تحریر: مہوش کرن،اسلام آباد
دل اجنبی، ملے ابھی۔۔ او یارا، چھو لے ابھی
ہر بار جب اشتہار آنے پر یہ آواز کانوں میں پڑتی ہے اور اگر میں قریب ہوتی
ہوں تو ریموٹ اٹھا کر میوٹ کر دیتی ہوں اور اگر دور ہوتی ہوں تو میوٹ کرنے
(کروانے) کے لیے میری آواز ہی کافی ہوتی ہے، بس چلے تو بند ہی کر دوں۔
اب کوئی بتائے کہ خشکی یا سردی کے موسم میں کریم یا لوشن لگانے کا کیا مقصد
ہے؟ سوائے اس کے کہ جلد نرم و ملائم رہے، کوئی کھچاؤ نہ ہو، خارش یا کْھجلی
نہ رہے اور انسان سکون سے اپنے کام کرتا پھرے لیکن نہیں صاحب، میڈیا تو یہ
ثابت کرنے پر بضد ہے کہ لڑکیوں کے لیے کریم اور لوشن لگانے کا اصل مقصد آس
پاس موجود کسی لڑکے سے چھو جانے کے لیے خود کو ہمہ وقت تیار رکھنا ہے۔ اب
بعض لوگ دلائل لے کر آ جائیں گے کہ اشتہار میں موجود دونوں لوگ شوہر اور
بیوی ہیں۔ تو جناب ذرا اتنا تو بتائیے کہ حقیقت میں وہ یہی سہی لیکن کیا
اشتہار میں ایسا کچھ دکھایا گیا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ وہاں تو دونوں کو کسی
آرٹ انسٹیٹیوٹ میں مٹی کے برتن بناتے دکھایا گیا ہے۔ جس میں بے چاری لڑکی
کو کچھ کرنا ہی نہیں آ رہا اور خوبرو نوجوان فوراً ان کی مدد کو لپکتا ہے۔
جیسے ہی محترمہ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ تو ہاتھوں کا کام ہے، ہاتھ سے
ہاتھ ٹکرا بھی سکتے ہیں اور کچھ نہیں تو قریب سے ہاتھ نظر تو آنے ہی ہیں،
جنہیں زوم کر کے پھٹے اور دراڑ زدہ دکھایا گیا، تو وہ بوکھلا کر جلدی سے
ساری گیلی مٹی اپنے ہاتھوں پر کہنیوں تک رگڑ لیتی ہیں اور جھینپ جاتی ہیں۔
پھر ایک آواز انہیں بتاتی ہے کہ چھپانے کی بجائے یہ لوشن لگاؤ تو کام آسان۔
لیجیے جناب! اگلے ہی سین میں دونوں ایک ساتھ بیٹھے ہنس رہے ہیں اور ہاتھ
بغیر مٹی کے لشکارے مار رہے ہیں۔ تو بتائیے کہ کون سے آرٹ انسٹیٹیوٹ میں
میاں بیوی اکٹھے پڑھنے جاتے ہیں جو یہ سب تماشا لگا سکیں۔ بے چارے مشرقی
شوہر بیوی تو گھر میں بھی رومانس کو ترستے ہیں۔
ایک موبائل سم پیکیج کے اشتہار میں کوئی آنٹی اپنی بھانجی یا بھتیجی کو
لڑکے شکار کرنا سکھاتی دکھائی دیتی ہیں کہ کیسے میسجز کر کے اور پٹاخہ ڈی
پی لگا کر لڑکوں کو پٹایا جا سکتا ہے۔ ہر وقت پٹاتے رہنے کے گر آزما کر ہی
تو آج سب کے گھر برباد ہورہے ہیں۔ خاندان کی بڑی بزرگ عورتیں تو بچیوں کو
گھر بنانے، بچانے اور سنبھالنے کے گر سکھایا کرتی تھیں لیکن بھئی کیا کہیں
وقت بدل گیا، لوگ بدل گئے، ضرورتیں اور ذمہ داریاں بھی بدل گئیں اور یقین
کریں اس اشتہار میں وہی محترمہ کسی اور لڑکے کو پٹاتی نظر آتی ہیں جو اوپر
تذکرہ کیے ہوئے اشتہار میں شوہر کے لیے لوشن کی جگہ مٹی لگا لیتی ہیں۔ اب
کہاں ہیں وہ لوگ جو تھوڑی دیر پہلے کچھ کہہ رہے تھے ؟
جناب میڈیا میں شوہر بیوی ہونے اور ایک ساتھ کام کرنے کا یہ ٹرینڈ ہی اسی
لیے چلایا گیا ہے تاکہ بے ہودگی کو بے اثر (neutralize) کیا جا سکے اور
دیکھیں ہو رہی ہے نا۔
یا پھر وہ بیوقوف لڑکا جو شاید کسی مہندی وغیرہ کے فنکشن میں ناچتے ناچتے
اک دم کسی نک چڑھی سی حسینہ کو دیکھتا ہے اور ان پر لٹو ہو کر خود بھی لٹو
کی طرح چکرانے لگتا ہے۔ آس پاس ناچتے لوگوں سے گالیاں کھاتا بڑی مشکل سے
قریب کے اسٹال سے دو کون آئسکریم لے کر اس حسینہ کے حضور پیش کرتا ہے۔ وہ
اٹھلا کر لیتی ہیں اور جلدی سے ان کی ف ب ریکوسٹ کو ایکسپٹ کر لیتی ہیں۔ یہ
سب دیکھ کر نئی نسل یہی سب سیکھ رہی ہے اور پرانی نسل کے اندر بے حیائی کے
لیے برداشت پیدا ہو رہی ہے۔ بچے اگر ساتھ پڑھتے، گھومتے، بیٹھتے ہیں تو اس
میں کیا برائی ہوگئی۔ لوگ ترقی کے نام پر بدل رہے ہیں۔
پھر اک دم کوئی خاتون آ جاتی ہیں جو نہانے کی اتنی جلدی میں ہوتی ہیں کہ
بیچ چوراہے پر ہی آ کر صابن لگانے، شیمپو کرنے یا نہانے لگتی ہیں۔ ارے توبہ
ہے، لگتا ہے انہیں بچپن سے کسی نے یہ بتایا نہیں کہ نہانے کی جگہ باتھ روم
ہے۔ البتہ چوراہوں پر تو عزتیں اترنے کا رواج ہے۔ شاید وہ بھی یہی دعوت
دیتی ہیں تب ہی ان کے ہاتھوں اور آنکھوں کے اشارے عجیب ہوتے ہیں اور اداؤں
کا ذکر تو الفاظ میں کیا ہی نہیں جا سکتا۔
کچھ اشتہار اردو میں بنا کر، شلوار قمیض پہنا کر اور خاندان وغیرہ دکھا کر
درمیانی اور نچلی کلاس کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ البتہ کچھ اشتہار الیٹ
(elite) کلاس کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔ اس میں لوگوں کی ڈریسنگ، چیزوں کا استعمال
اس طرح کیا جاتا ہے کہ غریب حسرت سے دیکھیں اور کچھ اشتہار بالکل عام
(casual) انداز میں بنائے جاتے ہیں لیکن ایک چیز ہر طرح کے اشتہاروں میں
بآسانی دیکھی جا سکتی ہے اور وہ ہے بے حیائی جس کے لیے بھرپور طور پر ہر
کلاس کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔
فی الحال ڈراموں پر تو میں نے حالِ دل کہا ہی نہیں کیونکہ بہت سے گھروں میں
ڈرامے نہیں دیکھے جاتے لیکن خبریں اور نیوز شوز ضرور دیکھے جاتے ہیں۔
خواتین نیوز اینکرز بن کر صبح و شام اپنی بولڈنس کے جلوے دکھاتی ہیں، رہی
سہی کسر ان پروگرامز کے درمیان آنے والے اشتہارات پوری کرتے رہتے ہیں۔
موبائل، بسکٹ، چپس، آئسکریم، صابن، شیمپو، پرفیوم، ٹائر، کولڈ ڈرنک، غرض ہر
ایک پروڈکٹ کے لیے لڑکا لڑکی/مرد عورت کو ساتھ دکھانا ایک لازمی جز ہے۔
ہلکا ہلکا دکھا کر لوگوں کے سروں پر بھاری بھاری دے مارا جائے تو انہیں فرق
نہیں پڑتا کیونکہ وہ عادی ہوچکے ہوتے ہیں۔ بظاہر نظر آتی یہ میٹھی ترقی اور
روشن خیالی کس طرح سلو پوائزنگ کا کام کرتی رہی یہ اب پتا چل رہا ہے۔
والدین کے ساتھ ٹی وی پر خاندانی اور شریفانہ ڈراموں اور اشتہاروں میں
دوپٹوں میں لپٹی عورتوں کو دیکھنے والی نسل آہستہ آہستہ اسکرین پر چلنے
والی کسی بھی چیز کی عادی ہوتی گئی۔ ایک کے بعد ایک کپڑا کم ہوتا گیا اور
ایک کے بعد ایک بے غیرتی میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہی نسل آج آرام سے اپنے بزرگ
والدین اور بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کچھ بھی دیکھ لیتی ہے۔ سچ میں بے حسی اس
سے بڑھ کر اور کیا ہوگی۔ لوگ جب ڈھیٹ بن جائیں تو اﷲ کی نصرت اور رحمت نہیں
اترتی۔
پھر یہ رونا سنائی دیتا ہے کہ بھلا ہم کیا کر سکتے ہیں۔۔۔ ظاہر ہے سڑک پر
جا کر میں اور آپ بل بورڈ تو اکھاڑنے سے رہے لیکن اپنے گھر میں ان چیزوں کو
چلنے سے روکنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ٹی وی کے نام پر خود سجائے ہوئے طاغوت
کی پرستش کرنا بند کر سکتے ہیں۔ مانا کہ جب نقار خانے میں طوطی بولتا ہے تو
کوئی نہیں سنتا لیکن کم از کم یہ عمل برائی کو برائی سمجھنے اور برائی کہنے
کے زمرے میں تو آ ہی جائے گا۔
میں جانتی ہوں میری تفریح میں کہی گئی ان باتوں کی سنگینی کا اندازہ آپ سب
کو ہے کیونکہ کہیں نہ کہیں سب ہی یہ سب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ صرف اس شعر کی
تشریح کر جائیں کہ اجنبی ہیں، ابھی ملے ہیں لیکن سب سے پہلے چھونا چاہتے
ہیں۔ کیا والدین اتنی فیسیں ان کاموں کے لیے دیتے ہیں۔ اب لوگ کہیں گے ارے
نہیں تم کیسی باتیں کرتی ہو۔ لیکن وہی لوگ بحیثیت والدین گھر میں بیٹھ کر
آرام سے ٹی وی پر یہ سب دیکھتے ہیں۔ پھر رونگٹے کیوں نہ کھڑے ہو جائیں؟ پھر
کانوں میں سورہ النساء کی آیت کیوں نہ گونجنے لگے اور زنا کے قریب بھی مت
جاؤ۔
|