اگرچہ تحریک انصاف کی حکومت پہلے دن سے یہ
باورکروارہی ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کی سب سے بڑی محافظ ہے اور اسے ثابت
کرنے کیلئے کرتارپور میں سکھوں کیلئے بابا گرو نانک گوردوارہ کی تزئین و
آرائش پر کروڑوں رروپے بجٹ لگا دیا۔توہین رسالت کی ملزمہ آسیہ مسیح کوعدالت
نے رہاکر دیا گیا۔ اسلام آبادمیں سرکاری زمین پر مندربنانے کی کوشش کی،اس
کے ساتھ ساتھ 1947 میں جو مندر بے آباد ہو گئے تھے ،عمران خان کی حکومت ان
کو مکینوں سے خالی کروا کر انہیں دوبارہ مندروں کی شکل میں بحال کروانے اور
انہیں مرحلہ وار ہندووں کے حوالے کررہی ہے اس وقت ملک میں دواقلیتی کمیشن
کام کررہے ہیں ایک اقلیتی کمیشن کے سربراہ شعیب سڈل ہیں دوسرااقلیتی کمیشن
وزارت مذہبی امورکے تحت قائم کیاگیاہے ، اقلیتوں کے نام پرقبول اسلام ،جبری
مذہب تبدیلی کے حوالے سے ایسے ایسے بل اورقانون لائے جارہے ہیں کہ جن
کااسلام اوراس ملک کی تہذیب ونظریاتی شناخت سے کوئی تعلق نہیں۔کچھ عرصہ قبل
کرک میں مندرکی غیرقانونی تجاوزات کی وجہ سے مقامی افرادنے احتجاج
کیاجوبعدازاں مندرپرحملے کی صورت میں بدل گیا چیف جسٹس گلزار نے فوری طور
پر قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے اس غیر قانونی زمین پر مندر کو دوبارہ
تعمیرکرنے کا حکم دیا اور اسے قانونی کر دیا اورپھرمندرکی ازسرنوبحالی کی
تقریب میں چیف صاحب ازخود شریک ہوئے۔ ایک طرف چیف جسٹس آف پاکستان مسلمان
ملک میں مسجد گرانے کا حکم دے رہے ہیں اور یہاں ہندوؤں کے مندر کی حفاطت کا
اعلان کررہے ہیں۔قبل ازیں پہلے سکھرکی ایک عدالت نے انیس مساجد کو گرادینے
کا حکم دیاتھا، ان میں سے ایک مسجد انگریز کے دور کی بھی شامل تھی جو ڈیڑھ
سو سال پہلے تعمیر ہوئی تھی۔اب طارق روڈ کراچی میں قائم مدینہ مسجدکوگرانے
کا حکم دیدیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے کراچی میں ایک پارک میں تعمیر کی گئی
مدینہ مسجد کو مسمار کرنے سے روکنے سے متعلق وفاقی حکومت کی استدعا مسترد
کر دی ہے ۔ جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ کی صوبائی حکومت چاہے تو مسجد کے
لیے متبادل زمین دے دے۔ایک طرف عدالت نے مسجد گرانے کا حکم اس لئے دیا کہ
سرکاری زمین پر بنی ہے۔ اب سرکار کو ہی مسجدکے لیے دوسری زمین دینے کا حکم
دیاجارہاہے۔ کیا واقعی اب حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ قانون اور مذہب قیادت
آمنے سامنے ہیں۔عدالت فیصلے کو غیر شرع قرار دیتے ہوئے اس پر سیاست بھی
شروع ہو چکی ہے۔ مذہبی تنظیمیں بہت مشتعل نظر آتی ہیں۔ مذہبی تنظیموں نے
خبردار کیا ہے کہ اگر فیصلے پر عملدرآمد ہوا تو ملک میں بہت خون خرابہ ہو
سکتا ہے۔جمیعت علمائے اسلام کے رہنما ڈاکٹر راشد محمود سومرو کا ایک ویڈیو
خطاب سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے، جس میں وہ اس فیصلے کی شدت کے ساتھ
مخالفت کر رہے ہیں۔ اسلام آباد کی لال مسجد سے منسلک شہدا فاؤنڈیشن نے بھی
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کردیا ہے اور اسے غیر شرعی قرار دیا ہے۔
اعتراضات یہ اٹھائے جا رہے ہیں کہ اگر گرانا ہے تو بنی گالہ کو گرائیں۔
اسلام آباد کے بڑے بڑے غیر قانونی پلازوں کو گرائیں، جن کو ریگو رائزڈ کیا
گیا ہے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مسجد کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت
ہوئی جس کی سربراہی چیف جسٹس گلزار احمد نے کی جس میں کمشنر کراچی اقبال
میمن اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب اور دیگر حکام عدالت میں پیش
ہوئے۔چیف جسٹس نے وہاب سے پوچھا کہ انہوں نے ’’غیر قانونی مسجد‘‘کے خلاف
کارروائی کیوں نہیں کی۔ جس پر وہاب نے جواب دیا کہ عدالت حکم دے گی تو
کارروائی ہوگی۔جسٹس احمد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ لوگوں کو دیکھ کر
حیران ہوں (اس طرح کا برتاؤ) یہ آپ کا کام ہے پھر بھی آپ ہمارے (عدالت کے)
حکم کا انتظار کرتے ہیں۔جسٹس قاضی ، جو بھی سماعت پر بیٹھے تھے، نے ریمارکس
دیئے کہ ایسی مساجدعبادت کی جگہیں نہیں ہیں’’ بلکہ ‘‘رہائش گاہیں ہیں۔انہوں
نے مزید کہا کہ بجلی اور گیس کے بل نہیں ہیں اور یہ معاملہ عدالت کے علم
میں لایا گیا ہے، ورنہ کراچی میں کئی اور غیر قانونی تعمیرات ہیں جن پر
کوئی اعتراض کرنے والا نہیں۔سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد کراچی کی مسجد پر
ایک نئی جنگ چھڑ گئی ہے کیونکہ اب مسجد انتظامیہ نے کہا ہے کہ مسجد کو گرا
کر دکھاو۔اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس مسئلے پر تحقیق شروع کردی
ہے۔کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بتایا ہے کہ اس مسئلے پر سوشل
میڈیا پر بہت زیادہ شور ہو رہا ہے۔ لوگ سوالات بھی بھیج رہے ہیں اس لیے میں
نے کونسل کے شعبہ تحقیق کو کہا ہے کہ وہ اس مسئلے پر تحقیق کریں۔ان کا مذید
کہنا تھا کہ ان کے خیال میں،اس فیصلے پر عملدرآمد کرانا بہت مشکل ہو گا۔ اس
کی سخت مزاحمت ہوگی اور مذہبی تنظیمیں اس کی بھر پور مخالفت کرینگی۔ ڈاکٹر
قبلہ کا کہنا تھا کہ جس مسجد کا کراچی میں حوالہ دیا جارہا ہے اس مسجد میں
صدر مملکت بھی نماز پڑھتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسجد کو تعمیرات
کی اجازت کس نے دی؟ بجلی اور دوسری سہولیات کس نے فراہم کی؟ تو اس طرح کے
سارے سوالات پر بات چیت ہونی چاہیے اور تحقیق ہونی چاہیے۔‘ اس وقت جبکہ
بھارت میں مسجدیں شہید کی جا رہی ہیں‘ مسلمان بطور اقلیت اپنے حقوق سے
محروم ہیں‘ کشمیری مسلمان مسلسل فوجی محاصرے کی اذیت سے دوچار ہیں اور
پاکستان میں اسلام دشمن قوتوں کو خوش کرنے کیلئے موجودہ حکومت اقلیتوں کے
حقوق کا واویلا مچا رکھا ہے ہے۔اقلیتوں کے حقوق اور جدید ریاست کے تقاضے
اپنی جگہ لیکن ایک حقیقی کلمہ گو شہری اور حکمران کا مقصد حیات محض امریکہ‘
یورپ اور ملک میں لامذہب و لادین حلقوں کی خوشنودی نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ اور
اس کے حبیب ﷺ کی تعلیمات پر کاربند رہنا اور اپنی عاقبت سنوارنا ہے‘ مسلمان
بت شکن ہے بتکدوں کا معمار نہیں‘ یہ بھی طے ہے کہ پاکستان میں مندروں‘ گرجا
گھروں اور گوردواروں کی تعمیر سے ہم عالمی برادری کو خوش کر سکتے ہیں نہ
پاکستان کو عالمی معیار کی روشن خیال ریاستوں میں شامل کرانے میں کامیاب۔
واضح رہے کہ پاکستان ایک اسلامیہ جمہوریہ ریاست ہے ‘ اس کے آئین میں صدر کا
مسلمان ہونا لازم اور سرکاری مذہب اسلام پاکستان دنیا کی واحد نیو کلیئر
مسلم ریاست ہے امریکہ و یورپ ہم سے کبھی خوش ہو سکتے ہیں نہ انتہا پسند‘
تنگ نظر‘ نریندر مودی۔
|