بالآخر بیسویں صدی اپنی تمام تر
ہنگامہ آرائی کے ساتھ رخصت ہوگئی۔ سن 2000 کے ساتھ ہی ہم نے ایک نئے ملینیم
میں، تمنا کا دوسرا قدم بھی رکھ دیا۔ صدی کے خاتمے تک شاعری کے مستقبل کو
لے کر مایوسی اور تفکرات می ڈوبی ہوئی باتیں کی گئیں۔ ان بحث مباحثہ میں
عصر حاضر کے وہ قد اور نقاد بھی شامل تھے، ایک زمانے میں جن کا نام افسانے
کی حمایت میں کم اور شاعری کی حمایت میں زیادہ روشن تھا۔ کچھ ادبی رسائل نے
خصوصی طور پر اس بحث کو ہوا دی کہ آنے والا عہد قطعی طور پر شاعری کے لئے
موزو نہیں ہے۔ بلکہ آنے والا عہد یا صدی یا نئی الفی فکشن یا افسانوی ادب
کا تقاضہ کرتی ہے۔ عام مجموعی خیال یہ تھا کہ Stereotyped موضوعات اپنی
انفرادی شعری اسلوب وضع کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے۔ اس لئے اس عہد کو یا
مشینی عہد کو شاعری کے نام وقف نہیں کیا جاسکتا یا مستقبل قریب میں آنے
والی نت نئی تبدیلیوں سے ہمہ آہنگ ہونے کے لئے موجودہ شعری پس منظر کافی
نہیں ہیں۔ نتیجہ، فیصلہ صادر ہوگیا، آنے والا عہد شاعری کا عہد نہیں ہے۔
بہ حیثیت فکشن رائٹر بھی، میں اس بارے میں مسلسل سوچتا رہا ہوں۔ سب سے پہلے
تو یہ عرض کروں کہ اس سے زیادہ لغو بحث کسی بھی دوسری زبان کے ادب میں نظر
نہیں آئے گی۔ میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا کہ جب ترسیل اظہار کے لئے الگ
الگ صنف سخن موجود ہیں اور ادیبوں کو کسی بھی صنف کو اپنانے کی آزادی حاصل
ہے تو پھر موازنہ کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے۔ کم از کم میں یہ سمجھنے سے
قاصر ہوں کہ آیا کبھی اس طرح کی بحث شروع بھی ہوسکتی ہے یا نہیں کہ تنقید
بڑی ہے یا تخلیق۔ شاعری بڑی چیز ہے یا افسانہ۔
شاعری میرے نزدیک بلند مرتبے کی چیز ہے اور مجھے احساس ہے کہ کلیم الدین
احمد کے نیم وحشی صنف سخن، کو کبھی سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
ایک مغربی مفکر، اکسٹائن، کا قول تھا کہ آپ اپنے آپ کو سجا کر رکھنے کی کوش
کرتے ہیں تو آپ ایک (مزاحیہ) کا مک کیر کٹر بن جاتے ہیں۔ صنف شاعری کی
پابندیوں نے اس کے دائرے کو مشکل اور نیم وحی بنارکھا ہے۔ یعنی اگر شاعر ان
پابندیوں سے دامن نہیں بچا پایا اور وہ محض گنگنانے کی حد تک یا قافیہ
پیمائی میں الجھا رہا تو اس کی شاعری بنے بنائے سانچے یا طے شدہ فارمولوں
میں گھٹ کر رہ جائے گی اور دم توڑ دے گی۔
اور ہوا یہی۔ کلیم الدین احمد کے نیم وحشی صنف سخن کے ساتھ یہی سلوک دہرایا
جاتا رہا۔
لیکن جیسے ہر کہانی ادب میں شمال نہیں ہوتی اورویسے ہی، طے شدہ فارمولے یا
بنائے گئے سانچے میں ڈھل جانے والے ہر شعر کو غزل کی جمالیات کے ساتھ بھی
نہیں جوڑا جاسکتا۔
اس لئے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شاعری اور افسانے دو الگ الگ صنف سخن ہیں
اور ان کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔
پچھلے دس بیس برسوں میں کی جانے والی شاعری کی فضا مجھے کچھ زیادہ ہی راس
آئی ہے جبکہ ان دس بیس برسوں میں انفرادی خیال کے نہ ہونے پر اعتراض زیادہ
کئے گئے اور اس کے شکار ان دس بیس برسوں میں ابھرنے والے تمام شاعری ہوئے۔
دراصل ہمارا نقاد شاعر کو پیمبریا فرشتے کے طور پر دیکھنے کا عادی رہا ہے
اور اس کی ذہنیت پر مسلسل یہ خیال شب خون مارتا رہا ہے کہ جدیدیت اور ابہام
سے الگ شاعری کی ہی نہیں جاسکتی۔اس لئے جہاں کہیں بھی اسے کوئی بات صاف صاف
طریقے سے کہی گئی نظر آتی ہے وہ ایک خاص طرح کی جمالیات کے تحت اسے Reject
کردیتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انہی نقادوں نے شاعری میں بتی جانے والی ترقی
پندی پر اعتراضات کئے تھے۔ شاعری کو نعرہ، انقلاب یا پروپیگنڈہ تک کہا
تھا۔فرق یہ تھا کہ اس عہد سے جڑے شعراءکرام خود کو ترقی پسند کہتے تھے۔ فرق
یہ ہے کہ نئے شعراءخود کو ترقی پسندی، جدیدیت، پس جدیدیت سے بلند محسوس
کرتے ہیں یا وہ خود کو کسی بھی خانے میں قید دیکھنا نہیں چاہتے اور حقیقت
بھی یہی ہے کہ ان کی شاعری نہ جدیدیت کی کوکھ سے جنمی ہے نہ تری پسندی کے
نعرے یا پروپیگنڈے نے ان کی شعری کائنات کو جلاءبخشی ہے۔
اور اہم بات یہی ہے کہ شعرا کی نئی پود کسی مخصوص فکر، تحریک یا نظیرے کی
پابند نہیں ہے وہ اپنے تمام تر احساس کے ساتھ آزاد ہے اور یہی آزادی وہ
اپنے صوتی آہنگ کو بھی سونپتا رہا ہے۔
”ایک سچے فنکار کو اپنے ذہن کے تمام دروازے کھلے رکھنے چاہئیں تاکہ تازہ
افکار ونظریات سے نابلد نہ رہے لیکن اپنے کو کسی خاص نظریے کا تابع نہیں
بنانا چاہئے کیوں کہ کوئی بھی نظریہ کتنا بھی عظیم کیوں نہ ہو، ایک خاص وقت
کے بعد معتوب ومردود قرار دے دیا جاتا ہے۔ تغیروتبدل فطرت کا نظام ہے۔ اسی
لئے کسی مخصوص نظریے کی تبلیغ کے مقصد سے لکھا گیا ادب بھی جلد ہی اپنی چمک
دمک کھوبیٹھتا ہے اور اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔
(نعمان شوق۔پیش لفظ ’اجنبی ساعتوں کے درمیان)
ایک اور اقتباس دیکھئے:
”سماج خرابیوں اور بگاڑکی آخری منزل پر ہے۔ دنیا بہت تیزی سے بدلی ہے۔
تہذیبیں، قدریں، عقیدے، اصول، رسمیں، پوشاک، ترجیحات سب نے اچانک اپنے معنی
کھودیے ہیں۔صحیح اور غلط کے بیچ کی لکیر تیزی سے مٹی ہے۔ ہمارے چاروں طرف
جو بھی ہو رہا ہے ہماری پسند کے خلاف ہورہا ہے۔ شاعری ناپسندیدگی اور
احتجاج کے اسی اظہار کا نام ہے۔
مسجدوں اور مندروں سے جوتے چوری ہونے کی معمولی وارداتوں سے لے کر سیاست کے
گلیاروں میں ہونے والی بڑی اور اوّل درجے کی بدعنوانیوں تک ایک لمبا سلسلہ
ہے۔ برائیوں، خرابیوں اور ذلالتوں کا۔ ایسے میں قلم والوں کی ذمہ داریاں
اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ کچا پکا آدمی تو قلم کی اس خدمت سے فوراً ریٹائر ہو
کر بھیڑ میں شامل ہو جانے کو عقل مندی تصورکرنے لگتا ہے۔ بہت تھوڑے سے لوگ
ہی جو بدعنوانیوں کی اس جہان کو قلم کی نوک سے کھرچنے کی کشش کرتے ہیں۔ ان
کے لئے قلم کان کھجانے کا کوئی آلہ یا پاجامے میں ازاربند ڈالنے کی کوئی
سلائی نہیں۔
ہمارے پاس کرکٹ ٹیمو ں کا گھیراﺅ کرنے اور پچوں کو کھود کر برباد کرنے کا
وقت ہے مگر ملک کے بنیادی مسائل کی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں۔ کیا کبھی ملک
کے صف اوّل کے شہریوں نے کرگل میں جاکر کیمپ لگانے اور فوجیوں کی مدد کے
لئے کوئی قدم اٹھانے کی زحمت گوارہ کی۔ قلم والو ں کو یہ باتیں کچوٹتی ہیں۔
شاعر یا ادیب اس تکلیف سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ اسے اس معرکے میں شامل ہونا
پڑتا ہے۔ مستقل، بناتھکے۔
___”دھوپ تیز ہے“شکیل جامی
یہ اقتباس یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ موجودہ عہد کے شاعر نے کس طرح
مخصوص نظریے کی بلیع کو ادب کی موت کے بطور دیکھا ہے۔ مسلسل تغیروتبدل سے
گزرتی کائنات میں آج کوئی بھی مخصوص نظریہ وضع کیا جاسکتا۔ یہ نفی اور
انکار کا عہد ہے۔ ہر قدم اصول وقانون کا ایک بت ٹوٹتا ہے اور دوسرا جنم
لیتا ہے۔ شاعر نہ کسی آسمانی کہرے میں گھرا ہے نہ وہ محض چند مزدوروں یا
دہقان کے درمیان ہے اور ”بھوکا ہے بنگال رے سا تھی، بھوکا ہے بنگال“ کا ورد
کئے جارہا ہے۔ حقیقتاً آج کے شاعر نے اپنے بدن سے فرسودہ جمالیاتی، سیاسی
سماجی، معاشی اور فکری امتزاج کی کینچلی اتار پھینکی ہے۔ وہ اپنے عہد کو لے
کر سنجیدہ ہے اور محسوس کرتا ہے کہ”انسانی ارتقا کی تاریخ کے اس موڑ پر
جہاں بیسویں صدی اپنا سفر ختم کررہی ہے۔کلون، روبوٹ، انٹرنیٹ اور ایسے نہ
جانے کتنے موضوعات ہماری روز کی گفتگو کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔ وہ حسّی اور
جذباتی نشیب وفراز سے پرزندگی جو ہمارے پیش روﺅں کو ورثے میں ملی تھی،
ہمارے لئے شاید قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ میری شاعری میرے حسی تجربات کی
زائیدہ ہے جس کی نیرنگی اور بوقلمونی نے میرے اندر ایک پورا جہان آباد
کررکھا ہے۔“
(نعمان شوق، پیش لفظ، اجنبی ساعتوں کے درمیان)
شاعر حسا ہی نہی بلکہ اپنے عہد سے آگاہ بھی ہے۔ کلون سے، روبوٹ سے، انٹرنیٹ
سے اور عالمی سیاست سے___شاید اسی لئے، نئی صدی میں اس نے گھٹن اوڑھنے سے
انکار کردیا ہے اور اپنے اندر برسوں سے جمع کی گئی چیخ نکالنے کا وقت
آگیاہے، وہ ایسا محسس کرتا ہے۔ اس لئے یہ کہنے میں اسے ذرا بھی قباحت نہیں
ہے کہ اس کی شاعری اس کے حسی تجربات کی زائیدہ ہے۔ اس سے بھی دو قدم آگے
بڑھ کر وہ یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتا ”میں اپنے پیش رو شعراءکی طرح
اپنی ذات کے حصار میں مقید ہونا پسند نہیں کرتا۔“
پیش رو شعراءکی اندھی تقلید سے انکار نے ہی، آج کے شاعر کو، خود کو Reject
کرنے کا فن سکھایا ہے۔ وہ اپنے عہد اور مسائل کے ا س قدر قریب ہے کہ اسے اس
بات کا احساس بھی ہے کہ ممکن ہے، شاعری کا نقاد اسکے لکھے ہوئے سرمائے کو
شاعری ہی تسلیم نہ کرے۔ جیسا کہ زیادہ تر ترقی پسند شاعروں کے ساتھ کیا
گیا۔اسے خود کو Reject کرنے کی پرواہ اس لئے بھی ہے
(1) شعری تنقید ابھی بھی مروجہ اصولوں میں جکڑی ہوئی ہے۔
(2) زیادہ تر نقاد مغرب کی اندھادھن تقلید میں اندھے رہے ہیں۔ وہ مروجہ
سانچے یا طے شدہ فارمولے سے آگے بڑھ کر شاعری کو پرکھنے میں یقین نہیں
رکھتے۔
(3)کیا جوش کی انقلابات والی شاعری، ساحر اور وامق کی شاعری ایک عہد کی
ضرورت نہیں تھی؟
(4)تغیر وتبدل سے آنکھیں موڑنے والے کو وہ سچا فنکار تسلیم نہیں کرسکتے۔
نتیجہ کے طور پر نصیراحمد ناصر تک یہ تسلیم کرنے سے گریز نہیں کرتے کہ اب
شاعری کی نئی بوطیقا تخلیق کرنے کا وقت آگیا ہے اور ایسے میں آج کے مسائل
سے آنکھیں چار کرنے والے شاعری کی ذمہ داری میں ایک نقاد کی ذمہ داری بھی
شامل ہو جاتی ہے۔
”ان پر (نقادوں پر) یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی
وملکی ادبی تناظر میں اردو تنقید کے نئے سانچے وضع کریں اور جینوئن تخلیق
کاروں کی نہ صرف نشان دہی کریں بلکہ انہیں ہجوم ناشناس میں گم ہونے سے
بچائیں تاکہ اردو شعر وادب عالمی اردو رویوں سے ہم آہنگ ہوسکے۔
نصیراحمد ناصر، تسطیر،ستمبر1997
ادبی منظرنامہ کو عالمی رویوں سے ہم آہنگ کرنے کی بے چینی نے ہی، شاعر کو
گلوبل ویلیج یا نئے سائبر سماج کا چہرہ دکھایا ہے۔ اسے مابعد جدید ہونے پر
بھی اعتراض نہیں ہے، لیکن وہ ہجوم میں گم ہونا نہیں چاہتا۔ یہاں تک کہ کسی
ازم میں، تحریک میں، فلسفے میں، پابندیوں میں اس کا دم گھٹتا ہے۔
نئی صدی کے شاعر کو اپنی آزادی پیاری ہے___ وہ فرد اور تنہائی کی باتیں
نہیں کرتا۔ وہ فلسفہ وجودیت سے بہت دور نکل آیا ہے اس گلوبل، سائبر اور
انٹرنیٹ سماج می اسے اپنی شناخت کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ وہ آئن اسٹائن کی
طرح اندھیرے میں نہیں ہے کہ ’تیسری جنگ عظیم کس طرح لڑی جائے گی۔ جبکہ
چوتھی جنگ کے طور پر تیر اور بھالوں کا استعمال شروع ہوجائے گا۔“ وہ ایٹمی
تجربات سے بھی واقف ہے اور جانتا ہے کہ سیکنڈ سے بھی کم لمحہ میں ساری دنیا
نیست ونابود ہوسکتی ہے۔ شاید اسی لئے ایک خاص طرح کے اٹوپیا میں سانسیں
لیتے ہوئے وہ یہ نہیں کہہ سکتا
چاند نے رات مجھ کو جگا کر کہا
ایک لڑکی تمہارا پتہ لے گئی
دراصل حساس فنکار سائبر سماج میں پیش آنے والی ہر ایک تبدیلیوں کا
ایمانداری سے محاسبہ کرتا ہے اور اپنی وضع کی گئی شعری فضاکے لئے یہ کہنے
میں اسے ذرا بھی دشواری نہی ہوتی کہ ”گذشتہ سے پندرہ سالوں میں ہماری زندگی
میں سماجی، سیاسی، معاشی اور فکری شعور پر نمایا تبدیلیاں آئی ہیں۔ ہمارے
جینے کا ڈھنگ بدلا ہے۔ سوچنے کا انداز بدلا ہے۔ دروں کے پیمانے بدلے ہیں۔
مسائل کی شکلیں بدلی ہیں۔ ذات پات، بنیاد پرستی، علاقائی عصبیت، اصول اور
آدرش کا فقدان، دہشت گردی کا زور، ملٹی نیشنل کمپنیو ں کی آمد، صارفیت کا
غلبہ اور کالے دھند کے فروغ سے آج کی زندگی اثر پذیر ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ
الیکٹرونک میڈیا کی ترقی کے بعد آج کا فنکار قصباتی، شہری اور مکی حدود سے
باہر نکل کر ساری دنیا سے جڑ گیا ہے۔ اس کے تجربے اور مشاہدے کے لئے ایک
بڑا کنواں تیار ہوگیا ہے۔ فنکار چونکہ سماج کا سب سے حساس رکن ہے، اس لئے
وہ ہر تبدیلی سے فوراً متاثر ہوتا ہے اور اس کا اثر ادب پر بھی براہ راست
پڑتا ہے۔
عالم خورشید(پیش لفظ،زہرگل)
نعمان شوق ہوں، عالم خورشید، خورشید اکبر ہوں یا خالد عبادی یا شکیل جمالی
ہوں، آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ شعری سفر میں کتنی تبدیلیاں آئی ہیں۔
غزل گوئی کی روایت کو گل وبلبل سے جوڑنے کا لامتناہی سلسلہ نہ صرف منقطع
ہوا ہے بلکہ فنکاروں نے شعری حدود سے بہر نکل کر اپنی نثری تنقید صلاحیتوں
کو بھی ہوا دی ہے۔ خود کو پرانی نسل سے علیحدہ کرنے کا یہ جنون اس بات کا
غماز ہے کہ نئے ادبی مستقبل کے خطرات اور نئے سائبر سماج کی بنیادی ضرورتوں
کو دیکھتے ہوئے ان کا وژن بالکل صاف ہے اور نعمان شوق سے عالم خورشید تک
خالد عبادی اور شکیل جمالی تک نئے کنفیشن کی فضا، اپنے اسلوب اپنے ڈھنگ کو
طے شدہ فارمولوں سے الگ رکھنے پر بضد نظر آتی ہے اور صاف طور پر اعلان کرتی
ہے کہ
الف :سچا فنکار وہی ہے جو ذہن کے تمام دروازے کھلے رکھے۔
ب:کسی مخصوص نظریے کا پاند نہیں ہو۔
ج:کلون روبوٹ، انٹرنیٹ، جیسے کتنے ہی موضوعات روزانہ کی زندگی کا ایک حصہ
بن چکے ہیں۔
د:میں اپنی ذات کے حصارمیں مقید ہونا پسند نہیں کرتا
(یہ حوالے نعمان شوق کی کتاب کے پیش لفظ سے لئے گئے ہیں)
اب عالم خورشید کا کنفیشن دیکھئے___
الف: گذشتہ دس پندرہ برسوں میں قدروں کے پیمانے اور مسائل کی شکل بدلی ہے
ب: دہشت گردی کا زور
ج:اصول آدرش کا فقدان
د:ملٹی نیشنل کمپنیوں کی آمد
ح:صارفیت کا غلبہ
یہاں تک کہ
٭الکٹرانک میڈیا کی ترقی
٭کالے دھندوں کا فروغ
٭فنکار کا ان تبدیلیوں سے متاثر ہونا ضروری ہے۔
___(زہر گل کے دیباچے سے)
بیسوی صدی تک شعری منظرنامہ کو کوزے میں بند کرنے کی تنقیدی سازش ہے
اکیسویں صدی کا شاعر اب بہتر طور پر نکل آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعمان شوق
سے عالم خورشید تک ازم اور پابندیوں کے خلاف، احتجاج کی زوردار چیخ سنائی
دیتی ہے۔
اپنے پہلے مجموعے نئے موسم کی تلاش میں عالم خورشدی نے صاف طور پر کہا
تھا”میں شعر وادب میں کسی تحریک، رجحان یا نظریے کا قائل نہیں نہ ادب کو
مکتبی، صوبائی یا ملکی دائروں میں قید کرنے کے حق میں ہوں۔ کیونکہ ادب
تخلیق کرنا کوئی فائل ورک نہیں کہ دس بجے سے پانچ بجے تک دفتر کی کرسی پر
بیٹھ کر گھسے پٹے لائن آف ایکشن کے سہارے مکھی پر مکھی چپکانے یا چراغ سے
چراغ جلانے کا کام کیا جائے....“
وہ آگے لکھتے ہیں:”بدلتے ہوئے وقت اور زندگی کی رفتار کے ساتھ ادب کے رنگ
وروپ میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ ادب بہرحال وقت اور زندگی کا عکاس ہوتا
ہے.... یہی وجہ ہے کہ بدلتے ہوئے حالات اور وقت کے تحت میں نے جو کچھ محسوس
کیا، اسے کسی مصلحت کے بغیر اور کسی ازم کو اپنی راہ میں حائل کئے بغیر
آزادانہ طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔“
___(زہرگل، عالم خورشید)
یہاں قابل غور امر، ایک اور بھی ہے۔ جہاں پرانی روش، فرسودہ ازم سے باہر
نکلنے کی بے چینی ہے، وہیں ایسا نہیں ہے کہ آنے والی نئی روشنیوں کے درمیان
یہ کسی نئی تحریک، ازم، خیمے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ نئی نسل کسی بھی طرح
کی پابندیوں کے خلاف ہے۔ روایتی شاعری کی قباچاک کرنے، اپنے آپ کو ازم یا
خیمے سے نجات دلانے کے بعد وہ پتھریلی سڑکوں پر چلنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ اس کی شاعری اکیسیویں صدی کے تخیلاتی منظرنامے سے گزرتے ہوئے بیسویں صدی
میں رونما ہونے والی سیاسی وسماجی تبدیلیوں پر بھی یکساں نظر رکھتی ہے۔
پہلے جہاں سیاسی پس منظر یا مذہب کے خلاف نئی شاعری میں ایک باغی جذبہ نظر
آتا تھا، وہیں ہندوستان سے پاکستان تک آج اردو شاعری میں مذہب کی بھی واپسی
ہونے لگی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ جس مذہب کو افیم، مذہبی فتور، سیاسی
تنظیمں کا آلہ کار تصور کیا جانے لگا تھا، اب شاعری میں نشاہ ثانیہ کے طور
پر اس کی واپسی ہوئی ہے۔ شاید ایسا ہونا بھی تھا ”....کہا جاسکتا ہے کہ یہ
دنیا پہلے کی ہی طرح ایک مذہبی دنیا ہے اور مذہب اس میں مرکزی ریفرنس ہے۔
جدید دنیا سے کسی طرح دوری مذہب سے مرادنہ تھی اور حقیقت یہ ہے کہ جدیدیت
اور مذہب کے مابین جو رشتہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے، وہ بے حد پیچیدہ بھی
ہے۔“
___(دی نیشنل انٹریسٹ۔ شمارہ 96-97)
آنے والے وقت میں ہمارے لئے حیرت کا باعث کچھ بھی نہیں رہ جائے گا۔ ہم کسی
بھی واقعہ کا تجزیہ یوں بھی کریں گے کہ یوں تو ہونا ہی تھا۔ یا اگر یہ یوں
نہ ہو کر یوں ہوگیا، تو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ اکیسویں صدی میں
حیرانیوں کی بارش کا یوں گم ہوجانا ممکن ہے کسی سانحہ سے کم تصور نہ کیا
جائے، مگر شاعری کا اصل ماجرا ہے کہ ”کچھ اور چاہئے وسعت مری بیان کے
لے....“ کہ اکیسویں صدی کا یہ ”ڈھیلا ڈھالا“ اردو شاعر بھی سمجھنے لگا ہے
اور چونکہ سمجھنے لگا ہے، اس لئے وہ اپنے کل شعری سرمائے کے لئے کسی نام
نہاد نقاد کا محتاج نہیں ہے۔ یوں بھی کچھ برس قبل شاعری کی حمایت میں ایک
نقاد نے یہ اعلان تو کیا ہی تھا کہ بے چاری یہ نئی نسل نقاد سے محروم ہے۔
اس کے پاس کوئی اچھا نقاد نہیں جبکہ اہم بات یہ ہے اور برسبیل تذکرہ یہ بات
سامنے آنی چاہئے کہ نئے شعراءکی بغاوت انہیں خود اپنی شاعری کا نقاد بننے
پر مجبور کررہی ہے۔ انہیں وارث علویوں، فاروقیوں کی ضرورت نہیں ہے۔بہت ممکن
ہے وہ یہ بھی سوچتے ہوں کہ نئے شعری پس منظر میں ”علویں“ کی تنقیدی فکر
بیسویں صدی تک جاکر ٹھہر جاتی ہے وہ اس سے آگے کا سفر طے نہیں کرتی۔ اس لئے
تخلیقیقت کے ساتھ وہ تنقید کا میدان بھی آئیں، یہ ان کے لئے ضروری ہوگیا
ہے۔
حقیقتاً نئی صدی میں شعراءہوں یا افسانہ نگار پیش آمدہ تبدیلیوں سے نظریں
چرانے کا کام نہیں کرسکتے۔ سائنس، ٹکنالوجی، گلوبل ویلیج یا ائبر اسپیس کی
بات ہو، جس قدر ممکن ہوسکے گا وہ اپنے ادب کے ساتھ شیئر کری گے اور اب تو
احمد فراز تک نے نئی تبدیلیوں کو شعر کائنات می سمونے کابیباکا نہ اعلان
کردیا ہے۔
”نئی معلومات ہر عہد میں جب آتی ہیں تو ان کا ذکر ناول اور افسانوں میں تو
آتا ہے لیکن شاعری میں براہ راست ان کا ذکر کم آتا ہے۔ پھر یہ کہ سائنسی
معلومات کی ٹرمینالوجی تو آرہی ہے ادب میں لیکن بذات خود وہ ادب کا موضوع
نہیں تھا۔ خاص طور پر مشرقی مزاج ابھی تک اس کا ذوق پیدا نہیں کرسکا۔ لیکن
میرا خیال ہے کہ اردو ادب میں بھی بالآخر ایسا ہوگا___ کیونکہ نئی باتیں تو
آئیں گی، نئی باتں اور تبدیلیوں کا ذکر جب عشق پر بھی پڑتا ہے تو ادب پر
بھی پڑے گا۔ کلنٹن اور مونیکا کا جو سلسلہ ہوا وہ بھی ادب کا موضوع بن
گیا....“
___احمد فراز
(انٹرویو، سالنامہ آثار، پاکستان
تیزی ے بدلتے ہوئے عہد کی یہ شاعری زیادہ عمدہ ہوگی، پائیدار ہوگی، آفاقی
ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر نئی صدی کی یہ شاعری اپنے زمانہ،
عہد اور مسائل کے بہت قریب ہوگی۔ زبان کا بحران، شخصیت اور شناخت کا بحران۔
نئی شاعری کے لئے یہ سب مسئلے پرانے پڑچکے ہوں ے۔ نئی شاعری نئے جادوئی
رابطوں کو جنم دے گی اور نئی شعری وحدت خلق کرے گی۔
کم ازکم میری نظر میں مستقبل میں کی جانے والی شاعری کا مستقبل زیادہ
تابناک ہے۔ |