پاکستان کا آخری بڑا آدمی (نشان امتیاز)

جبار مرزا کی اس کتاب میں ایسے ایسے انکشافات ہیں کہ پڑھنے والے کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں
ہیرو سے زیرو بنانے والوں کا انجام کیا ہوگا ، یہ تو اﷲ ہی جانتا ہے
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
بیشک اﷲ ہی عزت اور ذلت دینے والا ہے

جبار مرزا کا شمار پاکستان کے سینئر ترین کالم نگاروں اور صحافیوں میں ہوتا ہے۔جبارمرزا اس وقت تک بائیس کتابیں لکھ چکے ہیں ،مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہرکتاب اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے پہلے سے زیادہ منفرد ، اعلی اور دلچسپ ہوتی ہے ،ان کتابوں میں، جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں ،پہل اس نے کی تھی ،کشمیر کو بچالو،ضیا دور فضل حق کی نظر میں ،کالموں کا ضخیم مجموعہ آن دی ریکارڈ،چھوٹے لوگ،پاکستان کی پہچان ،گفتگوئے دوستاں، قائد اعظم اورافواج پاکستان ،پاکستان کا سب سے آخری بڑا آدمی ( نشان امتیاز)،اس کے علاوہ چار شعری مجموعے بھی جبار مرزا کے قلم سے پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں ۔

جبار مرزا راولپنڈی کے مردم خیز شہرمیں پیدا ہوئے ،اسی شہر میں پلے بڑھے،کچے پکے راستوں پر چلتے ہوئے اس معراج کو پہنچے کہ جہاں دنیائے صحافت کا ہر چھوٹا بڑا شخص آپ اور آپ کے صحافت میں جرات مندانہ کردار سے آشنا ہے ۔قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ جبار مرزا جو کتاب لکھتے ہیں اس کے کئی ایڈیشن ہاتھو ں ہاتھ بک جاتے ہیں اور کتنے ہی پبلشر ان کی کتابوں کی اشاعت کے پہلے سے منتظر نظر آتے ہیں ۔
...................
اس وقت ہم جس کتاب کا حقیقی معنوں میں تجزیہ کرنے لگے ہیں اس کتاب کا نام "پاکستان کاآخری بڑا آدمی "ہے۔اس سے مراد محسن پاکستان اور عظیم ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں ۔مرزا صاحب کی نظر میں علامہ ڈاکٹر محمداقبال ؒ اور حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے بعد پاکستان میں اگر کوئی بڑا آدمی اپنے عظیم کارناموں کی بنا پر جانا پہنچانا جاتا ہے تو بلاشبہ اس کا نام ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہے ۔

جبار مرزا عرض مصنف میں لکھتے ہیں کہ جنرل پرویزمشرف جب 18اگست 2008ء کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قوم سے معافی مانگ رہے تھے تو 4فروری 2004ء کا وہ منظر میری آنکھوں میں گھوم گیا جب مشرف اور اس کے چیلے ، محسن پاکستان کو جبرا اعترافی بیان کے لیے ٹیلی ویژن پر لے آئے ۔ محسن پاکستان کی جانب سے معافی مانگنے پر پاکستانی قوم بہت عرصے تک رنجیدہ رہی ۔جبارمرزا لکھتے ہیں کہ مشرف دور میں بھی چمچہ گیروں کی کمی نہیں تھی۔ چودھری پرویز الہی نے بارہ سال تک وردی میں رہنے کی پیشکش کی اور ٹیکسلا سے ممبر قومی اسمبلی سرور خان نے ساری عمر وردی میں رہنے کی تاکید کی تھی ۔اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ چمچہ گیری کی انتہا ء تھی ۔یہی وجہ تھی کہ 9مارچ 2007ء کو جسٹس افتخار محمد چودھری کے استعفی دینے سے انکار کے بعد حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے مشرف نے ماورائے آئین 3نومبر 2007ء کو ایمرجنسی پلس نافذ کرکے 1973کا آئین معطل کردیا ۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کنڈالیزارائس نے کہا تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کا باقی وقت بھی غیر یقینی کردیا ہے ۔

ظفراﷲ جمالی کو 26جون 2004ء کو منتخب وزیراعظم کے عہدے سے اس لیے علیحدہ کردیا گیا کہ انہوں نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی Exit لیٹرپر دستخط نہیں کئے تھے ۔ حالانکہ ڈاکٹر خان کے پاکستان پر احسانوں کا اندازہ BOB WOOD WARD کی اس کتاب OBAMA'S WAR سے لگایاجاسکتاہے جس میں یہ لکھتا تھا کہ جب پاکستان کو سیدھی راہ پر لانے کے لیے امریکی صدر اوباما کو بریفنگ دی جارہی تھی کہ کیوں نہ پاکستان میں امریکی اور نیٹو افوا ج اتار دی جائیں ۔بریفنگ میں شامل ایک ممبر نے کہا کہ پاکستان ایک نیو کلیئر ریاست ہے افغانستان ، شام یا عراق نہیں ہے ۔پھر کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ہی وہ اجلاس ختم ہو گیا ۔اسی طرح کی ایک اور جھلک سی آئی اے ڈائری کے مصنف Robert I Grenierنے اپنی کتاب 88 Days to kandhar دکھائی دیتی ہے جس میں سی آئی اے براہ راست پاکستانی سائنسدانوں سے تفتیش کرتا رہا ہے ۔مسلسل ٹارچر سے ایک پاکستانی سائنسدان بے ہوش ہوگیا تھا، جسے ہسپتال پہنچایا گیا دو دن کے بعد جب اس کی طبیعت سنبھلی تو سی آئی اے نے پھر تفتیش کے لیے اسے طلب کرلیا ۔ پاکستان نے درخواست کی کہ بس کریں وہ نحیف ہوگیا اور کہا کہ Robert I Grenierآپ بھی تفتیش کرکے تھک چکے ہو۔ آرام کرو تو رابرٹ نے امریکہ سے سی آئی اے کا تازہ دم تفتیشی بیری میل مانس کو بلوا لیا ۔پاکستانی سائنس دانوں سے تفتیش کے لیے سچ جاننے والی مشین کو بھی منگوا یا گیا ۔سارے معاملے میں جارج ٹینٹ اور کولن پاول نے مسلسل جنرل پرویز مشرف کو دباؤ میں رکھا ہوا تھا ۔جبار مرزا کی اس کتاب میں اس قسم کے انکشافات اور واقعات جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔

بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جبار مرزا کا شمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے قابل اعتماد دوستوں میں ہوتا ہے،دفاع پاکستان کے حوالے سے ڈاکٹر خان نے ایٹمی شعبے میں کارہائے نمایا ں انجام دیئے ہیں ،جبار مرزا ان کارناموں کے دل و جان سے معترف ہیں ۔وہ ڈاکٹر خان کے لئے دنیا سے ٹکرا سکتے ہیں لیکن ان کے خلاف کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بن سکتے ۔ جبار مرزالکھتے ہیں کہ ایک صاحب میرے پاس آئے اور میرے کالموں کی تعریف کرتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ جس گھر میں رہتے ہیں کیا یہ آپ کا اپنا ہے؟ میں نے کہا نہیں ،کرائے پر رہتا ہوں ۔اگلے دن پھر وہ صاحب تشریف لے آئے اور فرمایا آپ کے پاس گاڑی ہے یا پیدل ہی سفر کرتے ہیں ؟میں نے جواب دیا میں گاڑی ایفورڈ نہیں کرسکتا ۔اس لیے جہاں جانا ہوتا ہے، پبلک ٹرانسپورٹ پر جاتا ہوں۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ صاحب بولے اگر آپ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ لگے رہیں گے تو آپ کا یہی حال رہے گا،آپ اپنی زندگی کو بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟میں حیران تھا کہ وہ میری غربت بھری زندگی کے بارے میں اتنا فکرمند کیوں ہے؟ ۔چند دنوں بعد وہ ایک بار پھر میرے گھر آیا اور کہنے لگابحریہ ٹاؤن میں ایک کنال کی ڈبل منزلہ کوٹھی آپ کے لیے موجود ہے۔میں نے کہا میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے اورمیری عمر کے لوگوں کو بنک والے قرض بھی نہیں دیتے ۔وہ بولے میں آپ سے پیسے نہیں مانگتا یہ کوٹھی آپ کو تحفے میں ملے گی ۔جب میں نے اسے غور سے دیکھا تو کہنے لگاکہیں آنے جانے کے لیے گاڑی بھی ملے گی اور ہاں دو تین سال کا پٹرول بھی مفت مل جائے گا۔میں نے کہا اتنی مہربانیوں کے بدلے مجھے کرنا کیا ہوگا؟وہ بولے ایک کتاب تیار ہے بس اس کتاب پر آپ کا نام لکھنا ہے اورپندرہ بیس ہزار چھاپ کے مفت بانٹ دینی ہے ۔میں نے پوچھا یہ کیا کام ہوا؟کتابیں لکھنا اور چھاپنا تو میراپسندیدہ مشغلہ ہے۔لیکن جو کتاب میں نے لکھی ہی نہیں، وہ میرے نام سے کیسے چھپ سکتی ہے۔پھر اتنی مہربانی اور مراعات کے ساتھ،آخر اس کتاب میں ہے کیا؟وہ صاحب بولے وہ کتاب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف لکھوائی گئی ہے ،ہمیں یہ ٹاسک ملا ہے کہ ڈاکٹر خان کو ہیرو سے زیرو بنانا ہے۔میں نے اس شخص سے پوچھا آپ کی نظر انتخاب مجھ پر ہی کیوں ٹھہری ؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ دو تین عشروں سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے رابطے میں ہیں۔آپ ان کے بھروسے کے آدمی ہیں۔ان کے کارناموں پر آپ کی چند کتابیں چھپ چکی ہیں ۔اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف لکھی جانے والی کتاب بھی آپ کے نام سے چھپے گی تو لوگ سو فیصد یقین کرلیں گے ۔آپ کے لیے سنہری موقع ہے چھوڑو ڈاکٹرخان کو ۔اپنی قسمت بدل لو ۔پیشکش قبول کرنے سے ہمارا کام تو ہوہی جائے گا لیکن آپ کی بے خانمی بھی ختم ہوجائے گی ۔ورنہ جبار مرزاکہاں تک حالات کا جبر سہتے رہوگے۔کافی دیر سوچنے کے بعد میں نے ان صاحب سے مخاطب ہوکر کہا جناب اگر روز محشر میرا ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے سامنا ہوگیا انہوں نے مجھ سے پوچھ لیا جس بنگلے اور گاڑی کے لیے تم نے دوستی کا سودا کیا تھا وہ دنیا میں ہی کیوں چھوڑ آئے،قبر میں لے آتے؟تو میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کیا جواب دونگا۔وہ صاحب کہنے لگے جس جہان میں زندہ ہو اس کی فکر کروجو ابھی آنا ہے اس کو چھوڑو۔میں نے کہا مجھے کرائے کے مکان میں ہی پڑا رہنے دو،ویگنوں ، تانگوں ،رکشوں پر دھکے کھانے دو ۔ مجھے یہ سودا منظور نہیں ہے۔
..........................
آپریشن ہیرو سے زیرو کے عنوان کے تحت جبار مرزا لکھتے ہیں کہ پرویز مشرف کے دور میں وفاقی وزرات اطلاعات و نشریات کے ہفتہ وار میڈیا چیفس کی میٹنگ کیبنٹ بلاک کے چوتھے فلور ہوا کرتی تھی ،اس میڈیا چیفس میں فوج کی نمائندگی بھی ہوتی ۔ایک دن تین جرنیل لش پش وردیاں پہنے اور ہلال امتیاز کے نشان لگائے ،سٹکس لہراتے اس میٹنگ میں موجو د تھے،منصب صدارت پر فائز شخص نے اجلاس کی کاروائی شروع کرتے ہوئے بتایا کہ آج ایک اور دھماکہ یعنی ایٹمی دھماکہ کرنے والوں کا دھماکہ ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس حوالے سے اجلاس کے تمام شرکا کو ایک اہم ٹاسک دیا جارہا ہے ،جس پر آج ہی سے بلکہ ابھی سے عمل شروع کرنا ہوگا ۔یہ ٹاسک ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہیرو سے زیرو بنانے کا۔ ڈاکٹر خان کے خلاف دامے درمے ، سخنے ہر طرح سے مہم چلانی ہے، اجلاس میں موجود ایک میڈیا چیف نے پوچھا اس کی وجہ کیا ہے ؟ جرنیلوں نے سوال پوچھنے والے میڈیا چیف کو غضب ناک نظروں سے دیکھا مگر خاموش رہے ۔ ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات کے عہدے پر فائز انور محمود نے کہا یہ میری ذاتی خواہش نہیں بلکہ اوپر سے حکم ہے۔ پھر انور محمود نے تمام میڈیا چیفس کو مخاطب کرکے کہا کہ آئے دن اغوا اور ڈکیتیوں کے بارے میں لوگ سنتے ہیں اور اخبارات میں پڑھتے بھی ہیں ۔مسنگ پرسن تو مسنگ پرسن ہی کہلائیں گے نا۔مجھے امید ہے ہمارے یہاں موجود ساتھیوں میں سے کوئی بھی مسنگ پرسن بننا پسند نہیں کرے گا۔ اس کے بعد اجلاس ختم ہوگیا ۔

چند دنوں بعد انور محمود نے وزارت اطلاعات کے ایک رینکر آفیسر کو اس میڈیا چیف کے پاس بھیجا جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے لئے نرم گوشہ رکھتا تھا ۔رینکر نے انورمحمود کا پیغام دیتے ہوئے کہا تمہارے بچے سکولوں کالجوں میں جاتے ہیں ،اب تمہاری صوابدید میں ہے کہ تمہارے بچے سکول کالجوں میں جاتے رہیں یا محسن پاکستان کی حمایت کے بخار میں مبتلا رہ کر تم زندگی کا باقی حصہ اپنے بچوں کی تلاش میں گزار دو ۔

16جنوری 2004ء کو مشرف دور کے وزیر اطلاعات نے محسن پاکستان کے گھر جا کر باور کرایا کہ آج سے آپ کی عوامی ملاقاتیں ختم ۔آپ پریس کانفرنس بھی نہیں کرسکیں گے اور نہ ہی کسی اخبار کو پریس ریلیز بھجوائیں گے ۔
................
جبارمرزا ایک جگہ لکھتے ہیں کہ دوپہر کے خواب اور شام کے اخبار سچے نہیں ہوتے ۔لیکن مورخہ 23 دسمبر 2017ء کی دوپہر کو میں نے 34برسوں میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو خواب میں دیکھا ۔ میں نے دیکھا کہ حکومت نے اچانک منادی کرا دی کہ ہفتے میں ایک دن عام پاکستانی بھی ڈاکٹر خان سے مل سکتا ہے ۔یہ اعلان ہو تے ہی لوگوں کی لمبی لمبی قطار یں لگ گئیں۔ کوئی ڈاکٹر خان کو پھولوں کا گلدستہ پیش کررہا ہے توکوئی کتاب دے رہا ہے ۔کسی نے کپڑے کا سوٹ اٹھایا ہوا ہے تو کوئی قرآن پاک دینے آیا ہوا ہے۔ڈاکٹر خان ہر کسی سے ہاتھ ملاتے ہیں اور ان سے تحفہ لے لیتے ہیں ۔صبح و شام ڈاکٹر خان کو گارڈ آف آنر پیش کیا جاتا ہے ۔ ہر صبح ڈاکٹر خان کے گھر پر قومی پرچم لہرایا جا تا ہے اور شام ہونے سے قومی پہلے پرچم اتارنے کی تقریب کا روزانہ انعقادہوتا ہے ۔اﷲ اﷲ کیا عظمت والا خواب تھا وہ ۔لیکن جب میں شعور کی حالت میں آیا تو وہی تعفن بھرا ماحول ، جس میں ہر حکومتی شخص ڈاکٹر خان کو ہیرو سے زیرو بنانے کی جستجو میں مصروف نظر آیا ۔
.................
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جبار مرزا کی یہ کتاب تاریخ کا ایک اہم حوالہ ہے جس میں ڈاکٹر خان کی ذاتی اور اہم تصاویروں کے ساتھ ساتھ فیملی تصویریں بھی شامل ہیں۔ جبکہ آٹھ ابواب میں چھپی ہوئی بیشمار کہانیاں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔بہرکیف 296صفحات پر مشتمل کتاب کو قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل۔ بنک سٹاپ والٹن روڈ لاہور کینٹ موبائل نمبر+03234393422 0300-0515101اضافہ شدہ ایڈیشن کی قیمت 1500/-روپے ہے۔جو واقعی پڑھنے کے کے لائق ہے۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 784514 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.