کرونا کیلئے پالیسی ڈائیلاگ کا سیشن ، متاثرین غائب ، فنڈزبھی خرد برد

کول بند ہونے کی وجہ سے نوجوان روزگار کی طرف نکل گئے او ر انہوں نے تعلیمی اداروں سے رابطہ چھوڑ دیا ، کیونکہ روزگار اور پیٹ نے سب لوگوں کو پریشان کیا تھا اسی طرح اس وبا نے سب سے زیادہ روزانہ کی بنیاد پر ڈیلی ویجز کام کرنے والے لوگوں کو متاثر کیا .خواتین اور بچے اس وبا ءکی وجہ سے متاثر ہوئے.لیکن ا س پالیسی ڈائیلاگ میں کوئی عام خاتون نہیں تھی نہ ہی کسی سکول کے طالب علم کو بٹھایا گیا کہ اسے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا.

کرونا وبا کے دوران شروع کی جانیوالی پالیسیاں اوپر سے نیچے آرہی تھی اور حکومتی اداروں کے مابین روابط نہیں تھے اسی باعث تین مختلف پالیسیاں بنی گئی جس کی وجہ سے نہ صرف صحت کے شعبے میں مسئلہ پید ا بلکہ معیشت ،تعلیم و دیگر شعبوں میں بھی ہمیں نقصان کا سامنا کرنا پڑا. یہ کہنا تھا ایک غیر سرکاری ادارے کی تین گھنٹے کی پالیسی ڈائیلاگ سیشن جو میں جو پشاور کے ایک مقامی تھری سٹار میں منعقد کروایا گیا جس میں بیشتر افراد کا تعلق این جی اوز سے تھا حال حال ہی میڈیاکے نمائند ے نظر آئے جبکہ ممبران اسمبلی بھی کافی تعداد میں موجود تھے.ڈائیلاگ سیشن میں جو لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے یعنی عام لوگ مزدور رہنما، تعلیمی اداروں سے وابستہ افراد ، تاجر طبقہ ، طالب علم نظر نہیں آئے. البتہ اسے پالیسی ڈائیلاگ سیشن کہا گیا..کرونا کے باعث پیدا ہونیوالی صورتحال اور مستقبل کیلئے کی جانیوالی پیش بندیوں کیلئے ایک غیر سرکاری ادارے کی جانب سے شروع کیا جانیوالا سلسلہ بہترین ہے تاہم اس پالیسی ڈائیلاگ کا دورانیہ صرف تین گھنٹے رکھاگیا اور آغاز میں ہی کہا گیا ہے کہ وقت بہت کم ہے یعنی اتنی اہم پالیسی کیلئے تیاری کرنی ہے لیکن صورتحال نشستا خورداوالی صورتحال یہاں پیدا کی گئی جبکہ جو لوگ کرونا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اسے مدعو ہی نہیں کیا گیا . نہ ہی ان کے تحفظات سنے گئے نہ ہی ان کی تجاویز سنی گئی ایسے میں پالیسی کیا بنے گی .

اس وباءکے دوران 23 فروری 2020 کو ایران کیساتھ سرحد کو بند کردیا گیا جبکہ 26 فروری 2020 کو پہلے دو کنفرم کیسز ہوئے اس کے ایک ماہ بعد یعنی مارچ کے مہینے میں افغانستان کے سرحد کو سیل کردیا گیا جبکہ تیسرے ماہ کے تیسرے ہفتے میں بین الاقوامی پروازوں کا سلسلہ بند کردیا گیا ، حالانکہ یہ بہت پہلے ہونا چاہئیے تھا . چین میں یہ وباء2019 میں آئی تھی ہم چین کیساتھ بہت زیادہ نزدیک ہے لیکن اس کی طرف حکومت نے توجہ ہی نہیں دی . سرکاری اداروں کے مابین باہمی کوارڈینیشن نہ ہونے کی وجہ سے این سی او سی بھی مارچ 2020 کو بنائی گئی اپریل سے جون تک تین مختلف قسم کی پالیسیاں کرونا کی وجہ سے حکومت نے بنائی اس وباءکی آغاز میں اول تو کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں تھا جبکہ اموات ہونے کی وجہ سے ہسپتالوں سے لوگوں کو ان کی میتیں بھی نہیں دی گئی .بعض علاقوں میںایسے واقعات بھی پیش آئے کہ لوگ ڈر کے مارے جنازوں میں شریک بھی نہیں ہوتے تھے تاہم بعد میں تبدیلی آتی گئی. اور یہ سب کچھ حکومتی اداروں کی مابین باہمی رابطے نہ ہونے کی وجہ سے ہوا.

تین گھنٹے کے روایتی طورپر ہونیوالے پالیسی ڈائیلاگ کے ادارے کے ایک خاتو ن نے بتایا کہ دنیا بھر میں ڈیزاسٹر سے متاثر ہونیوالا پاکستان دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے ، جبکہ اسی ادارے کے ایک صاحب نے یہ کہا کہ دنیا بھر میں پاکستان کانمبر آٹھواں ہے .ٹھیک ہے کہ اس کرونا ڈیزاسٹر جسے بعض لوگ انسان کا پیدا کردہ سمجھتے ہیں کوئی اسے اللہ تعالی کا عذاب سمجھتے ہیں ، اس پر کوئی بات نہیں کی گئی اس ڈیزاسٹر کی وجہ سے تعلیمی ادارے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ، سکول بند ہونے کی وجہ سے نوجوان روزگار کی طرف نکل گئے او ر انہوں نے تعلیمی اداروں سے رابطہ چھوڑ دیا ، کیونکہ روزگار اور پیٹ نے سب لوگوں کو پریشان کیا تھا اسی طرح اس وبا نے سب سے زیادہ روزانہ کی بنیاد پر ڈیلی ویجز کام کرنے والے لوگوں کو متاثر کیا .خواتین اور بچے اس وبا ءکی وجہ سے متاثر ہوئے.لیکن ا س پالیسی ڈائیلاگ میں کوئی عام خاتون نہیں تھی نہ ہی کسی سکول کے طالب علم کو بٹھایا گیا کہ اسے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا.

اس سیشن میں ایک خاتون ممبر اسمبلی نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمیں اجناس کی کمی کا سامنا ہے جس کی جانب ابھی تک کسی نے توجہ نہیں دی ، حالانکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اس ملک میں زراعت سے وابستہ افراد کیساتھ کیا ہورہا ہے یوریا جیسی بنیادی چیز اس وقت زمینداروں کو نہیں مل رہا اور اگر مل رہا ہے تو منہ مانگی قیمتوں پر مل رہا ہے ، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ اگر فصل تیار ہوتی ہے تو پھر زرعی شعبے سے وابستہ کو اتناملتا ہے کہ اس کی نان شبینہ چلتا ہے ایسے میں زرعی شعبے سے یہ توقع رکھنا کہ وہ بہتری کی طرف جائیگا ، بلی کے خواب میں چھچڑوں دیکھنے والی بات ہے.

ڈائیلاگ سیشن میں کیا ممبران اسمبلی اور کیا صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ سمیت سب نے یہ کہا کہ ہمیں وسائل کی کمی کا سامنا ہے اور اس وقت فنڈز کی کمی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ، حالانکہ اسی سیشن میں پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی خاتون ڈائریکٹر نے اعتراف کیا کہ ہمیں بارہ سو ملین روپے ہر سال ملتے ہیں اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے پاس وافر مقدار میں رقم موجود ہوتی ہیں.جبکہ ڈھائی سو کے قریب ملازمین ہیں جن میں سے تین سے چالیس اہلکار دفاتر میں ہیں جبکہ بقایا فیلڈ میں ہیں جو پراجیکٹ کے ہیں اور انہیں مستقل بنیادوںپر رکھا جارہاہے.جو اس سے قبل فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ کیساتھ تھے.ڈائیلاگ سیشن کرونا کی وجہ سے تھا لیکن پی ڈی ایم اے کی خاتون اہلکار سمیت سب صرف بارش اور زلزلوں سے پیدا ہونیوالی صورتحال پر بات کرتے رہے. ان کا موقف تھا کہ ہم صرف الرٹ جاری کرتے ہیں اور چونکہ ہم انفورسمنٹ کی طاقت نہیں رکھتے البتہ تجاوزات ہٹانے کیلئے ہم بارشوں کے آغاز میں متعلقہ ڈی سیز کو اطلاع کردیتے ہیں کہ وہ تجاوزات ہٹائیں.البتہ انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ تمام سرکاری اداروں کو یکساں طور پر کام کرنا ہوگا تو تبھی ہم ڈیزاسٹر کی صورت میں بہتر طور پر کام کرسکیں گے. ویسے اگر صرف الرٹ کیلئے اتنے بڑے ادارے ہیں تو پھر اس سے بہترین الرٹ سسٹم تو ہمارے ہاں مساجد میں ہیںجہاں سے بلند ہونیوالی آواز پر لوگ یقین بھی رکھتے ہیں اور سوشل میڈیا کے دور میں بھی مساجد سے اٹھنے والی آواز سب سے زیادہ محترم اور اعتبار کے قابل سمجھی جاتی ہیں. ان حالات میں پی ڈی ایم اے پر آنیوالے اخراجات مساجد پر لگائے جائیں تو ووہ بہترین الرٹ ہر قسم کی حالات میں دے سکتے ہیں.

اسی ڈائیلاگ سیشن میں اس بات کااعتراف بھی کیا گیا کہ کرونا وباءکے دوران صوبوں او ر وفاق کے مابین پالیسیاں متوازن نہیں اور وفاق اور صوبے کے مابین پالیسیاںتبدیل تھی ، کوئی لاک ڈاﺅن کے حق میں تھا اور کوئی اس کے حق میں نہیں تھا اسی طرح زیادہ تر پالیسیاں اوپر سے آگئی حالانکہ یہ پالیسیاں نیچے سے اوپر کی طرف سے جانی چاہئیے تھے.ہم بھی اسی کے حق میںکہ پالیسیاں نیچے سے اوپر کی طرف بنے تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے . صرف قوانین بننے سے کچھ نہیں ہوتا مستقبل میں خدانخواستہ اگر اس طرح کی صورتحال سامنے آتی ہے تو پھر ہمیں اپنی روزگار ، صحت ، تعلیمی ادارے سمیت ہر شعبہ زندگی کو کس طرح چلانا ہے ، اس کی تجویزوہی لوگ د ے سکتے ہیں جو اس صورتحال سے گزر چکے ہیں-دفاتر کے بجائے گھروں میں میں بیٹھ کر تنخواہیں لینے والے سرکاری ملازمین اور آن لائن سیشن کرنے والوں کو اس بارے میںکیا پتہ ہوگا. پالیسی کے بارے میں عام لوگوں کی تجاویز بھی لی جاتی تو بہتر ہوتا.اور یہ تجاویز نیچے سے اوپر جاتی.کرونا وبا کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہونیوالا طبقہ روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے لوگ تھے ، دنیا بھر میں ہوم بیسڈ ورک کا سلسلہ شروع ہوا کیا ہم اس پالیسی میں ایسے ہنر ،روزگار کو شامل کرکی تجویز نہیں دے سکتے جو خدانخواستہ اس صورتحال کی پیدا ہونے کی صورت میں اپنائی جائے تو کم از کم معیشت کا پہیہ تو چلتا رہے .نوجوان طبقہ غلط کاموں کی طرف جانے سے روک سکے.ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کے حوالے سے ڈائیلاگ سیشن اس بات کا اعتراف کا کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان پالیسیاںمتوازن نہیں تھی اور این سی او سی اسی وجہ سے بنا کہ بیشتر سرکاری ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا کام نہیں ، یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ حکومتی ادارے پالیسیاں بناتے ہیں ، قوانین بناتے ہیں لیکن اس پر عملدرآمد میں کسی کو دلچسپی نہیں ،

چلتے چلتے اٹھارہ جنوری کو پشاور کے ایک مقامی روزنامے میں چھپنے والی خبر کی طرف جاتے ہیں جس میں یہ کہا گیا ہے کہ صرف خیبر پختونخواہ میں کرونا فنڈز میں دو ارب نو کروڑ روپے کی مالی بے قاعدگیوں کاانکشاف ہوا ہے جس میں صرف مریضوں کو آکسیجن سلینڈر کی خریداری میں خزانے کوکوچار کروڑ چالیس لاکھ روپے کا ٹیکہ لگایا گیااسی طرح جعلی دستاویزات جمع کرنے والی فرم کو ریپڈٹیسٹ کے سلسلے میں سینتیس کروڑ پینتیس لاکھ روپے کی ادائیگیاں کی گئی..یہ صورتحال صرف خیبر پختونخواہ کی ہے ، بلوچستان ، پنجاب ، سندھ ، گلگت بلتستان سمیت وفاق کا کیا حال ہوگا. اس کا اندازہ پڑھنے والے خود لگا لیں. ری ہیبلٹیش کے نام پر کیلئے آنیوالی رقم کہاں پر گئی . اگر اس پر توجہ دی جائے تو یقینا ہم مستقبل میں اپنے نقصان کم کرسکیں گے ورنہ یہ سب نشست خوردا والی صورتحال بنے گی..

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 423417 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More