امیت شاہ نے لال کرشن اڈوانی کا ٹکٹ کاٹ کر گاندھی نگر سے
انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ بھی وزیر داخلہ
بننے کا سپنا سجارہے ہیں ۔ ایل کے اڈوانی بھی پہلے پارٹی کے صدر تھے ۔ اس
کے بعد وزیر داخلہ اور پھر ڈپٹی وزیر اعظم بنے ۔آگے چل کر رتھ کےاس پہیے
کی ہوا سومناتھ سے گجرات کی سرحد تک ساتھ چلنے والے سارتھی نریندر مودی نے
نکال دی اور خود وزیر اعظم بن گئے۔ یہ حسن اتفاق ہے بابری مسجد کی شہادت کے
وقت ایودھیا جانے والا کوئی بھی رہنما وزیر اعظم نہیں بن سکا اور اب تو وہ
نسل کیفرِ کردار کو پہنچ چکی ہے ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کی ایوان پارلیمان
میں ’انٹری‘ بہت دھماکے دار تھی ۔ یکے بعد دیگرے انہوں نے تین طلاق کا
قانون ، شہریت کے قانون میں ترمیم (سی اے اے) اور جموں کشمیر کے دفع 370 کو
منسوخ کرکے اپنی ہیٹ ٹرک پوری کی لیکن اس کے بعد اچانک منظر سے غائب ہوگئے۔
آج کل تو ایوان پارلیمان میں کچھ بولنا تو دور وہ نظر بھی نہیں آتے ۔
دراصل سرکس میں کئی لنگور کھیل دکھاتے ہیں لیکن جو زیادہ اچھل کود کرتا ہے
وہ بہت جلد تھک کر بیٹھ جاتا ہے۔
وزیر داخلہ کو چونکہ انتخابی مہمات سے فرصت نہیں ملتی اس لیے وزارتِ داخلہ
سے جو سوالات کیے جاتے ہیں ان کا جواب دینے ذمہ داری مرکزی وزیر مملکت
برائےامورِ داخلہ نتیانند رائے کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ بی جے پی کے لیے یہ
باعث ِعافیت ہے کیونکہ ابھی حال میں امیت شاہ کی ایک ویڈیو ذرائع ابلاغ میں
گردش کررہی ہے جس میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پورے ملک میں بھارتیہ جنتا
پارٹی کے 86 لاکھ کارکنان سرگرمِ عمل ہیں ۔ وہ اس تعداد کو دوہرانے کے بعد
انگریزی میں یہ تعداد 46 لاکھ بتاتے ہیں ۔ دو جملوں کے اندر جو شخص 40 لاکھ
کا گھپلا کردے وہ اگر ایوان پارلیمان میں سرکاری اعدادو شمار بتانے لگے تو
حکومت کی کیا مٹی پلید ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ نتیانند رائے
نے امسال 30نومبر کو ایوانِ زیریں میں ارکان پارلیمان کو یہ یقین دہانی
کرائی کہ حکومت نے شہریوں کا قومی رجسٹر (این آر سی) تیار کرنے کی بابت
ملک گیر مشق کرنے پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ یہ بات پارلیمنٹ کے
مانسون اجلاس کے دوران بتائی گئی تھی اور اب سرمائی سیشن میں اسے دوہرایا
گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فی الحال یہ معاملہ ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا
گیا ہے۔ ویسے بینڈ باجے والے میڈیا کی مدد سے کسی معاملہ کو فریج سے نکال
کر تندور کے اندرڈالنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔
حکومتِ وقت نے پڑوسی ممالک کو اپنی شہریت دینے کے لیے تو قانون بنا دیا
لیکن اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ ہندوستانی
شہریت سے دستبردار ہونے والے لوگ لاکھوں میں ہیں ۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق
پچھلے پانچ سالوں میں 6 لاکھ سے زیادہ ہندوستانیوں نے اپنی شہریت ترک کردی
۔ یعنی مودی جی کے نئے بھارت میں آنے کے خواہشمند تو صرف دس ہزار لوگ ہیں
اور بھاگنے والے 6؍ لاکھ ، کیا یہ مسئلہ قابلِ غور نہیں ہے۔ مودی جی کا
دعویٰ تھا پہلے لوگ ہندوستانی ہونے کو پچھلے جنم کا پاپ کہہ کر شرمندہ ہوتے
تھے ۔ اب فخر کے ساتھ لوٹ رہے ہیں لیکن یہ صرف تقریر کی حدتک ہے ۔ مرکزی
وزیر داخلہ نتیانند رائے کے انکشاف کو سالانہ طور پر دیکھیں تو 2017 میں
1,33,049، 2018 میں 1,34,561، 2019 میں 1,44,017، 2020 میں 85,248 اور 30
ستمبر 2021 تک 1,11,287 نے اپنی شہریت ترک کی تھی۔ ان اعدادو شمار سے پتہ
چلتا ہے کہ 2017 سے 2019 تک اس تعداد میں معمولی سہی اضافہ ہوتا رہا لیکن
2020 کے اندر چونکہ کورونا کی وباء کے سبب آمدورفت بند ہوگیا تھا اس میں
کمی آئی ۔ اب 2021 کے 9مہینوں کی تعداد دیکھ کر یقین ہوجاتا ہے کہ اس سال
پچھلے ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے۔
بنگلہ دیش کے بارے میں حقارت سے کہنے والے وزیر داخلہ کو کہ وہاں کھانے کو
نہیں ملتا اس لیے لوگ ہندوستان میں در اندازی کرتے ہیں یہ معلوم کرکے دکھ
ہوگا کہ وزارت خارجہ کے مطابق 1 کروڈ 33 لاکھ 83 ہزار 718 ہندوستانی بیرون
ملک مقیم ہیں۔ سوال یہ ہے اتنی بڑی تعداد اس ملک سے باہر کیوں چلی گئی؟
امیت شاہ کو دوسروں پر طنز کرنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا
چاہیے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2014 سے 2018 کے درمیان 23000 کروڈ پتی ملک چھوڑ
کر چلے گئے۔ 2015میں ایسے لوگوں کی تعداد صرف 4,000 تھی جو 2016میں بڑھ کر
6,000 ہوگئی 2017 کے اندر اس میں مزید اضافہ ہوا اور وہ 7,000 پر پہنچ گئی۔
یہ امیر کبیر لوگ 6.5 کروڈ سے زیادہ دھن دولت کے مالک تھے پھر بھی ملک چھوڑ
کر بھاگ گئے۔ ان میں وزیر اعظم کے چہیتے میہول چوکسی اور نیرو مودی بھی
شامل ہیں جن کی واپسی کی خبریں سنتے سنتے عوام کے کان پک گئے اور جیل میں
ان کے کمرے کی تصاویر دیکھتے دیکھتے آنکھ میں موتیا بندپڑ گیا۔
وزیر اعظم بیرون ممالک رہنے بسنے والے ہندوستانیوں پر خوب فخر جتاتے ہیں
مگر وہ ملک کے لیے کس طرح مہنگے پڑ سکتے ہیں اس کا مظاہرہ حالیہ نیوزی لینڈ
اور ہندوستان کے درمیان ٹسٹ میچ کی سیریز میں ہورہا ہے۔ نیوزی لینڈ کے
گیندباز اعجاز پٹیل فی الحال اپنی جنم بھومی ممبئی کے وانکھیڈے اسٹیڈیم میں
ہندوستان کے خلاف کھیل رہے ہیں ۔ یہاں پر انہوں نے دوسرے ٹسٹ کی ایک اننگ
کے تمام 10 وکٹ حاصل کر کے انیل کمبلے اور جیم لیکر کے ریکارڈ کی برابری
کرلی ۔ یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے کہ جسے کوئی توڑ نہیں سکتا۔ یہ وہی اعجاز
پٹیل ہے جس نے ایک اور ہندوستانی رچن رویندر کے ساتھ مل کر ہندوستانی ٹیم
کو پہلے ٹسٹ میچ میں کامیابی سے محروم کردیا تھا جبکہ نیوزی لینڈ کے ۹ وکٹ
گرچکے تھے اور میچ تقریباً ہندوستان کے پالے میں آگر اتھا ۔ ایسے میں یہ
دونوں ہندوستانی نژاد کھلاڑی دیوار بن کر ڈٹ گئے اور نتیجہ برابری پر چھوٹ
گیا جبکہ جام بالکل ہونٹوں پر آچکا تھا ۔
شہریت ترک کرنے کی وجہ معاشی ابتری بھی ہے۔ کورونا وباء کے دوران مرکزی
وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن نے معاشی خوشحالی کے لیے لاکھوں کروڈ کے پیکیج
کا اعلان کیا اس کے باوجود سرکار کے مطابق سن 2020 میں 11716 کاروباریوں نے
خودکشی کر لی۔ یہ تعداد 2019 میں 9052 تھی یعنی گزشتہ سال کے مقابلہ یہ 29
فیصد کا اضافہ معمولی نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کردیا جائے۔ ایک طرف مودی
جی کے چہیتے اڈانی کی آمدنی میں یومیہ ایک ہزار کروڈ سے زیادہ کا اضافہ
ہوتا ہے اور دوسری طرف ہر روز 32تاجر خودکشی کرتے ہیں۔ ملک میں پہلے کسانوں
کے اندر خودکشی کی وارداتیں زیادہ ہوتی تھیں مگر معاشی تناؤ اور بحران کے
سبب تاجروں نے ان پر سبقت حاصل کرلی ہے۔2015 سے موازنہ کریں تو اس وقت ایک
کاروباری پر 1.44 کسان خودکشی کرتا تھا لیکن 2020 میں ہر کسان پر 1.01
کاروباری نے خودکشی کی ہے ۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق 2020 میں 10677
کسانوں نے بھی خودکشی کی مگر یہ تعداد تاجروں سے کم ہے۔ ظاہر ہے ان میں
چھوٹے کاروباریوں کی اکثریت ہو گی۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ کورونا کی دوسری
لہر میں لوگوں پر اور بھی زیادہ اثر پڑا ہے۔ ایسے میں 2021 کی صورتحال بھی
اسی طرح کی ہو سکتی ہے۔
ملک کے اندر خودکشی واقعات صرف کسانوں اور تاجروں تک محدود نہیں ہیں ۔ اسی
ہفتہ جموں وکشمیر کے بانہال علاقے میں ایک فوجی جوان نے مبینہ طور پر اپنی
ہی سروس رائفل سےخود کشی کر لی۔متوفی جوان کی شناخت تیج پال سنگھ کے بطور
ہوئی جو چملواس آرمی کیمپ میں تعینات تھا۔ اس کے چند دن بعد ایک اور فوجی
حوالدار شندے سندیپ ارجن نے خودکشی کرلی ۔ جموں و کشمیر کے حالات پر نظر
رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز میں خودکشی کے بڑھتے رجحان
کی وجہ سخت ڈیوٹی، اپنے عزیز و اقارب سے دوری اور گھریلو و ذاتی پریشانیاں
ہیں۔ حکومت نے اگرچہ سیکورٹی اہلکاروں کے لئے یوگا اور دیگر نفسیاتی ورزشوں
کو لازمی قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود جموں و کشمیر میں جوانوں کی خودکشی
کے واقعات گھٹنے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سال
2010 سے 2019 تک ملک میں 1113 فوجی اہلکاروں کی خودکشی کے مشتبہ واقعات درج
کیے گئے۔ اس لیے وزیر اعظم کو فوجیوں کے ساتھ دیوالی منانے اور تصاویر
کھنچوانے کے بجائے ان کے فلاح بہبود کی خاطر سنجیدہ ہونا چاہیے۔ یہ سنجیدگی
نہ صرف فوجیوں کے تئیں بلکہ ملک کے سارے دبے کچلے لوگوں کی جانب ہونی چاہیے
لیکن بدقسمتی سے یہ سرکار انتخاب کے سوا کسی اور معاملے میں یکسو ہی نہیں
ہے اورپوری قوم اس کی بہت بڑی قیمت ادا کررہی ہے۔ ان لوگوں پر غلام محمد
قاصر کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
کریں گے کیا جو الیکشن میں ہو گئے ناکام
انہیں تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
|