کچھ پاکستانیوں نے شادیاں بھی کیں... بوسنیا کی جنگ میں حصہ لینے والے پاکستانی اب کس حال میں؟

image
 
سابق یوگوسلاویہ کی خانہ جنگی میں ایک ہزار سے زائد غیر ملکی جنگجوؤں نے حصہ لیا تھا۔ بوسنیائی مسلمانوں کی مدد کے لیے آنے والے ان جنگجوؤں میں پاکستانی بھی شامل تھے۔ لیکن اب ایسے پاکستانی کس حال میں ہیں؟
 
دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے یہ جنگجو نجی حیثیت میں بوسنیا کے مسلمانوں کی مدد کے لیے سابق یوگوسلاویہ پہنچے تھے۔ ان جنگجوؤں نے سرب اور کروآٹ فوجوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ جو پاکستانی بوسنیا پہنچے، ان میں اکثریت برطانیہ میں پیدا ہونے والے پاکستانی نژاد شہریوں کی تھی۔
 
یہ نوجوان جنگجو سابق یوگوسلاویہ کی لڑائی میں مسلمانوں کے خلاف سرب فوج کی جارحیت کا علم ہونے کے بعد بوسنیا پہنچے تھے۔ سرب اور کروآٹ فوجوں کے خلاف لڑنے والے مقامی بوسنیائی باشندوں کے مطابق ان غیرملکی جنگجوؤں نے لڑائی میں حصہ ضرور لیا تھا لیکن ان کی تعداد انتہائی کم تھی۔ اس لیے یہ جنگ میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کر سکے تھے بلکہ ان جنگجوؤں کی موجودگی سے سرب فوج کو بوسنیائی مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کا موقع مل گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت سرب فوج نے بوسنیا میں مقامی مسلم آبادی کی طرف سے مسلح مزاحمت کو بنیاد پرستوں مسلمانوں کی لڑائی قرار دیا تھا اور دعویٰ یہ کیا تھا کہ بوسنیا کے مسلمان بلقان کے خطے میں اسلامی شرعی نظام نافذ کرنا چاہتے تھے۔
 
وسطی بوسنیا اور جمہوریہ سرپسکا کی سرحد پر واقع صنعتی شہر زینسا پاکستانی جنگجوؤں کا گڑھ تھا۔ یہیں سے پاکستانی اور پاکستانی نژاد برطانوی مسلم جنگجو بوسنیائی سرب فوج کے خلاف کارروائیاں کیا کرتے تھے۔ تب جمہوریہ سرپسکا، اس کے گرد و نواح اور ساراژیوو میں گھمسان کی جنگ ہوئی تھی۔ سرب دستوں نے ساراژیوو کا چار سال تک محاصرہ کیے رکھا اور پاکستانی جنگجوؤں نے اسی علاقے کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔
 
اب یہ پاکستانی جنگجو کس حال میں ہیں؟
بوسنیا کی جنگ کے خاتمے کے بعد کچھ پاکستانیوں نے مقامی بوسنیائی خواتین سے شادیاں کر لی تھیں اور وہ آج تک بوسنیا ہی میں رہتے ہیں۔ کچھ پاکستانی اس لڑائی میں مارے بھی گئے تھے اور ان کی اصل تعداد کا کسی کو علم نہیں۔ دوہری شہریت رکھنے والے بہت سے پاکستانی تب واپس برطانیہ چلے گئے تھے۔
 
image
 
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے بھی تین دوست اس لڑائی میں شرکت کے لیے سابق یوگوسلاویہ آئے تھے۔ ان میں سے دو اب بھی بوسنیا ہی میں رہتے ہیں۔ ان کا تیسرا ساتھی امریکا کی ایک جیل میں 22 سال کی سزائے قید کاٹ رہا ہے۔
 
بوسنیا میں رہنے والے ایک سابق پاکستانی جنگجو ابو عبداللہ (ان کی درخواست پر اصل نام مخفی رکھا گیا ہے) کا ساراژیوو میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میرا تعلق کراچی سے ہے، ہم تین دوست تھے، جب سابق یوگوسلاویہ میں حالات خراب ہوئے، تو ہم1991 کے آخر میں بوسنیا آئے۔ یہاں جنگ 1992ء میں شروع ہوئی۔ ابھی مسلمان لڑنے کے لیے تیار ہو ہی رہے تھے کہ جنگ شروع ہو گئی تھی۔‘‘
 
اس وقت ہوا کیا تھا؟
ابو عبداللہ کا ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہنا تھا، ''سن انیس سو بانوے کے شروع میں یہاں سربوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا تھا۔ میرے سمیت بہت سے لوگوں نے یہاں جنگ میں حصہ لیا۔ پوری دنیا سے مسلمان یہاں لڑنے کے لیے آئے تھے۔ سن انیس سو بانوے میں تو ساراژیوو سربوں کے ہاتھوں میں جانے ہی والا تھا۔ تب پوری دنیا کے مسلمانوں نے مدد کی اور سربوں کو یہاں پسپائی ہوئی۔ بہت سے پاکستانی دنیا کے مختلف ممالک سے اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے یہاں آئے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد برطانیہ سے آنے والے پاکستانی نژاد باشندوں کی تھی۔‘‘
YOU MAY ALSO LIKE: