اِنسانیت سے" عاری" اور"عیاری" سے بھرا انسان کسی آدم خور حیوان سے زیادہ
خونخواردرندہ ہے، ا س طرح کے انسان براہ راست شیطان کے پیروکار ہوتے ہیں۔جس
کے من آنگن میں اخلاقیات کی کلیاں نہیں کھلتیں اوروہاں ایثارو احساس کی
تتلیاں نہیں اڑتیں وہ "انانیت" کامارا انسان "انسانیت "سے محبت کادم نہیں
بھرسکتا۔اپنے نفس اورہوس زر کا اسیردنیادار طبقہ زندگی بھر اس قید سے رہا
نہیں ہوپاتا ، تاہم موت ان کیلئے عارضی طورپر نجات بن جاتی ہے اورجولوگ
زمین کیلئے بوجھ بنے ہوتے ہیں وہ زمین میں سماجاتے ہیں۔دوسروں کے دل سے
اترجانایقینا زمین میں اتر جانے سے بدتر ہے۔ مری کے" رواداری" سے نابلد
کاروباری" لوگ" ہمارے معاشرے کا"روگ" ہیں ،ان کے منفی رویوں کی بدولت اس
وقت ہمارا ملک حالت ِسوگ میں ہے۔ یہ طبقہ عوام کے دل سے اتر گیااوراپنے
اپنے مقررہ وقت پرزمین میں اتر جائے گاجبکہ موت کے بعد انسان کاناجائز" مال"
اس کیلئے "وبال" بن جاتا ہے ۔یادرکھیں جواپنی اوراپنے بیوی بچوں کی دنیاوی
ضروریات کیلئے دوسروں کے بچوں کاحق ہڑپ کرجاتے ہیں ان" درندوں"
کاشمار"زندوں" میں نہیں ہوتا ۔چندروزقبل جس مری میں آسمان سے برف برس رہی
تھی اب وہاں لعنت اورنحوست برس رہی ہے۔وہاں ہوٹل مالکان میں سے کوئی بھی
شرم سے ڈوب مرنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ وہ انفرادی اوراجتماعی
طورپرانتہائی بے حس اوربے شرم ہیں۔مری کے وہ ہوٹل مالکان جوچندروز قبل وہا
ں سیرو سیاحت کیلئے آنیوالے ہم وطنوں کابدترین معاشی استحصال کررہے تھے آج
ان کے ہاتھوں ہونیوالی نام نہاد سخاوت منافقت کے سوا کچھ نہیں ۔بدقسمتی سے
عہدحاضر میں آدم زاد آدم خور بنے ہوئے ہیں۔ خودغرضی کے اِس عہد میں انسان
اپنے پیٹ کاجہنم بھرنے کیلئے دوسروں کی جیب اوراُن کے گلے کاٹ رہا ہے۔گوشت
خور حیوان صرف بھوک مٹانے کیلئے جانوروں کومارتے ہیں جبکہ ہوس کے قفس میں
قید "اشرف وافضل"انسان دوسروں کامال ہڑپ کرنے یااپنے انتقام کی آگ بجھانے
کیلئے انسانوں کوجان سے مارتا ہے۔ جس نام نہادانسان کے اندرانسانیت مرگئی
ہواسے دوسروں کوکاٹنا ،مارنا اور بھنبھوڑنا قطعی برا نہیں لگتا۔تعجب ہے جوں
جوں دنیا میں انسان بڑھتے رہے توں توں انسانیت ناپیدہوتی گئی ،آج انسانیت
کوانسانوں سے خطرہ ہے۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعدسانحہ مری نے پاکستانیوں
کوجھنجوڑدیا ہے اوروہ اپنے اندرخوابیدہ انسانیت کوپھر سے بیدار محسوس کررہے
ہیں تاہم ہمارے ملک میں توہرچندماہ بعد اس طرح کے حادثات اورسانحات رونما
ہونا"عام" بات ہے کیونکہ ہمیں اجتماعی طورپر ان سے کوئی "خاص "فرق نہیں
پڑتا۔ ہم رسمی طورپر سانحات اورحادثات کاسوگ منا نے کے بعد اپنی اپنی دنیا
میں پلٹ جاتے ہیں ۔ہرزندہ ضمیرانسان مری میں ناحق مرنیوالے سیاحوں کی بے
بسی سے بھرپورموت پرغمزدہ ہے ،میں سمجھتا ہوں جس "مری" میں انسانیت "مری "پڑی
ہووہاں بیس تیس افراد کی موت سے کیا فرق پڑتا ہے،مردہ معاشروں میں اس طرح
اموات ہوتی رہتی ہیں۔
پنجاب کے آدم بیزار منتظم اعلیٰ سردار عثمان بزدار سمیت مری کی مقامی
انتظامیہ بلکہ ـ"بدانتظامیہ" میں سے کسی کامستعفی نہ ہوناسانحہ مری سے بڑا
سانحہ ہے،جس دن سے جمہوریت کی رتھ پرسوار زیرتربیت بزدار نے پنجاب کو تختہ
مشق بنایاہوا ہے اس روز سے عوام نے حادثات کے نتیجہ میں ہونیوالے نقصانات
کوخاموشی سے سہنا اورخاموش رہنا سیکھ لیا ہے۔ ہم ہرسانحہ کے بعد پچھلے
سانحات کوبھول جاتے ہیں تاہم آسمانی و زمینی آفات اورانسان کی مجرمانہ غفلت
کے نتیجہ میں ہونیوالے حادثات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔مری میں ہونیوالی
اموات قدرتی آفت نہیں بلکہ انتظامی سطح پرہوئی مجرمانہ غفلت کاشاخسانہ
ہیں۔راقم کے نزدیک ہرسال سیلاب یامختلف سانحات کے بعد بحالی وآبادکاری کے
نام پرمقروض ملک کاخطیر قومی سرمایہ جھونک دینا ہرگزگڈگورننس نہیں بلکہ وطن
اورہم وطنوں کو ممکنہ جانی ومالی نقصانات سے بروقت بچاناقائدانہ صلاحیت
کہلاتا ہے ۔سانحہ مری کے بعدوہاں جاری آپریشن اوربدترین اوورچارجنگ کے بعد
اب سیاحوں کومفت قیام وطعام کی فراہمی سرکاری محکموں کی کارکردگی کاپیمانہ
نہیں ۔ سانحہ مری منصفانہ تحقیقات اورآئندہ اس قسم کے اندوہناک سانحات سے
بچاؤکیلئے دورس انتظامی اصلاحات کامتقاضی ہے۔مری میں جولوگ کاروبار کے نام
ملک بھر سے آنیوالے زندہ سیاحوں کی بوٹیاں نوچ رہے تھے،انہوں نے اس خوب
صورت مقام کوبدنام کر دیا ،انہیں لگتا ہے انہوں نے تجوریاں بھرلی ہیں لیکن
حقیقت میں انہوں نے دونوں ہاتھوں سے " رسوائی" کمائی ہے تاہم اس دوران پاک
فوج کے جوانوں کوجونیک نامی اوردنیا بھر سے پذیرائی ملی اس کاکریڈٹ ان کی
طرف سے سیاحوں کی انتھک خدمت، پیشہ ورانہ مہارت ، اچھی نیت اوران کے صادق
جذبوں کوجاتا ہے ۔ پاک فوج کے جوانوں کاشدیدسردی کے باوجودنہایت جوانمردی
سے برف ہٹانا ،شاہراہیں کھولنا اوراس کے نتیجہ میں مخصوص حاسدین کی زبانیں
بندہونا قابل دید منظرتھا۔ مری میں بے رحم موت کی گرفت سے ہم وطنوں کی بیش
قیمت زندگیاں بچا نے والی پاک فوج کے کردارکودنیا بھر میں سراہاجارہا ہے ،
اب توکچھ سیاسی پٹواری بھی پاک فوج کے مداح بن گئے ہیں،انہیں یہ تعمیری
تبدیلی مبارک ہو۔
ماضی کے شعبدہ بازحکمرانوں کی طرح ان اناڑیوں کو بھی اپنے منصب بچانے اورہم
وطنوں کوبیوقوف بنانے کیلئے دوچار آفیسرز کوقربان کرنے کاہنر آتا ہے ،ہمارے
ہاں شاہراہوں پرشہریوں کوکچلنے والی بس کی ڈرائیونگ سیٹ پربراجمان مجرمانہ
غفلت کے مرتکب حیوان کی بجائے بے قصور بس کنڈیکٹر کوسزا کے
طورپراِدھراُدھرکردیاجاتا ہے۔عثمان بزدار کی طرف سے اپنے پیشرو وزیراعلیٰ
کی نقل کرتے ہوئے مری کاحالیہ فضائی جائزہ شعبدہ بازی ہے، تخت لاہور پراس
نااہل منتظم اعلیٰ کابوجھ مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا۔کپتان ہماری ریاست
اوراپنی سیاست پررحم کرتے ہوئے پنجاب" بزدار" کی بجائے کسی " بردبار"کے
سپردکردیں۔ مری میں انتظامی عہدوں پر تعینات آفیسرز کوسزادینے کی شنید ہے
جبکہ تبدیلی سرکارکے کپتان تخت لاہور پربراجمان انتظامی امور سے انجان
منتظم اعلیٰ کوتبدیل کرنے کیلئے تیار نہیں ۔میں پھر کہتاہو ں ، پنجاب
کو"بزدار" نہیں ایک "بردبار" منتظم اعلیٰ کی ضرورت ہے ، کپتان کانام نہاد
حسن انتخاب آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی سیاست کوسیراب کرنے کی بجائے
سیلاب کی طرح بہالے جائے گا۔یادرکھیں جہاں قصوروارمقتدراشرافیہ کے ہاتھوں
کمزورلیکن بے قصور سرعام سزاپاتے ہوں ،جہاں ناچے ارباب اختیار کواپنے
اشاروں پرنچاتے ہوں وہاں کوئی حادثات اورسانحات کے آگے بندنہیں باندھ
سکتا۔ہرحادثہ ہمیں عارضی طورپر جھنجوڑتا اور متحرک کرتا ہے اورپھر اگلے
حادثہ تک ہم دوبارہ سو جاتے ہیں ۔ ہروہ مقام ہے جہاں ہوس زر کے مارے
انسانوں کی مجرمانہ سوچ کی ضرب کاری سے انسانیت ایڑیاں رگڑ تے ہوئے مری ہو
اس مقام کومری کہاجاتا ہے۔جہاں انسانیت زندہ نہ ہووہا ں کوئی انسان زندہ
ضمیر نہیں ہوسکتا۔ مری سے انسانوں کے جنازے نہیں اٹھے بلکہ مردہ" مری"
کاجنازہ اٹھا ہے۔ مری پرکئی دہائیوں سے مافیاز کا"راج" اور وہاں سیاحت
وتجارت کی آڑ میں سیاحوں کے استحصال کا"رواج" ہے۔ مری کامقامی کاروباری
طبقہ ہربرس" سیزن" کوزیادہ سے زیادہ منفعت بخش بنانے کیلئے سیاہ باب رقم
کرتاہے ۔مری میں معصوم بچوں سمیت بیسیوں انسانوں کی موت قدرتی آفت کانتیجہ
نہیں بلکہ یہ قتل عمد کی اندوہناک واردات ہے جبکہ انتظامات پرمامورنااہل
لوگ ان سیاحوں کے قاتل اور قابل گرفت ہیں۔مری کے مرحومین اس قدردلخراش موت
کے مستحق نہیں تھے ،ان کی موت رائیگاں چلی گئی تویہ سانحہ مری سے بڑا سانحہ
ہوگا ۔ کیا مقامی ہوٹل مالکان کے نزدیک انسانیت اورانسانی جان کی کوئی
قدروقیمت نہیں۔ مری میں موت کارقص انتظامیہ کی نااہلی کاعکس ہے،ڈیزاسٹر
مینجمنٹ کی ناکامی نے مایوس کیا۔ ہربرس سردترین موسم کے باوجود کس طرح
گنجائش سے کئی گنا زیادہ سیاح مری میں چلے جاتے ہیں ،نام نہاد سیاحت
اورپراگندہ سیاست کی آڑ میں ان کی بیش قیمت زندگیاں کون داؤپرلگاتا
ہے۔افسوس مری میں بیسیوں اموات کے باوجودارباب اقتدارواختیار میں سے کوئی
اخلاقی جرأت کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے منصب سے مستعفی نہیں ہوا۔ پاکستان
کوریاست مدینہ بنانے کے داعی حکمران حضرت عمر فاروق ؓ کا بیش قیمت قول
یادرکھیں ، انہوں نے فرمایا تھا اگر فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مرگیا
توروزمحشر مجھ سے پوچھاجائے گا،تو جس حکمران طبقہ کے دورمیں بچوں اورخواتین
سمیت بیسیوں انسان ریاستی مسیحاؤں کا انتظار کرتے کرتے اپنی گاڑیوں میں
شدیدسردی سے ٹھٹھرتے اورایڑیاں رگڑتے موت کی آغوش میں چلے جائیں کیا انہیں
اپنے بندوں کے ساتھ سترماؤں سے زیادہ محبت کرنیوالے معبود برحق کے
غضب،قہراوراس کی گرفت سے ڈر نہیں لگتا ۔جس وقت تک سانحہ ماڈل ٹاؤن اورسانحہ
مری کے مجرمان کاسراغ لگایا اورانہیں کیفر کردار تک نہ پہنچایاگیا اس وقت
تک ہماری ریاست راہ راست پرنہیں آسکتی ۔
|