پاکستان میں صحافت بے حد آسان
بھی ہے اور مشکل ترین بھی ۔ آپ کوچہ صحافت میں قدم رکھ کر اسلام آباد میں
شاندار قیمتی پلاٹ بھی حاصل کرسکتے ہیں اور سلیم شہزاد اور کئی دوسرے
صحافیوں کی طرح کسی قبرستان میں دو گز زمیں بھی ۔ آپ جہازوں میں غیر ملکی
دورے بھی کرسکتے ہیں اور سنئیر صحافی محمد علی خالد کی طرح سڑکوں پر پیدل
مارچ بھی۔ آپ لاکھوں کی تنخواہ بھی لے سکتے ہیں اور ٹرانسلیٹر عبد الرحیم
کی طرح چند سو روپے پر رات دن قلم کی محنت اور مشقت کی راہ بھی اپنا سکتے
ہیں. سید سلیم شہزاد اسلام آباد میں ایشیا ٹائمز آن لائن کے بیورو چیف تھے۔
اس پہلے وہ کراچی میں اسٹار میں رپورٹر تھے۔ انھیں خبروں سے عشق تھا۔ اور
اسی عشق نے انھیں امتحان میں ڈال دیا ۔ کرچی میں ان سے پریس کلب یا کسی اور
جگہ ملاقات ہوتی تو ان کی مسکراہٹ اور زندہ دلی اور صحافت میں بے باکی سے
سابقہ پڑتا۔29 مئی کو سلیم شہزاد اسلام آباد میں اپنے گھر سے ایک ٹیلی وژن
چینل کو انٹرویو دیتے کے لیے نکلتے ہیں اور پھر لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ انھوں
نے ہیومن رائٹس واچ کے علی دایان حسن کو بتا دیا تھا کہ اگر وہ قتل ہوجائیں
یا اگر وہ لاپتہ یا قتل ہو جائیں تو ذمہ داری کس پر ہوگی۔ سلیم شہزاد لاپتہ
اور پھر قتل ہوگئے۔
جون میں صحافی برادری نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی اپیل پر اسلام
آباد میں پارلیمان کے سامنے دھرنا دیا اور ان کا مطالبہ منظور ہوگیا کہ
حکومت سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں سلیم شہزاد کے قتل پر تحقیقاتی
کمیشن قائم کرے۔17 جون کو آئی ایس پی آر کے ترجمان کہتے ہیں کہ حقائق کو
جاننے کے لیے سلیم شہزاد کے قتل کی مکمل اور گہری تحقیقات ہونی چاہیے۔کل
سےکمیشن نے باقاعدہ سماعت کا آغاز کردیاہے حمزہ اور ایک اور صحافی فیضان
اپنا بیان ریکارڈ کروا تو دیا ہے لیکن وہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کو دھمکیاں
دی جارہی ہیں۔ اب تک نئے سال کے آ غاز سے پانچ صحافی قتل ہوچکے ہیں ۔ اس سے
پہلے جو قتل ہوئے ان کا حساب کتاب ہی نہیں ہے۔ صحافت بری ہے یا بھلی لیکن
عوام کو خوب ریجھائے ہوئے ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کی رنگا رنگی اور چٹکلے سن
کر لوگ خوش ہوجاتے ہیں۔ ان کی زندگی میں فرق پڑے یا نہ پڑے ، لوڈ شیڈنگ ختم
ہو یا نہ ہو۔ ڈاکے چوری، اور سینہ زوری سے موبائیل چھینے کی واردات ہو یہ
بھتہ خوری ، ہم سب اس کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں۔ صدقہ دینے کے لیے۔
کسی کے کہنے اور مانگنے سے پہلے موبائیل اور پرس نکال کر دے دیتے ہیں اور
کہتے ہیں یا شکر ہوا۔ آج تو بال بال بچ گئے۔ کٹی پہاڑی پر برستی گولیوں میں
(جن میں اب تک 186 افرد قتل ہوچکے ہیں) پھنسے ہوئے ایک کیمرہ می نے پریس
کلب میں اپنی بیتی سناتے ہوئے کہا کہ سناٹے اور اندھیرے میں گاڑی کھڑے کر
کے سر نیچے کر کے بیٹھا رہا۔ کئی گھنٹے بعد نجات ملی۔ بس جان بچ گئی۔کراچی
میں نیا نظام بھی آگیا بھائی لوگ رضامند ہوگئے ہیں۔ امریکہ سے اسماعیل
کامریڈ نے پوچھا ہے اب تو کراچی میں خیریت ہے نا۔۔ سب امن ہوگیا ہے ۔ گورنر
صاحب آگئے ہیں ۔ ّمیں نے کہا ہے ہاں خیریت ہے، دس بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ،کئی
کئی گھنٹے ٹریفک جام، پانی کے لئے ترستے نلکے،بھتہ خوری، چوری، لوٹ مار،
اغوا ٹارگٹ کلنگ اور ٹریفک ایکسیڈنٹ سے روز بچ جانے والے کراچی کے شہری مزے
میں ہیں ۔ جو مر جاتے ہیں کی قسمت کی خرابی اور جو بدقسمت ان کے خاندان
والے رہ جاتے ہیں وہ اللہ کے سہارے پر زندہ ہیں۔ کراچی والے بہت خوش ہیں۔
اللہ ایسی خوشیاں سارے ایم این اے ، ایم اپی اے، صدر، وزیراعظم، وزیر مشیر
اور پارٹی کارکنوں کو دے۔ آمین |