کراچی آخر کب تک آگ و خون کی لپیٹ میں رہے گا؟

جب معاشرے سے اللہ کاخوف ختم ہوجائے تو ہر طرح کی برائی عام ہونے لگتی ہے اخلاقیات،شرم وحیاء اچھے برے کی تمیز اور انسانیت ختم ہوجاتی ہے اور جب انسانوں کی تکالیف میں اضافہ ہوتا ہے تو اللہ کا قہر نازل ہوتا ہے اور جب عذاب الٰہی آتا ہے توکچھ بھی باقی نہیں رہتا سب کچھ مٹ جاتا ہے سب ہی ختم ہوجاتا ہے۔۔۔۔مگر ہمیں اللہ کی رحمتوں اور کرامتوں کی امید رکھنی چاہئے کیونکہ مایوسی کفر ہے اور ہمیشہ استغفار کے ورد کو جاری رکھنا چاہیئے اور اللہ پر یقین کے ساتھ اس سے مانگتے رہنا اور اس ڈرتے ہوئے رہنا چاہیئے ۔۔۔۔۔ویسے بھی ہم صرف اللہ توکل ہی تو زندگی گزاررہے ہیں۔!

کراچی میں گزشتہ چار روز سے جو آگ لگی ہوئی ہے اس کاسلسلہ ایک دو سال سے نہیں 1984/85سے شروع ہوا تھا اس دوران صرف پرویز مشرف کا دور ایسا رہا جس میں ہر چند روز یا چند ماہ بعد شہر کے حالات خراب نہیں ہوئے بلکہ تقریباََ شہر پرامن کہلانے لگا تھا لیکن پرویز مشرف کے اقتدار کے آخری ایام میں آزاد عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے دوران موجودہ چیف جسٹس کی آمد کے موقع پر جو کچھ کراچی میں ہوا اسے شائد ہی کسی سیاسی،غیر سیاسی،خاص اور عام شخصیت بھول پائی ہوگی۔لیکن نہ تو اس دن کے واقعات میں ملوث افراد کو پکڑا جاسکا اور نہ ہی اس طرح کے واقعات کا سدباب کیا جاسکا۔افسوس اس بات پر ہے کہ حساس ادارے کراچی کے واقعات کے حوالے سے سب کچھ جانتے بھی ہیں اور وقتاََ فوقتاََ اس کا اظہار بھی ان اداروں کی مختلف سطحوں سے کیا جاتا رہا لیکن اس کے باوجود اس کے آج بھی کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کراچی میں کب تک مستقل طور امن ہوگا اور اس حوالے سے اس کا مستقبل کیا ہوگاہے؟

ماضی میں حقوق کی جدوجہد کے نام پر کراچی میںطاقت کے توازن کی بات کی جاتی رہی اس طاقت کے منظم ہونے سے قبل تک کراچی میں سکون تھا شہری رات گئے تک بلاخوف وخطر ہر جگہ چلے جایا کرتے تھے جن بھوت کے علاوہ شائد ہی کسی کو کوئی اور خوف ہوتا ہوگا ،آپ یقین کریں کہ اس وقت لوگ اپنے گھروں کوباقائدہ مقفل کئے بغیر ہی کہیں قریبی علاقے میں چلے جایا کرتے تھے اس مقصد کے لئے صرف دروازے پر لگی کنڈی کو لگانے پر ہی اکتفا کرتے تھے۔

حقوق کی جدوجہد کی وہ تحریک آج بھی چل رہی ہے اور اسی تحریک کے سب سے زیادہ نوجوان حقوق کی جدوجہد میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔

اس تحریک کے لوگ حصوں میں بٹ چکے ہیں اس جدوجہد سے واضع طور پر صرف ہزاروں لاشیں گری ہیں گر رہیں ہیں جبکہ دوسری طرف لگتا ایسا ہے کہ نامعلوم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد روزانہ ہی دانستہ یا نہ دانستہ طور پر قاتلوں کی صف میں شامل ہورہی ہے،ایسے نوجوانوں میں مجبور افراد کی بڑی تعداد شامل ہے جو کسی نہ کسی مجبوری کے باعث مافیا کے ہاتھ لگ کر ان کی بات ماننے پر مجبور ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ موت کا خوف سب کو ایک ایسے مقام پر کھڑا کردیتا ہے جہاں” آگے کنواں پیچھے کھائی “ کے مصداق صورتحال ہوتی ہے لیکن اگر اللہ کا خوف ہو تو پھر ایسا شخص کنواں یا کھائی میں گرنے کے خوف کے بجائے موت کے خوف کو نکال کر ایک تیسرے راستے کا انتخاب اللہ کی دی ہوئی عقل اور دانش کے مطابق کرتا ہے چاہے اسے اس راستے پر موت آجائے، اسے مرنے سے زیادہ شہادت کے رتبے پر فائز ہونے کا جذبہ ہوتا ہے اور وہ اس طرح بڑے گناہوں سے صاف بچ جاتا ہے ۔(لیکن شہادت کا راستہ وہ نہیں جو ہمارے ملک میں اپنے ہی نہتے اور بے قصور لوگوں کو خود کش حملوں کے ذریعے مارکر اور خود بھی مرکر حاصل کرنے کی غلط روایت کے مطابق ہے )

یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ خوف صرف اس مافیا سے تعلق رکھنے اور روزانہ ہی گناہوں کے دلدل میں پھنستے چلے جانے والے افراد ہی کو نہیں ہے بلکہ یہ خوف اب پورے معاشرے میں سرایت کرگیاہے یہ ہی خوف تو ہے جس کی وجہ سے بڑے بڑے سیاستدان اور دانشور سب کچھ جاننے کے باوجود سیدھی اور کھری بات کرنے سے گریز کرتے ہیں حکمرانوں کو اپنی حکومتیں گرنے یا امن و امان کی صورتحال بگڑ جانے کے ساتھ جان سے بھی ہاتھ دھونے کاخطرہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ کوئی بولڈ اسٹپ نہیں لیتے،لیکن ایسا کب تک ہوگا؟ کراچی بلکہ اب تو صوبے کے عوام کب تک بے چینی کی کیفیت میں مبتلا رہیں گے؟

سب جانتے ہیں کہ کراچی پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، خدا نہ خواستہ اسے کچھ ہوا تو پورا ملک مفلوج ہوسکتا ہے۔یہ بات سب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور ملٹری اسٹبلشمنٹ بھی بخوبی اس سے واقف ہیں لیکن اس کے باوجود کراچی کو امن و امان کے حوالے سے نظر انداز کیا جارہا ہے یا سنجیدگی سے اس کا حل تلاش نہیں کیا جارہا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کی تحریک نے کراچی کو ترقی دلانے میں اپنا کردار ادا کیا لیکن لگتا ہے کہ غیر ملکی قوتیں کسی طرح ان کے اندر داخل ہوکر ان کو بدنام کرنے میں لگی ہوئی ہیں بہرحال مجھے تو حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ جس کے قائد ایک ہی اشارے پر وہ بھی بذریعہ فون لاکھوں کے مجمعے کو خاموش کراسکتے ہیں تو اپنے شہراورصوبے میں گڑ بڑ پھیلانے والوں اور قتل و غارت گری کرنے والوں کو کیوں نہیں روک سکتے؟؟؟ ان کی جماعت میں ایسے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو ان کی ایک آواز پر کچھ بھی کرنے تیار ہوجاتی ہے تو کیا ٹارگیٹ کلرز کو یہ نہیں پکڑ سکتی؟؟؟یہ سوال صرف میرے ہی ذہن میں نہیں بلکہ ہر باشعور شخص کے ذہن میں ہے ۔

مجھے یاد ہے کہ کراچی میں کسی سیاسی جماعت نے شہر کی گلیوں ، محلوں اور سڑکوں کو عملاََ آئینہ کی طرح صاف کیا تو صرف الطاف حسین کی جماعت تھی اور کسی کو نہ ہی پہلے نہ ہی بعد میں اس طرح کی مہم کاخیال ہے۔الطاف حسین کے حکم پر نہ صرف عام افراد بلکہ معاشرے کے پڑھے لکھے اور خاص افراد بھی جھاڑو تھامے سڑکوں پر تھے ، اپنے شہر سے محبت کا عملاََ مظاہرہ کراچی میں رہنے والے افراد نے اس پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

جناب الطاف بھائی مجھے اور کراچی کے سب ہی باشندوں کو اس زمانے کا کراچی چاہئے جب آپ اپنی ہنڈا ففٹی پر لانڈھی کے لیبر اسکوائر اور ڈیفنس سمیت ہر علاقے میں چلے جایا کرتے تھے اور جلسے کرکے اطمینان سے واپس آجایاکرتے تھے ۔

اس وقت تو کسی کو کسی پٹھان ،پنجابی ،بلوچی یا مہاجر کا کوئی خوف نہیں تھا ھاں آپ کی جدوجہد کے باعث بقول آپ ہی کے اسٹبلشمنٹ آپ کی آپ کے ساتھیوں کے پیچھے پڑی رہتی تھی میں الطاف بھائی سے اس شہر کے امن کے لئے ایک صحافی نہیں بلکہ ایک فالج کے مریض کی حیثیت سے یہ کہونگا کہ آپ تو اللہ سے ڈرنے والے انسان بھی ہیں اور ہر جلسے سے پہلے اللہ کی عظیم کتاب قرآن پاک کی تلاوت بھی کرتے ہیں خدا را اللہ نے جو طاقت آپ کو دی ہے اسے شہر اور صوبے کے امن کے لیئے استعمال کرکے کروڑوں لوگوں کی دعائیں لے لیں اور اپنے اور اپنی والدہ مرحومہ کے لیئے اجر عظیم کا ذریعہ بنے ،آپ کے اشارے پر جان دینے والے کارکنوں کو قاتلوں پر نظر رکھنے اور انہیں پکڑنے کی ہدایت کردیں ،اللہ آپ کو اس کا بڑا اجر دے گا۔

حکومت سے بھی میں یہ کہونگا کہ وہ متحدہ کے ساتھ ملکر کراچی کا امن بحال کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کریں نہ کہ اشتعال پھیلانے والے بیانات سے صورتحال کو مزید خراب کریں۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152779 views I'm Journalist. .. View More