گلیشئرز کی افزائش

عوام الناس کی اکثریت کے لئے یہ انکشاف یقینا دلچسپ اور حیران کن ہوگا کہ گلیشئرنر(Male) اور مادہ (Female)ہوتے ہیں۔تاہم اس سے بھی زیادہ حیران کن اورناقابل یقین امر یہ ہے کہ گلیشئر کو تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ جب گفتگو گلیشئرکے بارے میں ہو تودنیا کا کوئی فرد گلیشئرکے بارے میں گلگت بلتستان والوں سے زیادہ نہیں جان سکتا ہے۔یہ کوئی انوکھی بات نہیں اگر یہ حقیقت بہ نظر رہے تو پولر ریجن سے باہر دنیا کے سب سے بڑے اور زیادہ گلیشئر گلگت بلتستان میں پائے جاتے ہیں۔گلگت بلتستان کا خطہ مکمل طور پر گلیشئرز پر انحصار کرتا ہے کیونکہ گلیشئرز کے پانی کی وجہ سے ہی گلگت بلتستان میں کاشتکاری وجود میں آتی ہے۔اس انحصار کی وجہ سے گلیشئرز کے بارے میں نہ صرف یہ کہ اعتقادات کے ایک مسحور کن سلسلے کو جنم دیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایسی مشقوں اور کوششوں کو بھی جنم دیا ہے جو انتہائی حیران کن ہیں۔

انجینئر منظور پروانہ
عوام الناس کی اکثریت کے لئے یہ انکشاف یقینا دلچسپ اور حیران کن ہوگا کہ گلیشئرنر(Male) اور مادہ (Female)ہوتے ہیں۔تاہم اس سے بھی زیادہ حیران کن اورناقابل یقین امر یہ ہے کہ گلیشئر کو تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ جب گفتگو گلیشئرکے بارے میں ہو تودنیا کا کوئی فرد گلیشئرکے بارے میں گلگت بلتستان والوں سے زیادہ نہیں جان سکتا ہے۔یہ کوئی انوکھی بات نہیں اگر یہ حقیقت بہ نظر رہے تو پولر ریجن سے باہر دنیا کے سب سے بڑے اور زیادہ گلیشئر گلگت بلتستان میں پائے جاتے ہیں۔گلگت بلتستان کا خطہ مکمل طور پر گلیشئرز پر انحصار کرتا ہے کیونکہ گلیشئرز کے پانی کی وجہ سے ہی گلگت بلتستان میں کاشتکاری وجود میں آتی ہے۔اس انحصار کی وجہ سے گلیشئرز کے بارے میں نہ صرف یہ کہ اعتقادات کے ایک مسحور کن سلسلے کو جنم دیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایسی مشقوں اور کوششوں کو بھی جنم دیا ہے جو انتہائی حیران کن ہیں۔

گلگت بلتستان کے لوگ اس بات ہر یقین رکھتے ہیں کہ اگرگلیشئر مادہ ہو تو اس کے پانی سے سیراب ہونے والی فصل کی پیداواری صلاحیت کم ہو گی اگر کسی گاؤں کی آبادی کا انحصار مادہ گلیشئر پر ہے تو اس گاؤں کے خواتین زیادہ خوبصورت ہونگی اور مرد نسبتا کمزور ہونگے۔اس کے بر عکس اگرگلیشئر نر ہو تو زراعت زیادہ بہتر اور مرد چست و چالاک اور توانائی سے بھر پور ہونگے۔ نر گلیشئر کا منفی پہلو یہ ہے کہ اس خطے کے خواتین میں کرختگی اور مردانہ پن نمایاں ہوگا او ر نسوانی حسن و نزاکت کے حوالے سے نسبتا کم کشش کی حامل ہونگی۔ایک اور دلچسپ امر یہ ہے کہ گلیشئرز کے جنس کے حوالے سے اتفاق رائے نہیں پایا جاتا اور مختلف وادیوں کے لوگ اپنے علاقے کے گلیشئر اور دوسرے علاقے کے گلیشئرکے جنس کے بارے میں متضاد دعوے کرتے ہیں۔

گلیشرز پالنے کا فن اگرچہ صدیوں پرانا ہے لیکن اب اس کا رواج موجود نہیں ہے۔ مصنوعی گلیشئرز کی افزائش مقامی روایات کے مطابق بزرگوں کی نگرانی میں کی جاتی ہے۔گلیشئرز کی تخلیق یا افزائش کے لئے سب سے پہلے مناسب جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے، جہاں سے پانی بہ آسانی کھیتوں کو پہنچ سکے جہاں آبپاشی کے لئے پانی کی ضرورت ہو۔

گلیشئرز کی آفزائش کے طریقہ کار کے مطابق دو مختلف بڑے قدرتی گلیشئرز (نر اور مادہ) سے بڑے بڑے ٹکرے حاصل کئے جاتے ہیں اور انہیں مختص شدہ جگہ پر لایا جاتا ہے، برفانی ٹکروں کی منتقلی کا عمل محنت طلب ہوتا ہے جس میں کمیونٹی کے تمام افراد حصہ لیتے ہیں۔ مقامی روایات کے مطابق گلیشئر کے ٹکروں کی منتقلی کا کام بغیر کسی وقفے کے سر انجام دیا جاتا ہے اس دوران ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنا بھی منع ہے،نر اور مادہ گلیشئرز سے لئے گئے برفانی ٹکروں کو مختص شدہ جگہ پر لاکران کا ملاپ کیا جاتا ہے۔ یہ برفانی تودے اپنے اندر مزید برف جذب کرتے ہیں جو اطراف میں پڑے ہوتے ہیں۔ یہ عمل سردیوں میں شروع کیا جاتا ہے تاکہ برف باری ہوئی تو اس میں مزید برف شامل ہو کر اس کی مقدار کو بڑھائے۔موسم گرما نو زائیدہ گلیشئر کی دیکھ بھال پر معمور افراد کے لئے مشقت طلب ہوتا ہے ایک نو زائدہ گلیشئر کوپگھلنے سے پچانے کے لئے اسے گھاس پھوس سے ڈھانپا جاتاہے اور اور چھاڑیوں کے ذریعے سایہ فراہم کیا جاتا ہے تاکہ دھوپ سے بچایا جا سکے۔

موسم سرما میں اس نوزائدہ گلیشر سے گھاس پھوس اور چھپر ہٹایا جاتا ہے تاکہ اس پر مزید برف گرے۔ پانچ سال کے عرصے میں مصنوعی طور پر تخلیق کردہ گلیشئر اپنے شباب کو پہنچ جاتا ہے اور قدرتی گلیشر میں تبدیل ہو جاتا ہے اور وادی کے ایک وسیع علاقے کی آبی ضروریات کو پوری کرتا ہے۔

گلیشئر سازی کی یہ ہنر دنیا بھر میں گلگت بلتستان کے لوگوں کے پاس موجود ہے لیکن افسوس اس امر کی ہے کہ اس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی اور بعض توہمات کی وجہ سے بھی یہ سلسلہ موقوف ہو چکا ہے، کہا جاتا ہے کہ جوشخص گلیشر سازی کے عمل میں حصہ لیتاہے اس کی نسل منقطع ہو جاتی ہے،یہ وہ سب سے بڑا وہم ہے جس کی وجہ سے گلیشر سازی کا عمل ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

اس وقت گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشئرز کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں، گلیشئرز کی پگھلنے کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو آنے والے وقتوں میں پانی کی بحران میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگا،یہ تجویز بے محل نہیں ہوگی کہ مصنوعی گلیشئرزتخلیق کر کے پانی کی بحران پر قابو پانے کے لئے گلگت بلتستان کے ہنرمندوں سے مدد لی جائے، اور حکومت گلیشر سازی کا ایک ادارہ قائم کر کے ان ہنر مندوں کی سرپرستی کریں اور گلیشر سازی کی اس صنعت کو فروغ دے کر قدرت کی اس عظیم نعمت کو محفوظ بنائیں
 

Manzoor Hussain
About the Author: Manzoor Hussain Read More Articles by Manzoor Hussain: 4 Articles with 5536 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.