انگریزی زبان میں ایک کہاوت ہے کہ "If you didn't hear it
with your own ears or see it with your own eyes, don't invest it with
your small mind and share it with your big mouth."
یہ کہاوت کراچی کے نام پر سیاست کرنے والے گروہوں کے کارکنان پر مکمل فٹ
بیٹھتی ہے. کراچی کے نام پر کی گئی سیاست جوکہ سیاست کے نام پر ایک
pre-planned سازش ہی ہے. ایسی سیاست کرنے والے لیڈران ہر آئے دن اپنے" باس"
سے اس طرح نفرت اور جھوٹ پھیلانے کا ہوم ورک لیتے ہیں جیسے ایک طالب علم
روزانہ کی بنیاد پر لیتا ہو.
ایسے لیڈران ہوم ورک کے ساتھ تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں. جن کا کام ان کے
پیچھے چلنے والے کارکنان کی آنکھوں پر سیاہ پٹیاں اور دماغ پر گہری زنگ لگا
کر ان کو وہ وہی سمجھایا، دکھایا اور بتایا جاتا ہے جس سے وہ کارکنان Brain
wash کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ سوچنے اور سمجھنے کی تاحیات صلاحیت کھو
بیٹھے ہیں اور یہی سبب ہے کہ میں نے ان کو روبوٹک کارکنان کا لقب دیا ہے
اور اسی بات سے ان کے لیڈران اور ان کے باس کو فائدہ ہوتا ہے اور کارکنان
اور دیگر عوام کے بیچ میں نفرت پیدا کی جاتی ہے.
لیڈران کے کارکنان جو کہ اپنے شعبہ جات میں اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان بھی
ہیں لیکن وقت کی ستم ظرفی ہی سمجھی جائے کہ ان نوجوانوں کی تربیت ایسی کی
جاتی ہے جس طرح رجنی کانت کی فلم روبوٹ میں chitti robot کی کی گئی تھی جس
میں روبوٹ کو جیسا کہا جاتا ہے وہ اس پر ویسے ہی عمل کرتا ہے اور وہ کرے گا
بھی کیوں کہ روبوٹ کو اپنا دماغ نہیں ہوتا وہ اشاروں پر چلتے ہیں، یقین
جانئیے ان روبوٹک کارکنان نے کبھی اپنا دماغ استعمال ہی نہیں کیا.
ان کارکنان کے ذہن میں سب سے پہلے نفرت کا بیج بویا جاتا ہے پھر ناشتے سے
لے کر رات کے کھانے تک جو بھی کھاتے ہیں وہ جھوٹ کی تھالی میں کھاتے ہیں جس
وجہ سے اس قسم کے کارکنان کو جھوٹ کی اتنی عادت ہوچکی ہے کہ جب ان کے سامنے
سچ دکھائیں گے یا خود دیکھیں گے تو ان کے ذہن میں سچ کو برداشت کرنے کی
طاقت ہی ختم ہوچکی ہے.
جس طرح ایک مینڈک کیلئے اس کی کل دنیا ایک کنواں ہوتا ہے اسی طرح کراچی
کےنام پر سیاست کے پردے کے نیچے سازشی سیاست کرنے والے پیڈ لیڈران کے
کارکنان کی نظر میں کل دنیا فقط کراچی لفظ میں ہے.
ان روبوٹک کارکنان کو کوئی یہ نہیں بتائے گا کہ کتنے لاکھ لوگ دھڑا دھڑ
باہر سے آ کر شہر میں آباد ہورہے ہیں جس سے شہر کی ایک مقرر capacity پر
لوڈ ہونے کے ساتھ ساتھ بدامنی، منشیات اور اسمگلنگ کے واقعات بڑھ رہے ہیں
بلکہ کاروبار اور روزگار پر بھی ان کا قبضہ ہوتا جارہا ہے جس کی بڑی مثال
افغانی مہاجرین ہیں. ان کے مستقل رہنے کہ وجہ سے سرکاری مشینری پر لوڈ
بڑھتا جارہا ہے اور وہ پہلے سے ناکارہ شدہ مشینری مزید لوڈ برداشت نہ کرتے
ہوئے ناکارہ ترین بنتی جارہی ہے جو کہ آنے والے وقت کا ایک بہت بڑا مسئلہ
ہے نہ صرف روبوٹک کارکنان کیلئے بلکہ پورے صوبے کی آبادی کیلئے بھی.
ان روبوٹک کارکنان کو کوئی اس قسم کھ نقصانات کے بارے میں نہیں بتایا جاتا
کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے واقعات یا مسائل بتاکر ان کارکنان کو ان کے
باس کے خلاف کھڑا کیا جائے گا اور باس لوگ ایسے مسائل سے دور رکھنے کیلئے
لیڈران کو تنخواہ ادا کرتے ہیں.
|