تحریر: کومل یاسین (کوئٹہ)
''میں تیری یاد کی شال اوڑھے دسمبر کی سرد شاموں میں
میں تجھے ڈھونڈتی ہوں پکارتی ہوں دور تلک فضاؤں میں ''
چھت پر کھڑی کائنات دور افق میں ڈوبتے سورج کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کیا
جانے والے لوٹتے نہیں ہیں؟؟
کیا نظروں سے اوجھل ہونے والے دوبارہ نہیں دیکھتے؟؟
کیا انتظار اتنا طویل ہو جاتا ہے کے جانے والوں کو بھول جاتا ہے کوئی پیچھے
اسکے انتظار میں شب و روز کا لمحہ لمحہ کاٹ رہا ہے کیوں جان سے پیارا شخص
محسوس نہیں کر پاتا جدائی کی تڑپ۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات کائنات کائنات!!!!!!!!! مسلسل آواز پر سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تو
کائنات نے ماں کی آواز پر جواب دیا جی امی بیٹا نیچے آجاؤ دسمبر کی سردی
بہت ظالم ہوتی ہے لگ جائے تو بندہ مشکل سے ہی ٹھیک ہوتا ہے۔۔۔۔۔
امی دسمبر کا روگ بھی بہت ظالم ہوتا ہے لگ جائے تو بندہ لمحہ لمحہ مرتا ہے
اور تاحیات مرتا ہی رہتا ہے جیتا نہیں ہے پھر زندہ لاش بن جاتا ہے
چھ سال پہلے دسمبر کی ایک سرد مگر حسین شام میں کائنات احتشام کی شریک حیات
بنی تھی زندگی کے وہ لمحے حسین تھے قبول ہے قبول ہے قبول ہے اعتراف اور بھی
حسین تھا بچپن کی محبت زندگی کا سنگ بن چکی تھی دعاؤں میں مانگا گیا شخص اﷲ
تعالیٰ نے عطا کر دیا تھا زندگی مکمل اور حسین ہو چکی تھی ۔۔۔۔
مگر دسمبر بڑا ظالم ہے محبت کو آزمائش میں ڈال کر سکون سے دور کھڑا تماشہ
دیکھتا ہے
احتشام چلا گیا کہاں گیا کیوں گیا کسی کو کچھ خبر نہ تھی ہاں احتشام نے
جانے سے دو روز قبل وہ زیورات اور سلامیاں جو نکاح میں ملیں تھیں مانگ لئیے
کائنات نے خاموشی سے سب کچھ اٹھا کے دے دیا اسے دنیا کی کسی چیز کی طلب
نہیں تھی اب اسے احتشام کا ساتھ چاہیے تھا جو اﷲ تعالیٰ نے اسے دے دیا تھا
اب سب بے مول تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
احتشام غائب ہے اور اسکا کوئی پتہ نہیں کائنات نے جب پہلی بار یہ خبر سنی
تو پاؤں سے زمین نکل گئی احتشام کہاں جا سکتا ہے سوچیں تھیں جو اس کی وحشت
بڑھا رہیں تھیں وہ دن بد دن اختشام کی فکر میں گھلتی جا رہی تھی دن ہفتے
مہینے گزر گئے تب چاچی نے بتایا احتشام غیر قانونی طریقے سے سعودی عرب
ملازمت کے لئیے چلا گیا ہے جہاں اسے سال بعد قانونی طریقے سے نوکری مل جائے
گی کائنات جی اٹھی تھی وہ جہاں بھی ہے ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔
دن ہفتے مہینے سال پر لگا کے اڑ گئے کائنات اسی دسمبر کی حسین شام میں قید
تھی حسین شام آسیب زدہ اور دسمبر ویران حویلی کی مانند ہو چکا تھا گزرے
سالوں میں کوئی لمحہ احتشام کی یاد سے خالی نہ تھا مگر احتشام نے پلٹ کر
آنے سے انکار کر دیا تھا وہ وہی سیٹل ہوگیا اس نے وہاں ایک امیر باپ کی
بیٹی سے شادی کر لی اور اتنے سالوں میں ایک کال کے ذریعے کائنات کو نکاح کی
حسین شام کے چنگل سے آزادی دینے کی پیشکش کی کائنات خاموش تھی گھر والے اسے
طلاق کی پیشکش قبول کرنے پر رضا مند کر رہے تھے مگر احتشام تو اسکی روح میں
سما چکا تھا روح نکال دو تو خاکی جسم تو خاک میں مل جاتا ہے احتشام نے
سوچنے کا وقت دیا تھا کائنات کا وقت ختم ہوا کال آئی کائنات نے سب کی
مخالفت کر کے احتشام کے نام سے جڑے رہنے کا فیصلہ کیا تھا میں تمھارے کوئی
حقوق پورے نہیں کر پاؤں گا مجھے قبول ہے میرا نام ہی تمھارے پاس ہوگا میں
نہیں
مجھے قبول ہے میں کھبی پاکستان نہیں آؤں گا مجھے قبول ہے آج پھر کائنات نے
قبول کیا تھا وہ قبولیت احتشام کے ساتھ جڑنے کی تھی اور یہ قبولیت زبردستی
احتشام سے جڑے رہنے کی شرائط کی تھی۔۔۔۔۔
زندگی کا پہیہ گھوم رہا تھا دسمبر کا اختتام چل رہا تھا کائنات ہسپتال کے
بیڈ پر لیٹی دراوزے کو دیکھ رہی تھی وہ منتظر تھی احتشام کی ڈاکٹرز نے جواب
دے دیا تھا
محبت کے زہر نے پورے جسم میں پھیل کر کائنات کو نگل لیا تھا بس کچھ سانسیں
بچی تھیں بڑی امی احتشام آئے گا نا؟؟؟ آنکھوں میں احتشام کے لوٹ آنے کی
آرزو جگمگا رہی تھی۔ بڑی امی نے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا جی میری جان
وہ آئے گا بس بچوں کو چھٹیاں مل جائیں۔ کب ہوں گی چھٹیاں؟ جنوری کے پہلے
ہفتے میں بڑی امی نے جواب دیا تب تک تو دیر ہو جائے گی۔ بڑی امی نے بات
مکمل ہونے سے پہلے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کے کائنات کو خاموش کرا دیا نہیں
میری بچی ایسا کچھ نہ کہنا۔۔۔۔ بڑی امی احتشام کو میں یاد نہیں آتی ہوں گی
احتشام کو میری محبت یاد نہیں آتی ہوگی احتشام کو وہ بچپن کے دن یاد نہیں
آتے ہوں گے جب میں نے اپنی ہر چیز اس پر قربان کر دیتی تھی مجھے فخر تھا
احتشام کو میری طرح کوئی نہیں چاہ سکتا تو بڑی امی احتشام نے مجھے کیوں
نہیں چاہ مجھ سے ویسی محبت کیوں نہیں کی جیسی میں نے اس سے کی تھی؟؟؟ بڑی
امی نے نظریں چرائیں۔ میری طرف دیکھیں امی میں نے خود کو کھو دیا میں نے
ساری خوشیاں وار دیں میں نے احتشام کے نام کی اپنے نام کے ساتھ جڑے رہنے کی
قیمت ادا کر دی بڑی امی جب میں مروں نا تو احتشام کو ایک بار میری قبر پر
بھیجئے گا ۔۔۔۔۔
نہیں میری بچی اللّٰہ تمھیں سلامت رکھے بڑی امی یہ بات سن کر تڑپ کر بولیں
میری بیٹی ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔۔۔
29-دسمبر 2021 بڑی امی قران پاک کی آیات کا ورد کر کے کائنات پر پھونکے جا
رہیں تھیں جب کے کائنات دروازے کی جانب دید ٹکائے لیٹی تھی بڑی امی کائنات
کی آواز نے کمرے کا سکوت توڑا جی میری بچی شفقت محبت کا پیکر بڑی امی نے
تڑپ کر جواب دیا آپ احتشام سے کہے گا اسے بتائے گا میں اس سے بے تحاشہ محبت
کرتی تھی میں نے زندگی کا ہر لمحہ اسکے نام کیا ہے اسے بتائے گا بڑی امی
کائنات سے زیادہ اسے دنیا میں کوئی نہیں چاہ سکتا اسے بتائے گا کائنات کا
قیمتی اثاثہ تھا وہ اور کائنات ساری عمر محروم رہی اس سے اسے بتائے گا امی
میں دنیا کی ہر نعمت اسکے لئیے قربان کر سکتی ہوں اسے بتائے گا امی زندگی
بھر کی خوشیاں وار دیں میں نے اسکے نام پر اسے بتائے گا اسے بتائے گا امی
میری زندگی کا سب سے بڑا خوف ہے یہ کے میں اسے اپنی محبت کی گہرائی بتائے
بغیر مر جاؤں گی اسے بولیں کائنات کے پاس وقت کم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بات نامکمل چھوڑ
دی گئی کچھ دیر وقفے کے بعد اسے کچھ مت کہے گا امی اسے کچھ مت بتائے گا اسے
کہے گا بس ایک بار مجھ سے مل لے پھر کھبی نا ملے ایک بار مل لے صرف ایک
بار۔۔۔۔۔۔
وقت رات: 2 بجے
کمرے میں خاموشی تھی منظر نہیں بدلا تھا بڑی امی بیڈ کے پاس کرسی پر بیھٹی
عبادت کر رہیں تھیں کائنات بیڈ پر لیٹی دراوزے کی طرف پر امید نظروں سے
دیکھ رہی تھی کائنات کی مدہم آواز ابھری آپ آگئے احتشام بڑی امی نے دروازے
کی جانب دیکھا کوئی نہیں تھا لمحے بھر کو بڑی امی کو بھی لگا احتشام آگیا
ہے پر نہیں وہاں کوئی نہیں تھا کائنات نے اپنا ہاتھ دراوزے کی جانب بڑھایا
امی بولیں نا انھیں میرا ہاتھ تھام لیں بڑی امی نے اب ٹوکنا مناسب سمجھا
کائنات میری بچی کوئی نہیں ہے وہاں احتشام نہیں آیا بڑی امی وہ ہیں سامنے
کھڑے ہیں وہ مجھے کہ رہے میرے ساتھ چلو بڑی امی مجھے جانا ہے وہ مجھے بولا
رہے ہیں آواز مدہم ہوتی جا رہی تھی لفظوں نے ساتھ دینا چھوڑ دیا بند ہوتی
آنکھوں سے کائنات نے آخری عکس احتشام کا دیکھا جو اسکے ماتھے پر عقیدت سے
بوسہ دیتے ہوئے کہ رہا تھا سو جاؤ تم تھک چکی ہو بڑی امی رو رہیں تھیں باقی
سب بھی رو رہے تھے وہ سو گئی تھی منظر غائب ہوچکا تھا اب اندھیرا تھا جس
میں کائنات کو لگ رہا تھا وہ نیند کی آغوش میں چھپ گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احتشام اپنے بیوی بچوں سمیت پاکستان آیا تھا سب سے مل کر وہ کائنات کے کمرے
کی طرف بڑھا دروازہ کھولا سامنے نکاح کے دن کی تصویر آویزاں تھی جس میں
کائنات کسی بات پر شرما کر مسکرا رہی تھی اور احتشام اسے دیکھ رہا تھا
غلافی پلکیں پاکیزہ آنکھوں کو ڈھکے ہوئیں تھیں یہ وہ چہرہ تھا جس نے احتشام
کو محبت کا درس دیا تھا جس کو سمجھنے میں اتنا وقت لگا تھا کے آج وہ چہرہ
خاک ہوچکا تھا احتشام کا دم گھٹنے لگا کمرے میں جا بجا کائنات کا تڑپتا
سسکتا وجود نظر آنے لگا وہ تیزی سے پلٹا باہر آکر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔
رات کو بڑی امی کے کمرے میں گیا تو بڑی امی بیڈ پر بیھٹیں تسبیح پڑھ رہیں
تھیں
احتشام نے سر ماں کی گود میں رکھ دیا امی وہ کیا کہتی تھی میرے بارے میں
مجھے برا بھلا کہتی ہوگی کوستی ہوگی؟؟
نہیں میرے بچے وہ تمھارے لئیے دعائیں مانگتی تھی رب سے تمھاری خوشیاں
مانگتی تھی کملی جھلی ساری زندگی تمھارے لئیے تڑپتی رہی مگر کھبی تمھیں بے
وفا نہ کہا تمھاری ذات پر انگلی نہ اٹھائی امی وہ کیا کہتی تھی کہتی تو کچھ
بھی نہیں تھی بس دیکھتی تھی گھینٹوں تمھاری تصویر کو دیکھتی رہتی تھی کھبی
مسکراتی تھی کھبی روتی تھی کھبی ایسے دیکھتی جیسے کوئی مرقبے میں ہو پتہ
جانے سے پہلے مجھے اس نے کہا تھا احتشام سے کہنا اسے دنیا میں مجھ سے زیادہ
کوئی نہیں چاہ سکتا اسے بتانا امی کے میں نے اسکے نام کی اتنی بڑی قیمت ادا
کی وہ رو رہا تھا سسک رہا تھا بڑی امی نے گزرے برسوں کائنات کو سسکتے تڑپتے
اپنی آغوش میں چھپایا تھا آج انکا بد قسمت بیٹا تڑپ رہا تھا سسک رہا تھا
مگر وہ اسے دلاسا نہیں دے سکتیں تھیں اس نے کھو دی تھی وہ لڑکی جو صرف اسکی
چاہ میں زندہ تھی۔ احتشام تمھیں پتہ ہے کائنات کو دینے کے لئیے میرے پاس
تسلی تھی امیدیں تھیں حوصلہ تھا کیونکے اسکے سارے جذبات تم سے منسلک تھے
تمھیں دینے کے لئیے میرے پاس کچھ نہیں ہے حوصلہ بھی نہیں تم نے اسے کھویا
جو صرف تمھاری تھی ۔۔۔۔۔۔
قبر کے کتبے پر لکھے نام کائنات احتشام پر مٹی جمی تھی احتشام نے اسے
ہاتھوں سے صاف کیا زیر لب دہرایا کائنات احتشام معصوم بڑی آنکھوں والی حسرت
بھری آنکھیں ذہن کی سطح پر ابھر آئیں
سنو کائنات احتشام میں احتشام احمد یہ اطراف کرتا ہوں کے مجھے دنیا میں
کائنات احتشام سے بڑھ کر کوئی نہیں چاہ سکتا میں اقرار کرتا ہوں میں اس
محبت کے قابل نہیں تھا مگر محبت قابلیت نہیں دیکھتی ورنہ تم جیسی معصوم
محبت پرست لڑکی کو کھبی مجھ جیسے دنیا کی بھیڑ میں کھو جانے والے انسان سے
محبت نہ ہوتی میں احتشام احمد زندگی بھر تمھاری محبت کے بوجھ تلے دبا رہوں
گا میں پاکستان نہیں آیا کیونکے مجھے مستقبل بنانا تھا میں نے شادی کر لی
کیونکے میرے لئیے امیر باپ کی بیٹی سے شادی ترقی کی نئی راہیں کھول رہیں
تھیں میں نے تمھیں اپنے مستقبل کے لئیے قربان کر دیا اور دیکھو نا محبت نے
اپنا بدلہ کسیے لیا ایک لمحے میں مجھے اپنی بیوی سے محبت ہو گئی مجھے وہ
جھکی آنکھیں دل میں پیوست ہوتے محسوس ہوئیں اور میں ہار گیا تم ان فاتحین
میں سے ہو جو جنگ میں باظاہر ہار جاتے ہیں مگر جنگ کے بعد جب نقصان کا
تخمینہ لگایا جاتا ہے تو فاتحین کے چاروں شانے چت کر چکے ہوتے ہیں تم جیت
گئی میں ہار گیا
کائنات احتشام کتبے پر لکھے نام پر عقیدت سے بوسہ دیا گیا
سنو جاناں!!!!!!!
تیری قبر کے کتبے پر میرا نام لکھا ہے
وہی نام تیری زندگی کا کل اثاثہ ہے
میں تیرے نام کو عقیدت سے چوم کر بولوں گا
اب تو بچھڑ گئی ہو تم اب تو روٹھ گئی ہو تم
مگر سنو پاگل آنکھوں والی پاگل لڑکی
میں رب سے فریاد کروں گا گڑ گڑاوں گا
اس جہاں میں تو میں اسکے قابل نہ بن پایا
میرے مولا مجھے اگلے جہاں میں سرخرو کرنا
مجھے یقین ہے جاناں!!!!!!
جنت کے باغوں میں میں تجھ کو پاس بیھٹا کے
سورت رحمان سناؤں گا بہت چاہ سے سناؤں گا
اور بتاؤں گا تیری محبت رب کی نعمت ہے
جو اس جہاں میں نا سمجھ پایا مگر اب اقرار کرتا ہوں
کے میں اپنی رب کی۔ کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤں گا
|