تیرہواں کھلاڑی


ازقلم: ذوالفقار علی بخاری
”بہت ہو گیا ہے، اب میں کبھی نہیں کھیلوں گا؟“۔
شعیب حسن نے مایوسی سے کہا۔
”اب کیا ہوا ہے؟“۔
اماں نے پوچھا۔
”یہ پوچھیں کہ کیا نہیں ہوا ہے؟“
شعیب حسن نے مایوس کن لہجے میں کہا۔
”پھر کیا قومی ٹیم میں جگہ نہیں ملی؟“۔
اماں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سوال کیا۔
”جی اماں جی!“
شعیب حسن نے کہا اور پھر سر کو پکڑ کر رونے لگا۔
اماں اپنی جگہ سے اُٹھیں اور شعیب حسن کو گلے لگا لیا۔
”بیٹا! ابھی تم جوان ہو، حوصلہ مت ہارو۔تم تو بچوں کی طرح رونا شروع ہو گئے ہو“۔
اماں نے دل جوئی کرتے ہوئے کہا۔
پھر شعیب حسن کی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کئے۔
شعیب حسن قدرے سکون میں آیا تو پھر اماں نے ایک ایسی بات کہی کہ وہ پھر سے اپنے آپ کو منوانے کے لئے ایک اور کوشش کرنے پر تیار ہو گیا۔
’اماں نے پیار سے ماتھا چومتے ہوئے کہا۔
تم نے تو یہ بات سنی ہوئی ہے نا کہ ”بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“۔
”بیٹا! ایک بار پھر کوشش کرلو“۔
شعیب حسن اُسی وقت اُٹھا اور کھیل کے میدان کی طرف چل دیا۔
٭٭٭٭٭
شعیب حسن اسکول کے زمانے سے کرکٹ کھیل رہا تھا۔
اُسی زمانے میں اچھے کلب کی طرف سے موقع ملا تو پھر اُس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ جہاں بھی کھیلا اُس نے اپنی دھاک مخالف ٹیم پربٹھائی۔۔۔۔۔
اُس کے ہوئے ہوئے کبھی ٹیم نہیں ہاری تھی۔
اچھی بولنگ کے ساتھ وقت پڑنے پر عمدہ بیٹنگ سے وہ ہمیشہ ٹیم کے لئے جیت کا مہرہ بن جاتا تھا۔کئی دیگر کلب اس کو حاصل کرنے کے لئے منہ مانگے رقم دینے کو تیار تھے مگر اُس نے اپنے اُ س اولین کلب کو چھوڑنا مناسب نہیں سمجھا تھا جس نے اُس کی صلاحیتوں کو منوانے کا موقع دیا تھا۔
شعیب حسن موقع پرست نہیں تھا تب ہی وہ بس اپنی باری کے انتظار میں تھا مگر قومی سطح پر اُسے کھیلنے کو موقع نہیں مل سکا تھا۔دیگر کم صلاحیت کے کھلاڑی سفارش پر کھیل جاتے تھے۔
اب کی بار فرسٹ کلاس کرکٹ میں بہترین کارکردگی کے باوجود جب اُس کا نام ٹیم میں شامل نہیں ہوا تو وہ مایوس ہو گیا۔ تب ہی کھیل کا میدان چھوڑنے کا فیصلہ کر رہا تھا مگر اُس کی اماں نے ایک اور کوشش کرنے کا کہا تھا۔
٭٭٭٭٭
شعیب حسن نے صبر کا دامن تھا م لیا تھا،اب کی بار اُس نے شکوہ کرنا چھوڑ ہی دیا تھا۔
کئی بار ایسا ہوا کہ قومی سطح پر کھیلنے کے لئے ٹیم میں جگہ ملی مگر پھر عین وقت پر اُس کی جگہ کوئی اور کھیل رہا ہوتا تھاکئی بار ایسا بھی ہوا تھا کہ رات سوتے وقت بتایا جاتا تھا کہ وہ صبح لازمی ٹیم میں کھیلے گا مگر پھر صبح قسمت روٹھ جاتی تھی۔
اب تو اُس کے ساتھی کھلاڑی بھی اُس کو تیرہواں کھلاڑی کہنے لگے تھے۔
وہ اب خود کو بھی تیراہواں کھلاڑی سمجھنے لگا تھا۔
ایک د ن شعیب حسن کو یاد آیا کہ اس تیرہ کے ہندے کو ہی کچھ لوگ منحوس قرار دیتے ہیں۔ لیکن ایک دن اُس نے سوچاکہ یہ سب غلط کر کے دکھائے گا۔
اُس نے اپنی محنت کو جاری رکھااور پھر تیرہ سال گذرے گئے۔
٭٭٭٭٭
قومی ٹیم غیر ملکی دورے پر جانے لگی تو ایک وباء کی وجہ سے ٹیم کے اکثر کھلاڑی بیمار پڑ گئے۔
پھر شعیب حسن کو ٹیم میں نہ چاہتے ہوئے شامل کرلیا گیا۔
شعیب حسن کو حسن اتفاق سے بارہ کھلاڑیوں کی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے موقع ملا تھا، وہ تیرہ کھلاڑیوں میں واحد تھا جو وبائی بیماری کا شکار نہیں ہوا تھا۔
شعیب حسن کی قسمت اب کی بار مہربان ہو چکی تھی۔
دورے کا تیرہواں دن تھا، جب ایک کھلاڑی کو والدہ کی بیماری کی وجہ سے وطن واپس جانا پڑا، تو اُس کو ٹیم میں شامل کرلیا گیا تھا۔
اب کی بار شعیب حسن نے قومی سطح کے اولین میچ میں شاندار بولنگ کرتے ہوئے تیرہ کھلاڑیوں کو آؤ ٹ کرلیا تھا اور دل چپ بات یہ تھی کہ اُس نے اسکور بھی تیرہ ہی بنائے تھے۔
اس میچ میں شعیب حسن نے عمدہ بولنگ سے یوں اپنی جگہ بنائی کہ پھر اگلے تیرہ سال تک وہ قومی سطح پر کھیلتا رہا۔ساری عمر اُس کو یہ بات تنگ کرتی رہی کہ ان تیرہ سالوں میں وہ تین سے تیرہ کے اعداد میں ہی اسکور کرتا رہا اور کھلاڑیوں کو آؤٹ کرتا رہا۔
شعیب حسن اس پر بھی بہت خوش تھا کہ تیرہ سا ل کی عمر میں شروع ہونے والا یہ سلسلہ آخر کامیابی سے ہمکنار ہو ا تھا۔
اگر وہ اُس دن اماں کی بات نہ مانتا تو پھر کبھی اپنے خواب کی تعبیر حاصل نہ کر سکتا تھا۔اُس کو اس بات کی خوشی تھی کہ اماں کے اچھے مشورے نے خواب کی تکمیل تک جہدوجہد کرنے پر مائل کیا تھا۔
دل چسپ بات یہ بھی تھی کہ شعیب حسن نے اپنی عمدہ کارکردگی کے حوالے سے تیرہ ہی حسن کارکردگی کے ایوارڈز اپنے نام کئے او ر جس دن کھیل کے میدان کو خیر آباد کہا تب تاریخ تیرہ ہی تھی۔
٭٭٭٭٭
شعیب حسن نے اپنی صلاحیتوں اور قابلیت سے کم پر سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔اُس نے اپنی محنت جاری رکھی تھی۔انسان کے خواب تب ہی پورے ہو سکتے ہیں،جب وہ اپنی توجہ محنت پر رکھے اور حوصلہ بلند رکھے کہ ایک دن اُ س کے خوابوں کی تعبیر ضرور مل جائے گی،مایوسی کفر ہے،جیت کے لئے مسلسل محنت ضروری ہے۔دن بدل سکتے ہیں تاریخ کوئی بھی ہو اپنی اہمیت رکھتی ہے لیکن محنت کا پھل ضرور ملتا ہے یہی اس کہانی کا بنیادی سبق ہے۔
شعیب حسن کی کہانی کے ساتھ بھارت کے ایک اداکار نواز الدین صدیقی کو دیکھیں تو اُس نے بھی لگ بھگ تیرہ سال کے قریب سخت محنت کے بعد اپنا نام بنایا، اپنے چہرے اوررنگ سے قطع نظر محض اپنی صلاحیت سے خود کو منوانا آج کے دور کی ایک بڑی مثال ہے۔اس لئے محنت کرتے چلے جانا چاہیے،ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جب آپ کے سب ارمان پورے ہو جاتے ہیں۔(مصنف)
۔ختم شد۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 525430 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More