جمہوری بھول بھلیاں

للن پٹیل نے کلن سوامی سے کہا کیوں اناّ تم نے یوم جمہوریہ کے موقع پر ہمارے پردھان سیوک کو دیکھا یا نہیں ؟
ارے بھیا تمہارے پردھان سیوک ہی تو ہر ٹیلیویژن چینل اور اخبار میں دن رات نظر آتے ہیں ان کو تو اندھا بھی دیکھ سکتا ہے۔
اندھا کیسے دیکھ سکتا ہے؟ تم میرا مذاق تو نہیں اڑا رہے ہو؟
ارے بھائی نابینا انسان بہرہ تھوڑی نا ہوتا ہے ۔ وہ جیسے ہی پردھان جی کا نام سنتا ہے چشم تصور سے انہیں دیکھ لیتا ہے۔
چشم ِ تصور؟ کیا یہ عینک کا کوئی نیا برانڈ ہے کہ جسے لگانےپراندھے کو بھی پردھان جی نظر آجاتے ہیں؟
جی ہاں یہی تو وہ عینک جس کو لگاکر تم جیسے لوگ اپنے محبوبِ نظر کو دیکھتے ہو۔
یہ تم نے درمیان میں کس کا نام لے لیا؟ پچھلے ہفتے محبوب انڈے والے سے میرا جھگڑا ہوگیا ۔ اب میں اس کا منہ بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔
کلن نے سوال کیا اوہو میں محبوب بھائی کی بات نہیں کررہا ہوں مگر تم تو پکے سبزی خور ہو ۔ تمہارا انڈے والے کیا لینا دینا؟
للن بگڑ کر بولا ، اچھا سبزی خور ہیں تو کیا انڈا بھی نہیں کھائیں؟
کلن نے کہا کیوں بھائی کیا تم بتا سکتے ہوکہ انڈا کس کھیت میں اگتا ہے یا کون سے پیڑ پر لگتا ہے ؟
دیکھو بھیا ہمارے مہاراج جی نے کہہ دیا کہ انڈا سبزی ہے تو ہے ۔ ہم کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ ۰۰۰۰۰۰
سمجھ گیا ہاں سمجھ گیا لیکن اگر کل کو تمہارے مہاراج جی مرغی کو بھی سبزی کہہ دیں تو کیا کروگے ؟
تب تو شوق سے گھر لاکر کھائیں گے ۔
کلن نے حیرت سے پوچھا گھر لاکر ؟ میں نہیں سمجھا؟؟
اس میں نہیں سمجھنے کی کیا بات ہے۔ فی الحال باہر چھپ چھپا کر کھالیتا ہوں ۔ مہاراج جی بول دیں گے تو گھر میں لاکر کھلم کھُلا ّ کھائیں گے ۔
اچھا! اور اس کے باوجود تم سبزی خور ہی رہوگے؟
اور نہیں تو کیا ۔ ہم سبزی خور تھے۔ ہم سبزی خور ہیں اور سبزی خور رہیں گے۔ یادرکھنا ایک دن ساری دنیا کو سبزی خور بناکر رہیں گے۔
کلن نے بات بدلتے ہوے کہا اچھا بابا یہ بتاو کہ محبوب بھائی انڈے والے سے تمہارا جھگڑا کیوں ہوا؟
بس ذرا سی بات پرہوگیا ۔ اس نے گھر آکر مجھے آدھا درجن انڈے دئیے۔ میں نے باورچی خانے میں لے جاکر رکھا تو ان میں سے ایک نیچے گر کر ٹوٹ گیا
یہ تو ہوتا ہے۔ انڈے لڑھک کر اِدھر اُدھر نکل جاتے ہیں ۔
جی ہاں یہی ہوا۔ اس کے بعد میں نے اس کو پانچ انڈوں کے پیسے دیئے تو وہ چھے انڈوں کی قیمت مانگنے لگا۔
ٹھیک تو ہے ۔ تم نے اسے چھے انڈوں کے پیسے کیوں نہیں دئیے؟
ارے بتایا ناکہ ایک انڈہ نیچے گرکر ٹوٹ گیا ۔ تم بہرے ہوکیا؟
ہاں لیکن وہ تو تم سے ٹوٹا ۔ اس نقصان کی بھرپائی وہ کیوں کرے ؟
تم بھی اس کی طرح الٹی بات کررہے ہو؟ اب یہ بتاو کہ میرے پاس جتنے انڈے بچے میں اسی کی قیمت ادا کروں گا نا؟
ارے یار للن اگر تم نے انڈا توڑ دیا تو اس میں محبوب بھائی کاکیا قصور؟
اچھا تو کیا یہ میری غلطی ہے؟ اس کا انڈا لڑھک کر زمین پر گرگیا ِ ،کیا یہ میری غلطی ہے؟
اوہو! تم نے انڈے لے لیے تو اب وہ تمہارے ہوگئے ۔ وہ اس کا نہیں تمہارا انڈا تھا جو ٹوٹ گیا۔
بھائی جو ٹوٹ گیا وہ میرے کس کام کا؟ میں تو اسی کے پیسے دوں گا جو میرے کام کے ہیں ۔
ارے للن لیکن وہ ٹوٹا ہوا انڈا اس غریب کے کس کام ہے۔
اس سے مجھے کیا مطلب؟ میں نے اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی تو وہ مجھ سے الجھ گیا اور اوٹ پٹانگ بحث کرنے لگا۔
اس منطق کو سن کر کلن کا دماغ چکرا گیا ۔ اس نے پوچھا اچھا یہ بتاو کہ آگے کیا ہوا؟
اس بیوقوف نے کہا اگر پھوٹنے والا انڈا میرا تھا تو لے ایک اور کھا۔ اسی کے ساتھ اس جاہل نے ایک اورانڈا میرے منہ پر دے مارا۔
اچھا تو اس نے اپنے ایک اور انڈے کا نقصان کرلیا ۔
ارے بھیا مجھے تو لگتا ہے وہ بھی پھوٹا ہوا رہا ہوگا لیکن میرا بہت بڑا نقصان ہوگیا ۔
کیسی بات کرتے ہوللن ؟ سات انڈوں کے عوض پانچ انڈوں کے پیسے اس نے لیے اور نقصان تمہارا ہوا؟
جی ہاں پہلے تومیرے چہرے پر انڈا دیکھ کربیٹا بہت ہنسا اور پھر بیوی نے فرش صاف کرتے ہوئے بہت باتیں سنائیں۔ وہ بھی اسی کی وکالت کررہی تھی۔
ارے بھائی دل چھوٹا نہ کرو گھر سنسار میں یہ سب ہوتا رہتا ہے۔
للن بولا وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب یہ مسئلہ گھر سنسار سے نکل کر گلی محلے میں پہنچ چکا ہے ۔
اچھا وہ کیسے؟
میرے بیٹے نے یہ بات اپنے دوستوں کو بتائی تو ان میں سے ایک بدمعاش نے بات کا بتنگڑ بنادیا۔
بات کا بتنگڑ ؟میں نہیں سمجھا ؟؟
تم نہیں سمجھوگے۔ اس نے یہ مشہور کردیا کہ محبوب انڈے والا اپنے دشمن کے منہ پر سڑا ہوانڈا مارتا ہے۔ اس لیے مجھ کو بھی اسی سے مارا ہوگا ۔
ارے بھائی اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ناکام شاعروں اور لیڈروں کواگر سڑے انڈوں سے نوازہ جاتا ہے تو بھگتوں کو کیوں نہیں ؟
ہاں مگر اب میں جب بھی بلڈنگ میں آتا جاتا ہوں کوئی نہ کوئی بچہ مجھے سڑے انڈے کے لقب سے یاد کرتا ہے۔ قسم سے بہت غصہ آتا ہے ۔
کلن نے کہا یار تم بھی عجیب آدمی ہو اپنے چائے والے پردھان سیوک کو چھوڑ کر انڈے والے کے چکر میں پڑ گئے؟
للن بولا میری کیا غلطی؟ تم نے ہی اس محبوب کا نام لے کر مجھے الجھا دیا خیر یوم جمہوریہ کی پریڈ میں اپنے پردھان سیوک کی ٹھاٹ دیکھنے لائق تھی ؟
ارے وہ تو ہمیشہ ہوتی ہے۔ ان کی وجہ سے نہ کتنے ڈیزائنرس کے وارے نیارے ہوگئے ہیں۔ ویسے بھی سرکاری خزانہ ، ’مالِ مفت دلِ بے رحم‘ ہے ۔
جی ہاں کیوں نہیں لیکن میں تو صبح صبح نہا دھو کریوم جمہوریہ کا بھاشن سننے کے لیے بیٹھ گیا تو پتہ چلا کہ وہ تو گزشتہ رات ہی خطاب کرکے فارغ ہوگئے ۔
کلن نے کہا ارے بھائی وزیر اعظم تو صرف پندرہ اگست کو خطاب کرتے ہیں ۔ یوم جمہوریہ سے پہلے وہ نہیں بلکہ صدر مملکت کا قوم سے خطاب ہوتا ہے۔
ارے ہاں وہی تو میں سوچ رہا تھا کہ اخبار میں ان کی تقریر پر کسی اور تصویر کیسے لگ گئی؟
اوہو ۔ تم نہیں جانتے وہ اپنے صدر جمہوریہ ہیں جناب رام ناتھ کووند۔
اچھا لیکن مجھے تولگتاہے پردھان جی ان کو دوبارہ صدر نہیں بنائیں گے ۔
کلن نے پوچھا کیوں تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے؟
دیکھو پہلے تووہ مسلمانوں جیسی شیروانی پہنتے تھے اب ان کی طرح ٹوپی بھی اوڑھنے لگے ۔ بھلا ایسا آدمی بھارت ماتا کا راشٹرپتی کیسے ہوسکتا ہے؟
دیکھو ایسا ہے کہ صدر مملکت سرکار کی بولی ضرور بولتا ہے مگر لباس کا انتخاب اپنی مرضی سے کرتاہے۔ یہ سرکار کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے۔
للن نے چونک کر پوچھا کیا اس ملک کااولین شہری اپنے من کی بات نہیں بول سکتا؟ تعجب ہے۔ کیا اظہار رائے آزادی کے حق سے وہ محروم ہے؟
کلن بولا جی ہاں ان کی ذاتی رائے توکچھ بھی ہوسکتی ہے لیکن صدر کی حیثیت سے تو اس بیچارے کو سرکار کی بولی بولنی پڑتی ہے۔
لیکن ایسا کیوں ؟ وہ غریب اتنا مجبور کیوں ہے؟
بھائی دیکھو مرضی تو اسی کی چلے گی جس نے انہیں ووٹ دلوا کر صدر بنایا۔ اور وہ پردھان سیوک ہیں اس لیے ان کی مرضی چلتی ہے؟
اچھا تو کیا ہمارے ملک کے صدر لو ہم سب نے نہیں بنایا؟و ہ اپنی مرضی سے بن گیا؟۔
کلن نے کہا جی نہیں صدر منتخب ارکان پارلیمان کے ووٹ سے بنتا ہے جو وزیر اعظم کے وفادار ہوتے ہیں اس لیے اسے سرکار کی ترجمانی کرنی پڑتی ہے۔
چلو مان گئے لیکن وزیر اعظم تو ہمارے ووٹ سے بنتا ہے لیکن وہ ہماری کیوں نہیں مانتا؟
دیکھو بھیا اس کو ان کے حلقۂ انتخاب کے لوگ چنتے ہیں تم تھوڑی نا انہیں ووٹ دیتے ہو؟
اچھا تو وہ اپنے حلقہ کے رائے دہندگان کی کیوں نہیں سنتا ؟
اس لیے کہ وہ صرف ان کا نہیں پورے ملک کا وزیر اعظم ہوتا ہے۔
یار کلن اس نظام سے متعلق تم سے جو بھی پوچھو اِدھر اُدھر گھما دیتے ہو؟ یہ جمہوریت ہے یا بھول بھلیاں ؟
تم نے صحیح کہا للن یہ ایسی بھول بھلیاں ہے کہ جوعوام اس میں بھٹکتے رہتے ہیں مگر ان ہی کے نام پر حکمراں عیش کرتے ہیں۔
للن نے سوال کیا اگر ایسا ہے تو ہمارے پردھان جی یہ الزام کیوں لگتا ہے کہ سرمایہ داروں کی سنتے ہیں؟
اس لیے کہ وہ انہیں کی سنتے ہیں اور سب سے زیادہ اڈانی اور امبانی کی سنی جاتی ہے۔
للن نے پوچھا لیکن اس کی کیا وجہ ہے؟ میں جانناچاہتا ہوں ۔
اس لیے کہ جیسے تم ووٹ دیتے ہو وہ نوٹ دیتے ہیں ۔
اچھا تو دونوں کی کیوں نہیں سنی جاتی ؟ صرف نوٹ دینے والوں کا خیال کیوں رکھا جاتا ہے ۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے تم سے ووٹ لینے کی خاطر پردھان جی کو بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں جبکہ نوٹ تو گھر بیٹھے بغیر کسی محنت کے پہنچ جاتے ہیں۔
للن بولا لیکن اگر ہمارا ووٹ نہ ملے تو انہیں کون نوٹ دے گا؟
تمہاری بات درست ہے للن لیکن اگر ان کے پاس نوٹ نہ ہوتو تم انہیں کیسے ووٹ دوگے؟
بھائی ہمارے پردھان جی اتنے نیک آدمی ہیں ۔ اچھے اچھے کام کرتے ہیںاس لیے ہم انہیں ووٹ نہیں دیں گے تو کس کو دیں گے؟
اچھا یہ تمہیں کیسے پتہ چلتا ہے کہ وہ اچھے آدمی ہیں اور عوامی فلاح و بہبود کے کام کرتے ہیں؟
ارے بھائی سارےاخبار اور ٹیلی ویژن چینل دن رات اس کی گواہی دیتے رہتے ہیں ۔
درست فرمایالیکن یہ تشہیر مفت میں نہیں ہوتی ۔ اس کے لیے نوٹ چاہیے۔ اب جو سرمایہ دار روپیہ دیتا ہے اس کا تو خیال رکھنا ہی پڑےگا نا؟
للن نے پوچھا تو کیا اس کا مطلب ہے جمہوری نظام میں نوٹ کی اہمیت ووٹ سے زیادہ ہے؟
اس میں کیا شک ہے ۔
لیکن کوئی بولتا کیوں نہیں ؟
کلن بولا اس لیے کہ اگر اس راز کو فاش کردیا جائے تو عوام ووٹ نہیں دیں گے۔
للن بولا سمجھ گیا لیکن اس بھول بھلیاں کو چھوڑو اور یہ بتاو کہ کیا تم نے دیکھا اپنے پردھان سیوک نےیوم جمہوریہ پر اس بار کون سی ٹوپی پہن رکھی تھی؟
کلن نے کہا جی ہاں اتراکھنڈ والی ٹوپی تاکہ اگلے ماہ منعقد ہونے والے انتخاب میں وہاں کےووٹرس کو ٹوپی پہنائی جاسکے ۔
اور وہ نیا گمچھا دیکھا وہ کہاں سے آیا تھا؟
منی پور کا تھا کیونکہ وہاں بھی تو آئندہ ماہ الیکشن ہورہے ہیں ۔
للن بولا اب سمجھا کہ انہوں نے سرداروں جیسا جیکٹ کیوں پہن رکھا تھا ۔پنجاب میں بھی تو الیکشن ہورہے ہیں۔
کلن نے کہا اب تم کہوگے کہ ان کا کرتا پاجامہ بالکل یوپی کے لوگوں جیسا تھا ۔
اس میں کیا شک ہے بلکہ میرا تو خیال ہے انہوں نے گوا کے لوگوں کی اسٹائل کا جوتا پہنا ہوگا کیونکہ وہاں بھی تو انتخاب ہونے والے ہیں ۔
جی ہاں یہی وہ تصور خیال ہے جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا تھا ۔ اب دیکھو تم نے دیکھے بغیر اندازہ لگا لیا یا نہیں کہ انہوں نے کیسا جوتا پہنا ہوگا ؟
للن نے کہا بھئی مان گئے استاد۔ آخر اپنی پہلے والی بات منواہی لی ۔ تم بھی اپنے پردھان سیوک سے کم نہیں ہو۔
کلن بت دلی سے بولا شکریہ بھیا ۔ بہت بہت شکریہ۔

 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452753 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.