تھل کی ڈائری

صحرائے تھل سلسلہ کوہ نمک کے جنوب میں دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان میانوالی، خوشاب، بھکر، جھنگ ، لیہ، مظفر گڑھ کے ضلاع پر مشتمل ہے۔ اصل میں یہ تھل ان چھ اضلاع میں ایک مثلث نما خطہ ہے جوکہ ضلع مظفر گڑھ میں جاکر ختم ہوجاتا ہے۔ جوہر آباد کے علاقہ ’’اوکھلی موہلہ‘‘ ، میانوالی میں ہرنولی سے جنوبی علاقہ جات اور پھر منکیرہ جوکہ تھل کا مرکز ہے سے ہوتا ہوا اٹھارہ ہزاری ضلع جھنگ، لیہ اور مظفر گڑھ تک چلا جاتا ہے۔

رقبہ کے لحاظ سے منکیرہ پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل ہے جس کی آبادی 3 لاکھ نفوس سے تجاوز کرگئی ہے۔ قلعہ منکیرہ یہاں کا تاریخی مقام ہے۔ یہاں کے لوگوں کا زیادہ تر پیشہ زراعت ہے۔ چنا، گندم، باجرہ، گوارا، تربوز، خربوازہ، اور دیسی پیاز یہاں کی مشہور فصلیں ہیں۔ تعلیمی اداروں کے فقدان کی وجہ سے دیگر تحصیلوں کی نسبت یہاں شرح تعلیم نسبتاً کم ہے تاہم تھل کے ریگزاروں میں چھپا ٹیلنٹ اپنی مثال آپ ہے۔ تھل کی پہچان جنرل نصیر بھڈوال جسے لے کر امان اﷲ چھینہ ، ملک اقبال چھینہ مرحوم علی شاہ، تاریخ ریاست منکیرہ کے مصنف ملک دوست محمد کھوکھر ، پروفیسر نیازملک (ریٹائرڈ ڈین زرعی یونیورسٹی فیصل آباد)، خالقداد چھینہ(مصور تھل) ، اقبال بالم (شاعر)، ملک اختر قاسم گھلو، ماسٹر امیر محمد کیس، سیٹھ جان محمد، حنیف فیرزی گھلو (نامور اور سینئر صحافی ) جیسے ہیرے اِسی مٹی کے تراشے ہوئے ہیں۔

بھکر کو ضلع کا درجہ ملنے سے قبل ضلعی ہیڈکوارٹر میانوالی کی سیاست میں مرحوم امان اﷲ چھینہ کی سیاست کا ڈنکا بجتا تھا۔ اُن کی رحلت کے بعد تحصیل کی ’’سیاسی پگ‘‘ چھینہ خاندان کے سپوت ملک اقبال چھینہ کے سرپر رکھی گئی۔ ان کے والد ملک امیر چھینہ کا نام بھی تحصیل کی ’’سیاسی جنتری‘‘ میں موجود ہے تاہم اقبال چھینہ نے اپنی شرافت اور سادگی کی سیاست میں نام کمایا۔ ایک عرصہ تک نوانی خاندان کے ساتھ ان کی سیاسی اور ذاتی وابستگی قائم رہی۔ اصغر خان نوانی سے بھائیوں جیسا تعلق رہا۔ ملک اصغر اقبال چھینہ نوانی اتحاد کے پلیٹ فارم سے تحصیل ناظم منتخب ہوئے۔ تاہم 2013ء میں ملک اقبال مرحوم کی زندگی کے آخری سیاسی انٹرویو کے بعد نوانی چھینہ اتحاد پارہ پارہ ہوگیا۔ راقم کے سوال پر کہ ’’کیا نوانی چھینہ ایک دوسرے سے سیاسی راہیں جدا کرچکے؟‘‘ ملک اقبال مرحوم نے یہ جملہ بول کر دوبارہ اتحاد کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’سعید اکبر خان جسے وہ بیٹوں کی طرح سمجھتے تھے ، نے میرے بیٹوں کو نظر انداز کرکے ’’دوسروں‘‘ کو آگے کردیا ہے۔ اب ہماری واپسی میرے بیٹوں کی رضامندی سے مشروط ہوگی۔‘‘ یہ ملک اقبال چھینہ مرحوم کی زندگی کا آخری انٹرویو تھا جس میں انہوں نے اپنے خاندان کی آئندہ سیاست کا نیا رُخ متعین کیا تھا۔

منکیرہ کی سیاست میں ’’سیٹھ خاندان‘‘ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ سیٹھ احمد حسین کی سیاست سے لاکھ اختلافات سہی مگر وہ تھل کی سیاست کے وہ سکے ہیں جو ہر دور میں ’’رائج‘‘ رہے۔ نوانیوں کے طویل دورِ اقتدار میں بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ ان کا شمار ملک غضنفر عباس چھینہ کے وفادار ساتھیوں میں ہوتا رہا ہے۔ وقت کا پہیہ گھوما اور اقتدار کی ہما ملک غضنفر عباس چھینہ کے سر بیٹھی تو اوائل میں ہی سیٹھ کے ساتھ ’’سیاسی چالاکیاں‘‘ شروع ہوگئیں۔ ایک وقت آیا کہ سیٹھ اقتدار اور اختیار چھوڑ کر پھر سے اپوزیشن دھڑے میں شامل ہوگئے۔ گویا کی وہ ’’تھل کے نوابزادہ نصراﷲ‘‘ بن کر رہ گئے، زیادہ وقت اپوزیشن میں رہ کر گزارنے لگے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیٹھ احمد حسین ، مرحوم امان اﷲ خان شہانی کے قریبی رفقاء میں شمار ہوتے تھے۔ اُن کے دور اقتدار میں منکیرہ کی سیاسی پگ کے فیصلے انہی کی مشاورت سے ہوا کرتے تھے۔ مگر
پھر یوں ہوا کہ ساتھ تیرا چھوڑنا پڑا
ثابت ہوا کہ لازم ہو ملزوم کچھ نہیں

منکیرہ کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو مگسی خاندان بھی یہاں کے ’’سٹیک ہولڈر‘‘ ہیں۔ تاریخی کتب کے مشہور راوی / تاریخ دان ہتو رام لکھتے ہیں کہ ’’ جس زمانے میں رندوں اور لاشاریوں کی جنگ ہورہی تھی اس زمانے میں لاشاری قبیلے کا سردار خود جنگ پر جایا کرتا تھا۔ اس کی غیرموجودگی میں پیچھے جام نندو جو کہ اس کا ایک مصاحب تھا اُسی کے علاقہ اور قبیلہ پر قابض ہوگیا۔ جس کی وجہ سے میر گوہرام کو مجبوراً اپنا علاقہ چھوڑ کر جانا پڑا گیا۔ مگسی خاندان بھی اسی علاقے میں آباد تھا مگر اس خاندان نے کسی اور کا اپنے اوپر تسلط قبول کرنے سے انکار کردیا اوراسی علاقے میں ہی آباد رہنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان میں مگسی قبیلہ زیادہ تر’’ جھل ‘‘ میں آباد ہے ۔ تاہم ایک کثیر آبادی منکیرہ میں بھی موجود ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ قبیلہ ایران کے شہر ’’مگس‘‘ سے آیا ہے ۔ بنیادی طور پر یہ قبیلہ جاگیردارانہ مزاج رکھتا ہے۔ مختیار خان مگسی، لعل خان مگسی مقامی سیاست کے چال چلن ، رکھ رکھاؤ اور میل ملاپ کے ’’سیاسی یکے‘‘ ہیں جو سیاست کی کایا پلٹنا جانتے ہیں۔ ڈیرہ داری اور مہمان نوازی میں ان کا ثانی نہیں۔ شرح تعلیم میں یہ قبیلہ تھل کے باقی قبائل کی نسبت تعلیم یافتہ ہے۔ امیر خان مگسی تحصیل بار کے صدر منتخب ہوتے آرہے ہیں۔

تھل کی سیاست میں ممڑ قبیلہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ ممڑ ایک بلوچ قبیلہ ہے جس کی تاریخ پرانی ہے۔ کئی جنگوں میں ممڑ قبیلہ نے ہمیشہ لاشار قبائل کا ساتھ دیا۔ یہ قبیلہ میر جلال خان کی بہادری کی وجہ سے مشہور ہوا۔ تربت میں ممڑ اور رند قبائل موجود ہیں۔ تھل کے شرقی علاقوں میں اس قبیلہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد موجود ہے۔ پیشہ کے اعتبار سے زمیندار ہیں۔ تحصیل منکیرہ کی سیاست میں اس قبیلے کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ وزیر خان ممڑ مرحوم ، نیازی خان ممڑ، اشفاق حسین خان ممڑ اور مقدر رضا خان ممڑ اس قبیلے کی طلسماتی شخصیات ہیں۔ مقدر رضا نہ صرف تھل بلکہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے کاروباری حلقوں میں اپنا سکہ جماچکے ہیں۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔

یونین کونسل گوہر والا میں شاہی ، پشیہ ، گاذر سیاسی کشتی کے ملاح مانے جاتے ہیں۔ گوہر والا سے چند کلومیٹر فاصلے پر تھل کی مشہور و معروف روحانی درگاہ جنجوں شریف لق و دق صحرا میں علم و نورکے دیئے جلائے ہوئے ہے۔ صاحبزادہ عبدالقیوم تحصیل کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے۔ ایک عرصہ سے وہ سیاسی منظر نامے سے دور ہوچکے ہیں۔ سکندر حیات شاہی کے نام سے ایک زمانہ واقف ہے۔ انہیں تھل کی سیاست کا ’’جادوگر‘‘ کہا جاتا تھا۔اور ایک عرصہ تک انہی کا سکہ رائج رہا۔ ملک نصراﷲ پشیہ نے شاہی خاندان کے مدمقابل کامیاب سیاسی سفر شروع کیا۔ سیاسی مخالفت کے باوجود شاہی اور پشیہ خاندانوں کے درمیان مقامی رکھ رکھاؤ اور ذاتی تعلق آج بھی موجود ہے۔ شاہی خاندان میں ملک نورنگ حیات شاہی نامور قانون دان جبکہ ملک طاہر اقبال شاہی تحصیل منکیرہ کے نائب ناظم کی حیثیت سے علاقائی سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کرچکے ہیں۔

یونین کونسل ڈگر کوٹلی میں خانوادہِ سادات سیاست کے تمام داؤ پیج اور مہارت کے ساتھ رخت سفر ہے۔ یونین کونسل 67 ۔ ایم ایل نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ زراعت کے اعتبار سے یہ یونین کونسل کافی زرخیز اور منافع بخش فصلوں کی پیداوار میں مشہور ہے۔ یہاں سے منتخب ہونے والے سابق یوسی ناظم / چیئرمین چوہدری محمد اسلم بزرگ، سادہ ، شریف اور سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک ہیں۔ مہمان نوازی اور تھانہ کچہری سے دور رہنے کی سیاست میں ان کا کوئی ثانی نہ ہے۔ جنرل مقصود احمد کے قریبی عزیز اور سوشل ورکر ہیں۔ مقامی سیاست میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسی یونین کونسل نے ایک ایسے بہادر اور ہمہ جہت نفیس انسان کو جنم دیا کہ جس کا ذکر کرنے سے قبل یہ شعر اُن کے نام
میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔۔

میری مراد ایک ایسی بہادر، ہمہ جہت، مثالی، جلالی اور بے داغ شخصیت ہیں کہ جس نے تمام تر مصائب و آلام کے باوجود اپنی ساری زندگی خدمت فلاح انساں میں گزار دی۔ سیاست کو عبادت کا رنگ روپ دے کر نکھارنے والے اس بہادر شخص کا نام رانا ظفر حمید ہے۔ مرحوم کی ساری زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے جس کے ہر صفحے پر محبت، سادگی، عاجزی، درگزر اور اخلاق و اخلاص کے موتی پروئے ہوئے ہیں۔ کئی سال تک کینسر جیسے موذی مرض کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ زیست کے نشیب و فراز کا سامنا کرتے رہے۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں بھی صبر کی زنجیر کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ سیاست کا آغاز شہانی خاندان کی چھتری تلے کیا۔ تاوقتِ مرگ وہ ڈھانڈلہ شہانی چھینہ اتحاد کا حصہ رہے۔ یونین کونسل سطح کی سیاست میں اُن جیسے بے داغ چہروں کی آج اشد ضرورت ہے۔ خداوند کریم مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

ملک ملازم حسین بھڈوال یونین کونسل لتن سے مسلسل ناظم / چیئرمین منتخب ہوتے رہے۔ علاقہ میں اُن کی نفاست، سیاست، سادگی اور عوام دوستی کے چرچے رہے۔ وہ ایک خوش مزاج اور خوب صورت و سیرت کے مالک تھے۔ مشرف دور کے بلدیاتی اداروں میں نوانی گروپ کے ساتھ مل کر تحصیل منکیرہ کی سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے میں ان کا ثانی نہیں۔

یونین کونسل لتن قدیمی قصبات پر مشتمل ہے۔ تاریخ ریاست منکیرہ میں اس علاقہ کا ذکر موجود ہے۔ اسی طرح اگر تاریخ پنجاب کی کتب کو کھنگالا جائے تو منکیرہ کے ساتھ حیدر آباد ، وگ، سادھ والا، کراڑ والا کے نام بھی نمایاں ہیں۔ لتن کے بارے میں تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ یہ علاقہ ’’لتاڑ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ قرب و جوار کے کاشتکار اپنی فصلوں کی یہاں آکر ’’لتاڑ‘‘کیا کرتے تھے۔ ’’لتاڑ‘‘ کے معانی ’’گاہنا / گاہائی کرنا‘‘ کے ہیں۔ جدید زرعی آلات کی کمی کے باعث کاشتکار ’’گاہائی‘‘ کے ذریعے اپنی اجناس حاصل کرتے تھے۔ گاہائی کے اس عمل کو لتاڑ کہا جاتا تھا۔ اس علاقے کا نام آہستہ آہستہ ’’لتاڑ‘‘ سے ’’لتن‘‘ میں بدلتا گیا۔ اس یونین کونسل میں تاریخی ، قدیم اور کثیر آبادی کا قصہ وگ صدر ہے جسے تھل کا ’’لائلپور‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قصبہ بہت پرانا اور تاریخی ہے۔ مختلف سینہ بہ سینہ روایات ، تاریخی کتب ، انٹرویوز ، تاریخ پنجاب کے حوالہ جات میں اس کا ذکر موجود ہے۔ شروع میں یہ نام ’’وَگ‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ یعنی ’’و‘‘ کے اوپر ’’زبر‘‘ تھی۔ اونٹوں اور مویشیوں کے جھنڈ کو ’’وَگ‘‘ کہا جاتا تھا۔ مختلف علاقوں سے آنے والے یہ وَگ لتاڑ سے شمال میں موجود بارشی پانی سے بنی ایک تالاب نما جگہ پر اکھٹے ہوجایا کرتے تھے۔ اس تالاب نما جگہ پر آج قبرستان شہیداں موجود ہے۔ اس قبرستان میں کئی سو سالہ پرانا ایک ’’کری‘‘ کا درخت بھی موجود ہے۔ کئی فٹ تک پھیلا یہ درخت اپنی ہیت اور پھیلاؤ کے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس تاریخی ’’کری‘‘ کے پہلو میں دو شہداء (مولودی برادران) کی آرام گاہیں ہیں۔ مولودی پرانے زمانے میں نعت خواں کو کہا جاتا تھا۔ یہ دونوں مولودی بھائی ’’ملک اور محبت‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ کئی سو سال پرانے اس قدیمی اور بزرگ نما درخت پر آج بھی زائرین منتیں مانگنے اور وہاں لگے گھنٹال بجانے آتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ علاقہ ’’وَگ‘‘ کے نام سے منسوب ہوتا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی سپانسرشپ میں 1857ء میں پورے برصغیر پر انگریز رائج قائم ہوا تو اس کے اثرات تھل پر بھی پڑنا شروع ہوگئے۔ مشرق سے مغرب کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں، دینی اکابرین اور اس وقت کے بڑے نام اسی علاقے سے گزر کر رخت سفر ہوتے رہے۔ شرق سے غرب کے قافلے اسی تاریخی کری کی چھاؤ ں میں کچھ وقت کے لیے آرام کیا کرتے تھے۔ انگریز راج کے بعد اس علاقے نام وَگ سے تبدیل ہوکر ’’وِگ‘‘ ہو گیا۔ انگریز اور ہجرت کرنے والوں نے اپنی زبان کے لہجے سے ’’و‘‘ کی زبر کو زیر میں تبدیل کردیا۔ بعدازاں یہ علاقہ وگ صدر کے نام سے مشہور ہوگیا۔ لفظ ’’صدر‘‘ اس میں اضافی شامل کیا گیا ہے۔ تاریخ دانوں کے لیے یہ نئی تحقیق ہوگی تاہم یہ نام مشہور بھارتی محقق / لکھاری تاریخ دان کشو لعل ملتانی کی طرف سے ریکارڈ کی گئی آب بیتیوں اور تاریخ پنجاب میں بارہا لیا گیا ہے۔ اس گاؤں کے وسط میں ایک کنواں (کھوہ) موجود تھا جس کا انتظام ’’رام چندر چیلا رام‘‘ کے سپرد تھا۔ چیلارام کے والد علاقہ کے مشہور بنیے تھے۔ جبکہ منسی چیلا رام گاؤں میں ہٹی (دوکان) چلایا کرتی تھی۔

یہ کثیر النفوس قصبہ زرعی اور کاروباری حوالے سے بڑا زرخیز ہے۔ تحصیل کے دیگر قصبات کی نسبت یہاں کاروبار اور شرح تعلیم زیادہ ہے۔ یونین کونسل لتن کی سیاست کا محور یہی قصبہ ہے۔ یہاں سے ملک حق نواز ڈھول مرحوم ، ملک غلام حسین اعوان، ملک عبدالکریم ڈھول ، شیر خان ڈھول سیاست کے نامی گرامی نام ہیں۔ ملک حق نواز ڈھول امان اﷲ خان شہانی کے قریبی رفقاء میں شامل رہے۔

یونین کونسل 60-61 میں عرصہ سے چوہدری نصراﷲ کا سیاسی ڈنکا بج رہا ہے۔ وہ نہ صرف سیاست بلکہ صنعتکاری میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ شیخوپورہ میں ایک پیپرز ملز کے شیئر ہولڈر اور علاقہ میں اچھی شہرت کے حامل سیاستدان ہیں۔ عرصہ سے نوانی گروپ کے ساتھ سیاسی تعلق قائم رکھا ہوا ہے۔ ڈیرہ داری اور کام کی بدولت اپنی یونین کونسل کو مخالفین کے لیے ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔

یونین کونسل ماہنی خالصتاً بھل کا علاقہ ہے۔ مٹی کے ٹیلے اور سرسبز وشاداب فصلیں یہاں کا حسن ہے۔ اونٹ کی افزائش و نسل کے فروغ کے لیے یہاں کیمل بریڈ فارم بنایا گیا ہے جہاں بختیاری اور عربی النسل اونٹ پائے جاتے ہیں۔ بختیاری اونٹ کی دو کوہان جبکہ عربی النسل روایتی ایک کوہان والا اونٹ ہوتا ہے۔ اس یونین کونسل میں ملک جاوید اکبر بھڈوال علاقہ کے ’’سیاسی والی‘‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اپنی ساری زندگی عوام اور علاقہ کی خدمت میں گزار دی۔ نوانی گروپ سے سیاست کا آغاز کیا، اور اب تک اپنی سیاسی مستقل مزاجی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
 

واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 62 Articles with 102263 views i like those who love humanity.. View More