مطالعے کا رحجان، دورحاضر کے نونہال اورادب اطفال



تحریر وتحقیق: ذوالفقار علی بخاری


ای میل: [email protected]





دور حاضر میں مطالعے کا رجحان کم ہو چکا ہے اس کی بڑی وجوہات ہیں لیکن یہ بات اہم ترین ہے کہ آج کے والدین اپنے بچوں کو بہت کم ہی غیر نصابی مواد پڑھنے کی جانب مائل کرتے ہیں۔اسی کی وجہ سے بچوں میں شعور بیدار نہیں ہو پا رہا ہے جس کی وجہ سے وہی بچے جب نوجوانی میں آتے ہیں تو پھر بہت کچھ ایسا کر جاتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف والدین شرمسار ہوتے ہیں بلکہ معاشرے میں بھی انتشار پھیلتا ہے۔






آج کے دور میں اگر بچوں کو مطالعے کی جانب مائل کر دیا جائے تو معاشرے میں امن و امان قائم ہو سکتا ہے کہ ادب ہمیشہ ذہن کے بند در کھولتا ہے جس سے انسان کو بہت کچھ سیکھنے اورسمجھنے کا موقعہ ملتا ہے اور وہ دوسروں کے لئے مثبت انداز میں سوچتا ہے۔آج کے دور میں جہاں والدین کا اہم کردار ہے کہ وہ اپنے بچوں کو غیر نصابی کتب پڑھنے کی طرف مائل کریں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ازخود بھی مطالعہ کریں کہ جو وہ کریں گے وہی بچے ان کو دیکھتے ہوئے کریں گے یعنی مطالعے کے رحجان میں اضافے میں اہم کردار والدین ادا کر سکتے ہیں اور اس کے بعد وہ استاد جو اُن کو تعلیم دیتے ہیں وہ بھی اس سلسلے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔ مطالعے کے فروغ کے حوالے سے چند ادارے اورافراد بچوں کی زندگی کو بہتر کرنے میں برسوں سے جہاد کیے جا رہے ہیں اس حوالے سے نامور ادیب اورمدیران محمد جعفرخونپوریہ، ابن آس محمد، محبوب الہی مخمور، نوشاد عادل، محمد فہیم عالم، کاوش صدیقی، محمد شعیب مرزا، علی عمران ممتاز،نذیر انبالوی،عاطر شاہین،جاوید بسام، خلیل جبار، امجد جاوید،اکمل معروف،سلمان یوسف سمیجہ، احمد رضاانصاری، عمادحسن، تنزیلہ احمد،راج محمد آفریدی،احمد عدنان طارق، امان االلہ نیر شوکت،فہیم زیدی،علی اکمل تصور، فیصل شہزاد اوردیگر کئی ادیب خوب بچوں کے لئے تفریحی اوراصلاحی مواد نہ صرف لکھ رہے ہیں بلکہ بہترین ادبی مواد رسائل میں شائع کرکے اپنا فرض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں تاکہ نونہالوں کی تربیت دورجدید کے مطابق ہوتی رہے۔




مدیر اعلیٰ گلدستہ ٹوٹ بٹوٹ اورنامور ادیب محمد جعفر خونپوریہ بچوں کے ادب اورفروغ مطالعہ کے حوالے سے بات ہوئی تو اس حوالے سے کچھ یوں فرماتے ہیں:
وہ مواد جو بچوں کی عمر اور اُس کی ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی آسودگی کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا ہو، بچوں کا ادب کہلاتی ہے چاہے وہ نظم ہو یا نثر اپنے معنی اور افادیت کے اعتبار سے اُن کی ذہنی استبداد کے مطابق ہو اور جس میں زبان کی لطافت، خیال کی رفعت، جذبہ کی صداقت اور بیان کا حسن موجود ہو…… جو بہترین ذہنی تربیت کا ضامن ہو…… ”بچوں کا ادب ہے“۔کسی بھی زبان اور معاشرت سے ادب کو نکال دیا جائے تو اُس معاشرے کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ کیونکہ ادب معاشرے کا عکس ہوتا ہے ادب سے کردار کی تعمیر ہوتی ہے اور ادب ہی ہے جو سیاسیات معاشیات، اخلاقیات، مذہیبات پر اثر انداز ہوتا ہے…… ادب ہی ہے جو معاشرے کے اُتار چڑھاؤ میں معاون ہوتا ہے……لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں ادب کو نظر انداز کردیا گیا ہے……خاص کر بچوں کے ادب کو …… جو کہ بچوں کی اخلاقی تعمیری اور جرأت مندانہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ادب ہی اظہار کا ذریعہ ہے…… زمانہ قدیم میں جب لکھنے پڑھنے کے ذرائع نہ تھے تحریر وجود میں نہ آئی تھی۔ (تحریر سے مراد پرنٹنگ پریس وغیرہ)تب بھی لوگ ایک دوسرے کو قصے، کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ باقاعدہ ”قصہ گو“ ہوتے تھے۔ جن کا ذریعہ معاش ہی ”قصہ گوئی“ تھا۔ مائیں اپنے بچوں کو لوریاں سنایا کرتی تھیں …… یہ ادب ہی کی ایک شکل تھی جو لوگوں کو ناصرف معلومات فراہم کرتی تھیں بلکہ اُن کی تفریح کا ذریعہ بھی تھی…… ادب سے ذہنوں کو وسعت حاصل ہوتی ہے…… کچھ کرنے اور کر گزرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے…… ادب کا کام ”ماضی کو پیش کرکے حال کو درس دینا ہے اور مستقبل کا عکس دکھانا ہے“…… ”ادب اپنے زمانے کے بہترین خیالات کو لفظوں میں پرو کرہمیشہ کیلئے امر کردیتا ہے“…… یہ”جذبوں کو نظموں سے اُجاگر کرتا ہے۔درحقیقت زمانے کی پرورش ادب ہی کرتا ہے“…… اگر ادب نہ ہو تو زمانہ جہالت کی گہری اندھیری کھائی میں ڈوب جائے…… موجودہ وقت میں جبکہ ادب سے دوری اختیار کی جاچکی ہے…… زمانے پر بڑھتی ہوئی بتدریج تاریکی بغوبی دیکھی جاسکتی ہے……





اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے محمد جعفرخونپوریہ صاحب فرماتے ہیں کہ وطن عزیز میں یوں تو بچوں کے ادب پر بہت کام ہورہا ہے لیکن منظم طور پر بچوں کے ادب کو وہ مقام حاصل نہ ہوسکا جو اس کا حق تھا…… اِس کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ اسے حکومتی سرپرستی حاصل نہ ہوسکی…… لیکن! شاید ہم غلط سمت میں سوچ رہے تھے…… دنیا میں جو بھی عوامل و قوع پزیر ہیں اس کے دو پہلو ہوتے ہیں …… (1) ”عمل(2) ردِعمل“ عمل تو ہم سب کررہے ہیں۔ ”یعنی ادب تخلیق ہورہا ہے“…… لیکن اسکا ”ردِ عمل موثر نہیں ہے“۔ ”یعنی پڑھنے والے نایاب ہیں“ یہی وجہ ہے کہ ”ادب کو استحکام نہیں ہوسکا“…… لکھنے اورپڑھنے والے میں ربط ہو تو ادب سے رابطہ استوار ہوتا ہے رابطے کیلئے راستہ درکار ہوتا ہے…… اور یہ یہی راستہ دینے کیلئے…… ”تحریک برائے بچوں کا ادب“ وجود میں لائی گئی ہے…… لکھنے اور پڑھنے والوں کے درمیان موثر رابطے قائم کرنا اور ”ادیب اور قاری کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ”تحریک برائے بچوں کا ادب“ کا بنیادی مقصد ہے۔




اس حوالے سے نئے اور نامور قلم کاروں عیشاء صائمہ، بہرام علی وٹو، فاکہہ قمر، صاعقہ علی نوری، سائرہ شاہد، عرفان حیدر، مریم شہزاد، ہانیہ ارمیا،محمدجعفرخونپوریہ اورراقم السطور(ذوالفقار علی بخاریٌ کی مختصر کہانیوں کی کتاب اورداستان حیات یعنی داستان ادیب شائع کی جا رہی ہے جس کی قیمت بے حد کم رکھی گئی ہے تاکہ وہ بچوں کی پہنچ میں آسکیں۔”داستان ادیب“ میں قلم کاروں کی زندگی کے واقعات ہیں اور”ایک ادیب۔ایک کتاب“ میں بچوں کی دل چسپی کے لئے مختلف موضوعات پر تفریحی کہانیاں ہیں یعنی بچوں کو دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے پسندیدہ قلم کاروں کی زندگی کو بھی جاننے کو موقع ملے گا جو ان کو بھی کچھ کر دکھانے پر مائل کرے گا۔





اس سلسلے کو عملی جامہ پہنانے میں معروف ادب اطفال ادیب ابن آس صاحب کا اہم کردار ہے جنہوں نے بچوں کوکتاب دوستی کرنے پر اُکسانے کی اُس دور میں کوشش کی ہے جب بچے جدید آلات سے کھیلنا چاہتے ہیں یعنی ابن آس نے موجودہ دور میں ادب اطفال کے فروغ میں جس سلسلے کا آغاز کیا ہے وہ جہاد قرار دیا جاسکتا ہے۔






اُردو زبان سے محبت رکھنے والوں اوربالخصوص نجی وسرکاری اسکولوں کے علاوہ سرکاری سطح پر بھی ادب اطفال ادیبوں کی بھرپور سرپرستی ہونی چاہیے تاکہ وہ دلجمعی سے بچوں کے لئے لکھیں۔حکومت پنجاب نے حال ہی میں فنکاروں کے لئے ایک سلسلہ شروع کیا ہے تاہم اس میں بچوں کے ادیبوں کے حوالے سے کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دی ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے کہ جو کل کے مستقبل کو سنورنے کے لئے اپنا آج لگا رہے ہیں ان کے لئے سرپرستی یا مالی تعاون نہیں کیاجا رہا ہے اس حوالے سے حکومت پنجاب یا وفاقی حکومت ہر سال کم سے کم ہر ادب اطفال ادیب کی ایک کتاب ضرور سامنے لائے یا اس کے لئے مالی تعاون کرے تاکہ بچوں کی اخلاقی، ذہنی اورکردارسازی کے حوالے سے کام ہوتا رہے۔






یاد رہے کہ جب تک یہ نہیں ہوگا ملک کو درپیش بہت سے سنگین مسائل حل نہیں کیے جا سکتے ہیں کہ سوچ کو بدلنا ہے تو اس کا آغاز کم عمری میں بچوں کو آگاہی دینے سے کامیابی مل سکے گی، بہرحال تحریک برائے بچوں کا ادب کے حوالے سے جب راقم السطور نے مقاصد جاننے چاہے تو محمدجعفرخونپوریہ صاحب نے مندرجہ ذیل مقاصد بیان کیے۔
1۔ بچوں، نوجوانوں اور اُبھرتے ہوئے ادیبوں کو ایک پلیٹ فام مہیا کرنا
2۔ پڑھنے والوں کا حلقہ تیار کرنا اور انہیں مطالعہ کی عادت ڈالنا۔
3۔ مختلف پروگراموں، سیمینارزاور تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کرتے ہوئے نوجوانوں کو مصروف عمل رکھنا۔
5۔ نئے لکھنے والے تیار کرنا۔
6۔ ایسے کتابی سلسلے کا آغاز جو پڑھنے اور لکھنے والوں کو خود سے جوڑے رکھے۔
7۔ بین الصوبائی اور ملکی سطح پر مقابلوں کا انعقاد
8۔ بچوں کے ادب سے وابستہ رائٹرز(اورشعرا)کو سرکاری سطح پر متعارف کرانا۔
9۔ تحریک کی جانب سے ”ظفراحمد خان“ اعزازی ایوارڈ کا جاری کرنا۔
10۔ سالانہ ایوارڈ تقریب کا انعقاد کرنا۔




دنیا میں کم ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے اچھے حالات میں اپنی حیات مستعار کا آغاز کیا ہو اور جتنے شہرہ آفاق لوگ ہیں انہوں نے نامساعد حالات ہی سے کیا۔ خاص طور پر آپ موجودہ، حکمرانوں، سائنسدانوں، مورخوں، مصنفوں اور مفکروں کو سر فہرست رکھیں ……اِن کے حالات زندگی کے مطالعہ سے یہی حقیقت ملتی ہے…… ان سب حضرات نے زمانہ کے نہ سازگار حالات ہی میں ابتداء کی تھی…… لیکن! ایک چیز اِن کے پاس تھی…… بلند ہمتی، کامل استقلال اورمحنت کاعظم…… اور یہی وہ چیز تھی جس نے انہیں کامیابی کی بلندیوں تک پہنچایا…… آج کے اس پر فتن دور میں جبکہ موبائل اور انٹرنیٹ ایک وباء کی صورت اختیار کر بیٹھی ہے۔ نوجوانان پاکستان پر اسکے مفید اثرات کم اور منفی اثرات زیادہ پہنچ رہے ہیں ……جس نے ادب سے دوری اور بے ادبی سے نزدیک کردیا ہے…… آج ہمارے پاس تمام تر جدید وسائل ہیں لیکن ہم ایسی ہی کسمپرسی کی حالت میں ہیں جو مذکورہ بالا سطور میں مذکور ہیں …… چنانچہ ایسے حالات میں ہم جناب اشتیاق احمد (مرحوم) اور محترم محی الدین نواب (مرحوم) کی مثالیں پیش کرینگے کہ انہوں نے بھی ایسے ہی نامساعد حالات میں ادب تخلیق کیا اور اس پائے کا کیا کہ لوگ پڑھنے پر مجبور ہوگئے…… اگرچہ اُس دور میں پڑھنے والوں کی ایک تعداد تھی…… لیکن اُن پڑھنے والوں کے پاس قوت خرید نہ تھی۔ لہٰذا ادب سے دلچسپی رکھنے والوں نے لائبریری سسٹم کاآغاز کردیا…… اب جو افراد خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ کرائے پر کتاب حاصل کرکے پڑھ سکتے ہیں چنانچہ مسئلے کا ایک حل تجویز کیا گیا اور یہ حل کارگر رہا……موجودہ دور میں لوگوں کے پاس قوت خرید موجود ہے لیکن کتاب سے دلچسپی کم ہوگئی ہے۔ پڑھنے کی عادت نکل گئی ہے۔اُس وقت مالی حالت کی عدم دستیابی…… اس وقت جدید آلات تفریح کی موجودگی…… اُس وقت بھی کتاب سے دوری ……اِس وقت بھی کتاب سے دوری……لہٰذا ضرورت اس امر کی تھی کہ لکھنے اور پڑھنے والوں میں ایک متوازن رابطہ قائم کیا جائے…… اور تحریکی بنیادوں پر پڑھنے والوں تک کتاب کی رسائی آسان کی جائے چنانچہ ”تحریک برائے بچوں کا ادب“کو معرض وجود میں لایا گیا…… جو نہ صرف پڑھنے والوں تک کتاب کی رسائی کو ممکن بنائے گی بلکہ لکھنے اور پڑھنے والوں کے درمیان ایک مضبوط اور مربوط رابطہ بھی قائم کردے گی……

اس تحریک کا ایک مقصد والدین اور بچوں کے درمیان ادبی رابطہ استوار کرناہے جبکہ دوسری جانب اساتذہ اور طالب علم میں ادبی سرگرمیوں کو اجاگر کرنا ہے…… یہ عمل انتہائی مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں …… اسی مشکل کو آسانی میں تبدیل کرنے کیلئے جس تحریکی کاوشوں کی ضرورت تھی اس کے لئے ”تحریک برائے بچوں کا ادب“ موثر تحریک ثابت ہوگی……آپ اس حوالے سے شائع ہونے والی کتب کو اس نمبر03232920497 پر رابطہ کرکے حاصل کر سکتے ہیں۔ادب سے جڑے رہیں تاکہ آپ شعور حاصل کرسکیں۔
٭٭٭

(یہ مضمون ہفت روزہ مارگلہ نیوز، اسلام آباد بتاریخ ٢٠ دسمبرتا٢٦ دسمبر میں شائع ہوا)
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522474 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More