کبیر ؔداس جی کے ایک دوحہ کا مفہوم ہے کہ،’اُس استاد
پر کوئی قربان کیوں نہ ہو جائے جس نے ہمیں ہمارے خالق کے بارے میں
بتایا‘۔استاد ہو یا معلمہ ان کا مرتبہ کسی بھی طرح سے والدین کے مرتبہ سے
کم نہیں ہوتاہے۔ہر استاد اور معلمہ کی یہ خواہش رہتی ہے کہ ان کا شاگرد
آسمان کی بلندیوں کو پہنچے اور ملک کا نام روشن کرے۔
بھارت میں۱۸؍ویں صدی تک تعلیم کے سلسلہ میں کوئی کام ہی نہیں ہوا۔اہل لوگوں
نے تاج محل تو بنوایا لیکن عوام کے لیے یونیورسٹی نہیں بنوائی۔آشرموں میں
اونچی ذات کے لوگ ہی پڑھتے تھے وہ بھی مرد۔ لڑکیوں کی تعلیم گناہ سمجھی
جاتی تھی۔خاص طور سے دلت مرد عورتوں کے لیے تعلیم کے دروازے بند ہی نہیں
تھے بلکہ ان کے کانوں میں پگھلتا سیسہ ڈالنے کا قانون بھی تھا۔ایسے حالات
میں مصلح قوم و سماجی خدمت گارجیوتی راؤ پھلّے نے اپنی بیگم ساوتری بائی
کوتعلیم سے آراستہ کر کے ان فرسودہ روایت کی عملی مخالفت کی اور پھر ایک
چراغ سے کئی چراغ روشن ہوتے چلے گئے۔اس دور میں اتنا سب آسان نہیں
تھا۔ساوتری بائی کا سماجی بائکاٹ اور ان کا نان نفقہ بند کر دیا گیا۔ اس
حالات میں عثمان شیخ اور ان کی بہن فاطمہ شیخ پھلّے خاندان کے ہمدرد کے شکل
میں سامنے آئے۔ فاطمہ شیخ نے ساوتری بائی سے تعلیم حاصل کی اور پھر زندگی
بھران کے ساتھ اس جہد مسلسل میں شامل رہیں۔
اس جہد میں شامل تینوں لوگوں کا تعارف مندرجہ ذیل ہے۔
جیوتی راؤ پھلّے:
’’بھارت کے ایک بڑے سماجی کارکن مفکر اور مصنف تھے۔ ان کی پیدائش ۱۱؍اپریل
1827ء کومہاراشٹرمیں ہوئی تھی۔ وہ اس تحریک کے رہنما تھے جو بھارت میں ذات
پات کی رکاوٹوں کے خلاف جد جہد کر رہے تھے۔ انہوں نے برہمنوں اور اعلی طبقے
کے لوگوں کے خلاف احتجاج شروع کیا جن میں انہوں نے مزدوروں اور نچلے طبقے
کے لوگوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ 13سال کی عمر میں انہوں نے9؍سالہ
ساوتری بائی پھلّے سے شادی کی ۔
دونوں میاں بیوی بھارت میں تعلیم نسواں کے لیے راستہ تلاش کرنے والوں میں
شمار کیے جاتے ہیں۔وہ پہلے بھارتیہ ہیں جنہوں نے ۱؍جنوری 1848 ء کو لڑکیوں
کے لیے پہلا اسکول شروع کیا تھا۔ چونکہ یہ مالی برادری سے تعلق رکھتے تھے،
ہندو مذہب کے ذاتی نظام کے مطابق یہ لوگ ’شودر‘ کے زمرہ میں آتے تھے۔
پھلّے پڑھائی میں بہت ذہین تھے لیکن گھر کے معاشی حالات کی وجہ سے انہیں
بچپن میں ہی پڑھائی چھوڑنی پڑی اور زراعت کے کام میں اپنے والد کی مدد کرنے
لگے۔لیکن پھر جلد ہی1841ء میں جیوتی راؤ پھلّے نے پونہ کے اسکاٹِس مشن
اسکول میں داخلہ لیااو ر 1847میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ ان کی ملاقات سدا شیو
بلّال گونڈے سے ہوئی جو ایک برہمن تھے اور دونوں کی دوستی ہو گئی۔
اپنے برہمن دوست کی شادی میں انہو ں نے ایک تعصب دیکھا۔ یہی وہ حادثہ تھا
جس کے بعد سے وہ بھارتیہ سماج میں رائج ذات پات کے نظام کے خلاف کمر بستہ
وہ گئے اور پر عزم طریقے سے کام شروع کیا اور ایسے اکثریتی علاقے میں اپنی
تحریک کا آغاز کیا جہاں ان کے انقلابی نظریات پورا پورا اختلاف تھا لیکن
پھلّے کا حدف ساری انسانیت کی آواز تھی۔
24؍دسمبر 1873ء کو جیوتی با پھلّے ’ستیہ شودھک سماج‘ کی بنیاد ڈالی۔جس میں
انہوں نے عقائد اور تاریخ کو منظم کیا۔ انھوں نے اس عقیدے کے تشہیر میں جان
توڑ محنت کی جو مساوات کا درس دیتا ہے۔ جیوتی راؤ نے ویدو ں سے اجتناب کیا
اور انگریزوں کو اہل بصیرت قوم قرار دیا۔وہ پونا میونسپلٹی میں کمشنر کے
عہدے پر بھی فائز رہے۔ ان کا انتقال28؍نومبر 1890ء کو ہوا۔‘‘
ساوتری بائی پھلّے:
ساوتری بائی پھلّے مہاراشٹر کی ایک ہندوستانی سماجی مصلح، ماہر تعلیم اور
شاعرہ تھیں۔انہیں بھارت کی پہلی خاتون ٹیچر ہونے کا شرف حاصل ہے۔اپنے شوہر
جیوتی راؤ پھلّے کے ساتھ انہوں نے بھارت میں خواتین کے حقوق کو بہتر بنانے
میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔انہیں بھارت میں حقوق نسواں کی ماں سمجھا
جاتا ہے۔ساوتری بائی اور ان کے شوہر نے1848ء میں پونے میں لڑکیوں کے پہلے
بھارتیہ اسکول کی بنیاد رکھی۔انہوں نے ذات اور جنس کی بنیاد پر لوگوں کے
ساتھ امتیازی سلوک اور غیر منصفانہ سلوک کو ختم کرنے کے لیے کام
کیا۔مہاراشٹر میں انہیں سماجی اصلاح کی تحریک کی ایک اہم شخصیت کے طور پر
جانا جاتا ہے۔
ساوتری بائی پھلّے کی پیدائش 3؍جنوری 1831ء کو مہاراشٹر کے ضلع ستارا کے
موضع نیا گاؤں میں ہوئی تھی۔یہ بھی مالی برادری سے تعلق رکھتی تھیں۔ ساوتری
بائی اورجیوتی راؤ کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ انہوں
نے ایک برہمن بیوہ کے یہاں پیدا ہونے والے بچے کو گود لیا تھا تاہم ، اس کی
تائید کے لیے ابھی تک کوئی اصل ثبوت دستیاب نہیں ہے۔
شادی کے وقت ساوتری بائی ان پڑھ تھیں۔شوہر جیوتی راؤ نے گھر پر ہی ساوتری
بائی کو تعلیم دی۔ان کا تعلیم کا سلسلہ چلتا رہا اور یہ تربیت یافتہ ٹیچر
بن گئیں اور پڑھانے کا کام شروع کر دیا۔ بد قسمتی سے ساوتری بائی اور جیوتی
راؤ کی کامیابی کو قدامت پسندانہ خیالات کے ساتھ مقامی کمیونٹی کی طرف سے
کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ برہمنوں کے خیال سے شودروں پر تعلیم
کے دروازے بند ہیں۔اسی لیے بہت سے برہمنوں نے جیوتی راؤ پھلّے کی مخالفت
کرنی شروع کر دی۔اور مخالفت اتنی بڑھی کہ ان کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔اور
دونوں (جیوتی راؤ پھلّے اور ساوتری بائی پھلّے) اپنے دوست عثمان شیخ کے
یہاں مومن پورا، گنج پیٹ(1841-1847) چلے گئے۔
فاطمہ بیگم شیخ:
عثمان شیخ کی بہن فاطمہ بیگم شیخ کی پیدائش 9؍جنوری 1931 ء کو ہوئی تھی۔ان
کے بھائی عثمان شیخ اور جیوتی با پھلّے کی حوصلہ افزائی پربی․فاطمہ اور
ساوتری بائی دونوں نے ٹیچر ٹریننگ کا کورس کیا اور فاطمہ بیگم شیخ نے بھارت
کی پہلی تربیت یافتہ مسلم ٹیچر بنیں۔ان دونوں نے مل کر شیخ عثمان کے ہی گھر
میں 1849میں ایک اسکول کھولا۔
1850کی دہائی میں فاطمہ شیخ اور ساوتری بائی نے دو تعلیمی ٹرسٹ قائم کیے۔ان
کے نام تھے ’نیٹیو فِمیل اسکول، پونے Native Female School,Pune ‘ اور
’سوسائٹی فار پرموٹنگ دی ایجوکیشن آف مہار، منگسhe Society for Promoting
the Education of Mahars, Mangs, ۔ ان دونوں ٹرسٹ کے دائرے میں بہت سے
اسکول تھے جن کی قیادت ساوتری بائی پھلّے اور بعد میں شیخ فاطمہ نے کی۔
ساوتری بائی پھلے اور مہاتما جیوتی راؤ پھلّے اپنا گھر بار چھوڑ کر شیخ
فاطمہ اور ان کے بھائی عثمان شیخ کے ساتھ رہنے لگے تو جو پریشانی پھلّے
جوڑے کو جھیلنی پڑ رہی تھی وہی پریشانیاں بی․فاطمہ کو جھیلنی پڑی۔دونوں بہن
بھائیوں کے گھر میں جب پھلّے میاں بی بی نے پہلا اسکول کھولاتو اونچی ذات
کے ہندوؤں اور قدامت پسند مسلمانوں نے بھی بی․فاطمہ کی مخالفت کی۔یہ دونوں
گِروہ یہ سمجھتے تھے کہ اُن لوگوں کو دبا لے جائیں گے لیکن ساوتری بائی اور
فاطمہ بیگم ڈریں نہیں اور اپنے مشن میں لگی رہیں۔
فاطمہ شیخ نے تعلیم نسواں کے ساتھ ساتھ بیواؤں کے نکاح، ان کی باز آباد
کاری اور خواتین کی حقوق کے علاوہ عدم مساوات کے خلاف بھی عملی اقدامات
کیے۔فاطمہ شیخ پر انگریزی میں کتاب شائع ہو گئی لیکن یہ المیہ ہے کہ اردو
اور دیگر زبانوں میں فاطمہ شیخ پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔
ہم لوگوں نے فاطمہ شیخ اور ان کے بھائی عثمان شیخ کی ساوتری بائی اور ان کے
شوہر جیوتی راؤ پھلّے کے کام میں شراکت کو بھلا دیا ہے ۔ وہا ں کے اونچی
ذات کے لوگوں نے دونوں میاں بیوی کو نہ صرف گاؤں بلکہ گھر چھوڑنے پر مجبور
کیا تو کیا ہی ساتھ میں جان کے دشمن بھی ہو گئے تھے۔ایسے موقع پر شیخ بھائی
بہنوں نے نہ صرف ان کو اپنے گھر میں پناہ دی بلکہ درس و تدریس میں ان کی
مدد بھی کی۔فاطمہ بیگم کو بھی اس کا فائدہ ہوا اور وہ بھی پڑھ لکھ گئیں اور
بھارت کی پہلی مسلم ٹیچر بنیں۔
ساوتری بائی اور جیوتی راؤ پھلّے کی ذات پات کے نظام اور مردانہ تعلیم کی
اجارہ داری کے خلاف جد جہد کا فی مشکل تھی۔ لیکن اس حقیقت پر بہت کم توجہ
کی جاتی ہے کہ ان کے مشن میں فاطمہ شیخ جیسی خاتون نے شمولیت اختیار کی تھی
تو ان کو عورت اور مسلمان ہونے کی وجہ سے کافی مخالفت جھیلنی پڑی۔یہ بات
بھی انتہائی اہم ہے کہ اس نے بطور اقلیت دوسرے مذاہب کے بچوں کو بھی
پڑھایا۔
معاشرے میں اس کی شراکتیں واقعی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔فاطمہ شیخ کو جس
قدر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہوگا وہ نا قابل تسخیر ہے۔ اس کی زندگی میں
اس کے بھائی کے علاوہ کوی مردشخصیت کا ذکر نہیں ہے جو اس حقیقت کی نشاندہی
کرتا ہے کہ اس کی زندگی انّیسویں صدی کی زندگی کی پدرانہ نظام اور راسخ
العقیدہ کے خلاف بغاوت تھی۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ 2014میں مراٹھی معاشرے میں ’بال بھاتی، مہاراشٹر
اسٹیٹ بیورو آف ٹکسٹ بُک پروڈکشن اینڈکریکولم ریسرچ‘ نے فاطمہ شیخ کی خدمات
کو تسلیم کیا ہے۔فاطمہ شیخ ساری زندگی اس کوشش میں لگی رہیں کہ اس بات کو
یقینی بنایا جا سکے کہ تمام بچوں کے لیے تعلیم لازمی ہو جائے۔
یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بی․فاطمہ اور ان کی زندگی کی جد جہدپر بہت کم
لکھا گیا ہے۔ آج فاطمہ شیخ دیگر کئی مصلحین خواتین کی طرح بھلا دی گئی
ہیں۔ان کے بارے میں جو بھی جانا جاتا ہے وہ ساوتری بائی پھلّے اور مہاتما
جیوتی راؤ پھلّے کی بدولت جانا جاتا ہے۔پس ماندہ طبقہ کو با اختیار بنانے
کے لیے فاطمہ شیخ کی شراکت کا مطالعہ کر کے ان کی کوششوں کو سامنے لانا
چاہیے۔بہر حال انہوں نے جو کام کیا وہ بہترین اور اہم کام تھا کیوں کہ درس
اور تدریس سے بہتر کام کوئی ہو ہی نہیں سکتا جس کے یے ان کے کاموں کی
سراہنا کے ساتھ ساتھ ان کے مغفرت کی دعا بھی کرنی چاہئے۔
|