Book: The Stranger 1942 "Albert Camus"
Book Review : Danish Dharmani
” میری قسمت کا فیصلہ ہونا تھا اور میں ہی بولنے کا مجاز نہ تھا شاید میری
حیثیت ایک اجنبی کی تھی“
البرٹ کامیو فرانسیسی ناول نگار ، مضمون نگار ، اور ڈرامہ نگار ہیں ، جو کہ
اپنے شاہکار قاری کی وجہ سے معقول و عظیم ہیں اور دی پلیگ(١٩٤٧) ،
اسٹرینجر( ١٩٤٢)، متھ آف سسیفس ،دی فال ( ١٩٥٦) جیسے ناولوں کے لئے مشہور
ہیں
البرٹ کامیو کے آباؤ اجداد ١٨٧٠ میں جرمنی کی فرانس سے جنگ کے دوران الساس
سے ہجرت کر کے الجیریا میں آباد ہو گئے تھے ، کامیو کا جنم بھی ٧ نومبر
١٩١٣ الجیریا کے شہر مونڈووی میں ہوئا.
سترہ برس کی عمر میں وہ ٹی بی جیسے مرض میں مبتلا ہو گیا اور ساتھ ہی اسی
تعلیم کا سلسلہ روکنا پڑا بیماری کے باعث اس نے یونیورسٹی بھی چھوڑ دی اور
بعد میں ١٩٣٢ میں اس نے اپنا پہلا مکالمہ قدیم یونانی نظریات کے باہمی ربط
پر لکھا،
اور اسی سال اس کی شادی ہوئی جو ایک برس کے بعد ختم ہو گئی، ١٩٣٨ میں اس نے
الثرے ریپبلکن میں بطور صحافت سے دستبردار ہونا پڑا اس کے بعد کچھ سال تک
مدافعتی تحریک کے اخبار کومبا سے وابستہ رہا اور ساتھ گیلی مار میں ایک
ایڈیٹر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی اور اخبار نویسی کا سلسلہ جاری رکھا
اور ساتھ ہی معقول ہوئے اور انھیں ١٩٥٧ میں ادب کا نوبل انعام سے نوازا
گیا.
٤ جنوری ١٩٦٠ میں سینس فرانس کے کے قریب ایک کار ایکسیڈنٹ میں اس عظیم
تخلیق کار کا ٤٧ سال کی عمر میں انتقال ہوا.
اجنبی ناول بے حیثیت لغویت کے نظریے کی ترجمانی کرتا ہے اور جس کا مرکزی
کردار( موسیو مرسو ) ایک بے معنی، احمق یا لغو آدمی ہے اور اس کے لیے کچھ
ہونا یا نہ ہونا برابر ہے وہ اپنی خیالی دنیا میں غائب ہے اسے کوئی غرض
نہیں کہ آس پاس کیا ہو رہا ہے.
" حصہ اول "
١٩٤٠ کی دہائی کے دوران مرسو شمالی افریقہ الجیریا ، الجیئرس میں واقع ایک
فرانسیسی کالونی میں رہتا ہے جو شپنگ کلرک کے طور اپنی اپنی عام سی زندگی
بسر کرتا ہے.
مرسو اپنی والدہ کی حالیہ موت کا دن بھول جاتا ہے جو اس کو ٹیلیگراف کے
ذریعے اولڈ ایج ھائوس سے اطلاع کیا جاتا ہے جہاں اس کی والدہ رہتی تھی جب
وہ اپنی والدہ کہ جنازے میں شریک ہوتا ہے وہاں وہ اپنی ماں کی لاش دیکھنے
سے انکار کر دیتا ہے
چوکسی کے دوراں وہ نگران سے باتیں کرتا ہے اور ساتھ میں کوفی اور سگریٹ
نوشی بھی کرتے ہیں اور جب کہ لاش کے چاروں طرف سوگوار بیٹھے ہوتے ہیں اور
ان میں اس کی والدہ کا دوست تھومس پیرے جو بہت دکھ اور صدمے میں رو رہا
ہوتا ہے ، جنازہ کو دفنانے کے
بعد مرسو اپنے گھر کا رخ کرتا ہے اور واپس آکر سو جاتا ہے
اسی دن اپنی ماں کی آخری رسوم کے بعد ، مرسو تیرنے کے لیے چلا جاتا ہے وہاں
وہ ماری نامی ایک خاتون کے ساتھ اشکبازی کرتا ہے پھر وہ دونوں فلم دیکھنے
جاتے ہیں واپس آکر سیکس کرتے ہیں صبح ماری چلی جاتی ہے اپنی چاچی کے گھر
اور مرسو دوسرے دن تنہا اپنے کمرے میں گزارتا ہے۔
پیر کے دن مرسو کام پر جاتا ہے ، اور ، اس کے بعد وہ سامانو بوڑھے سے ملتا
ہے جو ہمیشہ اپنے کتے کو نفرت سے مارتا رہتا ہے ۔ رے مون سینتے جو ایک
پڑوسی ہے وہ مرسو کو اپنے کمرے میں شراب اور کھانے کے لیے مدعو کرتا ہے رے
مون اپنی عرب عورت کے ساتھ اپنے غیر تعلقات کی وضاحت کرتا ہے ،جس کے بارے
میں اسے لگتا ہے کہ عورت اسے دھوکہ دے رہی ہے اور بدلہ لینے کے لیے ، رے
مون چاہتا ہے کہ مرسو اس کے لئے ایک خط لکھے جو عرب عورت کو یہاں آنے میں
راغب کرے تاکہ رے مون اس کو سزا دے سکے اور مرسو خط لکھ دیتا ہے ۔
اگلے ہفتہ ، ماری نے مرسو سے سوال کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟ اس نے جواب
دیا کہ اسے نہیں لگتا کہ وہ اس سے پیار کرتا ہے ، جس سے ماری افسردہ ہوتی
ہے۔ انہوں نے رے مون کو عرب عورت سے لڑتے ہوئے سنا۔ جلد ہی پولیس پہنچ کر
رے مون سے پوچھ تاچھ کرتی ہے۔ پولیس کے جانے کے بعد ، رے مون مرسو سے گواہ
بننے کے لیے کہتا ہے اور وہ مان لیتا ہے ۔ سالمانو رے مون سے اپنا کتا غم
ہو جانے کی بات کرتا ہے اور اسے خدشہ ہوتا ہے کہیں اسے مار نہ دیں، رے مون
اسے کتے کے متعلق کچھ وضاحت کرتا ہے اور چلا جاتا ہے.
دفتر میں مرسو کہ مالک نے پیرس میں ملازمت کی پیش کش کی مگر اس نے انکار
کردیا اور کہا اسے زندگی تبدیل کرنے کے لیے کوئی وجہ نہیں ہے، گھر آکر ماری
نے شادی کرنے کو کہا وہاں اسے انکار کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آئی، اس کے
بعد سالمانو نے اپنے کتے کے متعلق تعلقات کو وضاحت کی.
اتوار کے روز مرسو ، ماری اور رے مون ساحل سمندر کا رخ کرتے ہیں ، جہاں پر
وہ رے مون کے دوست اور اس کی بیوی سے ملتے ہیں اور پھر وہ تیرنے کے لیے
جاتے ہیں واپس آکر پھر لنچ کرتے ہیں۔
مرسو ،رے مون اور ماسوں کا مقابلہ ایک عرب گروپ سے ہوتا ہے جس میں رے مون
کی معشوقہ کا بھائی بھی شامل ہوتا ہے ۔ رے مون کو چاقو لگنے کے وجہ سے
چوٹیں لگتی ہیں رے مون کو پٹی باندھنے کے بعد وہ مرسو کے ساتھ عربوں کا پتہ
لگانے نکلتے ہیں اور اپنی پستول مرسو کو دے دیتا ہے عرب چھپ جاتے ہیں، رے
مون اور مرسو واپس گھر کی طرف چلے جاتے ہیں رے مون گھر میں داخل ہوجاتا یے
پر مرسو ساحل سے نیچے کی طرف جاتا ہے اور گرمی سے بچنے کے لیے چٹان کے پاس
ٹھنڈی ندی تلاش کرتا ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ مرسو نے عرب معشوقہ کے بھائی
کو چٹان کے پیچھے دیکھا اور بندوق تھامتے ہوئے اسے گھورا۔ مگر مرسو نے بہت
غور و فکر سوچا کہ اسے گولی مارنے کی کوئی حقیقی وجہ نہیں تھی ، لیکن اس
عرب نے اپنی چھری نکالی، مرسو جس کا سر سورج سے چکرا گیا اور اس نے گھوڑا
دبا دیا وقفے کے بعد ، مرسو نے اس عرب شخص کو مزید چار بار گولی مار دی۔
"حصہ دوم "
مرسو کو عرب شخص قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا جاتا ہے اور ساتھ
مرسو کا ایک وکیل سے انٹرویو ہوتا ہے جو پوچھتا ہے کہ والدہ کی وفات پر
غمگین محسوس کیا تھا مرسو جواب دیتا ہے کہ یے کہنا مشکل ہے” میں نے زندگی
میں کبھی کسی بات پر افسوس نہیں کیا میں حال اور مستقبل قریب میں اتنا منھک
رہتا ہوں کہ ماضی کے متعلق کچھ سوچ بھی نہیں سکتا“
اس ملاقات کے بعد، معائنہ کرنے والا مجسٹریٹ پریشاں ہوتا ہے کہ اس نے پہلی
اور دوسری فائر کے بیچ وقفہ کیوں کیا مرسو اس کا کوئی جواب نہیں دے پاتا
تبھی مجسٹریٹ نے خدا سے مغفرت کرنا کا کہا، مرسو نے جواب میں خدا پر یقین
نہیں رکھتا.
وزیٹنگ روم میں ماری سے ملاقات وقت جیل میں شور شرابے، بھیڑ کی وجہ سے
سمجھنے اور سننے میں تکلیف ہو رہی تھی اور وہ اپنی خواہشات سے مایوس ہوکر
دن میں ١٦ یا ١٨ گھنٹے سوتا رہتا ہے اور اس دشواری کے سوا اور کوئی راستہ
نہیں اور” کسی کی کیا اندازہ ہو سکتا ہے کہ قید خانے کی شامیں کیسی ہوتی
ہیں “.
مقدمے کی سماعت کے دوران گواہوں میں ماری،رے مون،سالمانو ،سیلسیت، ایمانوئل
ماسون
جن کو مرسو جانتا تھا، پراسیکیوٹر عرب کے قتل کے بجائے وہ مرسو کے کردار پر
مرکوز ہے آیہ اس نے اپنی ماں کی آخری رسومات اور لاپرواہی پر زور دیا جاتا
ہے.
” ملزم کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر ہی سہی، اپنے متعلق لوگوں کے خیالات سننا
دلچسپ ہوتا ہے اور دونوں وکلاء کی تقاریر کا مرکز بھی میں تھا جن میں در
حقیقت جرم کی نسبت میری شخصیت پر زیادہ بحث کی گئی تھی“
عدالت میں مرسو پراسیکیوٹر کی آخری تقاریر سنتا ہے جس میں کہتا ہے کہ مرسو
ایک "راکشس" ہے جس نے معاشرے کے خلاف ایسا اخلاقی جرم کیا ہے جو عرب آدمی
کے قتل سے بھی بدتر ہے۔ اور
اس نے ماں کی دل آزاری کر کے ماں کو روح عذاب پہنچایا ہے مرسو اس تقریر سے
مایوس ہوکر اپنی باتوں کو ناکام بنا دیا اور فاع کے وکیل نے مرسو کو ایک
وفادار آدمی اور ماڈل بیٹا پیش کرتا ہے جو معاشی وجوہات کی بناء پر اپنی
والدہ کو گھر میں رکھنے پر مجبور تھا ۔ جیوری نے مرسو کو موت کی سزا سنائی۔
” دنیا میں ایک دن گزار لینے کے بعد آدمی آسانی سے ایک سو سال قید خانے میں
گزار سکتا ہے اتنی یادیں اس کے ذہن نشین ہوجاتی ہیں کہ اسے کبھی کوفت نہیں
ہوتی ظاھر ہے کہ ایک طرح کی تلافی تھی.“
جیل میں مختلف فرار ہونے والوں کے بارے میں اور اپنی تختہ پر پھانسی کی سزا
اور اس کی اپیل کے خیالی تصورات کا سوچتا ہے پھر احساس ہوتا ہے کہ بچنے کی
کوئی بات نہیں ہے "
والدہ کا عقیدہ تھا کہ انسان کتنا بھی بد قسمت کیوں نہ ہو ہر تاریکی میں
کوئی نہ کوئی روشن پہلو بھی ہوتا ہے“
اس کے بعد پادری آتا ہے جو اسے خدا اور اس کی رحمت قبول کرنے پر راضی کرنے
کی کوشش کرتا ہے، مرسو کو اس بات بہت غصہ آتا ہے اور کہتا ہے
” فنا ہو جانے سے تو جہنم میں جلنا بہتر ہے “وہ اسے گریباں سے پکڑ لیتا ہے
اور لرز اٹھتا ہے جس کے باعث وہ چلا جاتا ہے مرسو پرسکون محسوس کرتا ہے اور
اس غصے کی امید سے پاک ہوجاتا ہے اور اپنی زندگی کے اختتام کے قریب پیرے کے
ساتھ اپنی والدہ کی مصروفیت کو سمجھتا ہے یہ اس بات کی ترجمانی کرتا ہے یا
کوئی اشارہ ہے جو اس کی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کی خواہش کو ظاہر
کرتا ہے۔ یہ عمل مرسو کو زندگی کو ایک بار پھر شروع کرنے کی ہدایت دیتا ہے
، حالانکہ اسے پھانسی دینے ہی والے ہیں ۔ وہ زندگی سے دوبارہ زندگی گزارنے
کا انتخاب کرنے میں آزاد محسوس کرنے لگتا ہے اور اب یہاں تک کہ اس کی
پھانسی قریب ہی ہے۔
|