دنیا کے بیشتر گلیشیئرز خطرناک رفتار سے پگھل رہے ہیں، اور یہ مظہر موسمیاتی تبدیلی کا ایک مہلک اشارہ ہے۔ ہمالیہ، انٹارکٹیکا، گرین لینڈ، اور الاسکا جیسے خطے شدید متاثر ہو چکے ہیں، جس کے نتیجے میں پانی کی قلت، سیلاب، زرعی بحران، اور جغرافیائی کشیدگی جیسے سنگین خطرات جنم لے رہے ہیں۔ یہ تحقیق ماحولیاتی سائنسی ڈیٹا کی بنیاد پر گلیشیئر پگھلنے کی وجوہات، اثرات، اور ممکنہ حل پر روشنی ڈالتی ہے۔ گلیشیئرز دنیا کی میٹھے پانی کی سب سے بڑی ذخیرہ گاہ ہیں، مگر حالیہ دو دہائیوں میں ان کے پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ ہوا ہے (Hugonnet et al., 2021)۔ یہ عمل نہ صرف ماحولیاتی نظام کو متاثر کرتا ہے بلکہ انسانی زندگی، خوراک، اور معیشت پر بھی دور رس اثرات مرتب کرتا ہے۔ ۔۔
|
|
خاموش تباہی: گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور ہم اب بھی غفلت میں ہیں تحریر: افضل رضوی۔آسٹریلیا دنیا بھر میں گلیشیئرز کی تیزی سے پگھلتی ہوئی برف انسانیت کے لیے ایک سنگین خطرے کی علامت ہے، مگر عالمی سطح پر اس پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ برفانی پہاڑ نہ صرف قدرتی حسن کا مظہر ہیں بلکہ تازہ پانی کا خزانہ، موسم کی توازن دہی کا ذریعہ، اور کروڑوں افراد کی زندگی کا انحصار انہی پر ہے۔ ان کا پگھلنا ایک سست لیکن یقینی تباہی ہے—جس کی بازگشت ہم سننا ہی نہیں چاہتے۔ • 2000 سے 2019 تک دنیا بھر کے گلیشیئرز ہر سال 267 گیگاٹن برف کھو چکے ہیں، جو عالمی سطح پر پانی کی سطح میں 21 فیصد اضافہ کا باعث بن رہا ہے (Nature, 2021)۔ • ہمالیائی گلیشیئرز جنہیں “تیسرا قطب” کہا جاتا ہے، پچھلی دو صدیوں میں اپنی برف کا 40 فیصد سے زائد کھو چکے ہیں، اور حالیہ 20 برسوں میں ان کے پگھلنے کی رفتار دوگنی ہو گئی ہے۔ • گرین لینڈ ہر سال 280 ارب ٹن برف کھو رہا ہے، جو تنہا سالانہ سطح سمندر میں 0.8 ملی میٹر اضافہ کا سبب بنتا ہے (NASA)۔ • انٹارکٹیکا کی برف بھی ہر سال 150 ارب ٹن کی رفتار سے پگھل رہی ہے، اور مغربی انٹارکٹیکا کی برف مستقل طور پر گرنے کے دہانے پر ہے۔ • الاسکا کے گلیشیئرز دنیا میں تیزی سے ختم ہونے والوں میں شامل ہیں، جو ہر سال 75 ارب ٹن برف کھو رہے ہیں۔ یہ گلیشیئرز صرف برف کے پہاڑ نہیں بلکہ زمینی ماحول، دریاؤں، زراعت، اور موسموں کے توازن کا بنیادی جز ہیں۔سب سے بڑی وجہ انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلی ہے: • درجہ حرارت میں اضافہ: صنعتی دور سے اب تک زمین کا اوسط درجہ حرارت 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے، جبکہ پہاڑی علاقوں میں یہ شرح 1.5 تا 2 گنا زیادہ ہے۔ • کالا کاربن (سوت): ڈیزل، جنگلاتی آگ، اور فصلوں کی باقیات سے پیدا ہونے والا کالا دھواں برف پر جم جاتا ہے، جس سے برف کی سفیدی کم اور حرارت جذب ہونے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ • بارش و برف باری کا عدم توازن: گرم ہوا زیادہ نمی جذب کرتی ہے، جس سے برفباری کم اور بارش زیادہ ہوتی ہے، اور برف کا ذخیرہ برقرار نہیں رہ پاتا۔ • سمندری حرارت: سمندری پانی کی گرمی ساحلی گلیشیئرز کو نیچے سے پگھلاتی ہے، خاص طور پر گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا میں۔ گلیشیئرز کا پگھلنا نہ صرف ماحولیاتی بلکہ معاشی و انسانی المیوں کو جنم دے رہا ہے: • پانی کی قلت: دریائے سندھ، گنگا، برہمپترا، اور یانگٹزے جیسے بڑے دریا گلیشیئرز سے جڑے ہیں، جن پر ڈیڑھ ارب سے زائد افراد کا انحصار ہے۔ مستقبل میں پانی کی فراہمی غیر یقینی ہو جائے گی۔ • برفانی جھیلوں کے اچانک اخراج (GLOFs): دنیا بھر میں 15,000 سے زائد نئی گلیشیئر جھیلیں بن چکی ہیں، جن کے اچانک پھٹنے کا خطرہ کئی علاقوں میں تباہی لا چکا ہے، جیسے پاکستان اور نیپال میں۔ • سمندر کی سطح میں اضافہ: گلیشیئرز اور برفانی چادروں کے پگھلنے سے عالمی سطح پر سطح سمندر میں 3.3 ملی میٹر سالانہ اضافہ ہو رہا ہے، اور اگر یہ رجحان جاری رہا تو 13 میٹر تک اضافہ ممکن ہے۔ • خوراک کا بحران: جنوبی ایشیا، انڈیز اور وسطی ایشیا میں کھیتی باڑی کا دار و مدار گلیشیئر کے پانی پر ہے۔ برف کے ذخیرے ختم ہونے سے خوراک کی پیداوار خطرے میں پڑ جائے گی۔ • علاقائی کشیدگیاں: گرتے ہوئے آبی وسائل پر مختلف ممالک کے درمیان تناؤ اور تنازعات جنم لے سکتے ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں دریا سرحدوں سے گزرتے ہیں۔ واضح شواہد کے باوجود سیاسی، معاشی، اور نفسیاتی رکاوٹیں مؤثر کارروائی کے راستے میں حائل ہیں: • ترقی پذیر ممالک میں ماحولیاتی تحفظ کو غربت کے خاتمے کے نام پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ • صنعتی لابیاں اور تیل کمپنیاں موسمیاتی پالیسیوں میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ • عام عوام میں شعور کی کمی، جھوٹی معلومات، اور ’’ماحولیاتی تھکن‘‘ کا عنصر نمایاں ہے۔ یہاں تک کہ عالمی میڈیا میں بھی موسمیاتی خبروں کو 5 فیصد سے بھی کم کوریج ملتی ہے۔ ہم بے بس نہیں۔ اجتماعی کوشش سے تباہی کو روکا جا سکتا ہے: 1. گرین ہاؤس گیسز میں کمی: قابلِ تجدید توانائی کو فروغ دیں، فوسل فیول پر انحصار کم کریں، اور کاربن ٹیکس نافذ کریں۔ 2. پانی کے ذخائر کی پائیدار حکمت عملی: گلیشیئر علاقوں میں پانی ذخیرہ کرنے، ری سائیکلنگ، اور مانیٹرنگ پر سرمایہ کاری کریں۔ 3. ماحولیاتی تعلیم کو فروغ دیں: اسکولوں، میڈیا، اور سوشل پلیٹ فارمز کے ذریعے گلیشیئرز اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق شعور عام کریں۔ 4. عالمی تعاون کو فروغ دیں: گلیشیئر تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کی طرز پر ایک عالمی معاہدہ ناگزیر ہے۔ 5. مقامی کمیونٹیز کا کردار: پہاڑی علاقوں کے مقامی افراد کی روایتی حکمت عملیوں کو جدید پالیسیوں کا حصہ بنایا جائے۔ گلیشیئرز محض برف کے ذخیرے نہیں بلکہ زمین کا ابتدائی الارم سسٹم ہیں—جو چیخ چیخ کر ہمیں خبردار کر رہا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی کان نہ دھرے، تو صرف برف ہی نہیں، انسانیت کا مستقبل بھی پگھل جائے گا۔ وقت بھی پگھل رہا ہےباالکل برف کی طرح!!!!!!!!
|