وہ جو جنون کا ہمسفر تھا اور جس کا دیار عشق میں ایک اپنا
مقام تھا وہ قاضی حسین احمد 2 جنوری 2013 کو ہم سے بچھڑ گئے تھے۔
مولانا مودودی کے افکار کی عملی تشریح اور اقبال کے اصلی شاہین قاضی حسین
احمد ساری زندگی ایک ہی مشن کے لئے جئے اور وہ تھا "امت محمدیہ" کو اخوت و
اتحاد کی لڑی میں پرونا.
جنہیں مشکلیں امت مرحوم کی اپنی ذاتی تکلیفوں کی طرح محسوس ہوتی تھی۔
جنہوں نے راہ وفا سے کبھی منہ نا پھیرا
تمہارے بعد کہاں یہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے تمہارا جواب لائے گا
وہ ایک سیاسی جماعت (جماعت اسلامی) کے امیر ہی نہیں بلکہ ایک زیرک،
سیاستدان، اسلامی سکالر، استاد العلماء، جمہوریت پسند رہنما اور انسانی
حقوق کے علمبردار تھے۔
12 جنوری 1938 کو نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ کالج پشاور سے جیوگرافی
میں بی ایس سی اور ایم ایس سی کی اور پھر سوات میں 3 سال لیکچرار رہے۔
اردو،انگریزی، عربی، پشتو، فارسی پر عبور حاصل تھا اور کل سات زبانیں لکھنا
پڑھنا اور سمجھنا جانتے تھے۔ علامہ اقبال کے پر جوش مداح اور قابل
تلمیذثابت ہوئے۔
لڑکپن میں ہی جمیعت طلبہ اسلام سے وابستہ ہوئے۔ 1970 میں جماعت اسلامی کے
رکن بنے۔ پھر سیکرٹری KP اور پھر امیر بنے۔
1978 میں جماعت کے سیکٹری جنرل بنے اور پھر1987 میں امیر جماعت اسلامی بنے
اور 22 سال تک مولانا مودودی کے جانشین بن کر امت مرسل کی خدمت میں لگے
رہے۔ ان کی عظیم خدمات میں سے ایک "متحدہ مجلس عمل" کا قیام اور آبیاری
ہے۔2002 میں MMA کا قیام عمل میں آیا جو مشرف جیسے مطلق العنان ڈکٹیٹر کو
ناکو چنے چبوانے کا کام کرتی رہی۔ 2002 کے الیکشن میں پہلی بار دینی
جماعتوں کو اتنا زیادہ ووٹ ملا جو ایک قابل لیڈر کی دوراندیش قیادت کا صلہ
تھا۔
افغان مجاہدین سے قریبی تعلقات رکھے اور صرف جہاد کے فروغ کے لئے پوری دنیا
کے سامنے ان کا مقدمہ لڑا اور قلعئہ کشمیر کی آزادی کے لئے ساری عمر سرکردہ
عمل رہے۔ یہاں تک کہ 5 فروری کو یوم کشمیر منانے کی تجویز بھی انھوں نے دی
تھی۔
تاریخ سیاست میں سب سے کامیاب لانگ مارچ جس شخصیت نے کیا وہ قاضی حسین احمد
ہیں۔ 27 اکتوبر 1996 کو بے نظیر کی حکومت کی بد عنوانی کے خلاف لانگ مارچ
شروع کیا اور 4 نومبر 1996 کو صدر فاروق لغاری نے بے نظیر کو تختہ اقتدار
سے محروم کردیا۔
اور جب ملک سے بڑے بڑے لیڈر نواز شریف اور بے نظیر بھی باہر جا بیٹھے تب ہی
عوام کو جمع کر کے ایک عسکری قیادت کے مد مقابل اپنی جذبات کی ترجمانی کرنے
کے لیے صرف ایک ہی شخصیت معرکہ آراء تھی۔
عزم تو پائندہ چو کہسار تو
حزم تو آساں کند دشوار تو
ہمت تو چوں خیال من بلند
ملت صد پارہ را شیرازہ بند
(تیرے عزم کے کیا کہنے۔ وہ تو تیرے پہاڑوں کی مانند مضبوط اور مستحکم ہے
اور تیری دوراندیشی اور دانائی کی بدولت ہر مشکل تجویز آسان ہے)
31 دسمبر 2012 کو جب راقمتہ الحروف جمیعت کے منعقد کردہ فیملی فیسٹیول میں
تنظیمی سرگرمی انجام دے رہی تھی تو قاضی حسین احمد صاحب سے ایک غیر رسمی سی
ملاقات ہوئی۔ پورا اسلام آباد اور دور دور کے شہروں سے لوگ جوق درجوق ایف
نائن پارک میں اس تفریحی پروگرام سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ قاضی صاحب نے
عوام کا ہجوم دیکھ کر ایک خوش کن مسکراہٹ اور پرسوز دل کے ساتھ فرمایا
" کاش ایسے ہی سب امت جمع ہو جائے ایک نظریہ کے ساتھ "
سب حاضرین ملاقات نے یک زبان ہو کر کہا" ان شاءاللہ"
وہ ایک کامیاب لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب باپ بھی تھے۔ جن کے تین
کے تین بچے گولڈ میڈل ہونے کے ساتھ ساتھ عالم بھی ہے۔ بیٹے انس قاضی نے
اکنامکس میں گولڈ میڈل لیا۔ بیٹی خولہ احمد نے اسلامی یونیورسٹی سے ایل ایل
بی شریعہ اینڈ لاء میں گولڈ میڈل لیا اور نہایت قابل احترام عکس والد سمیعہ
راحیل قاضی جو اسلامی نظریاتی کونسل کی بھی فعال رکن رہی ہیں نے US سے پی
ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
الوداع اے بلبل اخوت امت، الوداع اے مرد مومن مرد قلندر جس کا آخری پیغام
تھا "کردار، اخلاق اور جرات انسان کی اصل معراج ہے"
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔
آمین
|