روبرو ہے ادیب: محترمہ صفیہ ہارون
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
تحریرو ملاقات: ذوالفقار علی بخاری
برقی پتہ: [email protected]
نامور بھارتی ادیب خان حسنین عاقب نے ایک بار راقم السطور سے کہا تھا کہ ”وقت نکالنا چاہیے کانفرنسوں کے لئے،نئے اوراچھے لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، کچھ مزید کام کرنے کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں“۔
ان کی اس بات نے راقم السطور کو بے حد متاثر کیا تھا اوربعدازں اس کی حقیقت کو آنکھوں سے بھی دیکھ لیا۔
چھٹی قومی اہل قلم کانفرنس 2021کے موقع پر ایک ایسی ہستی سے ملاقات ہوئی جوبے حد ملنسار، ہمدرد اورعلامہ محمد اقبال کے پیغام کو اپنی روح میں یوں سموئے ہوئے ہیں کہ دوسروں کی بھلائی کرتے کرتے خود نقصان اُٹھا لیتی ہیں،اُن کے حق کے لئے آواز بلند کرتی ہیں اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنی بات کو خوبصورت انداز میں بیان کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔یہ خداداد صلاحیت ہوتی ہے کہ آپ اپنے جذبات کااظہار یوں کریں کہ وہ دوسروں کے دل میں اترجائے اوروہ آپ کے ہم خیال بن جائیں۔یہ بے حددل چسپ امر ہے کہ راقم السطور کی ما نند محترمہ صفیہ ہارون صا؛حبہ بھی اپنے بچپن میں خوف زدہ رہتی تھیں لیکن آج وقت نے اُن کو اس قدر مضبوط کر دیا ہے کہ وہ مشکلات اورطوفان کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔
آج کے دور میں اچھے لوگ ہی ایک امید کا دیا روشن کیے ہوئے ہیں اور ان کو دیکھ کر ہی دوسروں کو اپنی زندگی کو سنوارنے اورکچھ کرنے کی ہمت ملتی ہے۔انہی میں سے ایک محترمہ صفیہ ہارون صاحبہ کی ذات بھی ہے۔محترمہ صفیہ ہارون صاحبہ بااعتماد ہیں اسی وجہ سے ان کی ذات کو دیکھ کر بہت سی خواتین بھی باہمت ہو رہی ہیں اوربہادر ی سے جینا سیکھ رہی ہیں۔
محترمہ صفیہ ہارون صاحبہ کا لکھا گیا ایم فل کا مقالہ ”ترقی پسند تحریک کے شعراء کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی جائزہ“ کتابی صورت میں سامنے آچکا ہے اورخوب پذیرائی حاصل کر رہاہے۔
چھٹی قومی اہل قلم کانفرنس 2021میں نمایاں ادبی و سماجی خدمات پرادب اطفال ایوارڈ2021سے نوازا گیا ہے۔انہوں نے ایم۔فل اردو کیا ہوا ہے، اس کے علاوہ انگریزی ادب میں ماسٹرز اور بی۔ایڈ، ایم۔ایڈ بھی کر رکھا ہے۔
محترمہ صفیہ ہارون صاحبہ سے ہونیو الی ملاقات کی دل چسپ روداد نذرقارئین ہے۔
سوال: سنا ہے آپ بچپن میں بہت ڈرپوک تھیں، اس حوالے سے کوئی قصہ قارئین کے لیے، آگاہ کیجیے؟ جواب: جی بالکل، ایسا ہی ہے۔ بچپن میں بہت سی چیزیں مجھے خوف میں مبتلا کر دیتی تھیں اور کچھ حد تک اب بھی ایسا ہی ہے۔ مجھ سے بڑے میرے دو بھائی ہیں، ان کو میرے خوف کا علم تھا۔ وہ مجھے اکثر پلاسٹک کی چھپکلی اور سانپ لے کر ڈرایا کرتے تھے اور میں خوف کی وجہ سے چیخنا شروع ہو جاتی تھی۔ ایک دن رات گئے میں سو رہی تھی تو انھوں نے پلاسٹک کا سانپ لے کر مجھے ڈرانا شروع کر دیا۔ میں نے بلند آواز میں رونا شروع کر دیا۔ رونے کی آواز سن کر ماما جاگ گئیں۔ انھوں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ زندگی میں بہت سے لوگ ایسے ہی ڈرائیں گے لیکن تمھیں آگے بڑھنا ہے۔ یہ ڈر، خوف وقتی چیزیں ہیں۔ پھر میری والدہ نے سکھایا کہ اپنے ڈر پر قابو پاؤ اور اپنے ڈر کو اپنی طاقت بناؤ اور میں نے یہی کیا۔بچپن میں ڈر کے حوالے سے میرا کہنا یہ ہے کہ اپنے بچوں کے ذہن میں بچپن میں کسی بھی چیز کا ڈر مت بٹھائیے، ایک مرتبہ وہ ڈر گئے تو تاعمر ان کے ذہن سے ڈر اور خوف کے وہ تاثرات نہیں جائیں گے۔ اپنے بچوں کو ان کے بچپن سے ہی مضبوط بنائیے۔
سوال: آپ کو کب محسوس ہوا کہ قلم کے ذریعے شعور بیداری کی مہم میں اپنا کردار سرانجام دینا چاہیے؟ جواب: زمانہ طالب علمی میں ہی اکثر ایسا ہوتا تھا کہ میرے اساتذہ مجھ سے تخلیقی کام کروایا کرتے تھے اور سب سے اچھی بات یہ کہ اساتذہ کے احترام میں، میں نے کبھی کسی کام سے انکار نہیں کیا تھا۔ اپنے اساتذہ کے لیے اور اپنے ہم جماعت طلبا کے لیے بہت سے تخلیقی کام کیے۔ 2018 کی بات ہے کہ میں ایک یو۔ٹیوب چینل کے ساتھ وابستہ تھی تو مجھے اس چینل کے مالک نے کہا کہ اگر آپ یو۔ٹیوب ویڈیوز کے لیے تحریری صورت میں مواد لکھ سکتی ہیں تو آپ کو کالم نگاری کی جانب ضرور آنا چاہیے۔ میں نے پہلے بہت سے معروف کالم نگاروں کے کالمز کا مطالعہ کیا۔ مطالعے سے جہاں ذہنی استعداد بڑھی، وہیں ذخیرہِ الفاظ بھی وسیع ہوتا گیا اور یوں کالم نگاری سے تخلیقی سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس سلسلے میں اسعد نقوی اور سید بدر سعید کا تعاون ہمیشہ حاصل رہا۔ میرا تعلق جس شعبے سے ہے، وہاں بیشمار مسائل سر اٹھائے کھڑے ہوتے ہیں، میری کولیگز ایسے مسائل کا تذکرہ میرے سامنے کیا کرتی تھیں تو میں نے سوچا کہ ان کی آواز کو حکامِ بالا تک ضرور پہنچانا چاہیے۔ آپ جس شعبے میں ہوں، وہاں کے لوگوں کی مخالفت مول نہیں لے سکتے، یہ بالکل سمندر میں رہ کے مگرمچھ سے بیر رکھنے والی بات ہوتی ہے، چناں چہ میں نے یہ کیا کہ میں نے اپنا نام صیغہِ راز میں رکھ کر بیشمار مسائل کی نشاندہی کی اور الحمدللّٰہ! آواز اٹھانے سے بیشمار مسائل حل بھی ہوئے۔
سوال: زمانہ طالب علمی میں کس طرح کا وقت گزارا ہے، کہاں تک تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے؟ جواب: الحمدللہ! زمانہ طالب علمی میں بہت اچھا وقت گزرا ہے۔ میرا زیادہ وقت میرے اساتذہ کی صحبت میں گزرا ہے، ان کے تدریسی کاموں میں، میں ہمیشہ ان کی معاون رہی۔ اس طرح مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ الحمدللہ! میں نے ایم۔فل اردو کیا ہے، اس کے علاوہ انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا ہے اور بی۔ایڈ، ایم۔ایڈ بھی کر رکھا ہے۔ مزید تعلیم کے حصول کا سفر جاری ہے۔
سوال: بچپن میں سیکھی گئی کس بات نے آج تک آپ کو بہت پرسکون رکھا ہے؟ جواب: میری والدہ نے مجھے بچپن میں یہ سکھایا تھا کہ بیٹا! اگر کبھی حق و باطل کا سوال ہو تو حق پر ہوتے ہوئے بھی بحث و لڑائی سے پرہیز کرنا۔ حق پر ہوتے ہوئے بھی صبر کرنا۔ الحمدللہ! اس بات کو اپنانے کے ثمرات میں نے اپنی عملی زندگی میں دیکھے ہیں اور یہی بات پرسکون بھی کرتی ہے۔
سوال: آپ کی طبیعت میں شرارتی پن محسوس ہوتا ہے کبھی شرارت پرسزا ملی؟ جواب: میں شرارتی بالکل نہیں ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو یا کسی اور کو کسی ایک لمحے میں ایسا محسوس ہوا ہو لیکن میرے بارے میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ میں سنجیدہ رہتی ہوں۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ میں اپنے اساتذہ کے قریب رہی ہوں تو اساتذہ کی قربت سے اور کچھ فطری طور پر میری طبیعت میں شروع سے ہی سنجیدگی موجود ہے۔ میرے اساتذہ اور کولیگز کا ماننا ہے کہ میں بہت سنجیدہ رہتی ہوں اور واقعی ایسا ہی ہے۔ جہاں تک بات ہے شرارتوں کی تو میں نے بچپن میں کبھی شرارتیں نہیں کی تھیں۔
سوال: اپنی مرتب کردہ کتاب”ترقی پسند تحریک کے شعراء کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی جائزہ“ کے حوالے سے کچھ بتائیں، اس خاص موضوع پر کام کرنے کا خیال کیسے آیا؟ جواب: یہ میرا ایم۔فل کا تحقیقی مقالہ ہے۔ یہ موضوع مجھے استادِ محترم سید صبیح الدین صبیح رحمانی اور ڈاکٹر فضیلت بانو کی جانب سے تحقیق کے لیے تفویض کیا گیا تھا۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ جو لوگ تھے، ان سب کے بارے میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ وہ مذہب سے دور ہو گئے تھے، کمیونسٹ بن گئے تھے، وہ مذہب کی بجائے انسانیت کو زیادہ اہمیت دیتے تھے، ترقی پسندوں نے کسی بھی مذہب و مسلک کے تفرقے میں الجھے بغیر کمزور انسانوں، معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے حقوق کے لیے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ ترقی پسندوں کا ماننا تھا کہ مذہب ثانوی چیز ہے، انسانیت سب سے پہلے ہے۔ میں نے اپنے تحقیقی مقالے میں یہ ثابت کیا کہ ترقی پسند اپنے مذہب سے دور نہیں ہوئے تھے، وہ مذہب کو مانتے تھے اور ان کے کلام میں نعتِ رسولﷺ موجود ہے۔ یوں ترقی پسندوں پر مذہب بیزاری کا جو الزام لگایا جاتا ہے، وہ کافی حد تک کم ہو جاتا ہے۔
سوال: خاندان میں کس ہستی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے؟ جواب: والدہ محترمہ سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ خاص طور پر ہر طرح کے حالات میں صبر کرنا اور خاموش رہنا۔
سوال: آپ کے خیال میں لڑکیوں کو تعلیم کیوں حاصل کرنی چاہیے؟ جواب: آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ لوگ ستاروں پر کمند ڈال چکے ہیں لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کہیں نہ کہیں ہم ابھی بھی عورت و مرد کی تخصیص میں الجھے ہوئے ہیں۔ تعلیم جتنی مرد کے لیے ضروری ہے، اتنی ہی عورت کے لیے بھی ضروری ہے۔ جتنے مواقع مرد کو تعلیم کے حصول کے ملنے چاہیں، اتنے ہی مواقع عورت کو بھی ملنے چاہیں۔ تعلیم مرد و عورت کے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ اس سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔
سوال: آج کے معاشرے میں ادیب کا کردار کتنا اہم ہو چکا ہے؟ جواب: ادیب معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی مثالی معاشرے کا تصور ادیب کے کردار کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ ادبا و شعرا ہی ہیں، جو آپ کے اندر حوصلہ و ولولہ پیدا کرتے ہیں اور آپ کے اندر نئی دنیاؤں کی کھوج کی جستجو پیدا ہوتی ہے۔
سوال: بچوں کو کس طرح سے مطالعے کی جانب بھرپور انداز میں مائل کیا جا سکتا ہے؟ جواب: عصرِ حاضر میں بچوں کے ہاتھ میں موبائل تھما دیے گئے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ بچہ جب چیزوں کو سمجھنے لگے تو تبھی سے اسے کہانیاں سنائی جانی چاہیں اور اس سے کہانیاں سننی بھی چاہیں۔ اس کے سامنے کتب کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔ گھر کا ماحول بچے کی تربیت پر کافی گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ اگر آپ شکایت کرتے ہیں کہ بچے کتب بینی سے دور ہوتے جا رہے ہیں تو پہلے انفرادی طور پر ہمیں اپنے اپنے گھر کے ماحول کو مطالعے کے لیے موزوں بنانا ہو گا۔
سوال: ادبی دنیا میں کس قدر حوصلہ افزائی ملی ہے، کن احباب کا کردار خاص رہا ہے؟ جواب: الحمدللہ! ادبی دنیا میں بیحد پزیرائی ملی۔ خاص طور پر ان ادبا کی جانب سے حوصلہ ملا جو ایک طویل عرصے سے ادب کے افق پر چھا ئے ہوئے ہیں۔ میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے سر اسد مرزا نے ہمیشہ میری غلطی پر میری اصلاح کی اور ان کے ساتھ کام کر کے بہت کچھ سیکھا۔ عالمی شہرت یافتہ نعت خواں و نعت گو سید صبیح الدین صبیح رحمانی، پاکستان سے صدر شعبہ اردو جامعہ منہاج لاہور، ڈاکٹر فضیلت بانو، دوحہ قطر سے معروف شاعر افتخار راغب صاحب، کینیڈا سے سر تسلیم الٰہی زلفی، بھارت سے ڈاکٹر تمیم احمد اور ابوشحمہ انصاری، پاکستان سے پی۔ایچ۔ڈی ریسرچ اسکالر سید بدر سعید اور اسکرپٹ رائٹر اسعد نقوی یہ سب احباب ہمیشہ میرا حوصلہ بنے رہے اور میری رہنمائی کے لیے ہمیشہ موجود رہے۔ آج کل رہنمائی و حوصلہ افزائی کے لیے ترکی سے سر فرخ سہیل گوئند ی ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ ان تمام احباب کا میری کامیابیوں میں بہت نمایاں کردار ہے۔ یہ وہ احباب ہیں جنھوں نے مجھے پہلی تھپکی دی اور ہاتھ بڑھا کر اپنے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش کی۔
سوال: ادب اور ادیب کا آپس میں کتنا گہرا تعلق ہے؟ جواب: ادب اور ادیب لازم و ملزوم ہیں۔ ان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں ادیب کا کردار زیادہ متحرک نظر آتا ہے، اگر ادیب کسی عہد کی نمائندگی کر رہا ہے تو اس کے تمام جملہ پہلوؤں سے واقف ہوتا ہے۔ معاشرے کے کمزور و حساس پہلوؤں پر اس کی کڑی نظر ہوتی ہے۔ وہ بہت عمدگی سے حساس سے حساس موضوع کو بھی موقع بر محل الفاظ کا استعمال کر کے الفاظ کے لبادے میں یوں پیش کرتا ہے کہ برہنہ حقیقتیں بھی آشکار ہو جاتی ہیں اور کسی کی طبیعت پر الفاظ گراں بھی نہیں گزرتے یوں کہ:
کچھ کہا بھی نہیں اور کہ بھی گئے۔
سوال: آج کے ادیب کس طرح اپنی ذمہ داری بھرپور طور پر سرانجام دے سکتے ہیں؟ جواب: دورِ جدید میں ادبا و شعرا اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ بطریقِ احسن اپنی ذمہ داریاں نبھا بھی رہے ہیں۔ عصرِ حاضر میں ادبا اصلاحی ادب کی ترویج و اشاعت کے ذریعے اپنا کردار اچھے سے نبھا سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی سب سے اہم بات یہ کہ ایک ادیب کو کبھی اپنے قول و فعل میں تضاد نہیں رکھنا چاہیے۔ گفتار کے غازی تو بیشمار ہیں، ہمیں کردار کے غازی بھی بننا چاہیے، ورنہ صوفی و ملا کے غلام ہی باقی رہ جائیں گے۔
سوال: ادیبوں کو سراہنے کی اہمیت کتنی ہے؟ جواب: ہر اچھے کام کی تحسین و توقیر لازمی ہونی چاہیے۔ اگر ادبا اپنی محنتِ شاقہ سے ہم تک اچھا ادب پہنچا رہے ہیں تو ملکی و غیر ملکی سطح پر ان کی صلاحیتوں کا اظہار لازمی ہونا چاہیے۔ داد و تحسین حوصلوں کو پنکھ عطا کرتی ہے۔
سوال: اپنی کس خوبی سے مسائل کا شکار ہوتی ہیں؟ جواب: ہر ایک کی مدد کرنے کی عادت کی وجہ سے۔ میں کبھی مرد و عورت کی تفرقے میں نہیں الجھی۔ میرے لیے بحیثیت انسان سب قابلِ احترام ہیں اور اسی ناطے میں سب کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار بھی رہتی ہوں لیکن بہت سے لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے ہیں۔
سوال: ادبی دنیا واقعی جیسی خوب صورت نظرآتی ہے ویسی ہی ہے؟ جواب: جی الحمدللہ! یہاں سے ہمیشہ بے پناہ عزت، احترام، محبت اور شفقت ہی ملی ہے۔
سوال: آپ آج کی عورت کی آزادی کے نعرے کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟ جواب: اسلام نے جتنی آزادی اور جتنے حقوق عورت کو دیے ہیں، اس کے بعد اس نعرے کی گنجائش نہیں رہتی۔
سوال: کسی بھی ادیب کو بہترین کامیابی کیسے مل سکتی ہے؟ جواب: مسلسل محنت سے اور دل گرفتہ ہو ئے بغیر اپنا کام کیے جانے سے۔
سوال: مصاحبہ کاری کا تجربہ کیسا رہا ہے؟ جواب: الحمدللہ! مصاحبہ کاری کا تجربہ بہترین رہا۔ مصاحبہ کاری میں جہاں آپ کی شخصیت دوسروں کے سامنے پرت در پرت کھلتی ہے، وہیں آپ کی اپنی ذات پر بھی آپ کی شخصیت کے کئی رْخ عیاں ہوتے ہیں۔
سوال: پڑھنے والوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟ جواب: سطحی علوم پڑھنے سے گریز کیجیے۔ جو بھی پڑھیے، اس کی گہرائی و گیرائی کو پرکھے بغیر مت پڑھیے۔ اگر ایک مرتبہ پڑھنے سے آپ کو کسی بات کی سمجھ نہیں آئی تو بارِ دگر پڑھیے لیکن تحریر کو اس کے حقیقی مفہوم اور حقیقی روح کو جان کر پڑھیے۔ |