19 جولائی 2011کی صبح اپنی تمام تر رونقیں
لیے طلوع ہو رہی تھی۔دنیا میں گزرنے والی تمام راتوں کی طرح یہ رات بھی روز
روشن میں تبدیل ہو رہی تھی۔ہر طرف خوشیوں کی برسات تھی۔مگر کس کو معلوم تھا
کہ اس دن کیا ہونے جا رہا ھے۔ننھے منھے بچھے ہر نئے دن کی طرح مگن اور
پرندے اللہ کی تسبیح بیان کرتے تھکتے نہ تھے۔ہر طرف صبح کی لو پھوٹنے کا
انتظار ہو رہا تھا۔ہر کوئی اپنی زندگی کے اس دن کو بھی اچھا بنانے کی فکر
میں تھا۔مسجد سے اذان کی صدا آرہی تھی۔غرض دنیا کی ہر شے اپنی زندگی کے ایک
اور دن کا آغاز کرنے کو بے تاب تھی۔
لیکن مقبوضہ جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر کی جنوبی ڈسٹرکٹ
کلگام میں ایک نیا منظر پیش آنے کو تھا۔یوں تو یہ واقعہ جو 19جولائی کو پیش
آ یا کشمیر کی تاریخ میں نیا نہ تھا۔کیونکہ جب سے مسلمان وہاں آباد ہیں اور
کفار کی قبضے میں ہیں وہاں روزانہ عزت و آبرو کہ تہس نہس کرنے کئی واقعات
پیش آ رہے ہیں ،مگر بات اس دن کی تھی کہ امت مسلمہ کی ایک بیٹی کے ساتھ کیا
ہونے جا رہا تھا۔ایک ظلم و ستم کی نئی داستان رقم ہونے جا رہی تھی۔
آخر یہ ظلم مسلمانوں پر ہی کیوں ہوتا ہے؟
دنیا بھر میں مسلمان ہی اسکا نشانہ کیوں بنتے ہیں۔وادی کشمیر میں ظلم
وبربریت کی ایک اور داستان رقم ہونے جار ہی تھی۔ابھی تو چند سال قبل نیلوفر
سے ہونے والی جنسی زیادتی اور پھر قتل کے زخم بھی مندمل نہ ہوئے تھے،مگر 19
جولائی کو ایک شادی شدہ 25سالہ مسلم بیٹی کو ہندو آرمی نے اغوا کر کے پھر
اس سے وہ کام بھی کر ڈالا جو کہ کوئی بھی غیرت مند آدمی برداشت کرنے کو
تیار نہیں ہو سکتا۔یہ ہندو آرمی کی درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔امت مسلمہ
کی اس بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ،اور ابتدائی رپورٹس کے مطابق تو
یہی بتایا گیاکہ دو فوجیوں نے یہ کام سر انجام دیا۔
کیا وہ 25 سالہ بہنا یہ نہ سوچتی ہوگی کہ آج بھی کوئی محمد بن قاسم ہو تو
اسکی پکار پر لبیک کہے۔!!!
میری ایک کشمیری بھائی سے 24 جولائی کو بات ہوئی تو وہ کہنے لگے بھائی آپ
تو خوش نصیب ہیں کہ آپکو آزادی جیسے نعمت حاصل ہے۔ہم سے پوچھو ! بھلا آزادی
کی قیمت کیا ہوتی ہے وہ مزید فرمانے لگے کہ ھمارے ہاں تو ہر وقت خوف و ہراس
کی فضا قائم رہتی ہے، ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ آج گھر بیٹھے ہیں کل کو
کیا بن جائے گا کیونکہ ہر وقت ہندو فوجیوں کے ہاتھوں پکڑے جانے کا خوف سر
پہ سوار رہتا ہے۔
ہاں ہاں ! حقیقت تو یہی ہے کہ ہم آج ایک آزاد ملک میں رہ رہے ہیں ہمیں اپنی
آزادی کی قدر نہیں ہے۔ ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی نماز کی پابندی نہیں کرتے مگر
ذرا اس وادی کا خیال بھی ذہن میں لاﺅ جہاں آزادانہ نماز جمعہ تک پڑھنے کی
اجازت نہیں ہے۔23 جولائی کو اس واقعہ پر حریت راہنما سید علی گیلانی کی کال
پر ہڑتال کی گئی۔سید علی گیلانی نے مختلف اجتماعات سے اعلان کرتے ہوئے کہا۔
ہندو آرمی کشمیریوں کی عزت و آبرو پر حملہ کر کے اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے
ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہندو آرمی مجاہدین سے مات کھا چکی ہے،اب آخری سانسوں پر
جاتے جاتے بھی اپنا کوئی وار خالی نہیں چھوڑنا چاہتی۔اب وہ جنسی زیادتی کر
کے جنگ لڑ رہی ہے۔مگر افسوس صد افسوس! کہ اب تو کوئی بھی انسانی حقوق کی
تنظیم تو دور کی بات ہے خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے منہ پر بھی اب تالے
لگے ہوئے ہیں۔ ہاں وہ بولیں بھی کیوں ان کا کام تو بس اسلام کے خلاف
پراپیگنڈہ کرنا ہے۔
میری جس کشمیری بھائی سے بات ہوئی تھی اس نے آخر میں یہی کہا تھا کہ ہم
آخری دم تک آزادی کی خاطر لڑیں گے۔
آج ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم بھی اپنے ملک پاکستان میں رہتے ہوئے آزادی
کی فکر کرتے ہوئے اپنا تن من دھن سب اس دھرتی پر وار دیں، اور اپنے کشمیری
بھائیوں کی مدد میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ |