پاکستان پیپلز پارٹی کے عظیم قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو
جنہیں عام طور پر قائد عوام بھی کہا جاتا ہے،ان کے ہاں اکیس جون انیس سو
تریپن میں پنکی بینظیر بھٹو کی ولادت ہوئی۔پنکی نے اندرون ملک اور بیرون
ملک تعلیم حاصل کی اور اپنے والد سے بے پناہ محبت کے باعث وہ اپنے والد کی
سیاست پر گہری نظر رکھتی تھی۔
انیس سو ستہتر میں تعلیم کے مکمل کرنے کے بعد انہوں نے سیاست میں گہری نظر
رکھنا شروع کی۔جنرل صیاء الحق کے مارشل لا کا دور تھا،بینظیر بھٹو نظربند
رہیں انہی ادوار میں اپریل انیس سو اناسی میں بھٹو کو پھانسی دی گئی،ملکی
حالات سنگین ہو رہے تھے۔بھٹو کی پھانسی کے ساتھ بینظیر بھٹو نے عملی سیاست
میں قدم رکھا،پیپلزپارٹی کی سربراہی نبھانے لگیں اور پارٹی کی سینئر
رہنماؤں نے پر ان پر اتفاق کیا۔
انیس سو اکاسی میں جمہوریت پسندوں کے ساتھ مل کر بینظیر بھٹو ایم آر ڈی کی
تحریک کی بنیاد ڈالی۔ اس تحریک نے آمریت کے خلاف عوامی جذبات کو ابھارا
،اگست انیس سو تریاسی میں اس تحریک نے زور پکڑی تھی کی تھوڑے ہی عرصے میں
غلام مصطفی کھر نے تحریک ختم کرنے کا اعلان کردیا،انیس سو چوریاسی میں
بینظیر بھٹو جلاوطن ہونے پر مجبور پوئیں۔
اپریل انیس سو چھیاسی میں بینظیر بھٹو کے لیے سیاسی حالات کچھ بہتر تھیں وہ
واپس وطن آئیں اگلے سال نوابشاہ کی اہم شخصیت حاکم علی زرداری کے فرزند آصف
علی زرداری سے ان کا نکاح ہوا جو ان کی زندہ کا ایک اہم فیصلہ تھا۔
سترہ اگست انیس سو اٹھاسی میں ضیاء الحق دوران سفر ایک طیارہ حادثے میں جاں
بحق ہوئے یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ ضیاء الحق نے تاحال استیفعی نہیں دیا،
ضیاء الحق کو کافی لوگ غدار کہتے ہوئے نظر آتے ہیں پر ایسا نہیں ہے ان کی
سیاسی فیصلوں سے لاکھ اختلاف ہوسکتے ہیں لیکن ان کے دور میں پاکستان کو
ایٹمی طاقت بنانے کا کام اسی طرح جاری و ساری تھا جس طرح بھٹو دور میں شروع
ہوا تھا،انہوں نے ایٹم کے بارے میں سمجھوتہ نہیں کیا۔ضیاء الحق کی حادثاتی
موت کے بعد ملکی سیاسی حالات بہت ہی اہم تھے سینیٹ چیئرمین غلام اسحاق خان
نے عام انتخابات کا اعلان کیا ،سولہ نومبر انیس سو اٹھیاسی کو انتخابات
ہوئے ۔دسمبر انیس سو اٹھیاسی میں بینظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی مسلم
خاتون وزیر اعظم بن گئیں جس کی وجہ سے انہیں کافی مقبولیت ملی اور چند
مذہبی حلقوں میں ناپسنددیگی اظہار بھی کیا گیا، بیس ماہ کے مختصر عرصے میں
صدر اسحاق خان نے انہیں برطرف کر دیا۔
اگست انیس سو نوے میں ایک بار پھر عام انتخابات ہوئے۔ جس میں مذہبی سیاسی
حلقوں کے اتحاد نے کامیابی حاصل کی۔ میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم بنا دیے
گئے اور بینظیر بھٹو حزب اختلاف رہیں۔ غلام اسحاق نے نواز شریف کو بھی
برطرف کردیا۔اگست انیس سو ترانوے میں عام انتخابات ہوئے بینظیر بھٹو
وزیراعظم بنیں لیکن انہیں اپنے ہی صدر فاروق احمد لغاری نے بدعنوانی کے
الزام میں انیس سو چھیانوے میں عہدے سے ہٹا دیا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ بینظیر
بھٹو ملک سے باہر بھی رہیں۔
نواز شریف مختصر عرصہ کے لیے وزیر اعظم بنے مگر جنرل پرویز مشرف نے انہیں
ہٹا دیا،بینظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی نے اس بار بھی آمریت کے خلاف سیاسی
جدوجہد جاری رکھی۔ دوہزار سات میں ملک کے اندر موجود پیپلزپارٹی کے سینئر
رہنماوں کی تجویز پر بینظیر بھٹو وطن واپس آئیں،بین الاقوامی میڈیا میں خبر
نشر ہوئی۔ ہر گلے کوچے میں بینظیر کے وطن واپسی کی خبر پھیل گئی۔بینظیر
بھٹو نے آتے ہی پرویز مشرف اور آمریت کے خلاف سیاسی جلسے شروع کیے۔
ستائیس ڈسمبر دو ہزار سات ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ لیاقت باغ
راولپنڈی میں خطاب کے بعد وہ گاڑھی میں اسلام آباد کی طرف روانہ ہو رہی
تھیں کہ پیپلز پارٹی کی طلبا تنظیم کے نعروں کے جواب میں انہوں نے گاڑھی کی
چھت سے سر نکالا اور فائرنگ کے نشانے میں آکر رخصت ہوگئیں۔بینظیر بھٹو کی
شہادت کے بعد فروری دوہزار آٹھ میں آصف علی زرداری کی سربراہی میں پیپلز
پارٹی کی حکوت بنی۔ان کی پہلی برسی پر ان کے قاتل گرفتار ہونے کا دعوہ کیا
گیا مگر چودہ سال گذرنے کو ہیں ان کے قاتل منظرعام پر نہیں لائے گئے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی سیاست
اور نظریات یکساں تھیں مگر چند پہلے مختلف بھی تھے جیسا کہ ذوالفقار بھٹو
پنجاب کی سیاست کرتے تھے اور کالا باغ ڈیم کی شدت سے حمایت کرتے اور بینظیر
سندھ کی سیاست کرتی تھی اسی وجہ سے وہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتی
تھی،بینظیر بھٹو اور اس کے والد نے ہمیشہ کشمیری مسلمانوں کے حقوق لیے آواز
آٹھائی۔
بینظیر بھٹو کی شہادت سے ملک میں افراتفری بھی ہوئی لیکن جنرل اشفاق پرویز
کیانی اور چودھری برادران نے پیپلزپارٹی کے نئے چیئرمین آصف علی زرداری کے
ساتھ تعاون کر کے ملکی حالات کو مزید خراب ہونے سے بچا لیا اور نئے جمہوری
سفر کا آغاز ہوا۔
|