ملکہ کہسار برف کی چادر اوڑھے ہوئے خاموش ہے، ہر طرف
سفیدی کا راج ہے، موت کے سائے ہیں، برفانی طوفا ن اپنے زوروں پر ہے، منہ
زورطوفان نہ ہی بچوں کی معصوم صدائیں سن رہا ہے نہ ہی اسے ان پر رحم آ رہا
ہے، ٹھٹھرتی ہوئی جما دینے والی سردی میں الا اماں الاماں کی صدائیں ہیں۔
برفانی طوفان کی سنگ دلی انسانی جانوں پر قہر برسا رہی ہے، موت کے سائے
لہرا رہے ہیں، خواتین، بچے، بوڑھے، جوان سب سہمے ہوئے ہیں،گاڑیوں کے گرما
دینے والے ہیٹر خاموش ہو چکے ہیں، گاڑیاں برف میں دھنس کر انمیں بیٹھے ہوئے
بے بسی کے عالم میں چیخ چیخ کر لوگوں سے مدد کے طلبگار ہیں، مگر کوئی نہیں
جو انہیں بچائے، وہ مر رہے ہیں جان کنی کا عالم ہے، مگر ہر طرف بے بسی کا
راج ہے، انکی آہیں اور سسکیاں آسمان سے ٹکرا کر واپس آچکی ہیں بے رحمی کا
راج ہے وہ مر رہے ہیں انہیں بچانے والا چپ سادھے ہوئے ہے، اور ان معصوم بچے
جنہوں نے اپنی ماں کی گود کی گرمی بھی صحیح طرح سٓے نہیں لی وہ بلبلا کر
اور ہاتھ پاؤن مار مار کرموت کی وادی میں جا چکے ہیں۔ وادئی کہسار موت کی
وادی میں تبدیل ہو چکی ہے، نفسا نفسی کے اس عالم میں انسان لالچ میں اندھا
ہو کر حیوان بن چکے تھے، ہر طرف ننگی انسانیت موت کا کھیل کھیل رہی تھی۔
ایسے عالم میں انسان حیوانوں سے بھی بد تر درندگی میں تبدیل ہو چکے تھے،
ہوٹلوں کے کمروں کے کرائے آسمان کو چھو رہے تھے، اور کمروں میں بوسیدہ
فرنیچر، اور ملگجی چادریں اور کمبل ہی دستیاب تھے۔ ریستورانوں پر کھانوں
اور صفائی کا معیار چیک کرنے کا کوئی انتظام نہیں۔ صرف ایک ہی مرکزی بازار
ہے، اس کی خستہ حال سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ اس سڑک پر اب پیدل
چلنا محال ہے۔ آپ شلوار یا پتلون کے پائینچے ہاتھوں میں پکڑے بغیر اس پر سے
نہیں گزر سکتے۔ چلتے ہوئے اگر پاس سے کوئی کار یا جیپ گزر گئی تو گندہ کالا
پانی پھوار کی صورت آپ کے کپڑوں پر ضرور گرے گا۔ کھانے پینیکی اشیاء غائب
ھو چکی تھیں۔ مرغی کا انڈہ 500 روپے جبکہ بسکٹ کا 20 روپے والا پیکٹ 400
روپے میں مل رہا تھا، رہنے کیلیئے ھوٹلوں کے کمرے بند ہو چکے تھے درندہ صفت
انسان لوگوں کو لو ٹ کر اپنی تجوریاں بھر رہے تھے 3000 روپے والے کمرے کا
25 سے 50 ہزار میں روپے کرایہ وصول کیا جا رہا تھا، لوگ پیسوں کی کمی کے
باعث کیمپوں میں رہنے کو مجبور تھے اور وہ لوگ رات کو سردی سے ٹھٹھر کر مر
رہے تھے۔ ہر طرف ہو کا عالم ہے، موت انسانوں کو انسانوں ہی کے روپ میں
مارنے کے درپے ہے۔ گاڑیاں برف کے طوفان میں پھنسی ہوئی ہیں، لوگ انکی جانیں
بچانے کیلئے ہوس کا شکار ہو چکے ہیں اور انہیں اس برف کے طوفان سے نکالنے
کیلئے یہ بے ؐرحم قاتل کا روپ دھارچکے ہیں اور انہیں دولت کے سوا کچھ نظر
نہیں آ رہا، وہ لالچ میں اندھے ہو چکے ہیں، سیاح جو مری کی سیاحت کے لیے
گئے تھے موت کے ابدی سفر پر روانہ ہو چکے ہیں۔معصوم بچے، جوان، ادھیڑ عمر
خواتین و مردوں کی آنکھیں حکومت اور ریاستی اداروں کی راہ دیکھتے دیکھتے
پتھرا چکی ہیں۔ حکومتی کارندے اڑتالیس گھنٹے میں ایک لاکھ سے زائد گاڑیوں
کے داخلے کو عوامی خوشحالی کا جواز قرار دے خوش ہیں کہ اس سال سیاحت کا
ریکارڈ توڑ دیا گیا،حکومت اور اسکے وزراء مری میں داخل ہونے والے سیاحوں کو
اس نا گہانی موت کا ذمہ دار ٹھہرا کر اپنی نا اہلی چھپانے کی نا کام کوششوں
میں مصروف ہے۔ اور انہیں مورد الزام ٹہھرا کر خود کو بچانے کی کوششوں میں
مصروف ہیں۔ حکومتی کارندوں کے بیانات اور اظہار سانحے میں جان سے جانے
والوں کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہیں۔ اے ایس آئی نوید
اقبال کی آخری گفتگو جو انتہائی دلدوز ھیاسے میڈیا پر سنا سنا کر اسکے
خاندان والوں کو ملول کیا جا رہا ہے۔ جس کا پورا خاندان اس خونچکاں سانحے
میں جان کی بازی ہار گیا۔ اس حکومت کی جگہ پر کوئی بھی ہوتا وہ اپنی نا
اہلی کو چھپانے کیلئے ایسے ہی من گھڑت قصے سنا سنا کر عوام کو بے و قوف
بنانے کی کوشش کرتا۔
شمالی علاقہ جات میں لوگوں کو طوفانی موسم نگل جائیں یا موٹر وے پر سفر
کرتیہوئے خواتین کسی درندگی کا نشانہ بن جائیں حکومت ہر بارڈھٹائی کا
مظاہرہ کرتی ہیاور کسی بھی ذمہ داری کو قبول کرنے کو تیار نہیں، مری میں
ایک لاکھ داخؒل ہونے والی گا ڑیوں کو تبدیلی کی علامت قرار دے کر خوشی کے
شادیانے بجا رہے تھے کہ انکی یہ تبدیلی سیاحون کیلئے موت کی وادی میں تبدیل
ہو گئی۔ حکومتی وزراء نے اس تمام تر حادثے کا ذمہ دار تعینات عملے کو ٹھہرا
کر اپنی ذمہ داری سے فرار حاصل کر لیا ہے۔ ہمارا حکومت سے سوال ہے کہ محکمہ?
موسمیات نے چار سے آٹھ جنوری تک جوالرٹ جاری کیا تھا اسے نظر انداز کرتے
ہوئے اس پر عملدرامد کیوں نہیں کروا گیا؟ کیا یہ حکوت کی ذمہ داری نہی
تھی۔کیا مری میں اتنی زیادہ تعداد میں گاڑیوں کو روکنے کی ذمہ داریی حکومت
پر عائد نہیں ہوتی؟؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت نے تمام معاملات پر
کبوتر کیطرح اپنی آنکھی بند کی ہوئی تھیں کیا اسے اس نازک صورتحال کے بارے
میں معلوم نہیں تھا؟ کیا شہریوں کے جان، مال، آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری
حکومت پر عائد نیں ہوتی؟ کیا مری میں قانون نافز کرنے والے اداروں کو حکومت
کنٹرول نہیں کرتی؟ مرنے والے حکومتی وزراء اور مشینری سے رابطے کرتے رہے
مگر کوئی مثبت جواب نہ ملا اور بے حسی کی انتہا کہ پہاڑ تلے دبے ہوئے
متاثرین تک خوراک، حرارت، دوا اور کمبل تک پہنچانے میں کوتاہی برتی گئی اور
وہ جما دینے والی سردی میں ایڑاں رگڑ رگڑ کر موت کی وادی میں اتر گئے۔جس کی
تمام تر مہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
ایک ٹریفک وارڈن کا کہنا ہے کہ ’برفباری کتنی ہی ہو اور ٹریفک کتنی ہی کیوں
نہ بڑھ جائے ہم نہ ٹول پلازہ بند کر سکتے ہیں اور نہ سیاحوں کو روک سکتے
ہیں کیونکہ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں یہ حکومت کا کام ہے اور حکومت
نے دوسرے دن ٹول پلازے کو بند کرنے کا حکم دیا تھا۔‘
’سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ ایسا نہیں ہے کہ یہ اچانک ہوا ہو۔ جمعہ کی صبح
ہی سے یہ سب شروع ہو چکا تھا۔ روڈ بلاک ہو چکا تھا۔ برفباری جاری تھی۔
گاڑیاں ٹکرا رہی تھیں اور پھسلن کا شکار تھیں۔ یہ سب کو سمجھ میں آرہا تھا
کہ اگر یہ ہی صورتحال رہی اور دن دن میں لوگوں کو نہ نکالا گیا تو پھر رات
کو حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے۔ دن کی روشنی میں ایسی کوئی کوشش نظر
نہیں آئی جس کے بارے میں کہا جائے کہ لوگوں کی مدد کرنے کے لیے کوئی فعال
تھا۔ گاڑیوں میں موجود لوگوں کو وہاں پر رہنے والوں نے اپنے گھروں اور
مساجد میں منتقل کرنا شروع کر دیا تھا۔ کئی لوگوں اور خاندانوں کو منتقل
کیا گیا مگر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو کہہ رہے تھے کہ وہ اپنی گاڑی میں
زیادہ محفوظ اور خوش ہیں اور انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہے کھانے پیسے اور پانی
بھی موجود ہے۔ بحالی کے کاموں میں مصروف ایک سماجی کارکن کے مطابق ’سب سے
متاثرہ علاقہ مری شہر سے چند کلو میڑ دور ایبٹ آباد روڈ کی جانب گلڈنہ کا
علاقہ تھا۔ جس میں کالی مٹی والے مقام پر زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس کے
بعد جھینگا روڈ پر ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ درندہ صفت اور بے حسوں نے لوگوں کی
مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اتنی بے غیرتی کا مظاہرہ کیا کہ عورتوں کے
زیور بھی رکھ لئے گئی اور اسکے بدلے میں انہیں ہوٹلوں میں رہنے کی جگہ دی
گئی ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے ذیادہ، بے حسی، بے غیرتی اور بے ضمیری کی مثال
کہیں نہیں ملتی جو ہمارے پاکستانی مسلم معاشرے میں دیکھنے کو ملی۔ برفباری
تو ہر سال ہو گی یہ قدرت کا نظام ہے لیکن لوگ سوال کر رہے ہیں کہ زمین پر
موجود مشینری اور ادارے بروقت حرکت کرنے میں آخر اتنی دیر کیوں کر دیتے ہیں
کہ ہمیشہ ہر علاقے کی خبر کے ساتھ لفظ سانحہ لکھنا پڑ جاتا ہے چاہے وہ کوئی
شہر ہو یا سیاحتی مقام ہو۔
مری میں ہر سال برف پڑتی ہے، ہر سال ہی لاکھوں سیاح مری کا رخ کرتے ہیں،
ہرسال ٹریفک کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، ہر سال جانے والے کانوں کو ہاتھ لگا
کر توبہ کرتے ہیں کہ ’بس بہت دیکھ لی برف، آئندہ کبھی اس بستی کا رُخ نہیں
کرنا مگر دل ہے کہ مانتا نہیں۔
|