‘ گینجی کی کہانی ‘ ----- دنیا کا قدیم ترین ناول

یہ ایک قسم کی تاریخی کتاب ہے - اس کتاب کے حواشی لکھنے میں سب سے زیادہ وقت لگا - اس کے 821 حواشی ہیں - - اس کتاب کے کئی زبانوں میں تراجم ہوئے -کسی بھی ترجمے میں اتنے زیادہ حواشی نہیں ہیں -انگریزی ترجمے میں دو سو ڈھائی سو کے قریب حواشی ہیں - مجھے اندازہ ہو تا ہے کہ مستقبل میں دیگر ممالک کے افراد جب اس کتاب کا اپنی زبان میں ترجمہ کریں گے تو اپنے تراجم کی وضاحت اور تشریح کے لئے خرم سہیل کی کتاب بطور "حوا لہ جاتی کتاب " کے استعمال کر یں گے -یہ خرم سہیل صاحب کے لئے ایک بڑا اعزاز ہو گا
جب مختلف کتابوں کا ذکر اپنے کالموں میں تواتر سے کر چکا تو ایک صدا دل سے آئی کہ تھوڑا سا ذکر اس ناول کا بھی ہو جائےجس پر ملک کی مختلف جامعات و اعلیٰ درجے کے تعلیمی اداروں میں مکالمات ہو رہے ہیں - -
یہ ہے ناول "گینجی کی کہانی "جو آج سے نو سو برس پہلے جاپان میں صفحہ قرطاس پر منتقل ہوا تھا اور حال ہی میں اس کا اردو ترجمہ جاپان کے تعاون سے اور جناب باقر نقوی و جناب خرم سہیل کی انتھک محنت کے سبب پاکستان میں ہوا ہے -
یہ کتاب اس سے پہلے 32 زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے- جاپان میں اس ناول کی بنیاد پر کئی فلمیں بن چکی ہیں - جاپان کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں اس کتاب کے ابواب شامل ہیں - کہنے کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھارت میں جناب سید احتشام حسین صاحب 1971 میں اس کا ترجمہ کر چکے ہیں لیکن وہ صرف تخلیص تھی اور وہ بھی چند ابواب کی جب کہ مکمل کتاب کا ترجمہ پہلی مرتبہ جناب باقر نقوی اور خرم سہیل نے ہی کیا ہے-

اس کتاب کا اردو ترجمہ کرنے کی کہانی یوں ہے کہ جناب خرم سہیل صاحب سال 2010 سے جاپانی ادب و ثقافت پر کام کر رہے تھے- اس سلسلے میں ان کا جاپان کی مختلف شخصیات سے رابطہ رہتا تھا - جب جناب سہیل خرم صاحب کو علم ہوا کہ کہ دنیا کا سب سے پہلا ناول جاپانی زبان میں محفوظ ہے تو انہوں نے جاپان کے اردو زبان کے محقق و مدرس جناب پروفیسر سویا مانے جو جاپانی تھے سے کہا کہ اردو زبان کو اس ناول سے محروم نہیں رہنا چاہئے اور اسے اردو کے قالب میں ڈھالنا چاہئے -

جب دل میں ٹھان لیا اور فیصلہ بھی ہو گیا کہ اس قدیم ناول کا اردو میں ترجمہ ضروری ہے تو پھر یہ کہا گیا کہ اتنا بڑا کام کون سر انجام دے گا - کس میں دم خم ہے کہ اس منصوبے کو پایہ تکمیل کو پہنچانے کے لئے بنیادیں کھودنے کا کام شروع کرے - --- کئی نام ذہن میں آئے - شاہد حمید - باقر نقوی - اور خود خرم سہیل - خرم سہیل نے تو کہا کہ اگر اس کام کو شروع کرنا ہو تو دیگر تمام کام تیاگ کے اسی کام کے پیچھے لگ جایا جائے اور ایک قسم کا سنیاس لے لیا جائے - جب کہ خرم سہیل پر پہلے ہی کئی ذمہ داریوں کا بوجھ تھا -

چنانچہ جناب شاہد حمید کا نام تجویز کیا گیا - جناب شاہد حمید کو کون نہیں جانتا - دنیا کی عظیم کتابوں کو وہ اردو کا جامہ پہنا چکے ہیں جن میں شہرہ آفاق ناول ' وار اینڈ پیس ' بھی شامل ہے - لیکن اب وہ عمر کے اس حصے میں داخل ہو چکے تھے جہاں صحت آڑے آتی تھی چنانچہ انہوں نے اس کے لئے معذرت کر لی - پھر آخر قرعہ فال جناب باقر نقوی کے نام پڑا -انہیں انگریزی اردو پر دسترس تھی -سب سے بڑھ کر وہ خود بھی بلند پایہ شاعر تھے اور شاعری کے رموز سے بخوبی آشنا تھے اور اس کتاب کے ترجمے کے بہت موزوں تھے کیونکہ نو سو برس پہلے جو کتب لکھی جاتی تھی ان میں منظوم کلمات اور نظمیں بھی ہوتی تھیں جن کا منظوم انداز میں ترجمہ کرناباقر نقوی کے لئے آساں تھا - اس سے پہلے وہ کئی کتب کا اردو میں ترجمہ کر چکے تھے جس میں میں فرانسیسی ناول نگار وکٹر ہیو گو کا ناول 'لیس مزریبل 'بھی شامل ہے جو اردو میں 'مضراب ' کے نام سے متعارف ہے -

با قر نقوی کا قیام ان دنوں انگلستان میں تھا - ان کے لئے انڈیا افس لائبریری لندن اس کام میں کافی معاون ثابت ہوا - آخر ان کی دو سال کی جد و جہد کے بعد اس کا پہلا مسودہ کافی حد تک مکمل ہو گیا - ابھی مزید کام باقی تھے کہ وہ سرطان کے عارضے میں مبتلا ہو گئے- انہوں نے خرم سہیل اور دیگر جاپانی نگرانوں کو یقین دلایا کہ جب تک ان کا بس چلے گا وہ اس کام میں لگے رہیں گے کیونکہ اس کام کے سبب ان کی توجہ مرض سے ہٹی رہتی ہے چنانچہ وہ اس پر ہسپتال کے بستر علالت پر بھی مصروف رہے اور پہلا مسودہ پایہ تکمیل کو پہنچا - اس اثنا میں جناب باقر نقوی صاحب کا انتقال ہو گیا -
یہ بات تمام لکھنے والے جانتے ہیں کہ پہلا ڈرافٹ یا مسودہ ایک قسم کا ڈھانچہ سا ہی ہوتا ہے اس کا مختلف پہلؤں سے جائزہ لیا جاتا ہے ، ترمیم و تغیر کے میدانوں سے گزارا جاتا ہے تب وہ اصل روپ میں سامنے آتا ہے -اجل نے باقر نقوی صاحب کو مہلت نہ دی اور یہ سارے کام توجہ کے طالب تھے - طباعت سے پہلے الفاظ و عبارت کی جانچ پڑتال (پروف ریڈنگ ) -تدوین کا عمل یعنی ایڈ یٹنگ -- کوائف دیکھنا وغیرہ وغیرہ - ناولوں کو ایک زبان سے دوسری زبان میں ڈھالنے والے اس امر سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ ترجمہ کرنے کا مقصد صرف متن کو ہی ڈھالنا نہیں ہوتا بلکہ یہ بات بھی ذہن میں ہوتی ہے کہ جس ملک کے بارے میں کتاب ترجمہ کی جارہی ہے وہاں کی ثقافت ، پس منظر ،ماحول کی عکاسی اس انداز میں ہو کہ قاری کے سامنے ایک تصویر سی گھوم جائے اور وہ محسوس کرے کہ وہ بھی وہاں موجود ہے - جناب خرم سہیل جاپان آتے جاتے رہتے تھے اور ان امور سے خوب آگہی رکھتے تھے چنانچہ انہوں نے پہلے ہی اس پہلو کو سنبھالنے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی -

جناب باقر نقوی کی رحلت کے سبب اب جناب خرم سہیل پر دوہری ذمہ داری آن پڑی تھی-

ایک محفل میں خرم سہیل صاحب سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی ذمہ داریاں کندھوں پر آگئیں تو آپ کو کیسے لگا ؟ آپ گھبراہٹ کا شکار تو نہیں ہوئے ؟ خرم سہیل نے کہا کہ ہو سکتا ہے ایسے ہو جاتا لیکن میں نے سوچا کہ یہ کتاب باقر نقوی مرحوم کی امانت ہے - اس امانت کو احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانا میرا نصب العین ہو نا چاہیئے - اس سوچ نے گھبراہٹ کے تمام دروازے بند کردئے -- وہ کہتے ہیں یہ بھی ذ ہن میں تھا کہ جب میں نے
جاپانیوں سے اس کتاب کو آخری منزل تک پہنچانے کا عہد کیا ہے اور انہوں نے میرے کہنے پر ہی اس میں ہاتھ ڈالا ہے تو میرا فرض اولین بنتا ہے کہ اسے ذمہ داری سمجھ کر نبھاؤں -ان سب عناصر نے مل کر مہمیز کا کام کیا اور میں کامیابی سے ہم کنار ہوا -

کام کی تفصیل بتاتے ہو ئے جناب خرم سہیل نے کہا کہ حواشی لکھنے پر سب سے زیادہ وقت لگا -وہ کہتے ہیں یہ ایک قسم کا تاریخی ناول ہے - کسی تاریخی حوالے کے بغیر قاری کو اسے پڑھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا اس لئے اس پر خصوصی توجہ دی اور 821 حواشی لکھے - اس کتاب کے کئی زبانوں میں تراجم ہوئے -کسی بھی ترجمے میں اتنے زیادہ حواشی نہیں ہیں -انگریزی ترجمے میں دو سو ڈھائی سو کے قریب حواشی ہیں - خرم سہیل کی یہ باتیں سن کر مجھے اندازہ ہو تا ہے کہ مستقبل میں دیگر ممالک کے افراد جب اس کتاب کا اپنی زبان میں ترجمہ کریں گے تو اپنے تراجم کی وضاحت اور تشریح کے لئے ان کی کتاب بطور "حوا لہ جاتی کتاب " کے استعمال کر یں گے -یہ خرم سہیل صاحب کے لئے ایک بڑا اعزاز ہو گا -
--------------------------------------------------------------

یہ ناول نو سو سال پہلے ایک خاتون شاعرہ اور ادیبہ' مورا ساکی شکیبو ' نے جاپان میں لکھا تھا - یہ ان کا قلمی نام ہے -ان کے اصل نام سے کوئی واقف نہیں - ان کا تعلق جاپان کی اشرافیہ سے تھا اور ان کے خاندان کے کئی افراد جاپان کے شاہی دربار سے وابستہ تھے -

یہ کتاب آج سے نو سو برس کے جاپان کے حالات پر روشنی ڈالتی ہے- یہ اس زمانے کی بات ہے جب لوگ برقی توانائی سے لاعلم تھے - گھروں میں لالٹین جلا کرتی تھی یا شمعیں روشن ہوا کرتی تھیں -مٹی کے دئے سے روشنی حآصل کی جاتی تھی اور انگاروں پر ہاتھ تاپے جاتے تھے - -یہ ایک شہزادے کی خیالی کہانی ہے جس کا نام 'گینجی ' ہے - گینجی کے معنی روشنی کے ہیں جسے عربی میں نور کہتے ہیں -

جاپان میں بدھ مت کی آمد سے قبل ' شنتو ' مذہب پھیلا ہوا تھا - بدھ کی تعلیمات یہاں چھٹی صدی عیسوی میں پھیلیں - یہ کتاب گیارہویں صدی میں چھپی تھی تو اس وقت یہاں بدھ مت خوب قدم جما چکا تھا - چنانچہ اس کتاب میں بدھ مت کے دیوتاؤں کا تذکرہ بھی ملتا ہے - صفحہ 697 پر بیان کیا گیا ہے "شہزادی نے مذہبی رسوم اور عقیدے کے مطابق چھ دنیاؤں میں‌سے ہر دنیا کے لئے مقدس تحریر سے بنے پلندوں کی نقلیں تحریر کرائی تھیں - دوسری جانب ہیرو گینجی نے ' امیتابھ ' کے سوترا کی نقل بنائی تھی -“ ایک اور جگہ لکھا ہے کہ لوگوں کا خیال تھا کہ امیتابھ کی جنت زیادہ دور نہیں ہوگی - اسی طرح کتاب میں کچھ ایسے رسوم کا تذکرہ یا شاعری بھی نظر آتی ہے جو گاؤ ماتا سے تعلق رکھتی ہے -

کاغذ سب سے پہلے چین میں ہی بنا تھا لیکن کیا اس زمانے میں کاغذ اتنی بڑی تعداد میں دستیاب ہو گیا تھا کہ یہ صخیم ناول اس پر لکھا جاسکتا -اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں جاپان میں بھی اچھی کتابوں کی خوشبو اس کی آمد سے قبل ہی پھیل جایا کرتی تھی اور مختف ذرائع ایسی کتابوں کی اشاعت کے لئے دل و جان حاضر ہو جاتے تھے -یہ بات بھی اپنی جگہ حیثیت رکھتی ہے کہ اس ناول کی تخلیق کارہ کا تعلق اشرافیہ سے تھا اسلئے کاغذ کے حصول میں کوئی دشواری زیادہ نہیں پیش آئی ہو گی -

کتاب 1128 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی طباعت میں نہایت نفاست سے کام لیا گیا ہے -یہ بڑے سائز میں ہے- اس کے تمام اخراجات جاپان نے اٹھائے -میرے خیال میں کافی عرصہ بعد ایسی کتاب میری نظر سے گذر رہی ہے جس میں پروف کی غلطیاں نہیں ہیں -
جاپان کے اس دیو ہیکل ناول کا کامیابی سے اردو میں ترجمہ کر نے پر میں جناب خرم سہیل کو مبارک باد دیتا ہوں اور جناب باقر نقوی مرحوم جنہون نے اس ترجمے کی بنیاد رکھی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دست بدعا ہوں کہ وہ ان کے لئے مغفرت کے دروازے کھول دے اور جنت میں اعلےٰ مقام دے - اتنی صخیم کتاب پر تبصرہ کرنا میرے لئے آسان نہیں تھا اس کے لئے جناب خرم سہیل کا شکر گزار ہوں کہ وہ مختلف میدان میرے علم میں‌ لاتے رہے جہاں سے مجھے مدد مل سکتی تھی -

قرۃالعین حیدر اپنی کتاب 'روشنی کی رفتار' میں لکھتی ہیں کہ لکھاریوں کی بین الاقوامی کانگریس کی ایک بیٹھک میں ایک امریکی منذوب نے کہا تھا کہ مترجموں یعنی کتابوں کا ترجمہ کرنے والوں کو ہمارے حلقے میں غیر اہم سمجھا جاتا ہے حالانکہ سوچیں کہ انہوں نے دنیا کی تہذیب پر کتنے احسانات کئے ہیں --- پرانی تہذیب کے زوال کے اسباب سے نئی تہذیب کو --- بقا قائم رکھنے کی روشنی ملی ہے - چنانچہ آج میں جب میں باقر نقوی اور خرم سہیل کی ترجمہ کردہ کتاب 'گینجی کی کہانی ' کا جائزہ لے رہا ہوں تو نہ صرف انہیں بلکہ جاپان کے سفیرجناب کونینوری متسودہ - جاپان کے قونصل جنرل جناب توشی کازوایسو مور, جاپان میں اردو کے استاد پروفیسر سویا مانے اور جناب امتیاز احمد صاحب سفیر پاکستان برائے جاپان کو دنیا پر احسان کرنے والے افراد کے طور تسلیم کر رہا ہوں جن کی ذاتی کوششوں کے سبب دنیا کے قدیم ترین ناول کا ترجمہ اردو زبان میں ہوا ایک بہت بڑا کام تکمیل کو پہنچا -
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 355136 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More