عام آدمی جب لاجواب ہوجاتا ہے تو اول فول بکنے لگتا ہے
لیکن یوگی ادیتیہ ناتھ جیسا خاص آدمی ہمیشہ ہی بکواس کرتا رہتا ہے ۔ وزیر
اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ سے جب پوچھا گیا کہ اترپردیش کا برہمن بی جے پی کو
ووٹ کیوں دے جبکہ حزب اختلاف کی جماعتیں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج
پارٹی ان کو لبھا رہی ہیں تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ
اتر پردیش کے برہمن کا بی جے پی اور یوگی ادیتیہ ناتھ سے ناراض ہونا ایک
کھلی حقیقت ہے ۔اس نہایت معقول سوال کا جب کوئی نامعقول جواب بھی یوگی جی
کو نہیں سوجھا تو وہ فرقہ پرستی پر اتر آئے۔ اس سے پہلے کہ یوگی کےجواب کی
جانب جائیں یوپی کے اندر برہمنوں کی سیاسی تاریخ پرایک نگاہ ڈال لینا بہتر
معلوم ہوتا ہے۔ اترپردیش کے اندر ایک زمانے تک برہمن ، مسلم اور دلت
کانگریس کے ساتھ رہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے 20سالوں سے زیادہ راج کیا ۔
حزب اختلاف کے بھی کئی رہنما اسی پارٹی سے نکل کر آئے۔
کانگریس کے زیادہ تر وزرائے اعلیٰ چونکہ برہمن تھے اس لیے ان کے خلاف
پسماندہ طبقات میں ردعمل ہوا۔ رام منوہر لوہیا نے انہیں سوشلزم کے جھنڈے
تلے مجتمع کیا اور کانگریس کو اقتدار کے گلیارےسے باہر کا راستہ دکھا دیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بنیادی طور پر پسماندہ طبقات اور برہمن ایک دوسرے کے
سیاسی حریف ہوگئے ۔بہوجن سماج پارٹی نے جب دلتوں کو کانگریس سے توڑ کر الگ
کرلیا وہ کافی کمزور ہوگئی ۔ اس لیے اقتدار کی خاطر برہمنوں نے بھارتیہ
جنتا پارٹی کا دامن تھام لیا کیونکہ یادو اور دیگر پسماندہ طبقات سے ان کی
بنتی نہیں تھی۔ مسلمانوں نے دیکھا کہ کانگریس کمزور ہوگئی ہے اور وہ بی جے
پی کی فرقہ پرستی کا مقابلہ نہیں کرسکتی تو وہ پسماندہ سماج یعنی سماجوادی
پارٹی کی جانب چلے گئے۔
بی جے پی نے جب برہمنوں کو مایوس کیا تو انہوں نے بہوجن سماج پارٹی کا رخ
کیا ۔ اس سے وہ خاصی مضبوط ہوگئی اور مسلمان بھی اس کی جانب راغب ہوگئے۔ اس
طرح ایک زمانہ وہ تھا جب برہمن بی جے پی اور بی ایس پی میں بنٹا ہوا تھا
اور مسلمان سماجوادی اور بہوجن سماج پارٹی میں منقسم تھے ۔ برہمنوں کے لیے
سماجوادی پارٹی کے ساتھ جانا اسی طرح مشکل تھا جیسے مسلمانوں کی خاطر بی جے
پی شجر ممنوعہ تھی اور اب بھی ہے۔ اس دوران بی جے پی نے کلیان سنگھ جیسے
پسماندہ لودھ سماج کے رہنما کا چہرہ دکھا کر غیر یادو پسماندہ طبقات اور
غیر جاٹو دلتوں کو اپنے قریب کرکے اسے سوشیل انجینیرنگ کا نام دیا لیکن
انہیں وزیر اعلیٰ بھی بنایا ۔ مرکز میں مودی سرکار کے بعد برہمنوں نے بی
ایس پی سے ناطہ توڑ کر بی جے پی سے جوڑ لیا اور اس طرح 2017 کے صوبائی
انتخاب میں اس کو ایسی غیر معمولی کامیابی ملی جس کا تصور محال تھا۔ امیت
شاہ نے کیشو پرشاد اور سوامی پرشاد موریہ کا چہرا دکھا پسماندہ طبقات کا
ووٹ لیا مگر یوگی جیسے بددماغ ٹھاکر کو وزیر اعلیٰ بنادیا۔
بی جے پی اگر کسی برہمن کو وزیر اعلیٰ بنا دیتی تو وہ اس کے ساتھ رہتے لیکن
اس نےبرہمنوں کوخوش کرنے کے لیے لکھنو کے میئر اور غیر معروف برہمن ڈاکٹر
دنیش شرما کو نائب وزیر اعلیٰ کا لالی پاپ تھما دیا ۔ اس شخص نے پچھلے پونے
پانچ سال میں کوئی قابلِ ذکر کام تو دور بیان تک نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ
برہمنوں کی خوشنودی کے لیے کانگریس سے جیتن پرساد کو جون میں بی جے پی کے
اندر شامل کرکےتین ماہ بعد وزیر بنانا پڑا مگر بات نہیں بنی ۔ مرکز نے اے
کے شرما نامی سابق آئی ایس افسر کو وزیر اعلیٰ یا نائب وزیر اعلیٰ بنانے
کی کوشش کی تو یوگی نے یہ ہونے نہیں دیا۔ یوگی اول روز سے برہمنوں کا اپنا
حریف سمجھتے اور انہیں دور کرتے رہے۔ اس کے سبب بالآخر برہمن سماج نے
انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا اور چونکہ بی ایس پی خاصی کمزور ہوچکی ہے
اس لیے سماجوادی پارٹی سے اپنی پرانی مخاصمت کو طاق پر رکھ کر اس کی حمایت
کرنے لگے کیونکہ بڑے دشمن کو ہرانے کی خاطر چھوٹے موٹے اختلافات کو بالائے
طاق رکھنا سیاسی دانشمندی کہلاتا ہے ۔
اتر پردیش کی سیاست میں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے اور مسلمان اس کا مظاہرہ
کئی بار کرچکے ہیں ۔ اس بار برہمن بھی اسی حکمت عملی کو اپنا رہے ہیں۔ اس
کا ایک اثر یہ بھی ہوگا کہ جو مسلمان بی ایس پی کے ساتھ ہیں وہ بھی بی جے
پی کو سبق سکھانے کی خاطر سماجوادی پارٹی کی جانب کشش محسوس کریں کیونکہ بی
جے پی کے خلاف برہمنوں سے زیادہ غم و غصہ مسلمانوں کے اندر ہے۔ یوگی مسلسل
اس کو ہوا دے رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس ہندو ووٹرس کو بیوقوف بنانے کے لیے
اب کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ 80 اور 20 والا بیان اسی مجبوری کے تحت دیا گیا
۔ اس رحجان کا اشارہ معروف کانگریسی رہنما عمران مسعود کے بی ایس پی کے
بجائے سماجوادی پارٹی میں شمولیت سے ملتا ہے حالانکہ ان کے بھائی نعمان
مسعود اب بھی ہاتھی پر سوار ہیں لیکن کوئی نہیں جانتا کہ کب کون ہاتھی سے
سائیکل پر کود جائے؟
برہمنوں کی بات کریں تو حال میں بی ایس پی رکن پارلیمان اور معروف برہمن
رہنما راکیش پانڈے نے سماجوادی پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس سے قبل یوگی
کے گڑھ پوروانچل میں سنت کبیر نگر سے بی جے پی رکن اسمبلی دگوجئے نرائن
چوبے، یوگی کےحلقۂ انتخاب گورکھپور سے بی ایس پی کے رکن اسمبلی ونئے شنکر
تیواری اور ان کے بھائی جو سابق رکن اسمبلی بھیشما شنکر تیواری بھی
سماجوادی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ یوگی جی جس دن یہ اوٹ پٹانگ بیان بازی
کررہے تھے اس روز بھی بدایوں کے برہمن بی جے پی رکن اسمبلی رادھا کرشن شرما
نے بی جے پی سے دامن چھڑا لیا۔ بی جے پی کو لگنے والا یہ جھٹکا برہمنوں کی
ناراضی کو دور کرنے والی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔ بی
جے پی کے جئے شری رام کی کاٹ کرنے کے لیے اکھلیش یادو نے برہمن دیوتا
پرشورام کی جئے جئے کار شروع کردی کیونکہ دیومالائی داستانوں کے مطابق
انہوں نے راجپوتوں کے خلاف مسلح لڑائی کی تھی اور اتفاق سے یوگی بھی راجپوت
ہیں۔ اس طرح اکھلیش اس الیکشن کو مذہب کے بجائے ذات پات کی جنگ میں تبدیل
کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
برہمن چونکہ پہلی بار سماجوادی پارٹی کی جانب جھکاو محسوس کررہے ہیں اس لیے
انہیں رجھانے کی خاطر سماجوادی پوسٹرس میں یہ نعرہ دکھائی دینے لگا ہے: ’
برہمن کا سنکلپ(عزم) اکھلیش ہی ویکلپ(متبادل)۔ انتخابی سیاست میں حریف کے
ووٹ بنک پر ڈاکہ ڈالنا دوہری کامیابی ہوتی ہے ۔ اس سے دشمن کا ووٹ گھٹتا
اور اپنا ووٹ بڑھتا ہے اس لیے برہمن ووٹ کی غیر معمولی اہمیت ہوگئی ہے۔ فی
الحال اکھلیش یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ برہمن سماج سب سے زیادہ سوشلسٹ اور
انصاف پسند ہے۔ برہمن سماج اترپردیش کو سوشلزم کی راہ پر لے جائے گا۔
برہمنوں کے علاوہ پسماندہ طبقات کے اندر بھی کیشو پرشاد موریہ کو وزیر
اعلیٰ نہیں بنانے جانے سے بے چینی ہے اور راج بھر جیسی مختلف ذاتوں کو
اکھلیش کے اندر امید کی کرن دکھائی دیتی ہے۔ اس بیچ ایک دبنگ پسماندہ رہنما
سوامی پرشاد موریہ نے اپنے تین ساتھیوں سمیت بی جے پی سے استعفیٰ دے دیا۔
وہ بہوجن سماج پارٹی کو چھوڑ کر بی جے پی میں گئے تھے تو بہت بلےّ بلےّ
ہوئی تھی اب وہ سماجوادی پارٹی میں جارہے ہیں اس سے بی جے پی کی سوشیل
انجنیرنگ کی ہوا نکل جائے گی۔
مغربی اترپردیش میں لوک دل کے ساتھ معاہدہ کرکے سماجوادی پارٹی نے جاٹ اور
مسلمان رائے دہندگان کو اپنے قریب کرلیا۔یہو بی جے پی کے لیے بہت بڑا جھٹکا
ہے ۔ ایسے میں یوگی پریشان ہے اور اس کا اظہار 80اور 20 فیصد کی لڑائی والے
جواب ہے ۔یوگی کے مطابق یہ لڑائی آگے جاکر 80اور 20 فیصد کی ہوگئی ہے لیکن
یہ اب اور بھی آگے نکل کر 4 فیصد ٹھاکر 96 فیصد دیگر سماج کے جنگ بن گئی
ہے۔ اترپردیش کے 75 ضلعوں میں 40% یعنی 30 غیر محفوظ ذاتوں کے ڈی ایم میں
26% یعنی 20 ٹھاکر ہیں جبکہ ان کی آبادی 4فیصد ہے ۔ اس کے برعکس 8فیصد
برہمن کے 11% یعنی 8 ڈی ایم ہیں ۔ ایس ایس پی اور ایس پی کے اندر ٹھاکر اور
برہمن برابر یعنی 18 ضلعوں کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔21فیصد دلتوں میں سے 4
ڈی ایم اور 5 ایس پی ہیں ۔ پسماندہ طبقات 44فیصدکے 14 ڈی ایم اور 12 ایس پی
یا ایس ایس پی ہیں ۔ان میں سب سے زیادہ یادو سماج کا صرف ایک ایک ڈی ایم
اور ایس پی ہے۔ ایک عیسائی اور سکھ بھی ہے مگر مسلمان کوئی نہیں کیونکہ
یوگی کو ان سےپرخاش ہے۔ اب اگر مسلمان ان کو دشمن سمجھتے ہیں تو کیا غلط
کرتے ہیں لیکن اب بات ہندو مسلمان سے آگے بڑھ کر ٹھاکر اور غیر ٹھاکرلڑائی
بن گئی ہے۔
ادیتیہ ناتھ کا کہنا ہے کہ 80% قوم پرست ہیں حالانکہ ان کی قوم پرستی کا
نمونہ دھرم سنسد میں سامنے آچکا ہے۔یوگی مانتے ہیں کہ وہ اچھی حکومت اور
ترقی میں یقین رکھتے ہیں ۔ اگریہ درست ہے تو وہ یوگی کو ووٹ کیوں دیں جس کے
زیر انتظام گورکھپور میں بچے دم توڑتے ہیں اور گنگا میں لاشیں تیرتی ہیں۔
ترقی کے نام یوگی کے پاس اشتہار میں دینے کے تصویر تک نہیں ہے اس لیے
کولکاتہ ، آندھرا اور چین سے تصاویر چرانی پڑتی ہیں ۔ یوگی کے خیال 20
فیصد مسلمان قوم دشمن ہیں حالانکہ مسلمانوں کی حب الوطنی ہر طرح کی مفاد
پرستی سے بلند ہے۔ وہ مسلمانوں کو کسانوں کا دشمن بتاتے ہیں حالانکہ خود
یوگی نے نہ صرف کسان مظاہرین کے خلاف مقدمات قائم کررکھے ہیں بلکہ ان پر
گاڑی چڑھانے کا کارنامہ بھی بی جے پی کے مرکزی وزیر اجئے مشرا کے بیٹے
آشیش مشرا نے انجام دیا ہے۔ بی جے پی کا کسان دشمن چہرہ ساری دنیا دیکھ
چکی ہے ۔ مسلمانوں کو بدعنوان کہنے والے یوگی کو یاد کرنا چاہیے کہ ایودھیا
میں رام مندر کے نام پر زمین کی گھپلے بازی کمل دھاری رہنماوں نے کی ہے اور
یوگی سرکار سے بڑا مافیا دنیا بھر میں کوئی نہیں ہے۔ یوگی کایہ کہنا کہ
انہیں مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں کھٹے انگور کی مصداق ہے لیکن اب تو
کیلا اور سنترہ بھی سڑ چکاہے۔ یوپی میں مسلمان تو 19 فیصد ہیں اس کے علاوہ
اکھلیش ، پرینکا ، آرایل ڈی ، راج بھر اور سوامی پرشاد موریہ وغیرہ سب ملا
کر صرف ایک فیصد ہیں ۔ اس کو دیوانے کی بڑ نہیں تو کیا کہا جائے؟
|