اظہار افسر کی نعتیہ شاعری

جناب اظہار افسرصاحب جو ریاست کرناٹک کے ان چند اچھے نعت گو شعرا میں سے ہیں جن کا شمار استادوں میں کیا جاسکتا ہے۔آپ کا نام محمد یوسف اور تخلص افسر ہے استاذ محترم اظہار رامپوری سے دلی عقیدت کی بنا پر اظہار افسر کے نا م سے مشہور ہیں۔آپ کاتعلق اترپردیش کے مردم ساز سرزمین مظفرنگرسے ہے۔ لیکن چالیس سال سے آپ کرناٹک کی راجدھانی شہر بنگلور میں مقیم ہیں اب اسی سرزمین ٹیپو کو آپ نے اپنامسکن بنالیا ہے۔اہل کرناٹک نے آپ جیسے قادر الکلام اور کہنہ مشق شاعر کو ہمیشہ قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔آپ کی یہاں پر جس قدر پذیرائی ہوئی ہے شاید کہ اپنے وطن عزیز میں بھی نہ ہوئی ہوتی۔ سرزمین ٹیپو شعراادبااوراہل علم کو ہمیشہ قدرو منزلت کی نظر سے دیکھتا رہاہے،یہی وجہ ہے کہ اس زمانے سے لے کر آج تک یہاں شعرا ادبا اور صاحب تصنیف و تالیف موجود ہیں۔

آپ نے جس وقت اس سرزمین پر قدم رکھا اس وقت یہاں پر نعت گوئی اور مشاعروں کا چلن کم تھا البتہ کچھ اہل سخن اپنی دلچسپی کے لئے اپنے گھروں پر نشستیں منعقد کیا کرتے تھے۔اظہار افسر صاحب کا سب سے بڑا اور اہم رول یہاں پر مشاعروں کے منعقد کرانے میں رہا ہے اس سے پہلے یہاں مشاعرے کم ہوا کرتے تھے ، آپ نے یہاں آکر اردو زبان کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہ رکھی۔

نعت گوئی ایک نازک صنف سخن ہے۔ یہ فن شاعری کی پل صراط ہے۔ خدا اور بندے کا فرق اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے۔ یہاں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اردو کے بعض شعرا اس پل صراط سے سلامتی کے ساتھ نہیں گذرسکے لیکن جناب اظہار افسر صاحب نے ایسے موقع پر بہت ہی احتیاط سے کام لیتے ہوئے اپنے ایمان و عقیدے کی حفاظت کرتے ہوئے اس فن کا بہت ہی مہارت سے استعمال کیاہے۔آپ الوہیت اور عبدیت کے فرق کو بخوبی سمجھتے اورجانتے ہیں اور رسالت مآب کی عظمت و جلات کا بھرپور شعور بھی رکھتے ہیں۔اس لئے آپ کی نعتوں میں کہیں کوئی بے راہ روی نہیں پائی جاتی۔

اظہارافسرکی نعت گوئی میں کوئی بناوٹ و تصنع نہیں ہے ۔ لب و لہجہ بالکل صاف ستہرا، آسان اور عام فہم ہے۔الفاظ و جملوں کی ترکیب سے خلوص و محبت ٹپکتی ہے نمونہ دیکھئے:
خرمن ضلات کو جس نے پھونک ڈالا ہے
میرا کملی والا ہے میرا کملی والا ہے
آؤ میرے آقا کی گفتگو سنو لوگو!
ہر ادا انوکھی ہے ہر سخن نرالا ہے
آپ اگر نہیں آتے ظلمتیں نہیں مٹتیں
آپ کی بدولت ہی دہر میں اجالا ہے
آگیا ہے صلی اللہ یک بہ یک جو ہونٹوں پر
شہرِ مصطفی افسر شاید آنے ولا ہے

جب ہم اظہارافسرصاحب کا نعتیہ کلام دیکھتے ہیں تویہ احساس ہوتا ہے کہ آپ کو رسالت مآب ﷺ سے قلبی لگاؤ ہے، آپ کو شہر مدینہ سے اس طرح محبت و عقیدت ہے کہ اس کا اثر آپ کے اشعار میں بجا طور پر نمایاں ہے ایک نعت کے کچھ اشعار دیکھیں:
خدا را بلالو دیارِ مدینہ
کرم مجھ پہ ہو تاجدارِ مدینہ
ملوں گا بصد شوق آنکھوں سے اپنی
میسر ہو گر رہ گزارِ مدینہ
جو ابرِ کرم بن کے برسا جہاں پر
وہ افسر ہے اک آبشارِ مدینہ

اظہار افسر صاحب دیگر شعرا کی طرح اپنے نعتیہ کلام میں نبی کا وسیلہ وواسطہ کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں نمونہ کے طور پر ایک شعر دیکھیں:
خدا کے فضل سے حل ہوگئی مشکل بہ آسانی
دیا جب ہم نے تیرا واسطہ محبوب یزدانی

اظہار افسر صاحب نے خواجہ الطاف حسین حالی اوردیگر شعراکی طرح رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے عشق و شیفتگی کے ذکر کے ساتھ ملت کا اجتماعی حال بھی درد کی زبان میں بیان کیا ہے ، اس اعتبار سے آپ حالی مرحوم کے شریک حال اور ہم زبان و ہم خیال ہیں۔آپ نے اپنی ایک طویل نظم جس کا عنوان ہے٬٬امت کے پیشوا سے میرا سلام کہنا،، میں یوں مخاطب ہیں:
اے بادِ صبح گاہی شمس الضحیٰ سے کہنا

اے بادِ صبح گاہی بدر الدجیٰ سے کہنا
اے باد صبح گاہی نورِ ہدیٰ سے کہنا

اے بادِ صبح گاہی خیر الوریٰ سے کہنا
امت کے پیشوا سے میرا سلام کہنا
سلطانِ انبیاءسے میرا سلام کہنا
بعد از سلام کہنا رحمت لقب سے جاکر

٬٬وہ قوم جس میں پنہا تھے زندگی کے جوہر،،
جس سے کبھی تھے لرزاں کسریٰ بھی اور قیصر

ڈرتے تھے نام تک سے جس کے ہمالہ پیکر
وہ آپ کی مثالی امت رسولِ اکرم
در در بھٹک رہی ہے اے ہاد · معظم
ابتر ہے حال امت اے ہاشمی دلارے

محتاج ہیں کرم کے بے کس ہیں بے سہارے
بیٹھے ہوئے ہیں در پر دامن تہی پسارے

رحمت کو اپنی آقا کر دیجئے اشارے
یہ بہرِ مصطفی ہیں حق سے دعائیں افسر
پہلی سی شان و شوکت پھر سے ہمیں عطا کر

مذکورہ اشعار دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اظہارافسر کے یہاں ملی شعور کتنا گہرا ہے جب یہ حضور کی شان میں نعت کہتے ہیں تو حضور کی امت کا خیال بھی ان کے پردئہ شعور پر رہتا ہے اور ان کا حساس دل اس امت کی بیچارگی، کس مپرسی اور سرافگندگی پر تلملا اٹھتا ہے اور یہ احساس دل کے ساز کو چھیڑتا ہے اور فکرو ہنر کو مہمیزکرتا ہے۔ منیر شکوہ آبادی، شورش کاشمیری ماہر القادری اور کلیم احمد عاجز کی طرح جناب اظہار افسر کے نعتیہ کلام میں ایسے آبدار شعر ملتے ہیں جن میں ملت کا دردوغم سمویا ہوا ہے۔

جناب اظہار افسرصاحب نعت گوئی کے علاوہ غزل، منقبت، نظم ، مرثیہ ہمیشہ سے لکھتے رہے ہیں۔آپ کو علم عروض پردسترس حاصل ہے ۔ آپ نے اپنے کلام میں چھوٹی اور طویل دونوں بحروں کا بخوبی استعمال کیا ہے۔ چھوٹی بحرمیں:
اگر کوئی تمنا دل نشیں ہے
تو پھر سجدہ کوئی سجدہ نہیں ہے
ہر اک ذرہ ہے جلوہ ریز اے دل
مدینہ کی گلی کتنی حسیں ہے

طویل بحر میں یہ اشعار دیکھے جاسکتے ہیں:
پوری کردے یا اللہ میری یہ تمنا ہے جاؤں میں مدینے کو بس جاؤں مدینے میں
روضہءمحمد کی قربت مجھکو حاصل ہو جاگ رہی ہے مد ت سے حسرت میرے سینے میں
حج کا مہینہ آتا ہے حاجی حج کو جاتے ہیں دیکھ دیکھ کر ان کو میں دل ہی دل میں روتا ہوں
میرے مقدر میں بھی تو طیبہ کا جانا لکھدے دور مدینے سے رہ کر لطف نہیں ہے جینے میں
Abdullah Salman Riaz
About the Author: Abdullah Salman Riaz Read More Articles by Abdullah Salman Riaz: 2 Articles with 5544 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.