آوطنِ عزیز پاکستان ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کے نشانے
پر ہے۔ خصوصی طور پر بلوچستان کے ان علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن کی
اسٹرٹیجک اہمیت بہت زیادہ ہے۔ پاک فوج کے جوان اپنی قربانیوں کی نئی داستان
رقم کر رہے ہیں او ر پاک سرزمین کو دشمن کے ناپاک عزائم سے بچانے کے لیے
اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ وطنِ عزیز کو امن اور روشنی
سے دہشت گردی کے اندھیرے میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلوچستان میں
آنے والی دہشت گردی کی حالیہ لہر نے تمام محبِ وطن حلقوں کو چونکا کر رکھ
دیا ہے۔ حالیہ حادثے سے چند روز قبل بلوچستان کے علاقے کیچ میں 25اور
26جنوری کی درمیانی شب شدت پسندوں کے حملوں میں دس فوجی شہادت کے منصب پر
فائز ہوئے تھے۔ دہشت گردی کی اِس لہر کے پس منظر میں جہاں بلوچ دہشت پسند
تنظیموں کا ہاتھ ہے وہاں پر بھارت اور افغانستان کے منفی کردار کو بھی نظر
انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ افغانستان
کو آج اسی طرح لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے جس طرح سوویت یونین کے انخلا کے بعد
چھوڑا گیا تھا۔ افغانستان میں امریکی قیام کے دوران بھارت کے بچھائے ہوئے
جال کو پاکستانی اداروں نے ناکارہ بنا دیا۔ اور اس کے وہ تمام خواب خاک میں
مل گئے جو اس نے افغانستان سے وابستہ کر رکھے تھے لیکن بدقسمتی سے عالمی
دنیا نے افغانستان کے ان مسائل کا ادراک نہ کیا جو افغانستان کو درپیش تھے۔
مدد کرنے کے بجائے افغان حکومت کو دنیا میں تنہا کر دیا گیا۔ بیرونی بینکوں
میں ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے۔ بھوک اور وحشت کا وہ رقص شروع ہوا جس نے
انسانیت کو شرما کر رکھ دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی بساط کے مطابق
دنیا کو اس طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے
بھی متعدد مرتبہ اس خدشے کا اظہار کیا کہ افغانستان میں ایک انسانی المیہ
جنم لے سکتا ہے لیکن ان صداؤں پر کان نہ دھرا گیا اور آج نتیجہ یہ ہے کہ
پورا افغانستان بھوک، افلاس اور شدید سردی کا شکار ہے۔ افغان عوام مختلف
راستوں سے چھپ کر پاکستان پہنچتے ہیں تو یہاں بھی ان کے لیے کوئی ایسا
روزگار میسر نہیں جس سے وہ اپنی زندگی کی ڈور بحال رکھ سکیں۔ بےسرو سامانی
کے عالم میں یہ سارے لوگ ملک دشمنوں کے آلہ کار بننے میں آسانی محسوس کر
رہے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق اِن میں سے بیشتر نے بھارت جیسے دشمن کے
ہاتھوں استعمال ہونا شروع کر دیا ہے۔ بھارت اس وقت ایک زخمی سانپ کی مانند
ہے جس پر پاکستان نے کاری ضرب لگائی تھی۔ اس سے کسی بھی قسم کی رذالت کی
توقع کی جاسکتی ہے۔ آج کچھ تجزیہ نگار یہ فرمان جاری کرتے ہیں کہ ارب ہا
روپے خرچ کرکے جو خاردار باڑ لگائی گئی تھی، اس کے باوجود دہشت گرد پاکستان
میں کیسے داخل ہو رہے ہیں؟ شاید وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ پاکستان سے کئی
گناہ زیادہ طاقتور ملک امریکہ نے میکسیکو کے بارڈر پر تہ در تہ باڑ لگائی
تھی اور اس میں برقی رو بھی دوڑائی گئی لیکن اس کے باوجود امریکہ میں داخل
ہونے کا سلسلہ نہ روکا جا سکا۔ پاکستان نے بلاشبہ باڑ لگا کر ایک حیران کن
کارنامہ سرانجام دیا لیکن اس سے دہشت گردوں کا داخلہ مکمل طور پر بند نہیں
ہوسکتا۔ اس کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
دہشت گردوں نے اس مرتبہ اپنے حملے کے لیے دو شہروں کا انتخاب کیا، ان میں
سے ایک شہر نوشکی ہے جو کوئٹہ سے تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع
ہے اور ضلع نوشکی کی سرحد شمال میں افغانستان سے لگتی ہے۔ اس لیے یہ امکان
نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ نوشکی حملہ میں افغانستان میں بیٹھے ہوئے
بھارتی دہشت گرد ملوث ہو سکتے ہیں۔ دوسرا حملہ پنجگور میں کیا گیا جو صوبہ
بلوچستان کے جنوبی حصے میں واقع ہے، یہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے قریب
500کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جب کہ ایران کے ساتھ اس کی سرحد سو کلومیٹر سے
بھی کم فاصلے پر موجود ہے۔ یہاں پر بھی جو اسلحہ استعمال کیا گیا وہ
غیرمعمولی طور پر جدید ترین تھا۔ ان دونوں حملوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے
کہ دہشت گرد پہلے کے مقابلے میں زیادہ مسلح اور نسبتاً زیادہ تربیت یافتہ
ہیں۔ وزارتِ داخلہ کے ذرائع کے مطابق اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ ان
حملوں کے ہینڈلر افغانستان میں موجود تھے اور وہ بھارت سے رابطے میں بھی
تھے۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اس وقت بہت پیچیدہ دہشت
گردی کا شکار ہے۔ اندرونی اور بیرونی دشمن پے در پے حملے کر رہے ہیں اور
پاکستان کے جسم کو زخمی کر رہے ہیں۔ اِس غیرمعمولی صورتحال سے نمٹنے کے لیے
غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے یہاں سول سوسائٹی کے روپ میں
کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جن کے انسانی حقوق صرف اس وقت بیدار ہوتے جب ملک
دشمنوں پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے۔ ان کی گرفتاری کو جبری گمشدگیوں کا نام دیا
جاتا ہے۔ کیا کیچ میں شہادت کا مرتبہ پانے والے دس فوجی جوان بھی کوئی
انسانی حقوق رکھتے ہیں؟ پاکستان کے طول و عرض میں ستر ہزار لوگ جو دہشت
گردوں کے دھماکوں اور گولیوں کا نشانہ بنے، ان کے انسانی حقوق کہاں ہیں؟
کیا ہم یہ سمجھیں کہ انسانی حقوق صرف جرائم پیشہ لوگوں کے لیے ہیں۔
پاکستانی عوام جو اس وقت بدترین مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں انہیں روزگار
کے چکر میں ایسا الجھا دیا گیا ہے کہ انہیں اِن سنگین حالات پر غور کرنے کی
فرصت تک نہیں، اب ہمارے ریاستی اداروں کو اس خاموش اکثریت کے حقوق کا سوچنا
ہوگا۔ بلوچستان میں مخصوص سیاسی حالات کو حقائق کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا۔
ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ بلوچستان کے متعلق مجرمانہ غفلت برتی ہے
جس کی وجہ سے علاقائی اور لسانی گروہ طاقت پکڑ چکے ہیں۔ بلوچستان کی سیاسی
اشرافیہ کو اپنے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
جملہ قیادت ایک پیج پر ہوگی تو امن کی بہار آئے گی۔ قائداعظم محمد علی
جناح کا میزبان صوبہ امن کی راہ دیکھ رہا ہے۔ بارود کی بو کو امن کی خوشبو
میں بدلنے کا منتظر ہے۔
|