اس سال یوم انسانی حقوق کا دن معروف سماجی کارکن سدھا
بھاردواج کی ضمانت پر رہائی کا پیغام لے کر وارد ہوا۔ یہ نہایت خوشی کا
مقام ہے کہ ممبئی کی ایک خصوصی این آئی اے عدالت نے سدھا بھاردواج کو 50000
روپے کے مچلکے پر جیل سے رہا کرنے کی اجازت دے دی ہے لیکن اس کی راہوں میں
جوقانونی موشگافیاں ہوئیں انہیں دیکھ کر اگر شرم نہیں تو کم ازکم ہنسی ضرور
آتی ہے۔ اس مخلص سماجی کارکن کو 3 سال اور 4 ماہ بعد باعزت بری نہیں کیا
گیا بلکہ صرف ضمانت دینے کا احسان کیا گیا اوریہ کام اس لیے نہیں کیا گیا
کہ یہ ان کا حق ہے بلکہ ان کی گرفتاری کے وقت عدلیہ سے ایک تکنیکی غلطی
ہوگئی تھی جس کی بنیاد پر ضمانت مل گئی۔ یعنی اگر سرکار سے وہ بھول چوک
نہیں ہوئی ہوتی تو انہیں نہ جانے کب تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑتا ۔
سرکار کی یہ غلطی بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ ہائی کورٹ کی نظر میں قومی تفتیشی
ایجنسی طے شدہ مدت میں چارج شیٹ داخل کرنے میں کی ناکام رہی۔ اس بنیاد پر
انہیں ’’ڈیفالٹ بیل‘‘ (ازخود ضمانت) کا حقدار قرار دیا گیا ۔
یلغار پریشد کے معاملے میں سدھا بھاردواج کے علاوہ ان کے دیگر ساتھیوں
مثلاً سدھیر ڈاؤلے، ورورا راؤ، رونا ولسن، سریندر گاڈلنگ، پروفیسر شوما
سین، مہیش راؤت،ورنن گونزالویس اور ارون فریرا کی ضمانت درخواستوں کو خارج
کردیا گیا حالانکہ ان کی فردِ جرم بھی تاخیر سے داخل کی گئی تھی لیکن عدالت
عالیہ انہیں ضمانت دینے قاصر رہی اس لیےکہ ان کے تعلق سے وہ نسیان سرزد
نہیں ہوا تھا ۔ بامبے ہائی کورٹ میں جسٹس ایس ایس شندے اور جسٹس این جے
جمعدار کے مطابق یو اے پی اے ( انسداد غیر قانونی سرگرمیاں ایکٹ) کے تحت
درج کردہ مقدمہ میں چارج شیٹ فائل کرنے میں طے شدہ وقت کی توسیع کا اختیار
اس خصوصی عدالت کو ہی تھا جو اس معاملے کی شنوائی کی اہل ہے ۔ تفتیشی
ایجنسی این آئی اے( پونے )کی عدالت کے جج کشور وڈانے کو یہ اختیار ہی نہیں
تھا لیکن چونکہ انہوں نے غیر اختیاری طور پر اپنے حدود کو پامال کردیا اس
لیے سدھا چھوٹ گئیں ۔ جسٹس وڈانے اگر معذرت چاہ لیتے اور خصوصی عدالت سے
رجوع کرنے کے لیے کہتے تو اب بھی وہ جیل میں بند ہی رہتیں ۔ اس مقدمہ میں
سرکاری سفاکی کا یہ عالم ہے کہ 82 سالہ فادر اسٹین سوامی عدالتی حراست میں
ہی انتقال ہوگیا مگر انہیں صحت کی بنیاد پر ضمانت نہیں دی گئی ۔
مرکزی حکومت کے اشارے پر ناچنے والی این آئی اے نے ضمانت کی مخالفت میں
عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا شرمناک فیصلہ کیا مگر وہاں بھی اسے منہ کی
کھانی پڑی ۔ سپریم کورٹ نے این آئی اے کی عرضی خارج کر دی اور بامبے ہائی
کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہےکیونکہ اس کے مطابق اس معاملے میں مداخلت
کی کوئی وجہ نہیں تھی ۔ عدالتِ عظمیٰ نے یہ تسلیم کیاکہ جس زیریں عدالت کے
پاس این آئی اے کیس کی سماعت کا دائرہ اختیار نہیں تھا ۔ یہ سوال بھی ہوا
کہ جو عدالت یو اے پی اے کے تحت نظربندی کی مدت بڑھانے کی اہل نہیں تھی اس
نے حرکت کیوں کی؟ اگر زیریں عدالت نے وقت نہ دیا ہوتا تو کیا ہوتا؟ یہ ایک
تکلیف دہ صورتحال ہے۔ کسی بھی ضمانت کو مخصوص شرائط کے تحت منظور کیا جاتا
ہے ۔ اب جو این آئی اے اس ضمانت سے ہی اتفاق نہیں کرتی اس کی عدالت کو
شرائط وضع کرنے کا عجیب وغریب فیصلہ بھی عدالتِ عالیہ نے کردیا حالانکہ یہ
کام بھی اسے خود کرنا چاہیے تھا۔ ممکن ہے ایک حد سے زیادہ سرکار کی ناراضی
مول لینے سے یہ احتیاط کا معاملہ ہو؟ واللہ اعلم ۔
این آئی اے کی خصوصی عدالت نے اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا اور مچلکہ کے
علاوہ کئی نامعقول پابندیاں لگا دیں مثلاً عدالت کے دائرہ اختیار میں رہیں
اور اس کی اجازت کے بغیر ممبئی سے باہر نہ جا ئیں ۔اس پابندی کے خلاف
بھاردواج کے وکیل کی دلیل تھی چونکہ سدھا بھاردواج پیشے سے وکیل ہیں اس لیے
انہیں اپنا روزگارچلانے کے لیے چھتیس گڑھ، ممبئی اور دہلی جیسے مقامات پر
جانے کی ضرورت پڑےگی لیکن کورٹ نے اس جائز مطالبے کو خارج کر دیا۔ مسئلہ
روزگار کا نہیں بلکہ ان مقدمات کی نوعیت کا ہے جن کی پیروی وہ کرتی ہیں۔
حکومت نہیں چاہتی کہ ان دبے کچلے لوگوں کی آواز بلند ہو جن کے لیے سدھا
بھارودواج لڑتی ہیں۔ اس کے ساتھ انہیں اپنے گھر کا پتہ، فون نمبر، ہمراہ
رہنے والے لوگوں کی تفصیلات بھی دینے کے لیے کہا گیا جیسے وہ کوئی خطرناک
مجرم ہیں اور مشکوک لوگوں کے درمیان رہتی بستی ہیں ۔ سماعت کے دوران عدالت
میں موجود رہنے کی تلقین بے معنیٰ ہے کیونکہ وہ خود بری ہونے کے لیے ایسا
ہی کریں گی۔ سدھا بھاردواج پر عدالت کے ذریعہ اس معاملے میں عوامی طور پر
کوئی تبصرہ کرنے اور میڈیا سے گفتگو پر روک لگا نا کھلی زیادتی معلوم ہوتا
ہے۔ ایسے میں ان کے حالات اور کیفیت پر علامہ اقبال کے یہ دونوں اشعار پوری
طرح صادق آتے ہیں؎
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اُٹھائے کچھ وَرق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گُل نے
چمن میں ہر طرف بِکھری ہُوئی ہے داستاں میری
ایک طرف تو سدھا بھاردواج اور ان کے ساتھیوں پر اس قدر پابندیا ں لگائی
جارہی ہیں اور دوسری جانب بھیما کوریگاؤں تشدد کی سازش رچنے والے اصل ملزم
سمبھاجی بھڑے اور ملند ایک بوٹے جن کو سپریم کورٹ تک نے حکومتی دباو کے
باوجود پیشگی ضمانت دینے سے انکار کردیا تھا آزاد گھوم رہے ہیں ۔سدھا
بھاردواج کی سماجی خدمات کا اعتراف خود بی جے پی سرکار بھی کرچکی ہے۔ چھتیس
گڑھ میں بی جے پی کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر رمن سنگھ نے2014 میں انہیں ہائی کورٹ
کے اندر صوبائی قانونی خدمات کمیٹی کا رکن مقرر کیا تھا ۔ مودی یگ میں
انہوں نے 2016 تک یہ ذمہ داری ادا کی۔ جگدلپور بستر کی زیادتی کے معاملے
میں قومی انسانی حقوق کمیشن نے گرفتاری سے قبل سدھا بھاردواج کو تفتیشی
رپورٹ تیار کرنے کی ذمہ داری تفویض کی تھی مگر اچانک ایک سال کے بعد وہ ملک
کی غدار قرار دے دی گئیں اور حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام لگادیا گیا ۔
کیا حکومت کے خفیہ اداروں کو اس بات کا علم نہیں تھا؟ کسی معاشرے میں اگر
انسانی حقوق کے رکھوالوں کو ہی جیل بھیج دیا جائے عام لوگوں کے حقوق کی
حفاظت کون کرے گا؟
سدھا بھاردواج کی ذاتی زندگی بھی سماج میں کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
وہ کسی ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچتے بیچتے محل میں نہیں پہنچیں بلکہ نہایت
خوشحال گھرانے سے نکل غریبوں میں آگئیں۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی مفلس
قبائلی لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کردی اور عمر ایک طویل عرصہ
مزدوروں کے کیمپ میں گزارا ۔ ان کی پیدائش امریکہ کے اندرہوئی اس لیے ان کے
پاس امریکی شہریت تھی ۔ ان کے والدین ماہرین معیشت تھے ۔ والدہ کرشنا
بھاردواج کو جے این یو میں معاشیات اور منصوبہ بندی کا شعبہ قائم کرنےکا
اعزاز حاصل ہے ۔ ان کا ابتدائی تعلیم برطانیہ کے کیمبرج میں ہوئی اور پھر
وہ دہلی میں آگئیں۔ آئی آئی ٹی کانپور سےانہوں نے گریجویشن میں اول مقام
حاصل کیا اور پھر دہلی پبلک اسکول میں دوسال معلم کی ذمہ داری نبھائی لیکن
اس کے بعد اپنا کیرئیر بنانے کے بجائے خدمت خلق کے لیے اپنی زندگی لگا دینے
کا جرأتمندانہ فیصلہ کیا۔
1986 میں قبائلی مزدوروں کے حقوق کی خاطر لڑنے کے لیے وہ چھتیس گڑھ جاکر
ٹریڈ یونین سے منسلک ہوگئیں اور آگے چل کر ملک میں انسانی حقوق کی سب سے
بڑی تنظیم پیپلس یونین فارسول لبرٹیز(پییوسیایل) کی جنرل سکریٹری کی اہم
ذمہ داری ادا کی ۔ اس طرح انہوں نے اپنا معیار زندگی تباہ کرکے دوسروں کی
ترقی کے لیے غیر معمولی قربانی پیش کی ۔ ان کی وکالت کا معاملہ بھی بہت
دلچسپ ہے۔ 1992 میں معروف صنعتی شہر بھیلائی کے اندر پولس کی گولی سے 17
؍مزدور ہلاک ہوگئے۔ ان لوگوں کو انصاف دلانے کی خاطر سدھا بھاردواج نے 1997
سے 2000 کے درمیان میں وکالت کی ڈگری حاصل کی اور بڑی یکسوئی کے ساتھ 2015
تک ان غریبوں کے مقدمہ کی پیروی کرتی رہیں ۔یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ
ایسی بے لوث اور جانباز خاتون جہدکار کو جسے دور انِ گرفتاری معروف عالمی
ادارے ہارورڈ لاء اسکول نے یوم خواتین کے موقع پر اعزاز و اکرام سے نوازہ
ہو ہماری بے حس سرکار نے جیل بھیج دیا۔ مودی سرکار ناانصافی کے اس داغ کو
اپنے دامن سے کبھی نہیں دھو پائے گی ۔
|