حامد حالات اور غم محبت سے جب ٹوٹنے لگا تو اس کا دل نرم
پڑنے لگا ۔ وہ اپنی گزشتہ غلطیوں پر نادم سا ہونے لگا اور انسانوں اور
قریبی رشتوں کی خدمت کے جذبہ سے خادم سا ہونے لگا۔
یہ سب کیا ہونے لگا کہ سب کچھ پا کر سب کچھ کھونے لگا ۔ ندامت کے آنسوؤں سے
رونے لگا اور بے حسی کی پرانی گرد آنکھوں کے سچے پانی سے دھونے لگا اور پھر
آہستہ آہستہ سکون کی نیند سونے لگا۔
وہ سانولی سے اب بھی شدید محبت کرتا ہے جب کہ وہ پرائ ہو کر جدا ہو چکی ہے
۔ یہ اس کے دل کی تڑپ تھی یا کوئ اور بھید تھا کہ حالات بار بار سانولی کو
اس کے سامنے لا کھڑا کرتے اور اس کا دل خوش ہو جاتا اور دونوں ایک دوسرے کو
دیکھ کر کھل اٹھتے ۔ اب اسے یقین ہوتا جا رہا تھا کہ محبت دو طرفہ ہے اور
شائد محبت یکطرفہ ہو بھی نہیں سکتی ۔
یہ دنیا عالم اسباب ہے ۔ ضرورتیں ، مجبوریاں ، حالات ضرور ایک دوسرے سے
قریب کرتے ہونگے لیکن محبت کا چہرہ چھپانے نہیں چھپتا اور جھکاے نہیں
جھکتا۔ ملنے کی تڑپ سے ملنے کا سلسلہ رکواے نہیں رکتا۔
محبت میں وصال اور جدائ دونوں بہت اہم ہوتے ہیں ۔ پسند کا چہرہ دیکھنے سے
انسان پر بہت مثبت اثرات ہوتے ہیں ۔ دل قرار پاتا ہے ، وسوسہ فرار پاتا ہے
۔ زہن یکسوئ پا کر درست کام کرنے لگتا ہے اور کام بنے لگتے ہیں ۔
ناپسندیدہ وجود زہن میں انتشار پیدا کرتا ہے ، طبیعت میں بلند فشار پیدا
کرتا ، اور بسا اوقات معدہ سے اٹھتی ڈکار پیدا کرتا ہے ۔ تربیت یافتہ کے
اندر صبر کی پکار اور کردار پیدا کرتا ہے۔ صبر کے صلہ میں زندگی میں نئ
بہار پیدا کرتا ہے ۔
شہر میں ایک آفت کی وجہ سے لوگ گھروں میں محصور تھے ۔ زندگی کا پہیہ رک سا
گیا تھا ۔ خوشی غمی کی تقریبات ، کاروبار ، تفریح معطل ، مؤخر یا محدود ہو
چکے تھے ۔
حامد بھی سوچ رہا تھا کہ اس مصیبت میں سے رحمت کا پہلو تلاش کیا جا سکتا ہے
، سوچ کو بدلا جا سکتا ہے ۔ ماحول کو بدلا جا سکتا ہے ۔ گدلے پانی میں کنول
کا اک پھول کھل سکتا ہے ، کوئ نیا راستہ مل سکتا ہے۔
|