اندھے کی ریوڑیاں اور قومی ایوارڈ

صدارتی تمغہ حسن کارکردگی اور سول ایوارڈز و اعزازات کا تصوّر ہی بڑا خوش کن ہوتا ہے لیکن مختلف تنظیموں کے ایوارڈ و اعزازات بھی اپنے اندر خاصی کشش رکھتے ہیں اور انہیں بانٹنے والے بینا ہوتے ہوئے بھی نابینا پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

’’اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو‘‘ بڑا قدیم محاورہ ہے۔ ریوڑیاں ہمیں بھی بے انتہا پسند ہیں اور بچپن میں ’’دعوت ریوڑی‘‘ اڑانے کے لئے اپنے اردگرد کسی اندھے کو تلاش کرتے تھے تاکہ اس سے ’’اپنا پن‘‘ جتاکر دوچار ریوڑیاں ہم بھی لے لیں۔ کبھی کبھی ہم خود بھی ریوڑیاں خریدکر ان کی کُڑکُڑاہٹ سے لطف اندوز ہوتے تھے لیکن 1999ء میں’’ مبینہ ‘‘ طیارہ ہائی جیکنگ کو جواز بنا کر اقتدار کی ہائی جیکنگ اور 2008ء میں جمہوری انتقام کے نام پر موجودہ حکومت قائم ہونے یعنی فوجی آمریت کے جمہوری رنگ کی مطلق العنانیت میں تبدیل ہونے کے بعد مہنگائی میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ کُرکُری ریوڑی کا مزا بھی کِرکِرا ہوگیا ہے۔

آج بصارت سے محروم اندھوں کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اِس دور میں صاحب بصیرت نابیناؤں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ وہ گلی کوچوں کی بجائے مسند اقتدار پر بھی بیٹھے نظرآتے ہیں۔ ان کے ریوڑیاں بانٹنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے لیکن ان کی ریوڑیاں انسانوں کے اس ’’ریوڑ‘‘کو بانٹی جاتی ہیں جن کا شمار مقتدر طبقے میں ہوتا ہے اور جو بعض معاملات میں ان کے ساٰجھے دار یعنی ان کے ’’اپنے‘‘ ہوتے ہیں، ہاں شَکر اور تِلوں کی ریوڑیوں کی جگہ چمکدار دھات کے بنے ہوئے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی، قومی سول ایوارڈ،کمال فن و توصیفی ایوارڈ، تمغے ، ستارے، اعزازات، انعامات، میڈلز اور ٹرافیوں نے لے لی ہے جبکہ جدید انداز کی ریوڑیوں کو بانٹنے والے وہ نابینا ہیں جو بینا تو ہوتے ہیں لیکن ان کی آنکھوں پر سیاسی، مالی اور ذاتی مفادات کی دہری اور تہری پٹیاں بندھی ہوتی ہیں جنہیںصرف وہ ’’اپنے‘‘ نظر آتے ہیں جن سے انہیں سیاسی وفاداریاں درکار ہوتی ہیں یا ان سے مالی و ذاتی اغراض وابستہ ہوتی ہیں جبکہ انہیں اپنے مصنوعی نابینا پن کی وجہ سے باصلاحیت اور حقدار شخصیات نظر نہیں آتیں۔

صدارتی تمغہ حسن کارکردگی اور سول ایوارڈز و اعزازات کا تصوّر ہی بڑا خوش کن ہوتا ہے لیکن مختلف تنظیموں کے ایوارڈ و اعزازات بھی اپنے اندر خاصی کشش رکھتے ہیں اور انہیں بانٹنے والے بینا ہوتے ہوئے بھی نابینا پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ادبی، ثقافتی اور صحافتی تنظیموں کے علاوہ برادری کی تنظیموں نے بھی تقسیم ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔کسی دور میں نگار ایوارڈکا بڑا شہرہ تھا اور یہ واحد ایوارڈ تھا جو ہمارے خیال میں اندھے کی ریوڑی کی طرح نہیں بانٹا جاتا تھا بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر فلمی شخصیات کی اس ایوارڈ کے لیے نامزدگی ہوتی تھی۔ شہرکی ایک ثقافتی تنظیم نے بھی تقسیم ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا تھا اور اندھے کے ریوڑیاں بانٹنے کی ابتدا وہیں سے ہوئی یعنی ایوارڈوں کی نامزدگیاں تجارتی بنیادوں پر ہونے لگیں۔ مذکورہ تنظیم کے ایوارڈکے لئے ان کاروباری شخصیات کو نامزدکیاجاتا تھا جو اس کے مجلّے کیلئے 5سے 10ہزار روپے کے اشتہارات دے دیتیں۔کیونکہ اس پروگرام کو پرنٹ میڈیا پرخاصی کوریج ملتی تھی اس لیے زیادہ سے زیادہ صاحب ثروت افراد فن و ثقافت کے ایوارڈ یافتگان کی صف میں شامل ہونے کے متمنّی ہوتے تھے۔

مذکورہ تنظیم کے تقسیم ایوارڈ کا سلسلہ توکئی سال پہلے ختم ہوچکا ہے لیکن اس کی روایات کومختلف ادبی، ثقافتی و برادری کی تنظیموں نے برقرار رکھا ہوا ہے اور ہر سال ان تنظیموں کے عہدیداران اپنے بینک بیلنس میں اضافے کے لئے توصیفی و ستائشی ایوارڈ بانٹتے ہیں لیکن یہ ایوارڈ بھی نہ تو فن و ثقافت سے وابستہ شخصیات کو دئیے جاتے ہیں اور نہ برادری کے لوگوںکو حقدارگرداناجاتا ہے بلکہ نقد رقوم لے کر مالدار افراد کی مذکورہ ایوارڈ کے ساتھ تصویرکشی کرکے ایوارڈِ ثقافت کو مالی کثافت سے آلودہ کردیا جاتا ہے۔ مذکورہ تنظیموں کی روایت نبھانے میں صحافتی تنظیمیں بھی پیچھے نہیں ہیں۔ صحافتی میدان میں نمایاں کارکردگی کی پذیرائی کے لئے ایک پُروقار ایوارڈکا انعقاد ہر سال ملکی سطح پرکیا جاتا ہے۔ اس کے منصفین کی کمیٹی میں ملک کے ناموردانشور و ادبی شخصیات شامل ہوتی ہیں لیکن اس کی نامزدگیوں میں بھی اثر و رسوخ آڑے آجاتا ہے اور باصلاحیت اور حقدار امیدوار اس کے حصول سے بھی محروم کردئیے جاتے ہیں۔ ادب کی پذیرائی کے لئے سرکاری و نیم سرکاری تنظیموں کی جانب سے ادبی شخصیات اور اچھی تخلیقات کو ایوارڈ اور اس کے ساتھ کیش ایوارڈ دئیے جاتے ہیں لیکن یہ ایوارڈ بھی اثر و رسوخ اور اقرباء پروری کی نذرہوجاتے ہیں۔

بچوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے بڑوں کی ہر اچھی بُری بات جلد اپنالیتے ہیں لیکن ہمارے صدر محترم جو بچپن کی حدود و قیود کو پچپن سال پیچھے چھوڑ آئے ہیں، اچھی باتوں کی نسبت بُری باتوںکو اپنانے میں دیر نہیںکرتے۔ ویسے تو انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کی بے شمارمنفی باتوں کو اپنے اقتدار کا حصہ بنایا ہوا ہے لیکن 2011ء کے قومی سول ایوارڈ کی نامزدگیوں میں انہوں نے مذکورہ ادبی، ثقافتی، صحافتی اور برادری کی تنظیموں کی تقلید میں اپنے پیشروکو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔ سابق صدر نے تو امریکہ سے وفاداری یا قرابت داری نبھانے کے لئے اپنی صوابدید پر امریکی سفیرکو پاکستان کا قومی ایوارڈ مرحمت فرمایا تھا لیکن حال ہی میں 64ویں یوم آزادی پر قومی ایوارڈ کی زیادہ تر نامزدگیاں صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کی ایماء پر کی گئیں اور سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ایوارڈ و اعزازات کی تقسیم نے انہیں قومی کی بجائے پی پی ایوارڈ بنادیا ہے۔

یوم آزادی کے موقع پر اعلان کردہ صدارتی ریوڑیاں جن185 ملکی و غیرملکی شخصیات کو یوم پاکستان کے موقع پر دی جائیں گی وہ تو خود اتنے ذی حیثیت ہیں کہ ریوڑیوں کے پورے کنٹینر خریدکر بانٹ سکتے ہیں۔ ان کی طاقت و اختیارات کا یہ عالم ہے کہ وہ یہ تمام ایوارڈ بزورقوت چھین کر ملک کے ہر شہری کو ایوارڈ یافتگان کی فہرست میں لا سکتے ہیں لیکن اگر وہ ایسا کریں گے تو 10فیصد اشرافیہ کی حق تلفی ہوگی جو ان کی سیاسی زندگی کیلئے نقصان کا سبب بنے گی۔ صدرآصف علی زرداری اور ان کی ٹیم نے جس عرق ریزی سے ایوارڈ یافتگان کا چناؤکیا ہے اس کے صلے میں وہ خود بھی قومی ایوارڈ کے حقدار ہوگئے ہیں اور ہمارے خیال میں انہیں ’’تمغہ بصارت‘‘ ملنا چاہئے کیونکہ جب کراچی میں جشن آزادی ’’ہولی‘‘ کی طرح منایا جارہا تھا، درجنوں افرادکو ذبح اور ان کے ٹکڑے کرکے ان کا خون ’’مجوزہ‘‘ نئے پاکستان کی بنیادوں میں ڈالاجارہا تھا، ہمارے صدر کی نگاہوں سے یہ سب پوشیدہ تھا اور ان کی توثیق کے لیے ایوارڈیافتگان کے ناموں کی فہرست زیر مطالعہ تھی۔

پڑوسی ملک بھارت میں 26جنوری 1954ء سے جاری ہونے والا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’’بھارت رتن‘‘ اب تک 42 ملکی و غیرملکی شخصیات کو دیا جا چکا ہے جن میں خان عبدالغفار خان اور نیلسن منڈیلا ہی غیر ملکی ہیں باقی تمام ایوارڈ بھارتی شہریوں جن میں 6سربراہان مملکت، 6وزرائے اعظم، چار وزراء،6 سماجی و تحریک آزادی کے کارکن، 5موسیقار، ادیب، سول انجینئر شامل ہیں جبکہ پاکستان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ نشان پاکستان جس کا اجراء 19مارچ1957ء کو پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا نے کیا تھا، اب تک 82شخصیات کو دیاجاچکا ہے جن میں صرف 3پاکستانی شخصیات بشمول اسکندر مرزا ، انہیں تمغہ معزولی پہنانے والے جنرل ایوب خان اورگورنرجنرل و وزیراعظم خواجہ ناظم الدین شامل ہیں جبکہ باقی تمام اعزازات روایتی احساس کمتری کی بناء پر غیر ملکی حکمرانوں یا شخصیات کو دئیے گئے۔ بی بی سی لندن کے ایک تجزئیے کے مطابق ’’کسی ملک کے حکمران طبقے کی سوچ پرکھنے کی ایک کسوٹی ایوارڈ و تمغوں کی تقسیم بھی ہے‘‘۔

ملک کی امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر کسی اجنبی کو قومی ایوارڈ کی ریوڑیاں بانٹ کر صدر مملکت اور مقتدرہ شخصیات کی زندگیوں کے لیے سکیورٹی رسک نہیں لیاجاسکتا تھاکیونکہ مذکورہ تقسیم ایوارڈ کی تقریب کا انعقاد 23مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر ایوانِ صدر میں ہونا ہے اور صدرمملکت بذات خود، آرمی چیف، وزیراعظم اور سیاسی شخصیات کے جھرمٹ میں یہ ایوارڈ تقسیم کریں گے اس لیے ہم تو مذکورہ فہرست سے متفق ہیں۔ پیپلز پارٹی کے اراکین اور ان کے قابل اعتبار رفقاء اور ’’مرحومین‘‘ سے زیادہ کون اس تقریب کے لیے بے ضرر ثابت ہوسکتا ہے۔ نشان امتیازجن پانچ شخصیات کو مرحمت کیا گیا ہے ان میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو شاید ان کے شوہر کی جگہ اس ایوارڈ کا حقدار قراردیا گیا ہے۔ رحمن ملک صدر آصف علی زرداری کے دست راست، دکھ سکھ کے ساتھی، ان کی اہلیہ بے نظیر بھٹو شہیدکے چیف سکیورٹی آفیسر جنہوں نے ان کی حفاظت کے لیے صدر آصف زرداری کی طرف سے دی گئی ’’تمام ذمہ داریاں‘‘ بخوبی نبھائیں۔ صدر زرداری کی طرف سے انہیں تفویض کیے گئے قوت و اختیارات کا یہ عالم ہے کہ ان پر ملک کے نائب صدر ہونے کا گمان ہوتا ہے۔کراچی کے حالات پران کا دلیرانہ تبصرہ کہ ’’ اس شہرکی آبادی دوکروڑ ہے اور اتنی بڑی آبادی کے شہر میں اس قسم کے واقعات ہونا بڑی بات نہیں‘‘، یا ’’کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی 70 فیصد وارداتوں کے پیچھے مقتولین کی بیوائوں یا گرل فرینڈز کا ہاتھ ہوتا ہے‘‘۔ یہ تبصرے خود صدر مملکت کے دل کی آواز ہیں۔ رحمن ملک نشان امتیازکی نامزدگی سے قبل ’’بوسہ صدارت‘‘ کے اعزازکے بھی حقدارہوگئے ہیں ۔ فاروق نائیک سے بھی مستقبل میں خاصی سیاسی توقعات وابستہ ہیں اسی لئے انہیں بھی امتیازی نشان سے محروم نہیں رکھا گیا۔ سلمان تاثیر نے جس بہادری سے ملک میں عالمی مذاہب کی حمایت میںجہادکیا اور اسلامی قوتوں کا تن تنہا مقابلہ کیا اس کے صلے میں انہیں بعد از مرگ نشان حیدر ملنا چاہئے تھا جبکہ نشان امتیازکا حقدار پولیس اہلکار ممتاز قادری تھا۔ ہلال پاکستان سعودی عرب کے ڈاکٹر فود عبدالسلام محمدالفارسی کودیاگیا۔

ہلال امتیاز پانے والوں میں جن ملکی و غیر ملکی شخصیات کا نام رکھا گیا ہے ان میں فرزانہ راجہ اہم قومی خدمات انجام دے رہی ہیں، سابق ایم این اے چوہدری زمرد جو بیت المال کے حاضر چیئرمین ہیں، پارٹی کے لیے ان کی ’’مالی خدمات‘‘ پرانہیں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ تقسیم ہندکے بعد سے ہی اصفہانی خاندان نے چائے کی صنعت میں بڑا نام کمایا۔ صدر مملکت کو اپنی پرنسپل سکریٹری فرح ناز اصفہانی کے ہاتھ کی چائے اتنی پسند آتی ہے کہ انہوں نے ان کے شوہر اور امریکا میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو ہلال امتیازکا حقدار قرار دیا۔ فرحت اللہ بابر صدرکے خلاف میڈیا وارکے سامنے دفاعی حصار بنا کرکھڑے ہوجاتے ہیں اس لیے ہلال امتیاز کے حقدار وہ بھی ٹھہرے۔ پروفیسر وارث میر کو بعد از مرگ اس اعزاز سے نوازا گیا شاید ان کے صحافی صاحبزادے کی صحافتی تعاون کے حصول کے لیے ۔ ایک نجی میڈیا گروپ کے مالک کو بھی یہ تمغہ دیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ کی سابق مشیر شرمیلا فاروقی جن کا ستارہ بام عروج پر پہنچ کر اچانک رو بہ زوال ہوگیا تھا، ستارہ امتیاز کے لیے نامزد کی گئیں حالانکہ وہ اپنی سابقہ اداکارانہ صلاحیتوںکی وجہ سے پرائیڈ آف پرفارمنس کی مستحق تھیں۔ شخصی وفاداری کے کسی کھاتے میں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل غلام مرتضے سولنگی بھی ستارہ امتیاز کے لیے نامزد کیے گئے جبکہ پاکستان ٹیلیویژن کے بھولے بچھڑے سابق جنرل منیجر اسلم اظہر، موسیقار سہیل رعنا مرحوم، اداکارہ ساحرہ کاظمی، سکینہ سموں، جاوید شیخ کو بھی اس اعزاز سے نوازا گیا۔ مرحوم ادیب مشکور حسین یادکو اس ایوارڈ کی نامزدگی کے لیے یاد رکھا گیا جبکہ ایک ٹی وی چینل کے اینکر پرسن اور زاہد ملک کا نام بھی ایوارڈ یافتگان کی فہرست میں درج کیا گیا۔ پرائیڈ آف پرفارمنس کا صدارتی ایوارڈ جن شخصیات کو دیا گیا ان میں صرف قاسم ضیاء، کرکٹر محمد یوسف اور زاہدہ حنا ہی اس ایوارڈ کے مطلوبہ معیار پر پورا اترتے ہیں جبکہ اداکارہ میرا کی تو پاکستانی شہریت ہی مشکوک و ڈانوا ڈول رہی ہے اور کچھ سال قبل وہ بھارت کی شہریت اور شہری حقوق حاصل کرنے کے لئے سر توڑ کوشش کر تی رہی ہیں۔ایک اورشخصیت کو اس کی نامعلوم قومی خدمات کو جواز بنا کر اس اہم ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ستارہ قائد اعظم دو چینی شخصیات کو دیا گیا جبکہ تمغہ پاکستان برادر ریمنڈ کو دیا گیا، شاید ریمنڈ ڈیوس کی یاد دل سے محو نہیں ہوسکی۔ تمغہ شجاعت جیسا بہادری کا تمغہ جن حیات و بعد از مرگ پولیس افسران کو اور ان کے پسماندگان کو پہنایا جائے گا ان کی شجاعت کا کوئی کارنامہ ہماری نظروں سے نہیں گزرا جبکہ ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس چوہدری اسلم تمغہ امتیاز کے حقدار قرار پائے۔

تمغہ امتیازکے لیے نامزد تو ڈاکٹر اشتیاق بیگ بھی کئے گئے۔ جن سماجی خدمات پر انہیں اس ایوارڈ سے نوازا گیا ہے، ان سے کہیں زیادہ خدمات تو عبدالستار ایدھی، انصار برنی اور دوسری گمنام شخصیات انجام دے رہی ہیں۔ ہاں ان کا اور صدر زرداری کا دکھ سانجھا ہے اگر صدر محترم بے نظیر بھٹو کی شہادت کا دکھ چھپائے پھرتے ہیں تو مرزا اشتیاق بیگ بھی جواں مرگ گلوکارہ نازیہ حسن کی جدائی کا داغ لے کر زندہ ہیں۔ تمغہ امتیاز پانے والوں میں دیگر 64شخصیات میں فتح محمد ملک (ادب) فاطمہ حسن (ادب) شاکر حسین شاکر (ادب) نیاز ہمایونی (ادب) شامل ہیں۔ ان میں سے اول اور دوم الذکر کی ادبی نگارشات تو نظروں سےکبھی کبھارگزرتی ہیں لیکن دیگر دوشخصیات کا تو دنیائے ادب میں ذکر تک نہیں سنا۔ ذکی تاجی (قوال) اورامیر امام مرحوم کا نام ریڈیو ٹی وی کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ کرن خان کو پیراکی پر یہ ایوارڈ دےکر دینی قوتوں کی ’’حوصلہ شکنی‘‘ کی گئی ہے۔ ایوارڈکمیٹی نے تاجر ریحان مرچنٹ اور ٹریولنگ ایجنٹ محمد یحیی پولانی کو بھی تمغہ امتیاز کے لیے نامزدکیا ہے۔ ان سول اعزازات و ایوارڈز میں ایک نئے اعزاز، تمغہ خدمت کا اضافہ کرکے غیر معروف شخصیت خالد عثمان کو پاکستان کیلئے نامعلوم خدمات کے عوض اس اعزاز سے سرفراز کیا جائے گا۔

قومی ایوارڈ کی نامزدگیوں میں پاکستانی کنڈولیزا رائس شیری رحمن کو نظر اندازکیا گیا ہے جبکہ صدر مملکت کے لیے ان کی خدمات ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ نظرانداز تو فوزیہ وہاب بھی کی گئیں جو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہر چبھتے ہوئے سوال کاجواب بے باکانہ انداز میں دیتی رہی ہیں۔ صدر مملکت آصف زرداری نجانے کن مصلحتوں کی بناء پر عقیل کریم ڈھیڈی کا احسان بھی نہیں اتارسکے جنہوں نے ان کے صدارتی چناؤ کی انتخابی مہم کے لیے ایک خطیر رقم ’’زرداری فنڈ‘‘ میں جمع کرائی تھی جس کے بعد وہ طویل عرصے تک خودساختہ جلاوطن رہے تھے۔ قومی ایوارڈ کے حقدار تو میاں نواز شریف بھی ہیں جنہوں نے فرینڈلی اپوزیشن کا نعرہ لگا کر موجودہ حکومت کے اقتدارکو دوام بخشا۔ سول ایوارڈز کی نامزدگیاں تو ہوچکی ہیں اور 23مارچ 2012ء کو نامزد شخصیات کو ایوان صدر میں ایوارڈ و اعزازات سے نوازا کیا جائے گا لیکن ملک کی مجموعی اورکراچی کی خون رنگ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم متفکر ہیں کہ کیا صدر مملکت یہ ایوارڈ و اعزازات متحدہ پاکستان میں ہی بانٹ سکیں گے؟


 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.