اَنجامِ اہلِ خیر اور انعامِ اہلِ خیر

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ یٰسٓ ، اٰیت 51 تا 67 {{{ اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
نفخ فی
الصور فاذاھم
من الاجداث الٰی ربہم
ینسلون 51 قالوایٰویلنا من
بعثنا من مرقدنا ھٰذاماوعدالرحمٰن
وصدق المرسلون 52 ان کانت الّاصیحة
واحدة فاذاھم جمیع لدینا محضرون 53 فالیوم
لاتظلم نفس شیئا ولاتجزون الّا بما کنتم تعملون 54 ان
اصحاب الجنة الیوم فی شغل فٰکھون 55 ھم وازواجھم فی
ظلٰل علی الارائک متکئون 56 لھم فیہافاکھة ولھم مایدعون 57 سلٰم
قولا من رب رحیم 58 وامتازالیوم ایہا المجرمون 59 الم اعھد الیکم یٰبنی اٰدم
ان لّا تعبدواالشیطٰن انه لکم عدو مبین 60 وان اعبدونی ھٰذاصراط مستقیم 61 ولقد
اضل منکم جبلا کثیرا افلم تکونواتعقلون 62 ھٰذهٖ جھنم التی کنتم توعدون 63 اصلوھاالیوم
بما کنتم تکفرون 64 الیوم نختم علٰی افواھھم وتکلمنا ایدیھم وتشھد ارجلھم بماکانوایکسبون 65
ولونشاءلطمسنا علٰی اعینہم فاستبقواالصراط فانٰی یبصرون 66 ولونشاء لمسخنٰھم علٰی مکانتہم فما
استطاعوامضیا ولا یرجعون 67
اور جب قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف جانے والوں کے لیۓ قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف جانے کے لیۓ بگل بجا دیا جاتا ھے تو وہ یہ کہہ کر تیز تیز چلنے لگتے ہیں کہ ہاۓ ھماری کم بختی ! ہمیں کس نے ھماری گہری نیند سے اُٹھا دیا ھے اور اُس وقت اُن لوگوں کو بتایا جاتا ھے کہ آج کا دن قبروں میں پڑے مُردوں کو قبروں سے اُٹھاۓ جانے کے اُسی وعدے کا دن ھے جس کا اللہ نے اپنے نمائندوں کے ذریعے تُم سے وعدہ کیا تھا ، اہلِ قبور کا اپنی قبور سے باہر آنے کا یہ واقعہ اُس دن اِس سے زیادہ کُچھ بھی اہم نہیں ہوتا کہ اُن کو ایک زور دار آواز دی جاتی ھے جس کے سنتے ہی وہ قبروں سے باہر آجاتے ہیں اور اُس روز کسی انسان پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا ھے بلکہ ہر انسان کو اُس کے عمل کا ٹھیک ٹھیک بدلہ دیا جاتا ھے ، اُس دن جو انسان جنت میں جاتے ہیں اُن میں سے کُچھ اُس جنت میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی پسند کے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں اور کُچھ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی آرام دہ مسندوں پر آرام سے بیٹھ جاتے ہیں ، اِن اہلِ جنت کو اُس جنت میں خواہش کے مطابق قسم قسم کے پَھل کھانے کے لیۓ دیۓ جاتے ہیں جن کو وہ رغبت سے کھاتے ہیں اور اللہ کا شکر بجالاتے ہیں کیونکہ اُن کے مہربان رب کی طرف سے اُن کے لیۓ وہاں سلامتی ہی سلامتی ہوتی ھے اور اُس روزِ محشر میں جرائم کے مُرتکب لوگوں کو جرائم سے مُجتنب لوگوں سے الگ کرکے پوچھا جاتا ھے کہ کیا تُم کو پہلے ہی ھم نے یہ نہیں بتا دیا تھا کہ شیطان تُمہارا ایک کُھلم کُھلا دشمن ھے اور کیا ھم نے تُم سے یہ قول و قرار نہیں لیا تھا کہ تُم نے شیطان کی تابع داری میں کبھی بھی نہیں جانا ھے بلکہ ہمیشہ ہی اللہ کی تابع داری میں رہنا ھے اور تمہیں بتا نہیں دیا تھا کہ تُمہارے لیۓ یہی ایک سیدھا راستہ ھے جس پر تُم نے زندگی کی پہلی شعوری سانس سے لے کر زندگی کی آخری شعوری سانس تک چلتے رہنا ھے لیکن تُم میں سے اکثر لوگوں کو شیطان بہکاتا رہا ھے اور تُم میں سے اکثر لوگ شیطان کے بہکاوے میں آکر بہکتے رھے ہیں ، کیا تُم عقل سے اتنے ہی عاری ہو چکے تھے کہ تُم نے اپنے رب سے کیا ہوا ہر وعدہ فراموش کردیا تھا لیکن اَب تُم اپنے بُرے اعمال کے بُرے اَنجام کے اُس مقامِ جہنم کو اچھی طرح دیکھ لو جس میں تُم نے رہنا ھے ، انسان پر جب بھی یہ یومِ حساب آجاتا ھے تو اُس کی زبان کو مُہر بہ لب کر دیاجاتا ھے جس کے بعد اُس کے ہاتھ اور پیر خود ہی بتاتے ہیں کہ اُن کا مقصدِ تخلیق کیا تھا اور انسان اُن کو اپنے کن شیطانی مقاصد کے لیۓ استعمال کرتا رہتا تھا ، اگر ھم چاہتے تو عُقبٰی سے ٻہلے دُنیا میں ہی اِن مجرموں کی آنکھیں اِس طرح اندھی اور اِن کی صورتیں اس طرح مسخ کردیتے کہ وہ کہیں پر آنے جانے اور کسی کو مُنہہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہتے لیکن ھم اُن کی بڑی سزاؤں کو اُس بڑے دن پر اُٹھا رکھتے ہیں جس بڑے دن کا ھم نے اُن سے وعدہ کیا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے اِس سُورت کی اِن اٰیات میں اَقوامِ عالَم پر آنے والی جن قیامتوں کا ذکر کیا ھے اُن قیامتوں کے اُس ذکر میں آنے والے 142 الفاظ کے اِس بیانیۓ میں صرف ایک مقام پر فعل مضارع کا وہ صیغہ { ینسلون } استعمال کیا ھے جو زمانہِ حال و مُستقبل کے دونوں زمانوں کا ایک نمائندہ صیغہ ھے جبکہ دیگر 141 الفاظ پر مُشتمل بیانیۓ میں ماضی کے صیغوں اور ماضی کے مکالموں کے ساتھ قیامت کے اِس مضمون کی تَکمیل کی گئی ھے جس کا مقصد انسانی ذہن کو اِس ایک نتیجے تک پُہنچانا ھے کہ زمان و مکان میں اقوامِ زمان و مکان کے آنے جانے کی طرح اُن اقوام پر قیامتوں کا آنا جانا بھی زمان و مکان میں ہونے والے معمول کے اعمال میں سے معمول ہی کا ایک عمل ھے اور قیامت کے اِس بیانیۓ میں قُرآنِ کریم نے جنت و جہنم کی جو تفصیل بیان کی ھے وہ تفصیل بذاتِ خود اتنی مُفصل ھے کہ اُس پر اِس کے سوا کُچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ جنت انسانی خیال میں آنے والی ایک انتہائی قلبی خوشی اور جہنم انسانی تصور میں آنے والے ایک انتہائی قلبی غم کی ایک علامت ھے اِس لیۓ قُرآنِ کریم نے انسان کو 66 بار اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی جنت کا ، 69 بار اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی جنٰت کا اور 77 بار اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی جہنم کا جو نقشہ دکھایا ھے وہ نقشہ بھی دَر اصل وہی نقشہ ھے جو انسانی ذہن نے اپنے فہم و خیال کے مطابق خود بنایا ھے اور قُرآنِ کریم نے جہاں جہاں پر بھی انسان کو جنت و جہنم کا وہ نقشہ دکھایا ھے اُس نقشے میں قُرآن نے انسانی فہم و شعور میں بننے والے اُسی خیالی خوشی اور اُسی خیالی غم کے نقشے کو انسان کے سامنے دُھرایا ھے ورنہ جہاں تک جنت و جہنم کی اصل حقیقت ھے تو وہ انسانی عقل و شعور سے ایک بہت ہی بلند تر حقیقت ھے اور اُس بلند تر حقیقت کی جزا و سزا بھی انسانی عقل و شعور سے ایک بلند تر جزا و سزا ھے ، اٰیاتِ بالا میں اِس پہلی اہم بات کے بعد دُوسری اہم بات اہلِ قبور کا اپنی قبروں سے نکلنے کے بعد یہ بیان دینا ھے کہ یہ ھماری کم بختی ہی تو ھے کہ ھم جو اپنی قبروں میں سوۓ ہوۓ تھے نہ جانے ہمیں کس نے اُٹھا کر خواب سے بے خواب کر دیا ھے ، قُرآنِ کریم نے اہلِ قبور کا یہ جو بیانیہ نقل کیا ھے اِس سے جو پہلی بات پائیہِ ثبوت کو پُہنچتی ھے وہ یہ ھے کہ موت احساس سے بے احساس ہونے اور قیامت تک بے احساس رہنے کا ایک عمل ھے جس میں کسی انسان کو اپنے یا کسی اور کے مرنے کے بعد جی اُٹھنے کا کوئی علم نہیں ہوتا اور اُن کے اِس بیان سے جو دُوسری بات ثابت ہوتی ھے وہ یہ ھے کہ اہلِ روایت نے قبر میں مُنکر نکیر نام کے جن دو فرشتوں کے آنے پر انسان کے زندہ ہونے اور زندہ ہونے کے بعد ایک سرسری عدالت لگنے اور اُس سرسری عدالت میں ہونے والے سرسری سوال و جواب کی جو دیو مالائی کہانیاں وضع کی ہوئی ہیں قُرآن کے نقل کیۓ ہوۓ اِس بیان کے سامنے اُن بے حقیقت روایات کی کوئی بھی حقیقت نہیں ھے اور تیسری بات جو اِن اٰیات میں بیان ہوئی ھے وہ قیامت کے روز انسانی ہاتھوں کا اور انسانی پیروں کا اپنے جسم کے حامل افراد کے حق میں یا اُن کے خلاف بولنا ھے اور چونکہ قُرآن کا یہ بیانیہ جمع مُتکلم فعل مضارع کے صیغے { نختم } کے کے ساتھ بیان ہوا ھے جو حال و مُستقبل کے لیۓ استعمال ہوتا ھے اِس لیۓ ہاتھوں اور پیروں کے اِس تکلم سے ہاتھوں اور پیروں کے وہ پرنٹ بھی مُراد لیۓ جا سکتے ہیں جن میں سے ہاتھوں کے پرنٹس کا اپنے نقاش کے بناۓ ہوۓ نقش کی علامات کے ساتھ بولنا اور اُن کی اِس زبان کا انسان کی سمجھ میں آنا اور اُس سے حاصل ہونے والی پرنٹڈ معلومات کا اُن افراد کے خلاف یا اُن کے حق میں استعمال ہونا عھدِ حاضر کی ایک زندہ علمی و عملی سائنسی حقیقت ھے لیکن جہاں تک قیامت کے روز اللہ تعالٰی کے سامنے اِن اعضاۓ جسم کے بولنے کا تعلق ھے تو اُس وقت انسانی ہاتھوں کے اِن نقشِ کف اور پیروں کے اِن نقشِ پا کے مُنقش آثار نہیں بولیں گے جو انسان کے سامنے بولتے ہیں بلکہ اُس وقت اِن انسانی دست و پا کو وہ زبان دے دی جاۓ گی جس زبان کے ذریعے وہ اپنے استعمال کرنے والے کے حق میں یا اُس کے خلاف اُس کی مادری زبان میں اِس طرح گواہی دیں گے کہ کوئی انسان اپنے اعمالِ خیر و شر کے بارے میں اپنے اُن دست و پا کی اُس گواہی کو رَد نہیں کر سکے گا تاہَم یہ محض ایک تَمثیل ھے جس تمثیل سے اِس دلیل کو انسانی فہم میں لانا مطلوب ھے کہ اللہ تعالٰی کی اُس عدالت میں اگر انسان کے ہاتھوں اور پیروں کے بعد انسان کی آنکھوں اور کانوں کی یا انسان کے دل و دماغ کی گواہی کی ضروت بھی پیش آئی تو انسان کے صرف یہی اعضاء و جوارح ہی نہیں بلکہ انسان کی ہڈیاں اور کھال اور اِس کے خُون کے خاموش خلیۓ بھی انسان کے جُملہ اعمالِ نیک و بد کے بارے میں ایسی ہی ناقابلِ تردید گواہی دیں گے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 461103 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More