کشمیر کب تک جلے گا ؟؟

1947ء میں جب بٹوارہ ہوا اور ہم نے لا الہ کی بنیاد پر نیا ملک حاصل کیا تو معاہدے کے مطابق کشمیر پاکستان کا حصہ قرار پایا ۔لیکن ہندوستان کی حکومت کو یہ بات ناگوار گزری کہ اتنا حسین خطہ پاکستان کے قبضے میں چلا جائے گا ۔نتیجتا کشمیر پر ناجائز قبضہ کر لیا گیا ۔کچھ عرصے بعد قبائلی مجاہدین نے کشمیریوں کے ساتھ مل کر آدھا علاقہ ہندوستان سے چھین لیا ۔یوں کشمیر دو ٹکڑے ہوگیا لوگ بکھر گئے خاندان جدا ہو گئے ۔لوگ اپنے پیاروں کو ملنے کے لیے اس لائن کے محتاج ہوگئے جو ان کے درمیان کھینچ دی گئی۔ اس طرف کشمیر میں تو لوگ سکھ سے رہنے لگے ۔مگر دوسرا حصہ ظلم و انتقام کی آگ میں جلنے لگا ۔روز گھروں کی تلاشی نوجوانوں کا انکاؤنٹر عورتوں کی عصمت دری معمول بن چکا ہے ۔کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب اس جنت جیسی وادی میں خون نہ بہے ۔کوئی ایسا گھر نہیں جہاں سے جنازہ نا نکلا ہو۔وہ پاکستان کے جھنڈے کو چومتے ہیں ۔ان کی بس ایک ہی آرزو ہے کہ اپنی زندگی میں خود کو پاکستان کا حصہ بنتے دیکھ لیں ۔کتنی آنکھیں اس انتظار میں بوڑھی ہوگئیں۔اور کئ خاک میں جا سوئیں۔ مگر کشمیر اب تک جل رہا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ ایسا آخر کب تک ؟؟بطور پاکستانی ہمارا کیا فرض ہے ۔کہنے کو تو ہم کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتے ہیں۔اور دوسری طرف ہم نے اسے دشمن کے ہاتھ میں دیا ہوا ہے ۔کیا صرف چند نظمیں پڑھنے یا 5 فروری پر کچھ صفحات لکھنے سے ہمارا فرض پورا ہو جاتا ہے ۔؟یا حکومتی سطح پر کمیٹی بنا کر اس کی خیر خبر نہ اٹھانے اور سال میں ایک بار چند رسمی جملے (جو ہم کئی سالوں سے بولتے آ رہے ہیں ) کہنے سے ہمارا حق ادا ہوجاتا ہے ۔حکمرانوں کی طرف دیکھیں تو بھارت کے خلاف نہیں بولتے کیونکہ یاری دوستی نبھانی ہے ۔عوام ہے تو انڈین فلموں اور گانوں کو زندگی سمجھتی ہے ۔کیا اس کے بعد ہم اس قابل ہیں کشمیر پاکستان کا حصہ بننے کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کریں ۔یقینا کشمیریوں کا خون ہم پر قرض ہے ۔ جس کا ہم سب سے حساب ہونا ہے ۔2016ء میں برہان وانی کی شہادت نے کشمیر کی تحریک آزادی کو ایک نیا موڑ بخشا ۔تحریک آزادی اپنے عروج پر پہنچ گئی ۔پوری دنیا میں بھارت کے ظالمانہ فعل کی مذمت کی گئی ۔لیکن کیا ہمارا حق صرف مذمت کا ہے ؟کیا عملی اقدام اٹھانا ہمارے فرائض میں شامل نہیں ۔کیا پاکستان سمیت عالمی برادری اتنی بے بس ہے کہ بھارت پر پابندی نہیں لگا سکتی ۔یا پھر سب کو اپنے مفادات عزیز ہیں ۔اور لاکھوں جانوں کی بالکل پرواہ نہیں ۔کشمیر اس وقت ایک کھلی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ہمہ وقت فوجی ان کے سروں پر مسلط ہیں ۔پیلٹ گنوں کے استعمال نے انہیں اندھا کر دیا ہے ۔کہاں ہیں انسانی علم بردارتنظیمیں اور کہاں ہے نام نہاد اقوام متحدہ ۔او آئی سی کہنے کو تو مسلمانوں کی مشکلات کا حل ڈھونڈتی ہے ۔لیکن مذمتی بیان کے علاوہ عملی اقدامات کب کیے گئے ہیں ۔
یقینا یہ کشمیریوں کی پاکستان سے محبت ہی ہے جس کی خاطر وہ اب تک گولیاں کھا رہے ہیں ۔ورنہ ہم پاکستانیوں سمیت پوری دنیا بالخصوص مسلم ممالک اپنی عیاشیوں اور بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے میں لگے ہیں ۔شہیدوں کا لہو پکارتا ہے کہ آخر کب تک کشمیر جلے گا کب تک زمین نوجوانوں کو اپنے اندر جگہ دیتی رہے گی ۔کیا کسی ماں نے محمد بن قاسم نہیں جنا ؟کیا کوئی صلاح الدین ایوبی نہیں پیدا ہوا ؟؟
 

حسن المآب
About the Author: حسن المآب Read More Articles by حسن المآب: 6 Articles with 11317 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.