میں 1971 ء میں فرسٹ ائر میں پڑھتا تھا۔ مشرقی پاکستان کے
حالات بہت خراب تھے۔ اور جنگ کے خطرات منڈلا رہے تھے۔ ہمارے کالج کے گراؤنڈ
میں بھی کسی خطرے کے پیش نظر خندقین کھدنا شروؑع ہو چکی تھیں۔
جنگ کے بادل تو منڈلا ہی رہے تھے اور پاکستان اور انڈیا کی گاہے بگاہے
متواتر جھڑپین اس بات کی غماز تھیں کہ حالات ٹھیک نہین ہیں اور جنگ چھڑنے
والی ہے۔ 3 دسمبر سے ہندوستان اور پاکستان کی باقاعدہ جنگ شروع ھوئی۔ مجھے
اچھی طرح یاد ہے ہم اپنے کالج کے گراؤنڈ میں بیٹھے تھے کہ یکا یک خطرے کا
سائرن بجا اور ہم سب اٹھ کر خندقون کی طرف بھاگے اور جو جس خندق کے قریب
تھا اسنے اس میں پناہ لے لی۔ بھارت کے جنگی جہاز ایکدم نمودار ہوئے اور
انہوں نے شیلنگ شروع کر ددی جسکے نتیجے میں ایک مالگاڑی کو آگ لگ گئی اور
آسمان پر دھویئں کے بادل چھا گئے۔ معلوم ہوا کہ تیل لیجانے والی گاڑی پر
حملہ کیا گیا ہے۔ تقریباً 25 منٹ کے بعد پھر سائرن بجا جسکا مطلب تھا کہ
خطرہ ٹل گیا ہے۔ ہمارے ابا کو خبریں سننے کا بہت شوق تھا وہ بازار سے ایک
این ای سی کا نیا ریڈیو خرید کر لائے جو تین بینڈ کا تھا اور کسی کو اسے
ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی حالانکہ یہ ریڈیو صرف 45 روپے کا تھا۔ ہمیں ابا
ہی بتایا کرتے تھے کہ مشرقی پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ آ ئیں دیکھیں کہ
مشرقی پاکستان کے وہ اقتصادی، سیاسی معاشرتی، عسکری اور معاشی حالات کیا
تھے جن کی وجہ مشرقی پاکستان کی علیھدگی ہوئی۔
پاکستان میں امن و امان کی صورت حال انتہاء خراب تھی، اس وقت کی فوجی حکومت
مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈنے کی بجائے عوامی لیگ کیخلاف فوجی ایکشن لینے کا
فیصلہ کر چکی تھی۔ عوامی لیگ کو غیر قانونی پارٹی قرار دے دیا گیا اور
عوامی لیگ کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ اس قدم نے جیسے آگ کو
ہوا دے دی ہو۔ ہتھیار بند فوجی عوامی لیگ کی علیحدگی کی ہلچل کیخلاف سخت
اقدامات اٹھائے گئے جس سے بنگالیوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی تھی کہ
ان کی بدحالی کا ذمہ دار مغربی پاکستان ہے۔ اس بات پر بنگالیوں میں شدید
حقارت کا جذبہ پیدا ہوا اور انہوں نے ہتھیار اٹھا کر جدوجہد کا آغاز کیا۔
صدیق سالک اپنی کتاب ''میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا '' میں بنگالیوں کی حالت
زار بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں دھاکہ کے سفر کے دوران کافی ملول رہا
مجھ سے بھوکے ننگے بنگالیوں کی یہ حالت زار نہیں دیکھی جاتی تھی جب وہ اپنے
ننگ دھڑنگ بچوں کیساتھ غول کے غول ہماری گاڑی کے سامنے آتے اور ہم سے گڑگڑا
کر خیرات مانگتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے انتہای نحیف بوڑھون اور
انتہائی ایسے بچوں کو دیکھا جنکے جسم کی ہڈیاں نکلی ہوئی تھیں۔مجھے ایسا
محسوس ہوا کہ میں فاقہ زدہ لوگوں کی بستی میں آ گیا ہوں۔ ہر سال سیلاب کی
صورت حال نے مشرقی پاکستان کے انفرا سٹرکچر کو تباہ و بر باد کر دیا ٹوٹی
ہھوٹی سڑکیں، خستہ حال عمارتیں اور ٹوٹے پھوٹے پل اپنی خستہ حالی کی تصویر
بنے کھڑے تھے مگر انہیں درست کرنا حکومت کی اہمیت میں شامل نہ تھا۔ مشرقی
پاکستان تباہی کی منہ بولتی تصویر تھا۔ عام بنگالیوں کی آنکھوں میں مغربی
پاکستان کے خلاف نفرت صاف جھلکنے لگی تھی جو لوگ مشرقی پاکستان کیمعاشرتی
اقتصادی اور معاشی طور پر کہیں بد حالی کا شکار تھیوہ مغربی پاکستانیوں سے
نفرت کرتے تھے کیونکہ وہ یہ بات سمجھتے تھے کہ ہماری بد حالی میں انکا ھاتھ
ہے اور یہ بات درست تھی۔ اسی طرح پاکستانی افواج پربنگلہ دیش میں 30 لاکھ
بنگالیوں کا قتلِ عام اور 8 لاکھ بنگالی عورتوں کی عصمت دری کا الزام بھی
ہے۔
ہم آ ج بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت
نے بنگالی عوام سے جو غیر انسانی سلوک روا رکھا تھا اس کا منطقی انجام
بنگلہ دیش کے قیام ہی کی صورت میں نکلنا تھا جس نے ہمارے دو قومی نظریہ کو
دھڑام سے گرا دیا۔ اور ہمیں اس بات سے انکار نہیں کرنا چاہئے کہ قوموں کی
حیثیت انکے معاشی اور اقتادی حالات پر منتج ہے۔
یحییٰ خان نے اپنے آپ کو بے بس پاتے ہوئے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا۔ اس
کے نتیجے میں عوامی لیگ نے جو بجا طور پر اقتدار میں آنے کی منتظر تھی
مشرقی پاکستان میں ہنگامے شروع کر کے وہاں موجودمغربی پاکستان سے تعلق
رکھنے والے افراد کا قتل عام شروع کر دیا۔ شیخ مجیب الرحمن کو حراست میں لے
کر مغربی پاکستان منتقل کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ فوج جو زیادہ تر
مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجیوں پر مشتمل تھی بیرکوں میں پابند کر
دی گئی اور اس طرح عوامی لیگ کے غنڈوں کو قتل و غارت کی کھلی چھٹی مل گئی۔
اس کے علاوہ ایسٹ بنگال کی انفنٹری یونٹوں نے بغاوت کر کے اپنے افسروں کو
جو زیادہ تر مغربی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے اذیتیں دے کر قتل کر دیا۔ کچھ
فوجی یونٹوں پر باقاعدہ حملہ کر کے ان کے جوانوں کو بے دردی سے ہلاک کیا
گیا۔
پاکستان کے قیام میں مشرقی بنگال کے عوام کا بنیادی اور اہم کردار رہا مگر
قیام پاکستان کے بعد نئے ملک کے دارالحکومت کراچی میں قائم ہونے والی مرکزی
حکومت نے اکثریت صوبہ مشرقی پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا
جس کے نتیجے میں بنگالی آبادی میں احساس محرومی پیدا ہونا شروع ہوا۔ اور
انہوں نے پاکستان سے علیحدگی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔
کیا حالات کو اس نہج پر پہنچانے کا صرف مجیب الرحمن ہی ذمہ دار ہے یا وہ
لوگ بھی جو ان کی قومی اسمبلی میں اکثریت قبول کرنے پر تیار نہیں تھی
کیونکہ ان کو متحدہ پاکستان میں اپنا دور اقتدار دور دور تک نظر نہیں آرہا
تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی وابستگی سے قطع نظر ان افراد کے چہروں کو
بے نقاب کیا جائے جنہوں نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ہم
ابھی تک مختلف قومیتوں میں بٹ کر آپس میں اپنے اپنے مفاد کی خاطر دست و
گریبان ہیں۔
ہم بنگلہ دیش کی آزادی کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے بھارت کی سازش اور
جارحیت قرار دیتے ہیں۔ہم بنگلہ دیش میں ہوئے والے فوجی آپریشن کا مختلف
حیلوں بہانوں سے دفاع کرتے اور بنگالیوں کے قتل عام کو مبالغہ آرائی قرار
دیتے ہیں۔ہمارا ریاستی بیانیہ اور میڈیا بنگلہ دیش کی آزادی اور خود مختاری
کو مشکوک سمجھتا اور اسے بھارت کی’نوآبادی‘ قرار دیتا ہے۔
اردو جسے مغربی پاکستانی تسلط کا نشان سمجھا جاتا تھا کے خلاف مہم اتنی شدت
اور وسعت اختیار کرگئی تھی کہ کہیں بھی اردو میں لکھا ہوا سائن بورڈ نظر
نہیں آتا تھا۔تمام دوکانوں اور شاہرات پر انگلش اور بنگالی میں لکھے ہوئے
بورڈز آویزاں تھے۔۔اردو سے اتنی زیادہ نفرت ہونا شروع ہو گئی یہاں تک کہ
طلباء کو یہ کہتے سنا گیا کہ ہم نے قرآن حکیم کی تلاو ت ترک کردی ہے کیونکہ
وہ اردو رسم الخط میں لکھا ہے‘۔
مارچ 1970ئکو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تاکہ اکثریتی پارٹی
اپنا وزیراعظم چُن کر حکومت کی تشکیل کر سکے۔ ڈھاکہ کو ایوب خان نے پاکستان
کے دوسرے دارالخلافے اور بنگالی کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا۔
تیاریاں مکمل ہونے کے باوجودبھٹو نے اسمبلی سیشن میں جانے سے نہ صرف خود
انکار کر دیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ اگر مغربی پاکستان کی کسی دوسری
پارٹی کے افراد اس میں شامل ہوئے تو واپس آنے پر ان کی ٹانگیں توڑ دی
جائینگی۔ انہیں چاہیے کہ وہ ایک طرف کا ٹکٹ لے کر جائیں اور یہ نعرہ بھٹو
ہی نے تو لگایا تھا کہ ادھر ہم ادھر تم۔ اس کا واضح مطلب تھا بھٹو کے ذہن
میں متحدہ پاکستان کی کوئی صورت باقی نہیں رہی تھی۔
ادھر صدیق سالک اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جنرل نیازی جو کہ اسوقت مشرقی
پاکستان میں فوج کی کمانڈ کر رہے تھے انتہائی لا پرواہ اور شرابی تھے جسے
انہوں نے کئی بار کہا بھی مگر وہ باز نہ آئے۔ صدیق سالک اپنی کتاب میں نے
ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا میں اپنے واقعات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جنرل نیازی،
16 دسمبر کو ہتھیار ڈالنے سے قبل جنرل نیازی بھارتی جنرل ناگرہ کو فحش
لطیفے سنارہے تھے۔ اسی طرح وہ لکھتے ہیں کہ جنرل نیازی شراب اور شباب کا
رسیا تھا ہر روز گاڑی میں نئی نئی خواتین لاتا اور ان سے عیاشی کڑتا۔ اور
شراب کے نشے میں دھت رہتا۔ جنرل فرمان علی کہتے ہیں کہ میں انہیں منع کیا
کرتا تھا کہ آپ ایسے مت کریں کہیں کوئی آپکو مار نہ دے مگر یہ شخص باز نہ
آیا۔ انکا ذہن صاف تھا نہ ان کا ضمیر۔ان کی کاروائیاں مظالم سے پاک نہیں
تھیں۔وہ مکافات عمل سے خوفزدہ تھے۔ ان کی حالت جذبات سے عاری تھی ان کی
بظاہر مسکراہٹ اور بلند وبانگ دعوے کھل کر سامنے آ چکے تھے۔لوگوں نے انھیں
اپنے دفتر میں نشے کی حالت میں روتے ہوئے دیکھا تھا۔وہ اب خواہ کچھ کہتے
رہیں اور کتنے ہی بہادر بنتے رہے مگر صدیق سالک اور دیگر مصنفین کی کتابوؐں
میں لکھے گئے واقعات سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی حالت
بڑی قابل رحم تھی وہ بڑی بے بسی کے ساتھ ہر اس شخص سے مدد کے خواہا ں تھے
جو ان کے خیال میں کسی قسم کی مدد کرسکتا تھا۔ جنرل فرمان علی خان کے الفاظ
اس بات کا اشارہ ہیں جنرلز کے لئے مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیشن بننا کوئی
غیر معمولی واقعہ نہیں تھا۔
8 لاکھ بنگالی عورتوں کی عصمت دری 30 لاکھ بنگالیوں کے قتل عم اور کے بعد
بالآخر بنگالیوں کی انقلابی ''مُکتی باہنی'' سے شکست کھائی اور اتنے بڑے
انسانی سانحے کے بعد ہندستانی فوج بنگلہ دیش میں بنگالیوں کی مدد کے لیے آ
گئی،جس کے سامنے ڈھائی لاکھ پاکستانی فوجیوں نے سرینڈر کرکے اپنے ہتھیار
ڈال دیے۔ جنرل فرمان علی کہتے ہیں کہ 16 دسمبر کو ہتھیار ڈالنے سے قبل جنرل
نیازی بھارتی جنرل ناگرہ کو فحش لطیفے اور اشعار سنارہے تھے۔ جنرل فرمان کے
بقول جنرل نیازی بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکے تھے ان کی حالت جذبات سے عاری گڑیا
کی سی ہوگئی تھی ان کی مسکراہٹ اور بلند وبانگ دعوے کافور ہوچکے تھے۔ ان کی
حالت بڑی قابل رحم تھی وہ بڑی بے بسی کے ساتھ ہر اس شخص سے مدد کے خواہاں
تھے جو ان کے خیال میں کسی قسم کی مدد کرسکتا تھا‘ مگر ایسا نہ ہو سکا اور
انہوں نے ہتھیار ڈال دئے۔
16 دسمبر1971ء کا دن نمو دار ہو چکا ہے دن کے تین بج چکے ہیں اور پورا شہر
جنرل نیازی کی تذلیل کے مناظر دیکھنے کو امڈ آیا ہے۔لاکھوں لوگوں کے بھرے
مجمعے میں جنرل نیازی نے سقوط ڈھاکہ کی دستاویز پر اپنے دستخط کئے اور جنرل
اروڑہ کے سامنے اپنا پسٹل نکال کر رکھ دیا اور خود کو انکے حوالے کر دیا۔
تین بجے اور چار بجے کا وقت تھا جب بھارتی جنرل جگ جیت سنگھ اروڑا نے اعلان
کیا اے مغربی پاکستان کے لوگو! جو مشرقی بازو میں قیام پذیر ہو‘ نہ گھبراو?۔
اب تمھاری حفاظت پاکستانی جنرل عبداﷲ نیازی نہیں بلکہ بھارتی جنرل جگ جیت
سنگھ اروڑا کریں گے۔- 16 دسمبر 1971ء کے معاہدہ جنگ بندی کے الفاظ (ہتھیار
ڈالنے کے معاہدہ کے الفاظ) کچھ اس طرح تھے: ''لیفٹیننٹ جنرل جگ جیت سنگھ
اروڑا تصدیق کرتے ہیں کہ ہتھیار ڈالنے والوں کے ساتھ جنیوا معاہدہ کے تحت
عزت دارانہ سلوک کیا جائے گا اور وہ تمام لوگ جو مغربی پاکستان سے تعلق
رکھتے ہیں انھیں جنرل جگ جیت سنگھ اروڑا کے تحت محافظت دی جائے گی۔ یوں
ہمارا ایک بازو ہم سے علیحدہ کر دیا گیا اور16 ڈسمبر 1971ء کو مشرقی
پاکستان، بنگلہ دیش کے نام سے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر
ابھرا۔ 50 سال کا طویل عرصہ ہو چکا ہے مگر ہم نے اس واقعے سے کچھ نہیں
سیکھا اور ہماری پرانی عادات جوں کی توں ہیں۔ ہم کیوں نہیں سیکھنا چاہتے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
|