بچوں کے ادیب: رانا محمد شاہد کی آپ بیتی کا ایک جائزہ
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
آپ بیتی تبصرہ: شمارہ مئی 2014 ماہ نامہ انوکھی کہانیاں، کراچی
تبصرہ نگار: ذوالفقار علی بخاری برقی پتہ: [email protected]
ہم جن موصوف کی آپ بیتی پر تبصرہ کر رہے ہیں یہ ہیں رانا محمد شاہد صاحب جن کا تعلق بورے والا سے ہے۔ ان کی پیدائش 20دسمبر1982کو ہوئی تھی۔ یہ2007سے قلم کو تھامے اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔بچوں کے لئے دل چسپ مضامین اورکہانیاں خوب لکھتے ہیں ایک کہانیوں کا مجموعہ ”ایمانداری کا صلہ“ بھی شائع ہو چکا ہے۔
ہم نے ان کی آپ بیتی کومختلف پہلوؤ ں سے جانچا ہے اسی حوالے سے اپنی رائے آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ ”دوسروں کی شرافت کو بزدلی سمجھنے والے، منافقت کرنے والے اور دوسروں کو دھوکہ میں رکھ کر خود کو تیس مارخان سمجھنے والوں سے شدید نفرت ہے“۔
یہ حیرت انگیز بات مجھے ایک ایسے صاحب کتاب اوردوست کی آپ بیتی میں پڑھنے کو ملی ہے جس سے ملاقات کے دوران بھی اُس کی شخصیت کو کچھ ایسا ہی بے باک اورسچا پایا ہے جیسے اُس نے خود کو اپنی آپ بیتی میں عیاں کیا ہے۔ اگرچہ یہ آپ بیتی سات سال قبل 2014لکھی گئی تھی تاہم اس میں موجود بہت سی باتیں ایسی ہیں جو آج بھی پڑھنے پر چونکا دیتی ہیں اورمیں حیرت زدہ ہوا ہوں کہ اس قدرتلخ باتوں کی حامل آپ بیتی شائع کیسے کر دی گئی ہے لیکن یہ بڑا کام اُسی نے کیا ہے جس نے اس کی اشاعت کو یقینی بنا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ واقعی محبوب ادب ہے، جس نے اپنی زندگی ہی ادب کرنے اورحق بات کہنے میں صرف کی ہو وہی دوسروں کو بھی سچائی کا علم تھامنے پر سراہتا ہے،یہ شخصیت محبوب الہی مخمور صاحب ہیں۔بہرحال رانا محمد شاہد کی زندگی کی بے شمار باتیں تو آپ ان کی آپ بیتی میں پڑھ لیں گے لیکن ہم اُن باتوں پر اپنی رائے کا اظہار کریں گے جن سے ہم ازخود بے حد متاثر ہوئے ہیں اور سوچنے پر بھی مائل ہوئے ہیں کہ واقعی دنیا میں اچھے انسان بھی باقی ہیں اور کچھ ایسے ہی یہ آپ بیتی لکھنے والے ہمارے ادیب دوست بھی ہیں جن سے ہماری ملاقات ایک ادبی کانفرنس میں بھی تھی۔جہاں ان کی کھری اور سچی باتوں نے اُن کا گرویدا کر دیا تھا۔
ان کی آپ بیتی میں کہی گئی باتوں کو من و عن پیش کر رہے ہیں تاکہ آپ بھی ان کی ذات کے حوالے سے جان سکیں کہ یہ کس قدر جی دار ہیں اورادب میں ایسے ہی ادیب اپنی ساکھ کو بناتے ہیں اور قائم رکھتے ہیں۔ ”پچھلے دنوں جھنگ سے تعلق رکھنے والے بچوں کے ادب کے معروف لکھاری سے بات ہو رہی تھی۔میں نے پوچھا آپ کو کہانی کا کیا اعزازیہ مل رہا ہے؟“۔ ”کہنے لگے: وہی جو آج سے سولہ سال پہلے تھا۔میں تو صرف اپنا شوق پورا کرنے کے لئے لکھ رہا ہوں، ورنہ 16سال میں کیا کچھ نہیں بدل گیا، اگر کچھ نہیں بدلا تو کہانی کا اعزازیہ نہ بدلا۔یہ لکھنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ لکھاری کی حوصلہ افزائی ہی بچوں کے ادب کی بقاء کی ضامن ہے“۔ یہ قصہ قارئین کو بہت کچھ سمجھا رہا ہے جو کہ واقعی دل خراش بات ہے۔
”لاہور سے شائع ہونے والے بڑوں کے ایک میگزین میں 2002میں چند مضامین بھیجے تو انہوں نے ایک مضمون شائع کرنے کے بعد تھوڑا سخت خط لکھا کہ”شکر کریں ہم نے آپ کا ایک مضمون شائع کر دیا، اعزازیہ ہم صرف ان کو دیتے ہیں جن سے کہہ کر لکھواتے ہیں، آپ کا ایک مضمون شائع ہو گیا،اب دوسرے رائٹرز کو بھی موقع ملنا چاہیے“۔
ہمارے دوست ادیب نے تو اپنی جانب سے ایک کوشش کرلی ہے لیکن اس معاملے کو اب ہمیشہ کے لئے ختم ہونا چاہیے کیوں کہ جب تک یہ حل نہیں ہوگا تب تک یہ کلنک کا ٹیکہ بن کر یہ یاد دلواتا رہے گاکہ ہم ادیبوں کی خدمات کا صلہ محض ذاتی عناد کی وجہ سے روکے ہوئے ہیں۔ کس قدر دل چسپ بات ہے کہ اُن کے ساتھ یہ سانحہ ہوا ہے اورآج بھی ایسا ہو رہا ہے اوراس واقعے میں کہی جانے والی بات بتا رہی ہے کہ ادب اطفال میں یہ معاملات جان بوجھ کر ہی خراب رکھے جا رہے ہیں تاکہ بچوں کے ادیبوں کو یونہی رکھا جائے کیوں کہ معاشی طور پر اگر استحکام حاصل ہو گیا تو ایسا ادب معیاری سامنے آئے گاجو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل کرے گا اورادیبوں کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملے گی۔ یہ تو راقم السطور کا مشاہدہ ہے جو شاید قارئین کو پسند آئے،بہر حال اس کے بعد ہمارے یہ ادیب دوست کیا فرماتے ہیں وہ بھی ذرا ملاحظہ کیجئے کس قدر تلخ بات کہی ہے۔
”اگر آپ 1994اور اس کے بعد کے شمارے اُٹھا کر دیکھیں تو آپ کو انوکھی کہانیاں کی انفرادیت کا اندازہ ہوگا لیکن اب چند برسوں سے وہ معیار نہیں رہا ہے، ظاہر ہے لکھنے والے اپنی اپنی دنیاؤں میں مصروف ہو گئے ہیں تو معیار کیسے برقرار رہ سکتا ہے، انوکھی کہانیاں کے خاص نمبر بھی اس کی خاص پہچان تھے“۔
اب اس بات سے آپ کو یہ اندازہ ہو جانا چاہیے کہ محض ایک رسالے کا مدیر ہی کسی بھی رسالے کے معیار کا ذمہ دار نہیں ہوتا ہے بلکہ اُس میں لکھنے والے بھی کسی بھی رسالے کے معیار کو بلند کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، یہاں انوکھی کہانیاں کے مدیر اعلیٰ جناب محبوب الہی مخمور صاحب داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی یوں ساکھ بنائی ہے کہ اکتیس سالوں سے نہ صرف مسلسل رسالہ شائع کر رہے ہیں بلکہ نئے قلم کاروں کو بھی بھرپور مواقع دے رہے ہیں اگرچہ اُن کا معیار وقت کے ساتھ بلند ہوگا لیکن محض اختلافات کی بنیاد پر ایک اچھے رسالے میں نہ لکھنا کسی بھی ادیب کو زیب نہیں دیتا ہے کم سے کم لکھنا نہیں چھوڑا چاہیے کیوں کہ پھر قارئین کو معیاری مواد پڑھنے کو نہیں ملتا ہے کہ اچھے لکھنے والے جب نہیں لکھیں گے تو پھر ایک رسالہ کس قدر معیاری مواد شائع کر سکتا ہے محض رسالے کے مدیر پر ذمہ داری ڈال کرخود کو کوئی ادیب معیاری ادب پیش نہیں ہورہا ہے کہہ کر بری الذمہ نہیں ہو سکتا ہے۔ ”ویسے بچوں کے ادب کا یہ المیہ ہے کہ یہاں حوصلہ افزائی کی وہ روایت موجود نہیں جو ہونی چاہیے۔ شاید اس لئے ہے کہ اس کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ہمیں بھی مغرب کی طرز پر اپنے کلاسیکی ادب کو آسان اورمختصر ترین صورت بچوں کے لئے شائع کرنا چاہیے، صوفی غلام تبسم،امتیاز علی تاج، میرزا ادیب اوراے حمید نے بچوں کے لئے لافانی تخلیقات پیش کیں،چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کے لئے لازوال خدمات انجام دینے والے دورحاضر کے ادیبوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے، بچوں کے رسالوں کے ایڈیٹرز کی حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی ہو“۔
بچوں کے ادیبوں کی حوصلہ افزائی بے حد ضروری ہے اور راقم السطور کے علم میں ہے کہ آج کئی رسائل کے مدیران نئے شعراء اورقلم کاروں کو بھرپور انداز میں سراہتے ہیں کیوں کہ یہی بچوں کے ادب کو مستقبل میں مزید عروج دلوائیں گے ان مدیران کی کوششوں کی وجہ سے آج کئی نئے نام اپنی ایک ساکھ بنا رہے ہیں ان میں محمد جعفرخونپوریہ، محبوب الہیٰ مخمور، محمد فہیم عالم، محمد شعیب مرزا کے نام سہ فہرست ہیں۔یہاں حکومت میں موجود درد دل افراد کو بھی بچوں کے ادیبوں کا سوچنا چاہیے تاکہ اُن کے بھی گھر کے چولہے جل سکیں اور وہ بہتر طور پر اپنی خدمات کو بھی سرانجام دیں محض معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے قلم چھوڑنا نونہالوں کا مستقبل بھی خراب کرسکتا ہے۔
ایک بات ہمارے دوست ادیب نے کیا خوب اپنی آپ بیتی میں بیان فرمائی ہے ذرا پڑھیں۔ ”ادب میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روایت بھی عام تھے۔میرے خیال میں ایک لکھنے والے کو صرف لکھنے اوراپنے قارئین کی پسند و ناپسند پر توجہ رکھنی چاہیے ناکہ اپنے ہم عصر اور سینئر ادیبوں پر بے جا تنقید کرنی چاہیے، اچھا ادیب وہی ہوتا ہے جوتعصب سے پاک ذہن رکھتا ہو اور اپنے ہم عصر ادیبوں کے لئے بھی وہی جذبات واحساسات رکھے جو وہ ان سے توقع رکھتا ہے؟“۔ یہ ایک ایسی با ت ہے جو ادب سے وابستہ افراد کو سوچنی اورسمجھنی چاہیے اورادب کے فروغ کے لئے اپنا کردار مل کر ادا کرنا چاہیے اسی سے ہی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔
ہمارے دوست ادیب پر چربہ سازی کا بھی الزام لگا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنی روداد میں خوب تذکرہ کیا ہے اور بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جب ادیب پر الزام لگایا جائے تو کم سے کم لکھنے والے سے تصدیق کرالینی چاہیے اُس کے موقف کو سننا چاہیے محض الزام پر کسی کی کردار کشی کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے مکمل تفصیلات آپ ماہ نامہ انوکھی کہانیاں کے مئی 2014کے شمارے میں شائع ہونے والی رانا محمد شاہد کی آپ بیتی میں پڑھ لیجئے جس میں انہوں نے اپنی بات بہت جذباتی انداز میں لکھی ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر قلم کار بہت حساس ہوتا ہے،کہنے والے تو کہہ جاتے ہیں لیکن جو برداشت کرتے ہیں وہ اندر ہی اندر سے بہت کچھ سہنے کے بعد ٹوٹ بھی جاتے ہیں بس وہی ذہنی طور پر مضبوط رہ سکتے ہیں جو بہترین قوت ارادی رکھتے ہیں، یہ آپ بیتی قارئین کو بہت کچھ سوچنے پر مائل کرتی ہے اورقاری دل سے آخر تک یہ تسلیم کرلیتا ہے کہ لکھنے والے نے واقعی دل سے لکھ کر قلم کا حق ادا کر دیا ہے۔ ۔ختم شد۔
|