گزشتہ بدھ (19جولائی) محترمہ حنا
ربانی کھرکو حسب توقع وزیر خارجہ پاکستان کا اہم قلمدان سونپ دیا گیا۔وہ
پانچ ماہ قبل فروری میں کابینہ کی ردوبدل کے دوران وزارت خارجہ میں وزیر
مملکت مقرر کی گئی تھیں اور شاہ محمود قریشی کے بعد کابینہ درجہ کا کوئی
سینئر وزیرمقرر نہ کئے جانے کے باعث اس دوران وزارت کا سارا کام کاج وہی
دیکھ رہی تھیں۔ اس اہم منصب پر ان کی تقرری کئی اعتبار سے ممتاز اور سابقہ
روایات سے انحراف ہے۔وزارت خارجہ کا قلمدان بڑا ہی اہم ہوتا ہے اور دنیا
بھر میں اس منصب پر تجربہ کار افراد کا تقرر کئے جانے کی روایت رہی ہے۔
پاکستان کے موجودہ حالات میں ایسے منصب پرایک جواں سال خاتون کی تقرری
چونکادینے والی ہے۔ صدر زرداری نے ان کے انتخاب کو ان کی لیاقت و صلاحیت کا
ثمرہ قرار دیا ہے۔
وہ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جو اس منصب پر فائز کی گئیں،وہ بھی صرف 34
سال کی عمر میں۔ان کا تعلق قومی اسمبلی میں اس نئی نسل سے ہے جو صدر مشرف
کے دور اقتدار میں انتخاب میں امیدواری کےلئے گریجویٹ کی شرط عائد کئے جانے
کے نتیجہ میں میدان سیاست میں آئے ۔ محترمہ کھر پنجاب کے ایک معروف سیاسی
گھرانے کی بیٹی ہیں۔ ان کے چچا غلام مصطفیٰ کھر ریاست کے وزیر اعلیٰ اور
گورنر رہ چکے ہیں۔ان کے والد ملک غلام ربانی کھربھی قومی اسمبلی کے رکن رہے۔
لیکن نئے ضابطے کی وجہ سے 2002 کے انتخاب میں وہ امیدوار نہیں ہوسکتے تھے،
چنانچہ انہوں نے اپنی ڈگری یافتہ بیٹی کو میدان میں اتار دیا۔ ضلع مظفر گڈھ
میں، جہاں ان کابڑا زمیندارہ ہے ، عوام پرخاندان کی گرفت مضبوط ہے۔چنانچہ
وہ آسانی سے کامیا ب ہوگئیں اور اپنے ہوٹل کاروبارسے توجہ ہٹاکر وہ پاکستان
مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی میں داخل ہوگئیں۔
حنا ربانی کھر نے لاہور یونیورسٹی سے بی ایس سی (منجمنٹ) اورٹکساس ، امریکا
سے ایم ایس سی(ہوٹل منجمنٹ)کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ان کو پہلے ہی ٹرم میں وزیر
مملکت برائے اقتصادی امور و شماریات مقرر کردیا گیا اور انہوں نے اپنی
لیاقت، لگن، دلچسپی اور جانفشانی کے جوہر دکھاکر جلد ہی اپنے لئے ایک مقام
بنا لیا۔ اگرعیش و عشرت میں پلنے والی کسی وڈیرے کی بیٹی ایسی لیاقت اور
کام میں لگن پیداکرلے تویہ یقینا لائق ستائش ہے۔قسمت نے بھی انکا ساتھ
دیا۔2008 میں انکی پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا اوروہ پی پی پی کے ٹکٹ پردوبارہ
چن لی گئیں۔ یوسف رضاگیلانی وزیر اعظم بنے توان کوپھرنئی کابینہ میں شامل
کرلیا اور سابق منصب پر برقرار رکھا۔ 23جون 2009کو قومی اسمبلی میں ان کی
بجٹ تقریر کی سیاسی حلقوں اور پریس میں بڑی ستائش ہوئی۔ یہ پاکستان کی
تاریخ کاپہلا موقع تھا جب کسی خاتون نے بجٹ تقریر کی ۔
وزیر خارجہ کے منصب پر ان کی تقرری ان کےلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ بات دنیا
جانتی ہے کہ اس خطے میں دہشت گردی کے نام پر مسلط کی ہوئی امریکی جنگ
پاکستان کےلئے ایک بڑی مصیبت بن گئی ہے۔( خیال رہے کہ اس جنگ کو خود صدر
جارج بش نے ایک مرحلہ پر ’کروسیڈ ‘قراردیا تھا۔ کروسیڈس یاصلیبی جنگیں،
خونی جنگوں کا وہ طویل سلسلہ ہے جو 11ویں تا13ویں صدی یوروپ کے عیسائی
حکمرانوں نے مذہب کے نام پر اسلامی طاقتوں کے خلاف لڑی تھیں)۔ چنانچہ عراق
اور افغانستان کو کھنڈر میں تبدیل کردینے اور لامتناہی خانہ جنگی میں مبتلا
کردینے کے بعد اب پاکستان اس کے نشانہ پرہے۔پورے عالم اسلام پراپنی
چودھراہٹ قایم کرنے کےلئے ’عرب بیداری‘ کے نام پر صہیونی امریکی سازش کے
تحت جو عدم استحکام پیدا کیا جارہاہے، پاکستان کا موجودہ بحران مختلف نام
سے اسی کی توسیع ہے۔ پاکستانی عوام اورحکمراں اس صورتحال کوخوب سمجھ رہے
ہیں، مگر جس طرح ان کا ملک امریکاکے چنگل میں پھنسا ہوا ہے، اس سے نکلنا
آسان نہیں۔کبھی جمہوری حکمرانوں کو کٹ گھڑے میں کھڑا کرکے اورکبھی دفاعی
افواج کو نشانہ بناکر امریکا مسلسل پاکستان کوخلفشار میں مبتلا کرنے کے
درپے ہے۔ایٹمی تنصیبات پر کنٹرول کی کوشش،جاسوسی، جیکب آباد آپریشن اوردہشت
گردی کے نام نہاد خطرے کو بہانا بناکر سرحدی علاقوںپر ڈرون حملوں میں
عورتوں ، بچوں اور شہریوں کی ہلاکت سے اندورن ملک شدید غم و غصہ کی کیفیت
پیداہوگئی ہے۔عراق اور افغانستان کی جنگوں کی بدولت شدید ترین اقتصادی
بحران میں مبتلاامریکا اگرچہ افغانستان کی جنگ میں اپنے عزائم میں ناکامی
کے باعث پسپائی پر مجبور ہے، مگر خطے میں اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کےلئے
پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے درپے ہے۔چنانچہ دونوں ممالک کے سفارتی
تعلقات بڑے ہی نازک اور پیچیدہ دور سے گزر رہے ہیں۔ ہرچند کہ امریکا
دیوالیہ ہونے کے کگار پر ہے، تاہم اس کی خارجہ پالیسی کا شاطرانہ نظام آج
بھی بدستور اپنی چودھراہٹ کو مستحکم کرنے کےلئے سرگرم ہے۔ ایسے موقع پر جب
کہ پاکستان انتہائی ناہموار حالات میں اپنی خود مختاری کی جنگ لڑ رہا ہے،
حناربانی کھر کی وزیر خارجہ کے منصب پر تقرری کسی امتحان سے کم نہیں۔
پاکستانی خارجہ پالیسی کی ایک بڑی پیچیدگی یہ ہے کہ اس پر جمہوری حکومت کا
پورا کنٹرول نہیں ہے بلکہ فوجی جنرل اپنی ترجیحات اور مفادات کے پیش نظر اس
کے خد وخال طے کرتے ہیں۔ ایبٹ آبادآپریشن، مہران نیول بیس پر حملے اور سید
شہزاد سلیم کے قتل کے بعد جمہوری حکمراں خارجہ پالیسی کو فوجی گرفت سے آزاد
کرانے کی جدوجہد کر ر ہے ہیں۔ اس جد وجہد میں بھی وزیر خارجہ کو اہم کردار
ادا کرنا ہوگا اوراپنی حکمت عملی اس طرح طے کرنی ہونگی کہ فوج کو مداخلت کا
موقع نہ ملے۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ اس کےلئے ارتقائی حکمت عملی
اختیارکرنی ہوگی، کوئی انقلابی اقدام مفید نہیں ہوگا۔ اس کےلئے ترکی ایک
اچھی مثال ہے۔ جمہوری حکمرانوں کی سیاسی پختگی ہی، عوام میں مقبولیت اور ان
کے معاشی مسائل کا حل ہی قومی معاملات میںفوج کی مداخلت روک سکے گی۔
ان کےلئے تیسرا اہم چیلنج ہند کے خلاف جنگ کی نفسیات کو بدلنا اوردونوں
ممالک کے عوام کی بہبود اور ملک کی تعمیر و ترقی کےلئے اعتماد سازی اور
معاونت کے سنگ میل طے کرنا ہے۔حالیہ دنوں میں کچھ خوش آئند اشارے ملے ہیں۔
ان کو ان اشاروں کواورجلی عنوان دینا ہوگا۔ پاکستان کو اب یہ احساس ہوگیا
ہے کہ امریکا کی اقتصادی مدد کی جس بیساکھی پر وہ گزشتہ ساٹھ سال سے کھڑا
ہے، اس کو گھن لگ گیا ہے اور اس کی بہت بڑی قیمت بھی چکانی پڑ رہی ہے۔ اس
سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ بشمول ہند تمام علاقائی ممالک کے ساتھ
تنازعات کا پرامن حل نکالاجائے اوران کے ساتھ اقتصادی شراکت کے ذریعہ قومی
معیشت کومضبوط کیا جائے۔ اس حکمت عملی کا اہم پہلو دیگر ممالک کے معاملات
میں عدم مداخلت ہے۔ افغانستان کے معاملات میں پاکستان کا ملوّث ہونا اس کو
راس نہیںآیا ہے۔وزیر اعظم پاکستان کا یہ کہنا بجا ہے کہ اس خطے کوکسی
چودھری کی ضرورت نہیں۔
وزیر خارجہ کے منصب پر اپنی تقرری کے فوراً بعد انہوں نے بالی( انڈونیشیا)
میں 22-23 جولائی کو پاکستانی وفد کی سربراہ کی حیثیت سے ایسیان کانفرنس
میں شرکت کی اور اسی دوارن ہلیری کلنٹن سے بھی ملاقات کی ۔صحافتی حلقوں نے
ان کی ان مصروفیات کو اطمینان بخش قراردیا ہے ۔پاکستان سے روانگی سے قبل
لاہور میں اخبار نویسوں سے ملاقات کے دوران انہوں نے بڑے نپے تلے انداز میں
امریکی وزیرخارجہ کے بعض ریمارکس پرردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا دہشت گردی
کے بارے میں پاکستان کو کسی تلقین کی ضرورت نہیں۔ وہ خود سنجیدہ ہے۔انہوں
نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے رشتے ایک طرفہ نہیں ہوں
گے۔ اس طرح انہوں یہ واضح کردیا ہے پاکستان اپنی خودمختاری اور قومی وقار
کا تحفظ کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔ ہندستان کے ہائی کمشنرشرت سبھروال سے
ملاقات کے دوران وزیر خارجہ نے کہا کہ ہند کے ساتھ مذاکرات ایسے ہونے
چاہئیں کہ ان میں ’نہ توکوئی خلل پڑے اور نہ ڈالا جاسکے‘ ۔ بالی میں
انہوںنے کہا: ’ہندستان مذاکرات میں سنجیدہ ہے اور مجھے امید ہے کہ ہمارے
تعلقات میں مثبت پیش رفت ہوگی۔‘ نئی دہلی مذاکرات (27جولائی) سے قبل ان کا
یہ بیان بھی بڑا اہم ہے کہ تاریخ سے سبق تولینا چاہئے مگرماضی کو مستقبل کی
راہ کی رکاوٹ نہیں بنا لینا چاہئے۔ان کا یہ نظریہ ماضی کی تلخیوں کو پس پشت
ڈال کر آگے بڑھنے کی انکی دوراندیشی کا اظہار ہے۔ ان کے ان بیانات کوکشادہ
ذہن صحافتی حلقوں میں مثبت قراردیاجارہا ہے۔رہے ماضی گرفتہ اور تنگ ذہن تو
انکا کی بات دیگرہے۔
حنا اس نئی نسل سے ہیں جوہند کے بٹوارے اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعدوجود
میں آئی۔ ان کا ذہن تقسیم کی سیاست کی بہت سی تلخ یادوں اورخطے میں تین بڑے
مسلح تصادموں سے اس طرح زخم خوردہ نہیں، جس طرح ہم پرانی نسل والوں کے
ہیں۔انہوں نے منجمنٹ کی تعلیم حاصل کی ہے اور وزارتی زندگی کا آغار اقتصادی
امور سے کیا۔ ان کی فطری ترجیحات قانونی اور سفارتی داﺅ پیچ سے بالاترہوکر
ملک اور قوم کی اقتصادی بہبود ہے۔ یہ ترجیحات زرداری، گیلانی حکومت کی جدید
ترجیحات کے عین مطابق ہیں۔ ایک طرف پاکستان علاقائی ممالک بشمول چین ،ایران
، افغانستان اور ترکی ایک وسیع تر اقتصادی پلیٹ فارم قائم کرنے کےلئے کوشاں
ہے ، جس میں چین سے استبول تک ریلوے لائن کا منصوبہ بھی شامل ہے۔دوسری طرف
تھمپو میں وزیر اعظم ہند کی پہل پر دونوں ممالک نے اپنے رشتوں کو ایک نئی
سمت دینے کاعزم ظاہر کیا ہے، جس کو ’تھمپو جذبہ‘ کا نام دیا گیاہے،یہ جذبہ
ہند پاکستان رشتوں کے باب کا سنہراعنوان بن سکتا ہے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ
اقتصادی رشتوں کو استوار کرنے کی ڈاکٹر من موہن سنگھ کی پالیسی اور زرداری
،گیلانی حکومت کی نئی سوچ میں ہم آہنگی یقیناً کھر کےلئے دوطرفہ مسائل کو
حل کرنےکی راہ کو آسان کر دے گی۔ اسی لئے یہ توقع کی جارہی ہے کہ نئی دہلی
میں ہند پاک وزرائے خارجہ ملاقات (27جولائی) ایک نئے خوش آئند باب کا آغاز
ثابت ہوگی۔ہرچند کہ اس ملاقات کے دوران ہند کے وزیر امورخارجہ ایس ایم
کرشنا اور ان کی ہم منصب حنا ربانی کھر کے درمیان عمر اور سیاسی تجربہ کے
اعتبار سے بڑا ہی فاصلہ نظرآتا ہے، مگر مقاصد کی ہم آہنگی اس کانفرنس کی
کامیابی کی ضامن ہے۔ مسٹر کرشنا قانون کے گریجوئیٹ ہیں۔وہ گورنر، مرکزی
وزیر، وزیر اعلا رہ چکے ہیں۔ پہلی مرتبہ وہ1964 میں رکن اسمبلی چنے گئے ،جبکہ
حنا ربانی کی پیدائش ہی 1977کی ہے۔ موجودہ حالات میں ہندستانی وزیر خارجہ
پاکستان کے جمہوری حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کی اہمیت کو خوب سمجھتے ہیں۔
ایسے ملک میں جس کی بمشکل 51%لڑکیاں پرائمری تعلیم پوری کرپاتی ہیں، ایک
نوجوان باصلاحیت خاتون کی کامیابی اور ناکامی کے معاشرے پر پڑنے والے دوررس
اثرات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہئے۔(ختم)
(مضمون نگار سینرصحافی ،فورم فار سول رائٹس کے جنرل
سیکریٹری اور آل انڈیا ایجوکیشن موومنٹ کے نائب صدر ہیں) |