چین نے سال 2021 میں جہاں اقتصادی سماجی میدان میں
کامیابیوں کے بے شمار جھنڈے گاڑے ہیں وہاں سال کے آخری روز سامنے آنے والے
اعداد وشمار کے مطابق چین خلائی شعبے میں بھی دنیا کا قائد رہا ہے۔ چینی
خلائی ادارے کے مطابق چین نے سال 2021 میں 55 خلائی مشنز انجام دیے ہیں،
یوں تعداد کے اعتبار سے چین دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ان خلائی مشنز میں
لانگ مارچ سیریز کے کیریئر راکٹس کے ذریعے 48 کامیاب لانچنگ کی گئی
ہیں۔جبکہ دیگر میں "کائے چھو ون اے " کیریئر راکٹ کے ذریعے چار لانچنگ، سی
ای آر ای ایس۔ون کیریئر راکٹ کے ذریعے ایک لانچ اور ای کیو ایکس۔ون کمرشل
کیریئر راکٹ کے ذریعے دو لانچنگ بھی شامل تھیں۔
چین کی جانب سے سال کا آخری خلائی مشن ابھی جمعرات کو ہی سرانجام دیا گیا
ہے جس میں لانگ مارچ۔ بی تھری راکٹ کے ذریعے کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے
تجرباتی سیٹلائٹ کو لے جایا گیا ہے جو ملک کے سالانہ خلائی لانچ مشن کے
کامیاب اختتام کا نشان ہے۔چینی خلائی ادارے کے مطابق سال 2021 میں ایک اور
اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے لانگ مارچ کیریئر راکٹ سیریز کے 400 ویں لانچ
مشن کی تکمیل کی گئی ہے ، جس نے ایرو اسپیس انڈسٹری کے ساتھ ساتھ چین کی
سائنس ٹیکنالوجی میں مضبوطی اور خود انحصاری کو مزید ایک قدم آگے بڑھایا
ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ابھی حال ہی میں چین کے خلا بازوں نے متعدد مرتبہ اپنے
خلائی کیپسول سے باہر نکلتے ہوئے خلا میں کئی گھنٹے تک قیام کیا ہے اور اس
دوران مختلف تجربات بھی کیے گئے ہیں۔ چین کے انسان بردار خلائی مشن شین زو
13 کے تین خلابازوں کو خلا میں گئے ہوئے 75روز سے زائد ہو چکے ہیں۔ان تین
خلا بازوں میں ایک خاتون خلا باز بھی شامل ہیں۔اس دوران سات نومبر کو چینی
خلا بازوں نے پہلی مرتبہ اپنے کیپسول سے باہر نکلتے ہوئے مختلف امور
سرانجام دیے مثلاً مدار میں طبی معائنہ، خلائی ٹرائلز، خلائی اسٹیشن کے
پلیٹ فارم کا معائنہ اور یومیہ دیکھ بھال وغیرہ۔اس دوران اُن کی جانب سے
ہنگامی انخلاء اور طبی بچاؤ جیسے موضوعات پر تربیت کا انعقاد بھی کیا گیا
جبکہ خلائی جستجو کی تاریخ میں چین نے پہلی مرتبہ کسی خلائی اسٹیشن سے
خلائی تدریسی سرگرمیوں کی شروعات سے ایک نیا باب بھی رقم کیا۔تینوں چینی
خلا بازوں کی جانب سے نو دسمبر کو دیے گئے پہلے خلائی لیکچر کو نہ صرف چین
کے مختلف حلقوں بلکہ دنیا بھر میں سائنس و ٹیکنالوجی اور ائیرو اسپیس میں
دلچسپی رکھنے والے لوگوں نے بھرپور سراہا۔ یہ بات اچھی ہے کہ تینوں خلا باز
75روز بعدبھی بہترین جسمانی حالت میں ہیں اور خلائی اسٹیشن بھی مستحکم طور
پر کام کر رہا ہے۔
خلائی شعبے میں چین کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ سال کے اواخر میں ایک اور
اہم خبر دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ کا نکتہ بنی ہے ۔ سال 2021 میں دو مرتبہ
ایسا ہوا کہ امریکی اسپیس ایکس کمپنی کے لانچ کردہ سٹار لنک سیٹلائٹس چینی
خلائی اسٹیشن سے ٹکراتے ہوئے بال بال بچے ہیں اور چینی خلائی اسٹیشن کے
انتہائی قریب آئے ہیں۔چینی خلا بازوں کو اس صورتحال سے بچاو کے لیے فوری
اقدامات اٹھانا پڑے جس سے کسی بھی ممکنہ حادثے سے گریز کیا گیا ہے۔ چین کا
اس حوالے سے موقف ہے کہ خلا کوئی ماورائے قانون جگہ نہیں ہے۔ تمام ممالک کو
بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر خلا کے عالمی نظام کے احترام سے اسے برقرار
رکھنا چاہیے، اور خلائی سہولیات کے محفوظ اور مستحکم آپریشن سمیت خلابازوں
کی حفاظت کے لیے ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔چین کہتا ہے کہ خلا سے
متعلق 1967 میں طے شدہ معاہدے کے مطابق تمام ممالک کو اپنی نجی کمپنیوں کی
ہر قسم کی خلائی سرگرمیوں کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔امریکی کمپنی کے
اقدام سے چینی خلائی اسٹیشن اور خلابازوں کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔
چین نے اس ضمن میں " چینی خلائی ملبہ" کی اصطلاح کو بھی مسترد کرتے ہوئے
اسے بین الاقوامی توجہ کو ہٹانے کی کوشش قرار دیا ہے تاکہ چین کی خلائی
سرگرمیوں اور خلائی شعبے میں کامیابیوں کو مسخ کیا جا سکے ۔
خلائی شعبے میں چین کی کامیابیوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو 2003 میں چین کا
پہلا خلا باز ، خلا میں پہنچا تھا ۔ اُس وقت سے لے کر آج تک چین کی انسان
بردار خلائی تحقیق کو بیس سال ہو چکے ہیں ۔اس دوران متعدد چینی خلا باز ،
خلا میں جا چکے ہیں ۔ انسان بردار خلائی ٹیکنالوجی کی ترقی کے علاوہ، گزشتہ
چند سالوں میں چینی ڈیٹیکٹر چاند اور مریخ کی سطح پر کامیابی سے اتر چکا ہے
، عالمی سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم کی تعمیر کی گئی ہے یہاں تک کہ سورج سے
متعلق بھی تحقیقی کوششیں شروع ہو چکی ہیں ۔ خلائی شعبے میں چین کی ترقی
حکومتی سطح سے انفرادی سطح تک ، سائنسی اور تکنیکی ترقی کو فوقیت دینے کی
مظہر ہے ۔ چین نے ہمیشہ تمام بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کے جذبے کے
تحت خلا کو پرامن طریقے سے استعمال کیا ہے اور اس سلسلے میں دوسرے ممالک کے
ساتھ رابطے اور تعاون کو برقرار رکھنے کے لیے بھی تیار ہے۔ اس کا ثبوت یہی
ہے کہ چین نے خلائی تحقیق کے حوالے سے 17 ممالک کے پیش کردہ درجنوں منصوبوں
کو منتخب کیا ہے۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ چین خلائی اسٹیشن پر خلائی تجربات
کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ بھی تعاون کر رہا ہے۔ چینی صدر شی جن پھنگ نے
ہمیشہ اس عزم کا اظہار کیا کہ چین عالمی برادری کے ساتھ خلا کی جستجو اور
ترقی کے لیے تعاون پر آمادہ ہے تاکہ خلائی تحقیق کی کامیابیاں بنی نوع
انسان کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی خدمات انجام دے سکیں ۔ |