آمنہ اشرف،
دسمبر 15، 2021
دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر میرا وجود تھک سا گیا تھا۔ ہر آسائش پاس تھی
لیکن کہی نہ کہی دل میں ایک ہلچل مچی ہوئی تھی۔ کہتے ہیں جگہ بدلنے سے
انسان کی طبیعت پر تھوڑا سا فرق پڑ جاتا ہے تو میں نے بھی سوچا کہ سفر کرتی
ہوں شاید ناساز طبیعت کو تھوڑا سکون مل جاۓ۔
9 نومبر کو رات نو بجے میری ٹرین نے آنا تھا۔ میں بالکل تیار ہو کے بیٹھ
گئی، صاف ستھرے کپڑے پہنے اور باوضو ہو کے بیٹھی کیونکہ سفر میں کچھ بھی ہو
سکتا تھا اس لیے میری تیاری مکمل تھی۔ میں زندگی میں پہلی بار ٹرین کا سفر
کر رہی تھی اس لیے پرجوش بھی تھی اور تھوڑی گبھراہٹ بھی۔ ٹرین کا سائرن
"ٹھک ٹھک ٹھک" کرتا مجھے مسلسل بلا رہا تھا۔ اللہ کا نام لے کر میں ٹرین
میں سوار ہو گئی جہاں ہر ڈبہ دوسرے ڈبے سے تھوڑا مختلف تھا۔
میں جس ڈبے میں سوار ہوئی اس کا نام "ناشکرا انسان" تھا۔ ایک بار تو ڈر گئی
کہ یہ کیسا نام ہے میرا اس ڈبے سے کوئی تعلق نہیں ہے پھر زرا اپنا آپ دیکھا
تو پتہ چلا کہ جانے انجانے میں، میں بھی اس مرحلے سے گزر جاتی ہوں۔ دل تھام
کے بیٹھ گئی۔ جہاں پر دوسرے مسافر بھی تحمل سے بیٹھے ہوۓ تھے۔ اس ڈبے میں
ایک "بابا" کچھ درس دے رہا تھا کہ ناشکرا انسان کیا ہے:
"بہت خوش نصیب انسان ہیں جو گر بھی پڑے اور اٹھ کے کھڑا بھی ہو جاۓ۔ پھر گر
پڑے، پھر اٹھ کے کھڑا ہو جاۓ۔"
پھر کہا:
"اگر اللہ کی زات اور اس کے افعال کو جاننے کی آرزو ہے تو پھر اس کے احکام
کے اندر داخل ہونا پڑے گا، اور اس فریکونسی کو حاصل کرنا پڑے گا جس
فریکونسی کو پکڑ کر، اچھی طرح سے اختیار کر کے ہم ان افعال کو سمجھ سکتے
ہیں۔"
میں تو ڈر گئی کہ یہ کیسا ڈبہ ہے جس میں بابا یہی کہہ رہا تھا کہ اگر کوئ
نقصان ہو جاۓ پھر بھی شکر ادا کرو اور اگر فایدہ ہو پھر بھی۔ پھر دیکھنا
تمہاری شکر گزاری تمہاری خوش نصیبی کیسے بنتی۔ میرا دل تو دھک دھک کر رہا
تھا میں سوچا کہ اگلے ڈبے میں چلی جاتی ہوں ہو سکتا وہاں کوئ ایسا بابا نہ
بیٹھا ہو۔
پھر میں اگلے ڈبے میں چلی گئ جس کا نام "دیے سے دیا" تھا۔ اور خدا کی کرنی
یہ ہوئ کہ وہاں بھی ایک بابا بیٹھا تھا وہ بھی پچھلے بابے کی طرح بولتا جا
رہا تھا۔ میں ڈرتی ڈرتی آرام سے جا کے بیٹھ گئ۔ وہ بابا کہہ رہا تھا کہ
غریبوں کی مدد کیا کرو اور کہا: "تو نے دتے سے دینا ہے۔ کونسا پلے سے دینا
ہے۔" میں نے سوچا یہ تو پچھلے بابے سے بھی عجیب ہے پتہ نہیں کیسی باتیں کر
رہا ہے، "دتے سے دینا" ہم تو خود کماتے ہیں۔ سارا دن محنت کر کے، ہم تو
اپنی جیب سے دیتے ہیں یہ تو پاگل بابا ہے۔ وہ بابا خضرت مجدد الف ثانی کو
اندر لے آیا اور ان کا ایک قول فرمایا:
" جو شخص تجھ سے مانگتا ہے، اس کو دے۔ کیا یہ تیری انا کے لیے کم ہے کہ کسی
نے اپنا دست سوال تیرے آگے دراز کیا۔"
"دیتے جاؤ تو آتے جاتے ہیں۔ دیتے جاؤ تو آتے جاتے ہیں" ، وہ بابا بس یہی رٹ
لگا رہا تھا۔
میں یہ ڈبہ بھی چھوڑ کر اگلے ڈبے میں چلی گئ جس کا نام تھا "محبوب کون؟" ۔
میں سوچا یہ تو اچھا لگ رہا
ہے اس میں ہو سکتا بابا کوئ
رومانس، شعر وشاعری اور عشق کی بات کر رہا ہو لیکن وہ تو کوئ اور ہی فلسفہ
پیش کر رہا تھا۔ کہنے لگا:
"محبوب وہ ہوتا ہے جس کا نہ ٹھیک بھی ٹھیک نظر آۓ۔"
اور محبوب کی ایک ہی صفت سب سے اعلی ہے کہ وہ ہر چھوٹے، بڑے کو عزت دیتا
ہے۔ محبوب یہ باآور کرواتا ہے کہ لوگوں کو پیسے کی، روپے کی اتنی ضرورت
نہیں ہوتی، جتنی احترام کی، عزت نفس کی، توقیر ذات کی ہوتی ہے۔ نالی صاف
کرنے والا، کچڑا اٹھانے والا، ڈاکیا وہ سب کو عزت دیتا ہے۔
میں منہ بنا کے اگلے ڈبے میں چلی گئ کیونکہ میرا خیال تھا کہ بابا محبوب کی
زلف، اس کی آنکھوں اور لبوں کا تزکرہ کرے گا۔ میں نے وہ ڈبہ بھی چھوڑ دیا
اور اگلے ڈبے میں سوار ہو گئ۔ اس ڈبے کا نام "صبر اور ڈسپلن" تھا۔ وہاں بھی
ایک بابا بیٹھا تھا ایک مسافر نے بابا سے پوچھا کہ صبر کیا ہوتا ہے؟ بابا
نے کہا:
آپ وہاں سے سٹارٹ لے سکتے ہیں کہ جب بہت زیادہ ٹریفک ہو، اور جب گاڑیوں میں
گاڑیاں پھنسی ہوں، آگے نکلنے کا کوئ راستہ نہ ہو، اور آپ اپنی کار چلا رہے
ہوں تو آپ پیں پیں نہ کریں۔ ہارن نہ بجائیں اور نہ صرف ہارن بجائیں بلکہ
Steering پر اپنی انگلیاں بھی بے چینی کے عالم میں نہ بجائیں اس کو صبر
کہتے ہیں۔ بابے نے ایک Scientist کی مثال دی کہ وہ ہر وقت لیبارٹری میں رقص
کرتا ہے، ہمہ تن اس ناچ میں لگا رہتا ہے، صبر کا مظاہرہ کرتا ہے اپنے کام
کے انجام تک۔
The dance of intelligence......dance of life.... The dance of something
to have.....
اس لیے وہ جب چاہے گا، عطا کرے گا۔ ہمیں اپنی جھولی پھیلا کر اس کے خضور
مسلسل رقص کرتے رہنا چاہیے، تاکہ وہ دے۔ اور صبر اختیار کرنا چاہیے، جو وہ
Scientist اپنی ریسرچ میں، اور اپنی تحقیق میں کرتا ہے۔اور صبر انسان کو
ڈسپلن سکھاتا ہے۔اور اس طرح یہ انسان کو ادب کی تعلیم دیتا ہے اور ایسی
ترکیب میں سے گزارتا ہے کہ وہ ڈسپلن کی جانب آ جاتا ہے۔
ہر ڈبے میں ایک سے بڑھ کر ایک بابا تھا۔ میرا تو وجود ہی جیسے ساکن ہو گیا
ہو۔پتہ نہیں کیسی کیفیت طاری ہو گئ مجھ پر۔ میں اپنا کپکپاتا ہوا وجود لے
کر اگلے ڈبے میں چلی گئ جس کا نام "دعا" تھا۔ ہر کوئ یہی رونا رو رہا تھا
کہ دعا کچھ بھی نہیں ہوتی کیونکہ یہ قبول ہی نہیں ہوتی۔ میں بھی چپ چاپ
سائیڈ پر جا کے بیٹھ گئ۔ یہاں پر بابا دعا کے بارے میں بتا رہا تھا۔ دعا تو
بنی اس لیے کہ آپ اپنی عرضداشت لے کر جائیں تھالی میں رکھ کے، روتے ہوۓ،
منہ بسورتے ہوۓ۔ تو اب جب تک کمیونی کیشن نہیں ہوگی، تو بڑی مشکل بات ہو
گی، پھر کیسے درمیان میں رابطہ قائم ہو گا پھر دعا کا قبول ہونا تھوڑا مشکل
ہے۔ بابا نے دعا کے قبول ہونے کے تین رخ بتاۓ۔
ایک یہ کہ جیسی دعا آپ نے مانگی ویسی ہی قبول ہو گئ۔
اور ایک دعا اس کی قبولیت کے لیے، اللہ کو، ظاہر ہے وہ تو مکلف نہیں ہے،
کوئ زحمت نہیں ہو سکتی۔ ایک دعا آپ کی رک جاتی ہے، وہ یہ کہ آپ نے اللہ سے
ایک پھول مانگا ہوتا ہے کہ یا اللہ مجھے نرگس کا ایک پھول عطا کر، مجھے اس
کی بڑی آرزو ہے اور اللہ نے ایک ٹوکرا تیار کر رکھا ہوتا ہے پھولوں کا آپ
کے لیے۔ جب آپ بار بار ایک پھول کی رٹ لگاتے ہیں تو اللہ کہتا ہے کہ میں
اسے کیسے سمجھاؤں کہ میں نے تو اس کے لیے بڑی نعمتوں کی تیاری کر رکھی ہے،
لیکن جب آدمی بہت اصرار کرتا ہے تو اللہ پھر کہتا ہے چلو اسے ایک پھول ہی
دے دو ٹوکرا ابھی رکھ لو۔ لیتا ہی نہیں ہے تو اب کیا کریں۔
تیسرا یہ کہ بعض اوقات دعا مانگی تو جاتی ہے، لیکن وہ رد کر دی جاتی ہے،
ملتوی کر دی جاتی ہے کہ ابھی اس کو یہ نہیں دے گے کیونکہ یہ اس کے اوپر
بھاری پڑ سکتی ہے۔
اور دعا کا اصل مقصد تو انا کو توڑنا، ایک بھکاری کی طرح کشکول لے کر جانا
ہوتا ہے کیونکہ انا اتنی ظالم چیز ہے، اور اتنی متکبر چیز ہے کہ سینٹ
آگسٹائن تھے، نصاری کے بہت بڑے بزرگ صوفی۔ وہ ایک دن دعا مانگ رہے تھے بڑے
خشوع و
خضوع کے ساتھ، اور ان کی دعا مشہور ہے، وہ کہتے ہیں:
"O God make me pious but not today."
اک دن ہور دے دے شرارتاں کرن لئی۔ یعنی اللہ میاں مجھے نیک بنا دے، لیکن آج
ہی نہ بنا دینا تھوڑا سا وقت مجھے مل جاۓ۔
یہ والے بابا تو کچھ الگ ہی تھے۔ اس بابے کی ایک ایک بات میری روح کو ٹکڑا
رہی تھی۔ میری دھڑکن آخری بلندیوں تک پہنچ رہی تھی اور وجود پوری طرح سے
سکتہ حال ہو گیا جب بابے نے کہا:
"کبھی آپ کو دیوار میسر آ جاۓ، اور مغرب کے بعد کا وقت ہو، اور اس سے ڈھو
لگانا نصیب ہو جاۓ اور پھر آپ کا جو Hot line پر کمیو نیکیشن آرام آرام کے
ساتھ، پھر وہ دعا جو چلتی ہے، ادھر سے اس کا Response ملتا ہے، اور آپ کو
پتا چلتا ہے کہ ہاں یہ دعا قبولیت کے دروازے میں داخل ہو گئ ہے۔ بعض اوقات
کوئ خفت شرمندگی جو ہے، وہ بھی دعا کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ یہ چلتی رہتی
ہے جونہی آدمی خفیف ہوا، شرمندہ ہوا، اس کی انا ٹوٹی، وہ بڑی نعمت کی گھڑی
ہوتی ہے، پھر انسان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں وہ ابدیت کے دائرے میں پورے
کا پورا سما جاتا ہے۔"
ایک عجیب کشمکش پیدا ہوگئی میرے اندر۔ ایک دوسرا مسافر بولا کہ بابا مسلمان
کون ہوتا ہے؟ بابا کہنے لگے جس کا دل صاف ہو اور ہاتھ گندے ہوں، جو بھائیوں
کے کام کرتا رہے گا، اس کے ہاتھ تو گندے ہوں گے، جو آرام سے بیٹھا ہو گا
دستانے پہن کے، اس کا تو کچھ نہیں خراب ہوناہے۔ تو مسلمان وہ ہوتا ہے جو اس
کا گارا لگاتا ہے، اینٹ اٹھاتا ہے، لکڑیاں لاد کر لاتا ہے، جو روتا ہے تو
اس کے آنسو پونچھتا ہے، وہ ہوتا ہے مسلمان۔
میں بھاگ کر اگلے ڈبے میں چلی گئ پانی پیا اور تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند
کر لیں۔ یہ ڈبا "Snap Shot" تھا۔ لوگ بابے سے پوچھ رہے تھے کہ ہماری آرزو
قبول کیوں نہیں ہوتی؟ بابا کہنے لگا کیسے ہو گی جب ہر وقت آپ اپنے آپ کو
ماضی کی یادوں میں پھنساۓ رکھو گے اور اگر آرزو تھوڑا سا رستہ بنا لے تو آپ
خود ہی اس کے آگے آ جاتے ہو۔ اس لیے جب آپ نے پورے ایک فریم ورک کے اندر
ارادہ باندھ کے چھوڑ دیا، پھر اس کو راستہ دو۔ اور ہمارے بزرگ بھی یہی کہتے
تھے کہ خدا کے لیے اپنی آرزو کو راستہ دو، اچھی بری جیسی کیسی ہے اس کو
راستہ دو۔
مجھ سے اب اور نہیں سہہ جا رہا تھا مجھے کیا پتہ تھا کہ پہلی بار میں ٹرین
کا سفر اس طرح سے کروں گی۔ پچھلے سارے بابوں سے مل کر مجھے اب اصل بابے کی
تلاش تھی۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ کونسا ڈرائیور اتنے سارے بابوں کو لے کر
ٹرین کا چلا رہا ہے۔ میری سانسیں پھولی ہوئ تھی میں بھاگتی ہوئی آگے بڑھی
تو ڈرائیور کی سیٹ پر "اشفاق احمد صاحب" بیٹھے ہوۓ تھے ان کو دیکھ کر تو
جیسے دل کی دھڑکن رک ہی گئ ہو۔ پھر مجھے پتہ چلا کہ اس ٹرین کا نام "زاویہ"
ہے۔ میرے ماتھے پر عجیب سے بل پڑے تو مجھے اشفاق صاحب کہنے لگے جب آپ ماتھے
پر سلوٹیں ڈالتے ہیں تو آپ کے 72 مسلز یعنی عضلات کام کرتے ہیں اور اگر
مسکرائیں تو صرف دو مسلز ٹینشن میں آتے ہیں یا Tension feel کرتے ہیں۔ کتنا
آسان کام ہے لیکن ہو نہیں پاتا۔
ان کی یہ بات سن کر میں تھوڑی ٹھنڈی ہو گئ اور جھٹ سے اشفاق صاحب سے پوچھا
کہ یہ کن بابوں کو آپ اپنی زاویہ ٹرین میں بٹھاۓ ہوۓ ہیں۔ یہ بابا کون ہوتا
ہے؟ اشفاق صاحب مسکراۓ اور کہنے لگے:
"بابا وہ شخص ہوتا ہے جو دوسرے انسان کو آسانی عطا کرے۔ مرد، عورت، بوڑھا،
بچہ، نوجوان یہ سب لوگ کھبی نہ کبھی اپنے وقت کے بابے ہوتے ہیں اور ہو
گزرتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی میں کسی شخص کو آسانی عطا کر رہے ہیں تو آپ
بابے ہیں۔"
مجھے تو یہ بات سن کر تھوڑا سکون سا مل گیا۔ میرا یہ سفر کب ختم ہوا پتہ ہی
نہ چلا لیکن ہر ڈبے کا بابا مجھ پر سفر کا اثر چھوڑ گیا۔ چونکہ "زاویہ کی
ٹرین"، روح جہاں کے سفر میں، میں پہلی بار بیٹھی تھی تو سوچا آپ سب سے بھی
اپنا سفر شئر کر دوں۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرماۓ، اور آسانیاں تقسیم
کرنے کا شرف عطا فرماۓ( آمین ) ۔ اللہ حافظ! |