ننھے للن نے اپنے دادا کی انگلی چھوڑ کر سامنے اشارہ کرتے
ہوئے پوچھابابا یہ کیا ہے؟ دراصل اس کو کبھی لوہے کا صندوق دیکھنے کا اتفاق
نہیں ہوا تھا۔
سامنےدو لوگ ایک آہنی صندوق آٹو رکشا میں رکھ رہے تھے اور تیسرا ایک کپڑے
کا جھولا لے کر کھڑا تھا ۔ کلن نے کہا بیٹے یہ پیٹی ہے لوہے کی پیٹی۔
للن نے پہلی بار پیٹی سنا تو پوچھ بیٹھا اچھا ! یہ پیٹی کیا ہوتی ہے؟
کلن اس طرح کے سوالات کا عادی ہوچکا تھا ۔ وہ متانت سے بولا بیٹے جیسے اپنا
بیگ ہوتا ہے نا ؟ اسی طرح یہ پیٹی بھی ہوتی ہے۔
اچھا لیکن یہ تو بہت بڑی ہے ؟
جی ہاں تمہارے ابو بھی جب دور دیس جاتے ہیں تو بڑا بیگ لے کر جاتے ہیں ۔
للن کندھے اچکا کر بولا سمجھ گیا لیکن ابو کے بیگ میں تو پہیے لگے ہوتے ہیں
۔
جی ہاں بیٹے چونکہ بڑا بیگ وزنی ہوجاتا ہے اس لیے اس کو پہیوں پر چلانا
پڑتا ہے۔
اچھا تو کیا یہ پیٹی ہلکی ہوتی ہے ۔ سوالات کا سلسلہ دراز ہورہا تھا۔
کلن نے کہا نہیں وہ تو اور بھی وزنی ہوتی مگر اس کو اٹھانے والے لوگ طاقتور
ہوتے ہیں اس لیے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
تو کیا میرے ابو کمزور ہیں ؟ آپ نے ان کو لاغر کہا؟؟ میں ابو کو بتا دوں
گا۔
نہیں بیٹے یہ میں نےیہ کب کہا؟ دراصل تمہارے ابو کو وزن اٹھانے کی عادت
نہیں ہے نا اس لیے انہیں پہیوں کے سہارے بیگ کھینچنا پڑتا ہے۔
ہاں پھر ٹھیک ہے۔ للن بولا لیکن اس پیٹی میں کیا ہے ؟
کلن کی سوچ کا دھارا گھوم گیا ۔ وہ بولا بیٹے اس میں کچھ وعدے اور عہدو
پیمان ہیں ۔ کچھ خواب اور ارمان ہیں جو یہ مزدور اپنے ساتھ لے جارہا ہے۔
بابا یہ عہدوپیمان اور خواب وارمان کیا ہوتے ہیں؟
بیٹے تم نہیں سمجھو گے ۔
کیوں نہیں سمجھوں گا ؟؟ للن نے بگڑ کر پوچھا ۔ مجھے بتائیے کہ سمجھنے کے
لیے کیا کرنا پڑے گا ؟
کچھ نہیں ،تم ابھی بچے ہو ۔بڑے ہوجاوگے تو اپنے آپ سب سمجھ میں آجائے گا۔
للن بولا اچھا تب ٹھیک ہے لیکن کیا خواب وغیرہ وغیرہ بہت بھاری ہوتے ہیں؟
جی ہاں بیٹے خوابوں کو سجانے میں عمر گزر جاتی ہے اور وعدوں کو نبھاتے
نبھاتے کمر جھک جاتی ہے۔
للن کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا پھر بھی اس نے سوال کیا لیکن ان کو لوہے کی
پیٹی میں کیوں رکھا جاتا ہے؟ بیگ میں کیوں نہیں؟؟
بیٹے وہ بہت نازک ہوتے ہیں ۔ معمولی سی ٹھیس لگے تب، بھی ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں
۔ اس لیے ان کومضبوط آہنی صندوق میں سنبھال کر رکھنا پڑتا ہے۔
بہت نازک یعنی میرےگھوڑے کی مانند جس کی کل ایک ٹانگ ٹوٹ گئی تھی ؟
جی نہیں بیٹا ۔ یہ تمہارے کھلونوں سے بھی زیادہ نازک ہوتے ہیں ۔
سمجھ گیا۔ اچھا توان ببولوں کی طرح جو میں صابن کے پانی سے ہوا میں اڑاتا
ہوں اور وہ اپنے آپ کچھ دیر میں ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔
اپنے پوتے کے اس جواب سےکلن حیران رہ گیا ۔ للن خود نہیں جانتا تھا کہ وہ
کتنی بڑ ی بات کہہ گیا۔ کلن نے تائید کی ہاں بیٹے تم نے بالکل صحیح کہا۔
للن خوش ہوکر بولا بابا میں تو ہمیشہ صحیح بات بولتا ہوں لیکن کوئی مان کر
نہیں دیتا ۔
بیٹے تم ابھی چھوٹے ہو اس لیے ایسا ہوتا ہے بڑے ہوجاوگے تو یہ مسئلہ ازخود
حل ہوجائے گا۔
بابا صحیح یا غلط بات کا عمر سے کیا تعلق ہے؟ کیا کوئی بچہ صحیح بات نہیں
کہہ سکتا ؟ اور کسی بزرگ کے منہ سے غلط بات نہیں نکل سکتی؟؟
بیٹے کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن کیا ہے ناکہ کبھی کبھار بچے کی صحیح بات کو
بھی لوگ غلط کہہ کر مسترد کردیتے ہیں ۔
ہاں میں سمجھ گیا اور بڑوں کی غلط بات کو بھی ۰۰۰۰۰
کلن نے للن کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا بری بات ۰۰۰۰۰اچھے بچے ایسی بات نہیں
کہتے۔
للن کی سمجھ میں پھر کچھ نہیں آیا۔آہنی صندوق کوبہ مشکل تمام آٹورکشا کی
سیٹ پر رکھا جاچکا تھا ۔ اس نے پوچھا اب یہ لوگ کہاں بیٹھیں گے؟
بیٹے ان میں سے جو مسافر ہے وہ ایک کونے میں دبک کر بیٹھ جائے گا۔
للن نے سوال کیا بابا خواب پوری سیٹ پر اور ان کو دیکھنے والا ایک کونے میں
؟
ہاں بیٹے کوئی انسان جب بہت سارے خواب دیکھ لیتا ہے تو یہی ہوتا ہے کہ اسے
ایک کونے میں دبک کر بیٹھ جانا پڑتا ہے۔
بابا کیا آپ ان لوگوں کو جانتے ہیں ؟
میں ا نہیں ذاتی طور پر تو نہیں جانتا مگر اتنا پتہ ہے کہ یہ لوگ سامنے زیر
تعمیر عمارت کے مزدور ہیں ۔
اچھا آپ ان کو نہیں جانتے پھر بھی ان کے بارے میں اتنا سب کچھ جانتے ہیں ۔
ہاں بیٹے یہ عمومی باتیں ہیں جو مزدور اور ساہوکار دونوں میں مشترک ہوتی
ہیں ۔
اچھا تو کیا ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا؟
ظاہر کا فرق ہوتا ہے جیسے تمہارے ابو کا پہیے والا بیگ اور یہ لوہے کی پیٹی
لیکن اندر کا مال میرا مطلب خواب یکساں ہوتے ہیں۔
اس دوران آٹو رکشا چل پڑا تھا ۔ رخصت کرنےکے لیے آنے والے دونوں لوگ وہیں
کھڑے رکشا کو دور تک جاتے ہوئے دیکھتے رہے ۔
للن نے پوچھا یہ لوگ جاتے کیوں نہیں؟ یہ کیا دیکھ رہے ہیں؟؟
بیٹا یہ چلے جائیں گے لیکن فی الحال خواب دیکھ رہے ہیں ۔
خواب ؟ کیسا خواب ؟؟
ویسا ہی خواب جو صندوق میں بند ہوکر جارہا ہے۔
بابا لیکن یہ لوگ آتے کہاں سے ہیں ؟
یہ میں نہیں جانتا بیٹے کہ یہ کہاں سے آتے ہیں ؟ لیکن جہاں بھی تعمیر و
ترقی کا کام شروع ہوتا ہے یہ وارد ہو جاتے ہیں ۔
اور جب یہ کام ختم ہوجائے گا تو کیا ہوگا ؟
تو یہ لوگ نکل جا ئیں گے ۔
للن نے حیرت سے پوچھا لیکن بابا اس وقت یہ کہاں جائیں گے؟
بیٹے للن یہ تو وہ بھی نہیں جانتے کہ کہاں جائیں گے؟ اس لیے میں کیسے جان
سکتا ہوں ؟
اچھا تو کیا کوئی بھی نہیں جانتا کہ یہ کہاں جائیں گے ؟
بیٹے ایسا ہے کہ جس نے دنیا بنائی ۔ ان کو اور ہم کو بنایا وہی سب جانتا ہے
۔ باقی کوئی کچھ نہیں جانتا ۔
نہیں بابا ایسی بات نہیں آپ بھی بہت کچھ جانتے ہیں۔ مجھے بتائیے کہ یہ
کہاں جائیں گے؟
بیٹے میں اس جگہ کا پتہ تو نہیں بتا سکتا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ جہاں بھی
یہ جائیں گے وہاں تعمیر و ترقی کا کام ہورہا ہوگا۔
اچھا تو کیا اس صندوق میں تعمیر و ترقی کی اجرت بند ہوتی ہے؟
اجرت تو نہیں ہاں خواب ہوتے ہیں بیٹے نرم و نازک خواب ۰۰۰۰۰
للن نے کہا سمجھ گیا پانی کے بلبلے جو کچھ دیر ہوا میں تیر کر معدوم ہوجاتے
ہیں ۔ میں سمجھ گیا ۔
کلن نے پوچھا بیٹے تم بار بار ۰۰۰۰۰۰۰۰
للن نے اپنے دادا کا جملہ کاٹ دیا اور بولا بابا مجھے وہ کھیل بہت پسند ہے۔
بڑا مزہ آتا ہے۔
|