرنے والی خواتین کے سلسلے سے جو نئی نسل
وجود میں آئی اس نے صحن کی جگہ اپنے چہرے کی لیپا پوتی شروع کردی۔ پہلے
پہل یہ لیپا پوتی کریم، پوڈر، سرخی اور کاجل تک ہی محدود تھی لیکن اب اس کے
لئے باقاعدہ بیوٹی پارلرز اور بیوٹی سیلون وجود میں آ گئے ہیں جہاں ہزاروں
روپے کے اصراف سے چند گھنٹوں کی خوبصورتی کا ملمع چڑھایا جاتا ہے اور میک
اپ اترنے کے بعد کھرا، کھوٹا بن جاتا ہے۔ جب صحنوں کی لیپا پوتی کا زمانہ
تھا تو فلم اسٹوڈیوز کے میک اپ روم حجام کی دکان کا منظر پیش کرتے تھے جہاں
مرد میک اپ مین اداکاروں اور اداکاراؤں کو کردار کی مناسبت سے خوبصورت یا
بدصورت بنانے کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ بالوں کی لٹ گرا کر یا ماتھے پر اسی
لٹ کا چاند بنا کر ایک نئے ہئیر اسٹائل کو متعارف کرایا جاتا تھا اور یہ
چاند ہیرو و ہیروئین دونوں کے ماتھے پر نظر آتا تھا اور ہیروئین چیخ چیخ
کر اپنے بالم کو پکار کر کہتی تھی :
لٹ الجھی سلجھا جا رے بالم
میں نہ لگاؤں گی ہاتھ رے
یہ نغمہ آج بھی ریڈیو اور ٹی وی پر سنائی دیتا ہے جبکہ ہم سمیت دیگر
سامعین کے ذہنوں میں ماضی کی طرح آج بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ
آخر وہ کون سی وجہ تھی جو مذکورہ ہیروئین الجھی لٹ اپنے بالم ہی سے
سلجھوانا چاہتی تھی۔ ہوسکتا ہے اس خاتون کے ہاتھوں میں مہندی لگی ہو اور وہ
مہندی چھوٹ جانے کے ڈر سے ہاتھ بالوں تک لے جاتے ہوئے گھبرا رہی ہو یا یہ
بھی ممکن ہے کہ ان کے بالم اپنا فاضل وقت کسی ہئیر ڈریسر کی دکان پر گزارتے
ہوں اور انہیں خواتین کی الجھی لٹ سلجھانے کا ربع صدی تجربہ ہوچکا ہو۔ شاید
کسی خاص مجبوری کی بناء پرہیروئین مذکورہ کو الجھی لٹ سلجھانے کی ضرورت
درپیش ہوئی ہوگی ورنہ وہ تو بعض فلموں میں ہونٹوں کو ایک مخصوص انداز سے
سکیڑ کر یہ لٹ پھونک مار کر ماتھے سے ہٹاتی تھیں شاید ان کی پھونکوں میں دم
خم ختم ہوگیا ہو اسی لئے وہ بیرونی امداد کی طلبگار ہوئیں جبکہ ہیرو اپنے
ماتھے پر بالوں کی لٹ سے بنے ہوئے چاند کو بیوہ کی چوڑی سے تشبیہ دیتے ہوئے
غمگین انداز میں گاتا تھا:
چاند اک بیوہ کی چوڑی کی طرح ٹوٹا ہوا
ہر ستارہ بے سہارا سوچ میں ڈوبا ہوا
جبکہ فلم ریلیز ہونے کے بعد یہی ٹوٹا ہوا چاند زیادہ تر مرد و زن کے ماتھے
پر نظر آتا تھا۔کیونکہ وہ بلیک اینڈ وائٹ فلموں کا دور تھا اس لئے ان میک
اپ رومز میں کالے کو گورا بنانے کیلئے جی بھر کے کریم پوڈر کا لیپ کیا جاتا
تھا جبکہ گورے کو کالا بنانے کیلئے توے کی سیاہی سے مدد لی جاتی تھی۔ کٹاری
آنکھیں بنانے کیلئے قلوپطرہ کاجل یا سرمے سے کمانیں بنائی جاتی تھیں اور
فلم ریلیز ہونے کے بعد اس فلم میں اپنایا جانے والا ہر انداز ہیرو یا
ہیروئین کی نقالی میں فیشن کا حصہ بن جاتا تھا۔ تنگ موری کا پاجامہ یا پینٹ
بعد ازاں ایک گز چوڑے پائینچوں کی شکل اختیار کرکے بیل باٹم کا نام پاتے
تھے جبکہ خواتین کو تنگ موری کی شلوار، کمر سے اونچی قمیص یا کرتہ، بھوپالی
یا چوڑی دار پاجامہ پہنایاجاتا تھا جو بعد میںبیل باٹم شلوار، یا بیل باٹم
پاجامہ، گھٹنوں سے نیچی قمیص کا روپ دھار لیتا تھا کچھ عرصے بعد یہ فیشن
فلموں سے نکل کر سڑکوں پر نظر آتا تھا۔
فلم انڈسٹری کے رنگین شکل میں ڈھلنے کے بعد فلمی دنیا کے فیشن بھی تبدیل
ہوتے گئے یہاں تک کہ ہماری فلمی صنعت قوس و قزح کے رنگوں کا بوجھ نہ سہار
سکی اور زوال پذیر ہوگئی لیکن اس کے ساتھ ہی ویڈیو کیمرے کی ارزانی کے باعث
ہر گلی محلے میں دو تین فلمساز پیدا ہوگئے اور شادی بیاہ کی تقریبات ویڈیو
کی فلمبندی کے بغیر ادھوری سمجھی جانے لگیں۔ ویڈیو فلمبندی کیلئے گھر کے
سامنے شامیانے میں سیٹ لگانا ناممکن تھا اس لئے شادی ہال، میرج گارڈن و
شادی لان وجود میں آتے گئے بلکہ مصروف شاہراہوں و کاروباری مراکز میں
لوگوں نے اپنی رہائشی عمارتوں اور دوسرے کاروباری مراکز کو شادی ہال میں
تبدیل کرلیا۔ کیونکہ ویڈیو کیمرے کے ہزاروں والٹس کے بلبس کی روشنی میں کی
جانے والی فلمبندی میں چہرے کے تمام خدوخال نمایاں ہوکر ٹی وی اسکرین پر
آجاتے تھے اس لئے زیادہ سے زیادہ خوبصورت نظر آنے کا رجحان نہ صرف خواتین
بلکہ مرد حضرات میں بھی رواج پانے لگا اور انہی کے دم قدم سے زنانہ و
مردانہ بیوٹی پارلرز وجود میں آتے گئے جہاں پہلے چہرے کا میل کچیل صاف
کرنے کیلئے بلیچ کا سوزش زدہ پینٹ کیا جاتا ہے جس کے بعد چہرے کو پانی سے
دھو کر مختلف کریم و لوشنز سے رگڑائی کی جاتی ہے جسے فیشیل کا نام دیا گیا
ہے۔ پھر ویکسنگ، تھریڈنگ کے بعد چمکدار اور گورا نظر آنے والی کریمیں مل
کر اور آئی شیڈز لگا کر بھارتی اداکار و اداکاراؤں کے ہم پلہ نوجوان مرد
و خواتین ویڈیو کیمروں کے سامنے اتاردئیے جاتے ہیں۔ شادی کی کسی بھی تقریب
میں دلہن کی پارلر یاترا کے بغیر شادی کی رسومات ادھوری رہتی ہیں جبکہ شادی
کی تقریب میں پارلر یا گھرسے میک اپ کرکے آنے والی ہر خاتون ویڈیو کیمرے
کے سامنے آکر جوہی چاؤلہ، ایشوریا رائے یا پریٹی زینٹا جیسی ادائیں
دکھانے کی کوشش کرتی ہے جبکہ ہمارا بانکا سجیلا نوجوان سلمان خان، شاہ رخ
خان یا اکشے کمار کی نقالی کرتا ہے۔ چہرے کے میک اپ کے بعد تو بھارتی
اداکاروں سے مماثلت پیدا ہوجاتی ہے لیکن آنکھوں کا رنگ تبدیل کرنا پچھلے
زمانے میں ایک گمبھیر مسئلہ ہوتا تھا۔ اب میک اپ کی جدید ٹیکنالوجی نے
آپتھامالوجسٹس کے تعاون سے اس مسئلے پر بھی قابو پالیا ہے۔ آئی لینسز کے
ذریعے کالی آنکھیں نیلی، بھوری، شربتی اور سبز بن جاتی ہیں۔ بھارتی فلموں
کی بھر مار اور غیر ملکی چینلز کی یلغار کے بعد ہمارے ملک میں نت نئے فیشن
دَرآئے اور انہیں پروان چڑھانے کا بیڑا بیوٹی پارلرز، ہئیر ڈریسرز اور
ڈریس میکرز نے اٹھایا۔ ہمارے ملک میں خواتین پر گھریلو تشدد اور ناک چوٹی
کاٹ کر باہر نکالنے کے خوف نے خواتین کو بوائے کٹ بال اور مردوں کو اپنا
نقطہ نظر منوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کیلئے چوٹی رکھنے پر
مجبورکردیا۔ آج کسی بھی چوٹی بردار شخص کو آگا پیچھا دیکھ کر مخاطب کرنا
پڑتا ہے۔ پیچھے سے دیکھنے سے معلوم نہیں ہوتا کہ کھڑا ہے یا کھڑی ہے۔ جا
رہا ہے یا جا رہی ہے۔ سامنے سے دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ ہستی
آنٹی ہے یا انکل۔ بقول ظریف لکھنوی ؎,
وحشت میں ہراک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے ، لیلیٰ نظر آتا ہے
ہماری فن و ثقافت میں زیادہ تر بیرونی چھاپ نظر آتی ہے لیکن لیپا پوتی
دیسی ایجاد ہے۔ کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ تین عشرے قبل تک اس
مقولے سے خواجہ سرا نامی درمیانی صنف زیادہ سے زیادہ استفادہ کرتی تھی
جنہیں پاک و ہند کی ثقافت کا باقاعدہ حصہ سمجھا جاتا تھا۔ مردانہ بالوں میں
سیلف میڈ یا اپنی بنائی ہوئی وگ اور چوٹی چپکاکر اور سرخی پوڈر کا لیپ کرکے
مذکورہ خواجہ سرا زنانہ انداز میںکمر لچکاتے ہوئے شادی بیاہ اور پیدائش
والے گھروں میں جا دھمکتے تھے اور ڈھول کی تھاپ و پائل کی جھنکار کے ساتھ
سریلے زنانہ گیت بے سری مردانہ آوازوں میں گا کر اس لیپا پوتی کی زیادہ سے
زیادہ قیمت وصول کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن مشینی دور میں داخلے کے بعد
خواجہ سراؤں جیسے دیسی فنکاروں کو ملکی ثقافت سے بے دخل کردیا گیا ہے۔ اب
صنف درمیانہ کے مذکورہ فنکار مہنگی کریموں اور لوشنز سے چہرے کی لیپا پوتی
کرانے اور اپنے تئیں حسن و جمال کا مجسمہ بننے کے بعد بھی معاشی بدحالی سے
مجبور ہوکر مصروف چوراہوں اور شاہراہوں پر بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔
|