بچوں کے ادیب: ذوالفقار علی بخاری

انٹرویو تو روز ہوتے ہیں مگر آج جس شخصیت کو آپ کے سامنے لانے کا ارادہ ہے وہ نہ صرف اپنے ملک بلکہ ہمسایہ ملک میں بھی قلم کی طاقت کے زور پر اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔
ان کی متعدد تحاریر پاکستان کے علاوہ انڈیا کے مختلف رسائل اور اخبارات میں بھی چھپتی رہتی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ لندن سے شائع ہونے والے اردو رسائل میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔
بچوں ،بڑوں سب کے ہردلعزیز، سب کو سراہنے والے، اپنی شخصیت میں موٹیویشن کا ایک خزانہ ہیں۔
کسی کو ادبی لحاظ سے کوئی مسئلہ ہو ان کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ یہ گھٹنوں کے بل چلتے لکھاریوں کو اپنے قدموں پر لاکھڑا کرتے ہیں۔
سب سے اہم بات ہے کہ ان کا ساتھ پھر بھی نہیں چھوڑتے، جہاں کسی نے آواز دی وہیں مدد کو پہنچ گئے۔
نہایت پرعزم، محنت کرنے والے شخص ہیں۔ تنقید کا سامنا بھی بہت دیدہ دلیری اور بہادری سے کرتے ہیں۔
نئے لکھاریوں کے انٹرویو کر کے ان کو دوسروں کے سامنے لاتے ہیں۔ اس سے نہ صرف نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ مزید اچھا لکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
ایسے لوگ دنیا میں خال خال پیدا ہوتے ہیں۔
اس خوبصورت دل و دماغ کی مالک شخصیت کو دنیائے ادب میں "ذوالفقار علی بخاری" کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ویسے تو آپ بیسیوں انٹرویو پڑھ چکے ہوں گے۔ آج ادب اطفال کے محترم لکھاری بخاری صاحب کا "اولین انٹرویو" ملاحظہ کریں۔
ہم نے سوچا جو سب کے انٹرویو منعقد کرتے ہیں آج ان کو ہی کٹہرے میں لاکھڑا کرتے ہیں۔
آئیے مل کر ان سے ایک چھوٹی سی ملاقات کرتے ہیں۔
یہ ذوالفقار علی بخاری صاحب کا کسی بھی پلیٹ فارم پر دیا جانے والا پہلا انٹرویو ہے۔ سو اس لحاظ سے یہ اعزاز ہمارے حصے میں آیا ہے۔

سوال: کیسے ہیں آپ اور کیا مصروفیات ہیں آج کل؟
جواب:الحمد اللہ۔۔۔اللہ کا کرم ہے بہت خوش ہوں۔۔آج کل ملازمت کے ساتھ ادبی دنیا میں کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہوں جوآپ کے بھی علم میں ہے۔

سوال: اپنا مختصر تعارف بتائیے ۔
جواب: ادب کا ادنیٰ سا طالب علم ہوں یہی تعارف ہے کہ ادب کی دنیا سے وابستہ ہوں۔

سوال: آپ کو کب پتہ چلا کہ آپ لکھ سکتے ہیں؟
جواب:عمروعیار، ٹارزن اوردیگر کرداروں کی کہانیاں پڑھتے پڑھتے جب احساس ہوا کہ کچھ لکھنا چاہیے تو اولین تحریر ماہ نامہ ہمدرد نونہال، کراچی کو ارسال کی وہ شائع ہوئی تولکھنے کا شوق پیدا ہوا۔اس کے بعد ایک خط بھی اسی رسالے میں شائع ہوا تھاتاہم پھر لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی، برسوں بعد بچوں کے لئے باقاعدگی سے لکھنا شروع کیا ہے۔

سوال: لکھنے کے لیے پڑھنا ضروری ہے۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: آپ لکھیں یا نہ لکھیں پھر بھی مطالعہ کرنا بے حد ضروری ہے یہ آپ کو زندگی گذارنے کے جہاں بہترین طریقوں سے آگاہ کرتا ہے وہیں مسائل سے بھی نجات دلواتا ہے۔

سوال: کتنا عرصہ ہو گیا ہے آپ کو لکھتے ہوئے؟
جواب: بچوں کے لئے 2019سے لکھ رہا ہوں ویسے قلم کو 2008میں تھاما تھا تب سے مسلسل کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور شائع ہو جاتا ہے۔

سوال: کبھی لکھتے ہوئے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا؟
جواب: قلم کار جب معاشرے سے مایوس ہوتا ہے تو پھر اپنے قلم کے ذریعے جہاد کرتا ہے اگر مایوسی نہ بھی ہو تو بھی بہتری کے لئے لکھتا ہے۔ میں لکھتے وقت مایوس اکثر ہو جاتا ہوں کہ آس پاس بہت کچھ ایسا ہو رہا ہوتا ہے جو اندر سے دکھی کردیتا ہے۔

سوال: کیا آپ کو کبھی رائٹرز بلاک کا سامنا کرنا پڑا؟
جواب: مطالعہ،مطالعہ اوربس مطالعہ اس سے بچا سکتا ہے۔میں کبھی شکار نہیں ہوا ہوں۔الحمد اللہ

سوال: عموما لکھاری بہت اچھی لفاظی کرتے ہیں۔ کیا آپ الفاظ کا جادو لکھنے کے ساتھ ساتھ بولنے میں بھی کرتے ہیں؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے اگر کوئی صلاحیت دی ہوئی ہے تو پھر اس کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے میں دوسروں کی زندگی بہتر کرنے کے لئے ایسا اکثر الفاظ کا جادو چلاتا ہوں یہی وجہ ہے کہ دل سے سب عزت بھی کرتے ہیں۔

سوال: ایک چیز کا انتخاب کریں۔ کتاب یا ایوارڈ اور کیوں؟
قلم یا الفاظ
ذہانت یا محنت
شہرت یا پیسہ
جواب: کتاب۔۔۔وہ اس لئے کتاب ہمیشہ بہت کچھ سکھاتی ہے اورکتاب کی دوستی کبھی اداس نہیں کرتی ہے۔
ذہانت ہو تو پھر انسان محنت کرنے کا بھی ہنر جان جاتا ہے اس لئے ذہانت انتخاب ہوگا۔
قلم کا انتخاب کروں گا کیوں کہ قلم کے ذریعے سوچ سمجھ کر ہی کچھ لکھنا پڑتا ہے یوں تو الفآظ بولیے جاتے ہیں تاہم قلم کے ذریعے کہے گئے الفاظ زیادہ یاد رہتے ہیں۔
شہرت ہو تو پیسہ خود بخود آجاتا ہے۔

سوال: کیا ایک لکھاری معاشرے کے مسائل حل کروانے میں کردار ادا کر سکتا ہے؟
جواب: کر سکتا ہے اگر وہ ایمانداری سے کام کرے۔

سوال: کوئی ایسی بات جو تمام لکھاریوں میں مشترکہ ہوتی ہے یا ان کا خاصا ہوتی ہے؟
جواب: سب حساس ہوتے ہیں اور دوسروں کی زندگی اورسوچ بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سوال: لکھتے وقت کامیابی یا ناکامی کا کتنا فیصد خیال ذہن میں رہتا ہے؟
جواب: کبھی ایسا نہیں سوچا ہے بس کام کیا ہے اورکامیابی سامنے آجاتی ہے۔

سوال: اگر آپ کو کہا جائے کہ اپنی پسندیدہ تحریر تخلیق کریں تو کس موضوع کا انتخاب کریں گے؟
جواب: معاشرتی مسائل پر لکھنا چاہوں گا۔

سوال: کون سی ایسی صنف ہے جس میں لکھنے کی کوشش جاری ہے؟
جواب: سفرنامہ۔۔۔۔۔۔۔سفرنامہ بہت سے پڑھے ہیں اب خواہش ہے کہ سفرنامہ لکھوں۔

سوال: خود کو بحیثیت لکھاری کس درجے پر رکھتے ہیں؟
جواب: ادنیٰ سے درجے پر ہوں کہ ابھی سیکھ رہا ہوں۔

سوال: اگر آپ کو کہا جائے اپنا ملنے والا ایوارڈ کسی پسندیدہ رائٹر کو دے دیں تو کس کا انتخاب کریں گے؟
جواب: خان حسنین عاقب کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ میرے لئے بہت قیمتی انسان ہیں جن کے ظاہر و باطن میں کبھی فرق نہیں دکھائی دیا ہے۔ان سے بطور شاگرد بہت کچھ سیکھنے کومل رہا ہے۔

سوال: کیا ایک ادیب ایوارڈ پانے کے بعد اپنا منفرد مقام حاصل کر پاتا ہے؟
جواب:ایوارڈزسے زیادہ اہم قارئین کی جانب سے پذیرائی حاصل کرنا اہمیت رکھتا ہے آج کے دور میں بہت کم ادارے اورشخصیات ایسی ہیں جو واقعی کام دیکھتے ہوئے ایوارڈز دے کر سراہتی ہیں۔ادیب کی اگرتحریریں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جا رہی ہیں تو سمجھ لیجئے کہ وہ اپنی ساکھ اورمقام کو متعین کر چکا ہے۔‘

سوال: کسی بھی لکھاری کے لیے یہ کتنا اہم ہے کہ اس کی کتاب شائع ہو؟
جواب: بطورادیب شناخت کے لئے ضروری ہے کہ آپ صاحب کتاب ہوں لیکن یہ اتنا بھی اہم نہیں ہے کہ آپ سب کچھ بھول کرصاحب کتاب ہونے کی فکر میں مگن رہیں اورپھرجب کتاب شائع ہو تو کوئی مفت میں کیا خرید کر بھی پاس نہ رکھنا چاہے۔ صاحب کتاب ہونا اس لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے کہ آپ کا کام ایک جگہ محفوظ ہو جائے اس نیت سے اہمیت اہم ہے تاکہ مستقبل میں بھی آپ کا کام اورنام زندہ رہے۔۔۔

سوال: لکھاری کے لیے اعزازیہ اور اعزازی رسالہ ملنا کس قدر اہم ہے؟
جواب: دوسروں کی زندگی اورسوچ بدلنے کے لئے تحریریں لکھنا کم اہمیت کا کام نہیں ہے، رسائل اس لئے شائع ہوتے ہیں کہ ان میں قلم کار تحریریں دیتے ہیں اگر وہ نہ لکھیں تو کوئی بھی رسالہ زیادہ عرصہ شائع نہ ہو سکے گاکہ جب شائع کرنے کو کچھ نہیں ہوگا تو پھر کوئی کیا چیز پیش کرکے قارئین کو تفریح مہیا کرے گا۔یہ دونوں بہت ضروری ہیں کسی بھی قلم کار کے لئے جب اعزازیہ نہیں ملے گا تو کوئی مسلسل لکھنے کی طرف مائل نہیں ہوگا کہ گھر بھی چلانا ہے جب گھرکے اخراجات پورے کرنے کے پیسے نہ ہوں تو پھر کوئی ہزار دو ہزار کیسے اس کام پر لگائے گا۔آج کوئی ادب سے دورہوا ہے تو ان دونوں کا نہ ہونا بھی اہم ترین عنصر ہے کوئی سمجھے نہ سمجھے لیکن یہ بات اہمیت رکھتی ہے۔

سوال: آج کل ادب اطفال میں خاطرخواہ کام ہو رہا ہے، مگر پھر بھی اس کے فروغ کے لیے سکولوں اور کالجوں کو مدعو/شریک کرنا چاہیے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: ادب کی دنیا میں مشکل کام کرنے والے کم ہیں اس کا پھل کھانے کے لئے سب آجائیں گے یہ سب بہت پہلے ہونا چاہیے تھا سب کو اپنے اپنے مسائل ہیں آج کوئی کتب بینی یا مطالعے کی کمی کا رونا روتا ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ یہ سب کیوں ہوا ہے۔میرے خیال میں قانون سازی ہونی چاہیے کہ بچوں کے لئے جو بھی رسالہ شائع ہو وہ ہر ماہ کم سے کم دس رسائل ضرور کسی نہ کسی اسکول کو بطور تحفہ عطیہ کرے تاکہ بچوں میں مطالعے کا شوق بیدار ہو۔

سوال: اگر ادب اطفال کا ایک ادارہ بنایا جائے تو ملک میں موجود کن لوگوں کو آپ شریک کریں گے اور کون کون سے عہدے دیں گے؟
جواب: جب وقت آئے گا توان احباب کے نام بتا دوں گا فی الوقت اتنا ضرور کہوں گاکہ میں یہ اچھی طرح سے جان چکا ہوں کہ کن احباب کا کردار ادب اطفال کے فروغ میں اہم ترین ہے اورمیرا انتخاب بھی یہی ہونگے جن کا میں نے سوچ رکھا ہے۔۔

سوال: آخری سوال تھوڑا ہٹ کے ہے، آپ لکھاریوں کی اس قدر راہنمائی کیوں کرتے ہیں؟ عموما لوگ تو میسج کا جواب دینا پسند نہیں کرتے۔کیا کوئی ذاتی تجربہ رہا؟
جواب: جب آپ خود ایسے حالات کا سامنا کر چکے ہوں جو تکلیف دہ ہوں تو پھر آپ کو دوسروں کے لئے آسانی پیدا کرنی چاہیے۔ہمارا دین بھی یہی درس دیتا ہے اوربطور ادیب مثال بننا چاہیے ناکہ باعث عبرت ہوں کہ فلاں ایسا ہے ویسا ہے۔ میرے تجربات بہت سے ہو چکے ہیں بس یہی جان لیجئے کہ ہمارے ہاں تعریف اورپذیرائی کا فقدان ہے اورجب یہ ملنا شروع ہو گی تو یہ معاشرہ خود بہتری کی جانب مائل ہو جائے گا کسی کو چراغ جلانا ہے اور جب یہ جلے گا تو سب روشن ہوگا۔ جو دوسروں کو حقیرسمجھتے ہیں وہ ایک دن حقارت سے دیکھے جاتے ہیں اس لئے ہمیشہ اچھا کرکے آگے بڑھنا چاہیے۔۔۔۔۔میری عادت بچپن سے یہی ہے کہ دوسروں کے لئے کچھ کروں تو گذشتہ کئی برسوں سے یہ سلسلہ جاری تھا جو اب عیاں ہوا ہے بصورت میں خاموشی سے کام کیے جا رہا تھا۔

سوال: کوئی ایسا پیغام دیں جو چاہ سکنے کے باوجود نہیں دیا کبھی۔
جواب: مل کر کام کریں اور ایک دوسرے کی کامیابی کو دل سے سراہیں اورجس کا جو حق ہے یا جو بھی آئیڈیا ہے اُسے ضرور داد دیجئے، حق تلقی نہ کریں کیوں کہ ایسا کرنے کے بعد آپ ایک اچھے انسان نہیں کہلوا سکتے ہیں کہ آپ دوسروں کو نیچا دکھا کر خود بڑے نہیں بن سکتے ہیں۔

بہت شکریہ آپ کے وقت دینے کا۔ نہایت ممنون ہیں۔ خوش رہیں۔
۔ختم شد۔
 

نیلم علی راجہ
About the Author: نیلم علی راجہ Read More Articles by نیلم علی راجہ: 2 Articles with 1994 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.