بی جے پی کی الٹی گنتی شروع:بیشک ظالم لوگ نجات نہیں پائیں گے

عوام کے ساتھ بی جے پی وزراء بھی مودی اینڈ کمپنی سے بیزار‘پارٹی چھوڑنے کا سلسلہ جاری

محترم قارئین کرام:یوپی سمیت دیگر ۴ ریاستوں میں الیکشن کا بگل بج چکا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی اپنےاپنے اعتبار سے قسمت آزمائی میں لگ چکی ہے۔کون جیتے گا کون ہارے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ قبل از وقت کچھ ہونا حماقت ہوگی۔ لیکن آر ایس ایس اور بی جے پی کی ناک سمجھا جانے والا یوگی کا یوپی اب شاید دھیرے دھیرے ان کے ہاتھوں سے کھسکنے لگا ہے۔ جس کی شروعات اس طرح سے ہوئی ہے کہ بی جے پی کے نامور وزرائے اعلی اراکین اسمبلی ایک کے بعد ایک بی جے پی پارٹی چھوڑ کر اکھیلیش یادو کا دامن تھامنے لگے ہیں۔ تادم تحریر وزیر سوامی پرساد موریہ سمیت ۱۴ اراکین اسمبلی اب تک بی جے پی کو خیر باد کہہ چکے ہیں الیکشن سے قبل تک یہ تعداد دگنی بھی ہوسکتی ہے۔جن وزرائے اعلی اور ارکین اسمبلی نے استعفیٰ دیا ہے ان میںسوامی پرساد موریہ، وزیردارا سنگھ چوہان، وزیردھرم سنگھ سینی، وزیربھگوتی ساگر، بلہور کے رکن اسمبلی روشن لال ورما، تلہار کے رکن اسمبلی ونئے شاکیہ، بدھونا کے رکن اسمبلی اوتار سنگھ بھڈانہ، میرا پور کے رکن اسمبلی برجیش پرجاپتی، ٹنڈواری رکن اسمبلی مکیش ورما، شکوہ آباد رکن اسمبلی بالا پرساد اوستھی، دھورہرا رکن اسمبلی شامل ہیں اور ارکان اسمبلی جو پہلے ہی استعفی دے چکے ہیںان میںراکیش راٹھوڈ، سیتا پور سدرجے چوبے، خلیل آبادرادھا کرشنا شرما، بلسی مادھوری ورما، نانپارہ شامل ہیں۔بی جے پی کے علاوہ بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے نو، کانگریس کے پانچ اور ایس پی کے ایک رکن اسمبلی نے بھی اپنی پارٹی بدلی ہے۔باقی تمام لیڈران کی پارٹی چھوڑنے کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ انہیں پہلے سے ہی پارٹی سے نکال باہر کرنے کی بات کی جارہی ہو یا پھر انہیںٹکٹ ملنے والا نہیں ہوگا اس لئے انھوں نے پارٹی کو خیر باد کہہ دیا ہو۔یا پھر انہیں اس بات کا احساس ہوچلا ہوگا کہ ان کا سیاسی کریئر اب ختم ہوچکا اس لئے آخری دائو کھیلنے کے لئے پارٹی بدل لی ہو۔ لیکن بی جے پی سے کنارہ کشی کرنے والے زیادہ تر عوامی نمائندوں کا کہنا ہے کہ یوگی حکومت میں دلت، پسماندہ اور محروم طبقے کو نظر انداز کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہیںاور ان کے استعفیٰ ظاہر کر رہے ہیں کہ بی جے پی والے لوگ سمجھ رہے ہیں کہ بی جے پی ایک اعلیٰ ذات (اونچی ذات) کی پارٹی بن گئی ہے۔ خاص طور پر جس طرح پانچ سال کے اپنے دورِ حکومت میں یوگی آدتیہ ناتھ نے ٹھاکر طبقے کو اہمیت دی ہے۔ جس سے دیگر پسماندہ طبقوں میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ اب جو حالات ہیں اور جس طرح سے لوگ پارٹی چھوڑ رہے ہیں، خاص طور پر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے لیڈر، اس سے بی جے پی میں بھگدڑ مچ گئی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بی جے پی کا فرقہ پرستی کارڈ ناکام ہو رہا ہے۔

ریاستی صدر کو بھیجے گئے استعفیٰ میںاراکین اسمبلی نے لکھا کہ ’’بی جے پی کی ریاستی حکومت کے پورے پانچ سالوں کے دوران برہمنوں، دلتوں، پسماندہ طبقات کے لیڈروں اور عوامی نمائندوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور انہیں مناسب احترام نہیں دیا گیا۔ اس کے علاوہ دلتوں، پسماندہ، کسانوں اور بے روزگار نوجوانوں اور بہت چھوٹے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں کو بھی ریاستی حکومت نے نظر انداز کیا ہے۔ ریاستی حکومت کے اس طرح کے سفارتی رویے کی وجہ سے ہم بھارتیہ جنتا پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔۔خیر پارٹی چھوڑنے کی ان کی اپنی کوئی بھی وجہ ہو لیکن اتنا ضرور ہے کہ بی جے پی کی مکاریت ،غرور ،تکبر،ظلم وجبر اور انا کا گھڑا بھرچکا تھا۔ کیونکہ جس طرح سے یوپی والوں نے اور جہاں جہاں بی جے پی اقتدار میں ہیں وہاں پر مسلمانوں اور اقلیتوں کا جینا حرام کردیا گیا تھا۔نت نئی سازشوں اور ہتھکنڈوں سے اقلیت تو پریشان تھے ہی کسانوں کا جینا بھی دوبھر کردیاگیا تھا۔میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے لئے لیباریٹری کی حیثیت رکھنے والا یوپی ظلم اور بربریت کی منڈی بن چکا ہے،کیونکہ بی جے پی اپنے سارے حربے اور ہتھکنڈے سب سے پہلے یوپی میں ہی استعمال کرتی ہیں اور پھر پورے ملک میں اس کو لاگو کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

بہر کیف یوپی میں جس طرح سے بی جے پی کے ان کے اپنے ایک ایک کرکے پارٹی چھوڑ کر دیگر پارٹیوں کا دامن تھام رہے ہیں اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کمزوروںپر ظلم وستم ،قتل وغارت گری، اقتدار کی ہوس، تکبر اورگھمنڈ زیادہ دن قائم نہیں رہ سکتا۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ ’’اللہ کافر کی حکمرانی کو برداشت کرلے گا لیکن ظالم حکمراں کے ظلم کو برداشت نہیں کرتا۔‘‘اس لئے دھیرے دھیرے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ظالموں کی مقبولیت میں بھی کمی آنے لگی ہے۔ ایک نیوز چینل نے دسمبر کے تیسرے ہفتہ میں اتر پردیش میں حکومت اور وزیر اعلیٰ کی مقبولیت کے ساتھ ہی اہم ایشوز پر لوگوں کے درمیان سروے کیا ہے۔ اس سروے کے نتائج سامنے آنے سے بی جے پی خیمہ میں افرا تفری کا ماحول ہے۔سروے کے مطابق اتر پردیش میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف اقتدار مخالف لہر میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے اور ان کی مقبولیت میں گراوٹ درج کی گئی ہے۔ بی جے پی کے لیے فکر کی بات یہ ہے کہ ستمبر ماہ میں جہاں 43 فیصد لوگ یوگی کو وزیر اعلیٰ کی شکل میں دوبارہ دیکھنا چاہتے تھے وہیں اب صرف 38 فیصد لوگ ایسی خواہش رکھتے ہیں۔لوک سبھا انتخابات کی تیاریوں میں مصروف بی جے پی کے لیے اتر پردیش میں پارٹی کے خلاف ناراضگی اور عدم اطمینان کا گراف اونچا ہونا سر درد سے کم نہیں۔ بی جے پی کے لیے پریشان کرنے والی خبر یہ بھی ہے کہ ستمبر سے اب تک سماجوادی پارٹی لیڈر اکھلیش یادو کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ستمبر میں جہاں صرف 29 فیصد لوگ اکھلیش کو وزیر اعلیٰ کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے وہیں دسمبر کے تیسرے ہفتہ میں 37 فیصد لوگوں کی پسند اکھلیش ہیں۔انڈیا ٹوڈے کے لیے ایکسس مائی انڈیا کے ذریعہ کیے گئے اس سروے میں یوگی حکومت کی مقبولیت گرنے کی بھی بات کہی گئی ہے۔ سروے کے مطابق یو پی کے 44 فیصد لوگ موٹے طور پر یوگی کی قیادت والی بی جے پی حکومت سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہیں اتر پردیش کے لوگوں کے لیے بے روزگاری اور مہنگائی سب سے بڑا ایشو ہے۔ ریاست کے 32 فیصد لوگ بے روزگاری کو اور 21 فیصد لوگ مہنگائی کو سب سے بڑا ایشو مانتے ہیں۔ وہیں 17 فیصد کسانوں کی حالت اور 15 فیصد بدعنوانی سے پریشان ہیں۔ اس کے علاوہ نہ صرف یوگی کی گھٹتی مقبولیت اور بی جے پی حکومت کی کارکردگی سے عوام میں ناراضگیبھی بڑھی ہے۔یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ2014 کے انتخاب میں بی جے پی نہ تو اتر پردریش میں برسراقتدار تھی اور نہ ہی مرکز میں، اس لے لوگوں کو اس وقت اقتدار کے خلاف کھڑا کرنا اور اپنے وعدوں سے متاثر کرنا آسان تھا، لیکن 2019 میں حالات بالکل مختلف ہیں۔ بی جے پی کو 2014 میں کیے گئے وعدوں کا حساب بھی دینا ہے اور بھروسہ بھی دلانا ہے کہ اس سے آئندہ غلطی نہیں ہوگی۔ لیکن کیا ووٹر اس سے مطمئن ہوں گے، کم از کم سروے سے تو ایسا نہیں لگتا۔

اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات ترقی، روزگار اور امن و قانون جیسے اہم مسائل کی پٹری سے اتر کر ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر ووٹ بینک کی سیاست پر تیزی سے مرکوز ہوتے نظر آرہے ہیں۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ایودھیا اور کاشی سمیت دیگر ہندو تیرتھ مقامات کی ترقی کی بات کرکے ووٹروں کو اپنے حق میں راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔یعنی کہ بی جے پی ہمیشہ سے جس ہندو مسلم کارڈ کو استعمال کرکے ہندو ووٹ حاصل کرتی آئی ہے وہ اپنی روش پر اب بھی قائم ہے۔۔۔بی جے پی اور آر ایس ایس یہ سمجھ رہی ہیں کہ وہ جس طرح سے ۲۰۱۴ میں اقتدار پر قابض ہوئے تھے اس مرتبہ بھی وہ اقتدار حاصل کرلیں گے لیکن انہیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ بے جا ظلم وستم کرنے والے گھمنڈ غرور اور تکبر والوں کو اوپر والا دوبارہ موقع نہیں دیتا۔نا مردوں کی طرح گھیر کر ماب لنچنگ کردینا،خواتین پربے جا ظلم وستم کرنا، اسلامی تعلیمات کو ختم کرنا مسلمانوں کے اپنے شرعی مسائل میں ٹانگ اڑانا،طلاق ثلاثہ کو ختم کرنا اور سب سے بڑا درد سر این آر سی اور این پی آر کی شکل میں دینا اور اقلیتوں کو خصوصاً مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھنا اور سب سے بڑھ کر ببانگ دہل یہ اعلان کرنا کہ بھارت میں اب مسلمانو ںکو رہنے نہیں دیا جائے گا اور ان کا قتل عام کیا جائے گا۔بے روزگاروں کو مزید بے روزگار کرناغریبوں اور نچلی سطح پر پہنچادینا ساتھ ہی اعلی ذات اور مالداروں کاہی وکاس کرنایہ سب ظلم کے خانے میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ اوپر والا ایک حد تک برداشت کرتا ہے پھر اس کی پکڑ مضبوط ہوجاتی ہے جس کا اشارہ مل چکا ہے کہ بی جے پی کی مقبولیت میں کمی آگئی ہے اور لیڈران پارٹی چھوڑ تے جارہے ہیں۔’حقیقت جو بھی ہو الیکشن میں اس طرح کے اشارے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور یہ انتخابات کو متاثر کر سکتے ہیں۔ بی جے پی کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ جو نقصان ہوا ہے اسے کیسے پورا کیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی کیاایسا کر پائے گی۔‘یا پھر اوندھے منہ گر کر نشان عبرت بن جائے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔لیکن یہ بات ظالموں کو پتہ نہیں ہے کہ’’بیشک ظالم لوگ نجات نہیں پائیں گے‘‘۔
 

syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 52231 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.