محمد الیاس خان الیاس سیتاپوری : آج ذرا فرصت پائی تھی آج اُسے پِھر یاد کیا

 ڈاکٹر غلام شبیر رانا
محمد الیاس خان الیاس سیتاپوری نے تیس اکتوبر 1934ء کو اُتر پردیش کے دار الحکومت لکھنو کے ضلع سیتاپور میں جنم لیا ۔پٹھانوں کے یوسف زئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے اُن کے اسلاف کابل سے ہجرت کر کے اتر پردیش کے شہر شاہ جہاں پور میں آباد ہوئے ۔ان کے گھر میں پشتو ،داری اور فارسی زبان بولی جاتی تھی ۔ اپنی جنم بھومی سیتا پورمیں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد الیاس سیتاپوری نے مطالعۂ ادب تخلیق ادب میں گہری دلچسپی لی۔ الیاس سیتاپوری کا شمار ان ممتاز پاکستانی ادیبوں میں ہوتاہے جنھوں نے تاریخ اور اس کے پیہم رواں عمل کواپنے افسانوں اور ناولوں کاموضوع بنایا ۔شکیل عادل زادہ کی ادارت میں یکم جنوری 1970ء کو کراچی سے روشنی کے سفر کا آغاز کرنے والے مجلہ ’’ سب رنگ ڈائجسٹ ‘‘میں الیاس سیتا پوری کی کہانیاں شائع ہوتی رہیں۔ اس کے علاوہ الیاس سیتا پوری کی کہانیاں سسپنس ڈائجسٹ میں بھی شائع ہوتی رہیں۔ سال 1940ء میں سولہ سال کی عمر میں بچوں کی کہانیاں لکھ کر روشنی کے سفر کا آغازکرنے والے اس با کمال تخلیق کار نے تریسٹھ برسوں میں ( 1940-2003) اُردو زبان و ادب کا دامن تاریخ کے اہم واقعات کی اساس پر لکھی گئی کہانیوں کے لعل و جواہر سے بھر دیا۔ سال 1970 ء میں الیا س سیتا پوری کی ملاقات سب رنگ ڈائجسٹ کے مدیر شکیل عادل زادہ سے ہوئی ۔ جنوری 1971ء میں رجحان ساز ادبی مجلے سب رنگ ڈائجسٹ میں ’’ خان ِ اعظم کا تحفہ ‘‘کے عنوان سے الیاس سیتاپوری کی لکھی ہوئی پہلی کہا نی شائع ہوئی جسے قارئین ادب نے بہت سراہا ۔جنوری 1975ء میں الیاس سیتاپوری نے سب رنگ ڈائجسٹ کو خیر باد کہہ دیا اور کراچی سے شائعہونے والے مجلے سسپنس ڈائجسٹ کے لیے کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا جو اُن کی وفات تک جاری رہا ۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اُردوافسانہ نگار ی کو تاریخ کے اہم واقعات سے مزین کر کے اسے سحر نگاری کا آ ہنگ دے کر الیاس سیتاپوری نے ستاروں پر کمند ڈالی ہے ۔ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کر نا اور تاریخ کے طوماروں میں دب جانے والے واقعات کو پُر لطف انداز میں زیب قرطاس کرنا الیاس سیتاپوری کے اسلوب کا نمایاں وصف ہے ۔الیاس سیتاپوری کے ممتاز معاصرین میں ضیاتسنیم بلگرامی،محی الدین نواب،شفیع ہمدم ،احمد تنویر اورایم۔اے راحت شامل ہیں۔الیاس سیتاپوری نے عالمی تاریخ کے اہم واقعات کی اساس پر لکھی گئی اپنی کہانیوں سے شہرت ِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام حاصل کیا ۔ان کی سدا بہار تصانیف میں آوارہ گرد بادشاہ، آشنا نا آشنا ، ابلیس، اندر کا آدمی ،بالا خانے کی دُلھن ،پارسائی کا خمار ، تیمور لنگ ،ثمینہ ،چاند کا خدا ، حرم سرا کا محبوب ، دیوی کے پرستار ،رزم بزم ، راگ کا دِن ، شکار ، شہزادی کا نیلام ،عجائب خانہ ٔ عشق ،کشمیر کی کلی ،داستانِ حور ، وادی ٌ سندھ کے اسرار ،اور سکندر اعظم شامل ہیں ۔ پس نو آبادیاتی دور میں علم بشریات ،انسانی جبلت اور نفسیات کو زادِ راہ بنا کر تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر تحقیقی نگاہ ڈالنے میں الیاس سیتاپوری نے جس بے باکی ،غیر جانب داری، بصیرت اور فہم و فراست کا مظاہرہ کیا ہے اس میں کوئی اُن کا شریک و سہیم نہیں۔ دنیا بھر میں الیاس سیتاپوری کے اسلوب کے لاکھوں مداح موجود ہیں ،بھارت میں شمع بُک ڈپو دہلی کے زیر اہتمام اُن کے کئی ناو ل اور کہانیو ں کی کتب شائع کی گئیں ۔الیاس سیتاپوری کی اہلیہ ضیا تسنیم بلگرامی کا شمار تانیثیت کی علم بردار ممتاز پاکستانی خواتین میں ہوتاہے ۔انھوں نے تاریخ اسلام کی ممتاز شخصیات کی سیرت و سوانح پر تحقیقی کام کیا ۔سسپنس ڈائجسٹ میں ضیا تسنیم بلگرامی کے مضامین قارئین میں بہت مقبول تھے ۔ الیاس سیتا پوری کے معاصرین جن مجلات میں لکھتے رہے ان میں اردو ڈائجسٹ ،پاکیزہ ڈائجسٹ ، جاسوسی ڈائجسٹ ، حکایت ، خواتین ڈائجسٹ ،دوشیزہ ڈائجسٹ ، روحانی ڈائجسٹ ، سب ر نگ ڈائجسٹ ، سسپنس ڈائجسٹ ،سیارہ ڈائجسٹ ،شعاع ڈائجسٹ اورنئے اُفق شامل ہیں ۔اقوام ،ملل اور تہذیب و ثقافت کے عروج و زوال کا احساس و ادراک رکھنے والے مورخ و افسانہ نگار الیاس سیتاپوری نے یکم اکتوبر 2003ء کو داعی ٔ اجل کو لبیک کہا۔ کراچی کے شہر خموشاں کی زمین نے اُردو ادب کے اِس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا ۔
پس نو آبادیاتی دور میں جب معاشرتی انحطاط اور پس ماندگی نے گمبھیر صورت اختیار کر لی نہ صرف اہم ادارے بل کہ زندگی کی اقدار عالیہ بھی اس سے متاثر ہوئیں۔ الیاس سیتاپوری نے معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی منافقت ،مکر و فریب ،خود غرضی ،حرص و ہوس ،بد عنوانی اور استحصال کے قلعوں کی کھوکھلی بنیادوں کو تیشۂ حر ف سے منہدم کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میں معاشرتی زبوں حالی نے جس لرزہ خیز فکری افلاس کو جنم دیا الیاس سیتا پوری نے اس پر گرفت کی ہے۔تاریخ کے مطالعہ سے بصیرت حاصل کرنے والے اس تخلیق کار نے قلم کی قوت سے جبر کے ہر انداز کو مسترد کرتے ہوئے حرفِ صداقت سے اپنا عہدِ وفا استوار رکھا اور اسی کو لیل و نہار کی گردش کا علاج قرار دیا۔ تہذیبی مراکزسے بہت دُور جنگلوں ، صحراؤں اور ویرانوں میں مقیم خانہ بدوش قبیلوں سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کا یہ مکالمہ چشم کُشاصداقتوں کا مظہر ہے جس میں اُس نے خانہ بدوش لوگوں کی انسان شناسی کے بارے میں اُن کی سوچ کو واضح کیاہے :
’’ یہ لوگ متمدن لوگوں پر کم ہی اعتماد کرتے ہیں ،سمجھتے ہیں متمدن لوگ ظاہر و باطن یکساں نہیں رکھتے اور جُھوٹ زیادہ بولتے ہیں۔‘‘
( افسانوی مجموعہ :بالا خانے کی دلھن ، افسانہ ،جاناں کا مقتل ،صفحہ : 59)
الیاس سیتاپوری جیسی با کمال ہستیوں نے اپنی موت کی آہٹ سُن کر بھی زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔ تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جانے والے ان زیرک تخلیق کاروں نے خونِ دِل دے کے گلشنِ ادب کو اس طرح سیراب کیا کہ اس کے معجز نما اثر سے گلشن ادب میں گل ہائے رنگ رنگ سے سماں بندھ گیا اور ان کی عطر بیزی سے قریہ ٔجاں معطر ہو گیا ۔ موت کے بارے میں یہی کہاجاتا ہے کہ یہ ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے۔الیاس سیتاپوری اس تلخ حقیقت سے آگاہ تھا کہ مشعلِ زیست کے گُل ہونے کے خطرات کو کسی طور بھی ٹالا نہیں جا سکتا لیکن خوف اوراندیشوں کے سم کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی ممکن ہے۔ اﷲ کریم نے الیاس سیتاپوری کومستحکم شخصیت سے نوازا تھا اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ زندگی کے سفرمیں جب بھی کوئی موہوم ڈر یا اضطراب سد راہ بنتا تو وہ اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے اسے دُور کر دیتا اور کبھی دِل میں ملال نہ آنے دیتا۔ایک فطین محقق اور مورخ کی حیثیت سے الیاس سیتاپوری نے موت کو کبھی دل دہلا دینے والا لرزہ خیز سانحہ نہیں سمجھابل کہ وہ جانتا تھا کہ رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے،انسان کا نہ توہاتھ اس کی باگ پر ہے اور نہ ہی پاؤں رکاب میں ہیں۔ کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر اس کی روانی تھم سکتی ہے۔اس کے منفرد اسلوب کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ واضح کر نا چاہتا تھا کہ ماحول کی سفاکی کے باعث جب آہیں اور دعائیں اپنی تاثیر سے محروم ہوجائیں جائیں تو زندگیاں بھی مختصر ہو جاتی ہیں۔گلزارِ ہست و بُودمیں سمے کے سم کے ثمر سے ایسی فضا پیدا ہو جاتی ہے کہ نرگس کی حسرت کی صدائے باز گشت کرگس کی کریہہ صورت میں دکھائی دیتی ہے اور بقا کی تمنا اپنی ہر اداسے فنا کے سیکڑوں مناظر سے آشنا کرتی ہے ۔خزاں کے اس نوعیت کے بے شمار تکلیف دہ مناظر کو دیکھنے کے بعد طلوعِ صبحِ بہارا ں کی اُمید وہم و گُماں اور سراب سی لگتی ہے۔الیاس سیتاپوری کے ناول اور افسانوں میں نُدرت ،تنوع اور جدت پر مبنی خیال آفرینی قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔کورانہ تقلید سے اسے سخت نفرت تھی اس لیے وہ خضر کا سودا چھوڑ کر اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں تلاش کرتا ہے۔اُردو فکشن کے عمیق مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ الیاس سیتاپوری کی تخلیقی تحریریں کلیشے کی آلودگی سے پاک ہیں۔اس کے دل کش ،حسین اور منفرد اسلوب میں ہرلحظہ نیا طُور نئی برق ِتجلی کی کیفیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ تخلیق ِفن میں اُس کا مرحلہ ٔ شوق پیہم نئی منازل کی جانب روا ں دواں رہتا ہے ۔ مثال کے طوروہ پر نئی تراکیب اور الفاظ کے بر محل استعمال سے اپنی تخلیقی تحریروں کو گنجینہ ء معانی کا طلسم بنا دیتا ہے کوپیرایہ ٔ اظہار عطا کرنے میں پیہم مصروف رہا۔
پس نو آبادیاتی دور میں پاکستان میں پہلا ڈائجسٹ سال 1947 ء میں مولانا سید فضل الحسن حسرت موہانی( 1875-1951) کے ایک قریبی عزیز متین موہانی کی ادارت میں منظر عام پر آیا۔ بعض دشواریوں کے باعث یہ مجلہ اپنی باقاعدہ اشاعت جاری نہ رکھ سکا اور صرف صرف چند شمارے شائع ہونے کے بعد یہ بند ہو گیا۔سال 1957 ء میں امریکی مجلے ریڈرز ڈائجسٹ کے اندازمیں ’’ اردو ڈائجسٹ ‘‘ نے لاہور سے اپنی اشاعت کا آغازکیا ۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ،الطاف حسن قریشی اور ملک ظفر اﷲ خان اس رجحان ساز مجلے کے بنیادگزارمدیران میں شامل ہیں۔ آباد شاہ پوری ،مقبول جہاں گیر ،ضیا شاہد،محسن فارانی ،سید عاصم محمود اور اختر عباس نے معاون مدیران کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ پاکستانی ادب کے قارئین کے قومی کردار اور ملی تشخص کو اُجاگر کرنے کے سلسلے میں اردو ڈائجسٹ نے جو خدما ت انجام دیں انھیں ہر مکتبۂ فکر کے قارئین نے قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اس مجلے کی بہت پذیرائی ہوئی۔ شکیل عادل زادہ اور جو ن ایلیانے اردو ڈائجسٹ سے متاثر ہو کر ’’ عالمی ڈائجسٹ ‘‘ کے نام سے ایک ادبی مجلے کی اشاعت کا فیصلہ کیا ۔ کچھ عرصہ بعد یہی مجلہ افقِ ادب پر ’’ سب رنگ ڈائجسٹ ‘‘ کی صورت میں طلوع ہواجس میں الیاس سیتا پوری کی گل افشانیٔ گفتار کی مسحور کُن فضا اور تاریخ کے تلخ حقائق کا مطالعہ کر کے قارئینِ ادب اش اش کر اُٹھے ۔الیاس سیتاپوری نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اس خطے میں ظالم و سفاک حملہ آوروں کی پھیلائی ہوئی تباہی و بربادی کی صحیح عکاسی کی ہے ۔ تقلید کی روش کو فکری خودکشی پر محمول کرنے والے اِس بے باک افسانہ نگار نے اقتضائے وقت کے مطابق اپنی تخلیقات میں تاریخ کے اس تصور کو پیش نظر رکھاجو نو آبادیاتی دور میں سامراجی طاقتوں کی غاصبانہ چالوں کے نتیجے میں پس منظر میں چلا گیا تھا۔ الیاس سیتا پوری کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے کے مورخین اور ادیبوں کو اس خطے میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا ادراک کرنا چاہیے ۔الیاس سیتاپوری نے اپنے افسانوں میں ماضی کے تاریخی واقعات کو اس مہارت سے تخلیقی انداز میں پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے کہ قاری اس عہد کی چشم کشا صداقتوں کی تفہیم کی صلاحیت سے متمتع ہوتاہے ۔تاریخ کے طوماروں میں دب جانے والے حقائق کی باز یافت کو اپنا مطمح نظر ٹھہرانے والے اس لافانی افسانہ نگار کے بارے میں مشیر صدیقی نے لکھا ہے :
’’ الیاس سیتاپوری غالباً ایشیا کا واحد تاریخی افسانہ نگار ہے جس نے تاریخ کا مطالعہ انسانی جبلت اور نفسیات کے تمام پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھ کر کیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہ کہانیاں لکھتے وقت قطعی غیر جانب دار نظر آتاہے ۔اُس کی کہانیوں میں تاریخ کے تمام پہلو نہایت مہارت اور چابک دستی سے سموئے ہوئے ملیں گے۔علم و ادب ،سیاست ،اخلاقیات ،معاشیات اور ثقافت ،ان کی روح الیاس سیتا پوری کی کہانیوں میں اس طرح پیوست اور مربو ط ملے گی کہ قاری کو ان کی سچائی پر شبہ تک نہ ہو گااور واقعات اور انسانی نفسیات کا گہرا مشاہدہ اس مشاہدے کو خوب صورت اسلوب ِنگارش اور افسانوی تکنیک سے کاغذپر منتقل کر دینے کا عمل اس غضب کا ہوتاہے کہ قاری خود کو اس کی کہانیوں کے ماحول میں پہنچا ہوا پاتاہے اور زمانی و مکانی فصل کے باوجود ان کرداروں میں کوئی اجنبیت نہیں محسوس کرتااور وہی احساسات اور جذبات محسوس کرنے لگتاہے جو کہانیوں کے کرداروں میں پائے جاتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجے کہ الیا س سیتا پوری کی ہر کہانی انسانوں کی کہانی ہوتی ہے جو ہر دور کے انسانوں کے لیے ہوتی ہے ۔‘‘ ( الیا س سیتا پوری : کشمیر کی کلی ، ’’پہلی بات ‘‘ مشیر صدیقی : شمع بُک ڈپو ،دہلی، سال اشاعت درج نہیں ،صفحہ 12 )
بعض مورخین نے غیر محتاط انداز اپنا کر تاریخ کو پشتارۂ اغلاط ،کذب و افترا کا پلندہ اور دروغ گوئی کا ایک ایسا متلاطم بحر ِ بے کراں بنا دیاہے جو مسلمہ صداقتوں اور مصدقہ حقائق کو خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتاہے ۔تاریخی حقائق کو زیبِ قرطا س کرتے وقت الیاس سیتا پوری نے شاعرانہ تخیل اور ذوقِ سلیم کو رو بہ عمل لانے کی سعی کی ہے ۔ الیاس سیتا پوری کے اسلو ب میں جزئیات نگاری اور منظر نگاری کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے ۔وہ جس عہد اور جس خطے کے واقعات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بناتے ہیں وہاں اُن کی لفظی مرقع نگاری کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتاہے ۔کردار نگاری میں زبان و بیان اور اظہار و ابلاغ میں اُن کی مہارت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لو ہا منو الیتی ہے ۔ کردار وں کے تکلم کے سلسلے ،مقامات کے بارے میں معلومات اور تاریخی واقعات کا پس منظری مطالعہ قاری کو مسحور کر دیتاہے اور قاری چشمِ تصور سے وہ سارا ماحول دیکھ لیتاہے جس میں یہ واقعات رُونما ہوئے تھے ۔
اس خطے کی تاریخ اور تہذیبی و ثقافتی میراث کا تحفظ کرنا ،فکر و خیال کے نئے دریچے وا کرنا ،معاشرتی زندگی کے تضادات اور بے ہنگم ارتعاشات پر کڑی نظر رکھنا الیاس سیتاپوری کا نصب العین رہا ۔ تاریخ کی گپھاؤں میں پنہاں داستانوں کو احاطہ ٔ تحریر میں لانا اس زیرک فعال اور مستعد تخلیق کار کا مطمح نظر قرار دیا جا سکتاہے ۔مختلف اقوام میں پائے جانے والے تضادات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنا کر الیاس سیتا پوری نے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خاطر فکری سطح پر جو جد و جہد کی ہے وہ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی ۔ حریت ِ ضمیر سے زندگی بسر کرنے و الے حریت ِ فکر کے اس مجاہد نے قحط الرجال کے موجودہ دور میں تشکیک،بے یقینی ،بے عملی اور بے حسی کو بیخ وبُن سے اُکھاڑ پھینکنے کی خاطر جو انتھک جد و جہد کی وہ تاریخ ِ ادب میں آبِ زر سے لکھی جائے گی۔
کتابیات پبلی کیشنز ،کراچی کے زیر اہتمام شائع ہونے والے الیاس سیتا پوری کے مقبول افسانوی مجموعے ’’ بالا خانے کی دلھن ‘‘ میں پانچ افسانے جانا ں کا مقتل ، قراقرم کے فرزند،بزور شمشیر ، کفن بردوش ،بالاخانے کی دلھن شامل ہیں۔ افسانہ ’’ جاناں کا مقتل ‘‘ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے عہد میں شہزادہ سلیم ،مان سنگھ ،نادر ،فتے ،حور بانو ،شیربا ز اور شاہی قلعے کے ماحول کا مرقع ہے ۔ حور بانواپنے محبوب نادر کا تا بہ مقدور انتظار کرتی ہے مگر قسمت اس پر مہربان نہیں تھی ۔ اگرچہ نادر تو اُس کے ہاتھوں کی لکیروں سے نکل چکا تھا مگر وہ پھر بھی نادر کی منتظر تھی ۔اُسے زمانے اور احباب سے کوئی شکوہ نہ تھابل کہ وہ تو محض اپنی قسمت کی شاکی تھی ۔نادر کے انتظار نے حُور بانو کو جیتے جی مارڈالا ۔حور بانوکو اچھی طرح معلوم تھاکہ موت کی دیمک ہر فانی انسان کے تن کو چاٹ لیتی ہے۔وہ چشمِ تصور سے زندگی کی راہوں میں ناچتی ،مسکراتی اور ہنستی گاتی موت کی اعصاب شکن صدا سُن کر بھی دِ ل ِ برداشتہ نہیں ہوئی بل کہ نہایت صبر ،استقامت اور جرأت سے کام لیتے ہوئے اُس نے اپنے محبوب نادر کے انتظار کو تزکیہ ٔ نفس کا وسیلہ بنایا۔ حرفِ صداقت سے لبریزالیاس سیتاپوری کی کہانیاں ایک جری تخلیق کار کے داخلی کرب اور سچے جذبات کی مظہر ہیں ۔ ان کہانیوں کے اکثر کردارموت کی دستک سُن کر بھی موت کے بارے میں جن چشم کشا صداقتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کرداروں کا یہ انداز زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے میں بے حد معاون ہے۔الیا س سیتاپوری کی کئی تاریخی کہانیوں کے مطالعہ کے بعدقاری کے لیے اپنے آنسو ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے۔اس حساس تخلیق کار کی دلی کیفیات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جو موت کی دستک زنی سننے والے تاریخی کرداروں کے احوال کا خیال رکھتے ہوئے اپنے قلبی احساسات کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے میں انہماک کا مظاہرہ کرتارہا۔وقت یقیناً ایک زیرک ،فعال،مستعد اور بلندپایہ معلم ہے جس نے حُور بانو کو بدلتے ہوئے حالات کی نزاکت سے آگاہ رکھا۔وقت نے حُور بانو کو جس بہترین نصیحت سے نوازا وہ یہی تھی کہ جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے صرف اُن کی یادیں ہی باقی رہ جاتی ہیں ۔الیاس سیتاپوری نے اپنے افسانوں کے بعض کرداروں سے ایسی باتیں کہلوائی ہیں جو ہر عہد میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہیں مثلاًافسانہ ’’ جاناں کا مقتل ‘‘ کے یہ جملے قابل غور ہیں :
شیر باز نے خشک لہجے میں جواب دیا : ’’ ہمار ے گھر آنے کی کوئی ضرورت نہیں ،چچا نواز تمھیں بالکل پسند نہیں کرتے ،پھر آ نکھ داب کر شرارت آمیز رازداری سے پُوچھا جہاں پناہ سے کِس کِس کی شکایت کی؟‘‘
نادر نے جواب دیا ’’ چغل خوری عورتیں کرتی ہیں ۔مَردوں کو مَردوں کی طرح رہنا چاہیے۔شیر با زنے اُسے مشورہ دیا بولا ،تم خود سمجھ دار ہو پھر بھی ہم تمھیں ایک راز کی بات بتائیں گے ،گھوڑے کی پچھاڑی اور بادشاہ کی اگاڑی خطرے سے خالی نہیں ہوتی ۔‘‘ ( افسانوی مجموعہ :بالا خانے کی دلھن ، افسانہ ،جاناں کا مقتل ،صفحہ : 36)
اپنے افسانوں میں الیاس سیتا پوری نے سراپا نگاری کی طرف بھی توجہ د ی ہے ۔حسین و جمیل عورتوں کے خدو خال اُجاگر کرنے میں وہ الفاظ کے انتخاب میں شائستگی اور ذوق سلیم کو پیش نظر رکھتے ہیں ۔ان کی تحریروں میں عریانی اور فحاشی کا کہیں شائبہ نہیں ہوتامثلاً:
’’ میں نے لڑکی کو غور سے دیکھا تو دنگ رہ گیا اس کے اعضا میں غضب کا تناسب تھا،بیضوی چہرے پر سرخ و سفید رُخساروں کے داہنی جانب ،ناک اور ہو نٹ کے مابین ترچھی لکیر پر سیاہ تِل ،ٹھوڑی میں چاہ زنخداں ،چہرے پر ملاحت اور صباحت ایسی،جیسے سرخ شرب کے اُوپر میدے کی شفاف باریک تہہ چڑھا دی گئی ہو ۔‘‘ ( افسانوی مجموعہ بالا خانے کی دلھن : افسانہ قراقرم کے فرزند،صفحہ : 58)
اپنی تخلیقی تحریروں میں الیاس سیتاپوری نے تاریخی واقعات کے نشیب و فراز اور اُن کے پس پردہ کار فرما عوامل کے بر محل استعمال سے ایساسماں باندھاہے کہ قاری اس کے دھنک رنگ منظر نامے میں کھو جاتاہے ۔اپنے وسیع مطالعہ ،تجربات ،مشاہدات اور بصیرت کے معجز نما اثر سے ہر نئی کہانی میں الیاس سیتا پوری نیا ماحول پیش کر کے قاری کو افکار تازہ کے وسیلے سے جہانِ تازہ کے جلوے دکھاتا چلا جاتاہے ۔زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس الیاس سیتاپوری کے اسلوب کا اہم ترین وصف ہے ۔ صنائع بدائع ،ضرب الامثال ،تلمیحات ،محاورات ،تراکیب ،تشبیہات اور استعارات کے بر محل استعمال اور امتزاج سے الیاس سیتاپوری نے اپنی نثر کو جس فنی مہارت سے زرنگار بنادیاہے اُس کی چندمثالیں پیش ہیں :
’’ شہزادے نے نادر کی طرف دیکھا اور نہایت دانائی سے پیش کش کی ’ شیر باز ! تم اس سے کہو کہ ہمارے دادا ہمایوں نے ذرا سے احسان کا بدلہ نظام سقے کو ڈھائی دِن کی حکومت دے کر چُکایا تھا۔ابھی یہ روایات ہمارے خاندان میں زندہ ہیں،یہ چاہے تو ہمارے اُمیدواروں میں شامل ہو سکتاہے ۔‘‘ ( افسانوی مجموعہ :بالا خانے کی دلھن ، افسانہ ،جاناں کا مقتل ،صفحہ : 35)
’’ مردِ منگول ،جوغالباًکثرت شراب نوشی اور عیاشی کی وجہ سے ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیاہے ۔ ‘‘ ( افسانوی مجموعہ بالا خانے کی دلھن : افسانہ قراقرم کے فرزند،صفحہ : 58)
’’ نیند کا نشہ جلد ہی ہرن ہو گیامیں اُٹھ کر بیٹھ گیا،آدمی کی نظریں مجھ پر پہ گڑی ہوئی تھیں۔‘‘ ( افسانوی مجموعہ بالا خانے کی دلھن : افسانہ قراقرم کے فرزند،صفحہ : 58)
افسانوی مجموعہ ’’ اندر کا آدمی ‘‘ کی کہانی سومنات کی قتالہ سے ایک اقتباس :
’’ علی مردان نے جواب دیا’’ مثل مشہور ہے بھوک نہ دیکھے جُھوٹا بھات،عشق نہ دیکھے ذات بذات ،نیند نہ دیکھے ٹُوٹی کھاٹ اور پیاس نہ دیکھے دھوبی گھاٹ ۔‘‘( اندر کا آدمی : صفحہ 33)
’’ رہ رہ کر دِل میں ایک خلش کانٹے کی طرح چُبھ رہی تھی ۔‘‘ ( صنعت تکرار ،تشبیہہ) ( افسانوی مجموعہ :بالا خانے کی دلھن ، افسانہ ،جاناں کا مقتل ،صفحہ : 36)
اس دنیا میں عرض نوائے حیات سنجیدہ مطالعہ کی متقاضی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ کواکب جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے نہیں ہوتے ۔اس لیے شعبدہ باز وں کے مکر کی چالوں سے خبر داررہنا ہی دانش مندی ہے ۔ روح اور قلب کی سب پنہاں کیفیات ،ذہن و ذکاوت کی سب خوابیدہ صلاحیتوں اور تاریخ کے مسلسل عمل کے متعلق چشم کشاصداقتوں کا احوال الیاس سیتاپوری کا کمال ہے ۔ اپنے قلبِ حزیں کو ہجر و فراق کے شعلوں میں جلتا دیکھ کر صبر کر نا بڑے حوصلے کی بات ہے ۔ عیش و نشاط کی محفلوں میں جب رقصِ مے اور ساز کی لے تیز ہو رہی ہو تو اُس کی لفظی مرقع نگاری گہرے مشاہدے کی متقاضی ہے الیاس سیتاپوری نے ایسی محفلوں کی اس مہارت سے تصویر کشی کی ہے کہ قاری سب مناظر کا احوال دیکھ لیتاہے :
’’ ہلکے سُروں میں ساز بج رہے تھے اور خوش الحان گانے والیاں لوگوں کے جذبات کو آگ لگار ہی تھیں ۔ایرانی شعرا کی عاشقانہ اور شہوت انگیزغزلوں،شراب کی گرمی ،خوش الحانی کے جادواور سازو ں کے سرور انگیززیر وبم نے لوگوں کے دِل و جگر کو پھونک کر رکھ دیا تھا۔حُسن وجمال کے پیکر اور رعنائی کے متحرک اوررقصاں ماہی صفت پری چہرہ بھی از خود رفتہ ہو رہے تھے ۔نادر بھی اِس سیلِ نُورمیں گُم خُور بانوکی یاد کی شمع جلائے موقع کی تاک میں تھاکہ مناسب موقع ملتے ہی حُور بانو کی بات کرے ۔‘‘ ( افسانوی مجموعہ :بالا خانے کی دلھن ، افسانہ ،جاناں کا مقتل ،صفحہ : 39)
مطالعہ ٔ تاریخ اخلاقی اقدار و روایات سے کسی قدر الگ ہے اور اس میں کچھ تضادات بھی موجود ہیں مثلاً امرتسر کا قصاب ( ڈائر )جسے جلیاں والا باغ میں خونریزی کے باعث بر صغیر میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے،بر طانیہ میں اُس کو بہادر ہیر و کا درجہ دیا جاتاہے ۔ الیاس سیتاپوری کو اس حقیقت کا شدت سے احساس ہے کہ تاریخ کے پیہم روا ں عمل میں مقتدر حلقوں کی قوت و ہیبت کا عمل دخل مسلمہ ہے مگر انھوں نے تاریخ کو محض مقتدر حلقوں کی جاہ و حشمت اور قوت و ہیبت کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے اسے تہذیبی سطح پر بھی جانچنے کی ضرورت پر زور دیاہے ۔ سفاک ظلمتوں میں کہکشاں پر ستاروں کی ضوفشانیاں دیکھ کر گمان گزرتاہے کہ شاید اب طلوع صبح بہاراں کی اُمید بر آئے گی اور اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر آئے گی مگر گھٹا ٹوپ اندھیرے ستاروں کی کرنوں کو نگل لیتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ اُجالے داغ داغ ہو جاتے ہیں اور صبح ِ امید شب گزیدہ ہو جاتی ہے جس میں فقیروں کے حالات تو جوں کے توں رہتے ہیں مگر بے ضمیروں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں ۔ پس نو آبادیاتی دور میں ہم اپنے رفتگاں کو یاد کر کے دلوں کو اُن کے درد سے آباد کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق قارئین کے لیے اس لیے دلچسپی کا وسیلہ ثابت ہوتے ہیں کہ قدیم زمانے کے لوگوں نے اِن سے وابستہ حقائق اور اسرار و رموز میں کم کم دلچسپی لی ۔ ماضی کے متعدد واقعات جو ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو چکے تھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منظر عام پر آنے لگے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر عہد میں لوگ اپنے حال کے بجائے اپنے اسلاف کے بارے میں جاننے کے آرزو مند رہے۔ نوے سالہ غلامی کے دوران میں اس خطے کے کتنے سر فروش ردائے خاک اوڑھ کر سو گئے ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں الیاس سیتا پوری جیسے حساس تخلیق کار فکر و خیال کے محاذ پر سماجی اور معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں ،تضادات اور بے ہنگم ارتعاشات سے گلو خلاصی حاصل کرنے کی اس جنگ میں مصرو ف رہے جس میں کامیابی کے امکانات آج بھی کم کم دکھائی دیتے ہیں ۔ماہرین علم بشریات کا خیال ہے کہ افراد کے لیے طبعی موت یاس و ہراس کے سو اکچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے ۔الیاس سیتاپوری نے ظہیر الدین بابر اور رانا سانگا کی جنگ میں مظلوم انسانوں پر جو کوہ ِ ستم ٹوٹا اُس کا احوال ایک کردار کلیانی کی زبانی سنیے جو جنگ سے شدید متاثر ہونے والے شخص یاور خان سے مخاطب ہے :
کلیانی کچھ سوچتی ہوئی بولی ’’ رانا سانگا کی شکست اور بابر کی جیت نے تمھارے خاندان کو بالکل بر بادکر دیا ۔مغلوں نے گھروں میں گُھس گُھس کر قتل عام کیاہے اسی میں تمھاری بیوی اور بچی کو بھی قتل کر دیا گیا۔اب بھی جب اس خون کو یاد کرتی ہوں تو کانپ کانپ جاتی ہوں ۔‘‘
الیاس سیتاپوری : افسانوی مجموعہ بالا خانے کی دلھن ،افسانہ ’’ بالا خانے کی دلھن ‘‘ صفحہ 219
عزیزہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبرفشاں پھول شہر ِخموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں ۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضاؤ ں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ جگر فگار پس ماندگان کے ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ فرشتہ ٔ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں ۔امیر برہان ایک بروٹس قماش کا موقع پرست محافظ ہے جو بادشاہ کے لیے آستین کا سانپ ثابت ہوتاہے ۔غدار امیر برہان کو دربارِ شاہی کے امرا شیر وان خان اور اعتماد خان نے کیفر کردار کو پہنچایا ۔الیاس سیتاپوری نے محسن کُشی کے اس سانحہ کے بارے میں لکھا ہے :
’’ برہان زمین پر چِت لیٹا سسکیاں لے رہا تھا۔شیر وان خان نے اُس کے پاؤں میں رسّی باندھ دی اور اعتمادخان نے نہایت ادب اور احترام سے چاندنی ،دل ربا،عریشہ اور سلیمہ سے درخواست کی کہ اس کو کھینچ کر شاہی محل کی سیر کر ا دیں ۔بادشاہ کی حرم کونہ جانے کیوں اس وقت برہان سے ہمدردی ہو گئی اور انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔‘‘ ( الیاس سیتا پوری : پارسائی کا خمار ،صفحہ 258)
بادشاہ کے حرم کی خواتین نے اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی ، اذیت ناک محرومی اور عبر ت ناک احساس ِزیاں کے باعث تھی ۔غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔ غم و آلا م کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح ،ذہن اورقلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے ۔کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ حریت ِ ضمیر سے جینے کی تمنا کرنے والوں کوحق گوئی وبے باکی کو اپنا شعار بنانا پڑتاہے ۔الیاس سیتاپوری کی کہانی کاایک کردار اسی جانب متوجہ کرتاہے ۔یہ الفاظ ایک محدب عدسے کے مانند ہیں جن میں بولنے والے کے ذہنی کیفیت منعکس ہو گئی ہے :
’’ سچ بول کر قتل ہو جانا اِس سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی جُھوٹ بول کر قتل ہو جائے ۔‘‘ ( افسانوی مجموعہ :بالا خانے کی دلھن ، افسانہ ،قرا قرم کے فرزند ،صفحہ : 63)
افسانہ ’’ پارسائی کا خمار ‘‘ کا ایک کردار اعتماد خان ہے جو بادشاہ کا اعتماد بحال کرنے کے لیے دوا کھا کر شکھنڈی بننے میں تامل نہیں کرتا۔ اسی افسانے میں راسپوٹین قماش کا ایک جنسی جنونی کردار برہا ن ہے جسے بادشاہ نے اخلاقی جرائم اور جنسی بے راہ روی کی وجہ سے دیوار میں زندہ چنوا دیا مگر کچھ لمحے بعد محل سرا کی حسیناؤں کے اصرار پر اُسے دیوار سے زندہ نکال لیا گیا۔ اس واقعہ کے بعدبرہان اور اس کا بھانجا دولت خان انتقام کی آگ میں جلنے لگے اور انھوں نے بادشاہ کو قتل کرنے کی ٹھان لی ۔ جوش انتقام نے برہان کو فہم و بصیرت سے محروم کر دیا تھا۔وہ جب انتقام کے ارادے سے گھر سے نکلا تو اُس نے یہ طے کر لیا کہ اب وہ بادشاہ کو عبرت ناک انجام تک پہنچائے گا اور اس کے لیے قبر کھودنے کا فیصلہ کر لیا ۔ اُس نے بے رحمانہ انتقام کی ایسی آگ کے شعلوں کو ہوا دی جو خود اُسے بھی جلا رہی تھی اس اثنا میں برہان یہ بُھول گیا کہ مرگِ نا گہانی خود اُس کے تعاقب میں ہے ۔ بر ہا ن نے بادشاہ کے بیس موقع پرست ،خود غرض ، طالع آزما اور مہم جُو محافظوں کو عہدوں اور انعام کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا ۔ یاس و ہراس ،ابتلا وآزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روزمیں بادشاہ کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ اپنی زندگی کے باقی لمحات پچھتاوے کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارہ ٔ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مارنے میں گزارے ۔ اجل گرفتہ بادشاہ نے مایوسی کے عالم میں سر گرداب کئی بار پکارا مگر اُس کی آہ و فغاں صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ۔اس اثنا میں جعل سا زاور نمک حرام برہان نے اپنے ہاتھوں میں تلوار لہرا کر غراتے ہوئے کہا:
’ ’ او ذلیل بادشاہ ! تیرا یومِ حساب آ چُکا ہے ،آ نکھیں کھول کر دیکھ کہ تیر ے سامنے تیری موت کِس آن بان سے کھڑی ہے ۔۔۔۔۔ چُپ چاپ پڑا رہ ،دیوار میں زندہ چُنوا دینے کے مقابلے میں ایک ہی وار میں کام تمام کر دینانسبتاً شریفانہ عمل ہے اوراِس طرح میں تم سے زیادہ شریف ہوں۔‘‘ ( الیاس سیتاپوری : پارسائی کا خمار ،صفحہ 253)
انسان شناسی کی صلاحیت سے محروم بادشاہ کو قتل کر کے بروٹس قماش کے کینہ پرور درباری امیر بر ہان کے انتقام کی آ گ ٹھنڈی ہو گئی ۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد بادشاہ کے قاتل اور نمک حرام امیر برہان کو اعتماد خان اور شیروان خان نے کیفر کردار کو پہنچایا ۔پیادے جب برہان کا سسکتاہوا جسم بازاروں اور گلیوں میں گھسیٹ رہے تھے توحرم کی کئی خواتین زار و قطار رونے لگیں۔ امیر بر ہان کی ہلاکت پر بادشاہ کے حرم کی حسین خواتین جن میں چاندنی ،دِل ربا ،عریشہ اور سلیمہ شامل تھیں بہت دل گرفتہ تھیں ۔ چاندنی اور حُور بانو کو معلوم تھا کہ ہماری بزم کے رفتگاں ہماری بے قراری ، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناًہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہوگا۔اپنی تخلیقات میں الیاس سیتاپوری نے نہ صرف اپنی قلبی و روحانی کیفیات کو پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے بل کہ اپنے عہد کے افراد کے لیے بھی ایک لائحۂ عمل تجویز کیاہے ۔ سینۂ وقت سے پُھوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک ،کومل اورعطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں ۔پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں ۔کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کردائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے ۔تقدیر کے ہاتھوں آرزووں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو،رُوپ ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔الیاس سیتاپوری نے معاشرتی زندگی میں تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اپنی تخلیقی تحریروں کو وسیلہ بنایا ہے ۔تہذیب و ثقافت کی بالادستی ہی سے کسی خطے کی قومی اور مِلّی شناخت کو یقینی بنایا جا سکتاہے ۔ثقافتی تنوع کے علم بردار اس ذہین تخلیق کار نے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ اگر اپنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ پر بر وقت توجہ نہ دی گئی تو یہاں جنگل کا قانون نافذہوگا۔تہذیبی مراکزسے بہت دُور جنگلوں ، صحراؤں اور ویرانوں میں مقیم خانہ بدوش قبیلوں سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کا یہ مکالمہ چشم کُشاصداقتوں کا مظہر ہے جس میں اُس نے خانہ بدوش لوگوں کی انسان شناسی کے بارے میں اُن کی سوچ کو واضح کیاہے :
’’ یہ لوگ متمدن لوگوں پر کم ہی اعتماد کرتے ہیں ،سمجھتے ہیں متمدن لوگ ظاہر و باطن یکساں نہیں رکھتے اور جُھوٹ زیادہ بولتے ہیں۔‘‘
( افسانوی مجموعہ :بالا خانے کی دلھن ، افسانہ ،جاناں کا مقتل ،صفحہ : 59)
الیاس سیتاپوری نے ’’ پارسائی کا خمار ‘‘ میں ایک ایسے شخص برہان امیر کا احوال بیان کیا ہے جو بادی النظر میں بہرام ٹھگ کی نسل سے تعلق رکھتاہے ۔بادشاہ محمود شاہ ثانی کا غدار امیر برہان ایسا جعل ساز ،مثنیٰ اور پکھنڈی بھیڑیا ہے جس نے بھیڑ کا بھیس بنا رکھا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بادشاہ کی روح کے قرطاس پر منافق امیر برہان کی پیمان شکنی ،دغا و دُزدی ،فریب کاری اور ٹھگی کا صدمے پہنچانے والوں کی تلخ یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ان حالات میں بادشاہ کے قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا مشیت ِ ایزدی اورصبر و رضا کا قفل بھی کُھل جاتاہے ۔سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں،من کے روگ،جذبات ِ حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِ ل دہل جاتا ہے ۔دیانت داری اور وفاداری نے کئی بار بادشاہ کے کان میں سرگوشی کی کہ بر ہان جیسے عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگ پر اعتماد کرنا خود کُشی کے مترادف ہے ۔ سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جن کی وفا پر انسان کو اعتماد ہوتاہے جب وہی فریب کرتے ہیں تو ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو جاتی ہیں ۔پِیٹھ میں چُھرا گھونپنے والوں و الوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں ۔ برہان جیسے موذی و مکار لوگ جب بغاوت اور دغا کی راہ پر چل نکلتے ہیں تو وہ اپنے دیرینہ محسنوں کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں۔ایسے میں آستین کے ان سانپوں کے کاٹنے سے جو لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں ۔ان کے پس ماندگان جب پرانے آ شنا چہروں کا نام لیتے ہیں تو اُن کی چشم بھر آ تی ہے ۔ ہجومِ غم میں گھرے الم نصیب پس ماندگان اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں ؟ ایک حسین و جمیل نوجوان دوشیزہ چاندنی جو بادشاہ کی خدمت پر مامور تھی وہ ملکہ بننے کی آرزو مند تھی لیکن بادشاہ نے اُسے کوئی اہمیت نہ دی ۔وہ بادشاہ سے انتقام لینے کی غرض سے ایک درباری امیر برہان کے ساتھ گُھل مِل جاتی ہے یوں جنسی جنون اور کھل کھیلنے کا سلسلہ شروع ہو جاتاہے ۔ نمک حرام اور سفلہ گرگ امیر برہان اپنے محسن بادشاہ کو قتل کر دیتاہے۔اس کہانی میں سلیمہ،چاندنی ،دِل رُبا اور عریشہ جیسی عورتوں کا کردار حسین عورتوں کی موقع پرستی کو سامنے لاتاہے ۔ الیاس سیتاپوری نے لکھا ہے :
’’ اب بر ہان کے لیے رکاوٹ ختم ہو چُکی تھی ۔ایک طوفان اُٹھا اور چاندنی اور برہان تنکوں کی طرح اُڑنے لگے ۔ایک زلزلہ آیا جس میں دو وجودلوہار کی دھونکنی کی طرح اُٹھنے دبنے لگے ۔ایک مدو جزر آیا جس میں دونوں ہچکو لے کھانے لگے،بر ہان جس شدید جذباتی دباؤ میں مبتلا تھااس میں کم تر لوگ مبتلا ہوتے ہیں ۔‘‘
آخر میں چاندنی نے کہا’’ میں نے بادشاہ سے اُس کی قدر نا شناسی کا انتقام لے لیا ۔‘‘ ( الیاس سیتا پوری : پارسائی کا خمار ،صفحہ 223 )
عہد مغلیہ میں ہمایوں کے دور کے ایک کردار نظام سقہ کے بارے میں الیاس سیتاپوری نے لکھا ہے :
’’ بادشاہ نے نظام سقہ سے جو وعدہ کیا تھااُسے پورا کرنے کا اعلان کیا۔تمام امرا اور شہزادگان کو حکم دیا گیاکہ نظام سقہ کے حضور پیش ہوں اور آداب ِ شاہی بجا لائیں۔نظام سقہ نے سر پر تاج رکھا اور تختِ شاہی پر جلوہ افروز ہو گیا۔امرا اور شہزادے کورنش اور تسلیمات بجالائے ۔خود بادشاہ بھی ایک امیر کی حیثیت سے نظام سقہ کے حضور دست بستہ کھڑا رہا۔‘‘
( الیاس سیتا پوری : آوارہ گرد بادشاہ ،صفحہ121 )
مہ جبیں حسیناؤں کی سراپا نگاری کرتے وقت الیاس سیتاپوری کا انداز بیاں قاری کے لیے ایک انوکھا تجربہ ثابت ہوتاہے ۔ایک حسین و جمیل عورت کی قابلیت اورمسحور کُن گفتگو کی کیفیات بیان کرتے ہوئے الیاس سیتاپوری نے شیشے کی دیوار میں لکھا ہے :
’’ وہ نہایت ذہین عورت ہے ،عورت کم لڑکی زیادہ اور اس نو عمری میں جس ذہانت اور فطانت کی باتیں وہ کرتی ہے مرد بھی نہیں کر سکتے۔بِلا شبہ وہ غیر معمولی ہے ۔اﷲ کی فیاضی کا شاہ کار ۔اُس کو ہر چیز وافر مقدار میں ملی ہے ۔۔۔یعنی یہ کہ وہ عدیم المثل حُسن کی مالک ہے ۔جسم اور اعضا میں تناسب ایسا کہ اس سے بہترتصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔باتیں کرتی ہے تو پُھول جھڑتے ہیں۔آواز میں ایسی کھنک اور ترنم کہ مغنی شرمندہ ہو جائے ۔ذہانت اور فطانت اس بَلا کی کہ دانا و بِینامرداُس کی شاگردی اور تلمذ پر فخر کریں ۔‘‘
الیاس سیتاپوری : شیشے کی دیوار،کتاب والا ،پہاڑی بھوجلہ دہلی،سال اشاعت 1991،صفحہ 8
مطلق العنان بادشاہ اپنی مملکت کی سرحدوں میں من مانی کر سکتے ہیں ۔اپنی رعایا پر ڈنڈے کے زور سے حکم چلا سکتے ہیں لیکن حریت ِ فکر و عمل کی راہیں مسدود کرنا اُن کے بس کی بات نہیں ۔ہوائے جو رو ستم میں بھی مشعل ِ وفا فروزاں رکھنے والے جب حریتِ ضمیر سے زندگی بسر کرنا اپنا نصب العین بنا لیتے ہیں تو وہ اپنے ذہن و ذکاوت کے اعجاز سے فکر و خیال کی ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں جن سے دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ الیاس سیتاپوری نے اپنی تاریخی کہانیوں میں محکوم انسانوں کو اپنی حقیقت سے آ شنا ہونے اور فطری آزادی کی راہ دکھائی ہے ۔ فطری آزادی اور خود مختاری کے بغیر انسان کی مثال تنِ بے روح کی سی ہے جو کسی فعالیت میں انہماک کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔ بہلول لودھی کے زمانے کی تاریخی کہانی ’’ آشنا پرست ‘‘ میں الیاس سیتاپوری نے مخلوق ِ خدا کی آزادی کے بارے میں لکھا ہے :
’’ شام کو جب کہ فضاؤ ں میں پرندے بسیرے کے لیے جُھنڈوں کی شکل میں محوِ پرواز تھے اور اُن کے اُڑنے کا اندا زاُن مُلازمیں جیسا تھا جو دِن بھر اپنے فرائض ِ منصبی انجام دے کر تھکے ہارے اپنے گھروں کو جا رہے ہوں یا اُن طالب علموں کی طرح جنھیں دِن بھر کی پڑھائی کے بعد چُھٹی مِل گئی اور وہ اپنے گھر کا رُخ کیے ہوں۔حسام خان اندر سے نکل کر صحن میں آ گیااورآسمان کی طرف دیکھنے لگا۔اُسے پرندوں پر رشک آ رہاتھاجو کسی کے ملازم نہیں تھے ،جو کسی کے حکم کے تابع نہیں تھے اور جنھیں کسی بادشاہ کا خوف نہیں تھا۔کُھلی فضاؤں میں محوِ پرواز رہنا کتنی خوش قسمتی کی بات تھی۔‘‘
الیاس سیتاپوری : آشنا پرست ،شمع بُک ڈپو ،نئی دہلی،سال اشاعت 1984 ،صفحہ112
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ہر شخص اپنی فضا میں مست پھرتاہے ۔شہر نا پرساں میں کسی کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ الم نصیب جگر فگاروں کی چشم تر کی جانب دیکھے ۔ قابل مطالعہ مواداور حیات آفریں پیغامات سے لبریز اِن کہانیوں سے ہر عہد کے قاری کے لیے فکر و خیال کی شادمانیوں کے سوتے پُھوٹتے رہیں گے ۔ الیاس سیتاپوری نے پُرنم آنکھوں سے پُر تجسس تاریخی کہانیاں لکھ کر نہ صرف ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کی ہے بل کہ انھیں اقتضائے وقت کے مطابق عصری آگہی پروان چڑھانے کا موثر وسیلہ بھی بنایا ہے ۔ انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کے لیے جد و جہد کرنے والے اس جری تخلیق کار نے قارئینِ ادب کے حضور خلوص ،دردمندی ،وفا اور ایثار کی جو متاع ِ بے بہا پیش کی ہے اس کی بنا پر ہر عہد کے قارئین کی گردن اُن کے سامنے خم رہے گی ۔

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 609751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.