وطن عزیز میں امسال 73؍ واں یوم جمہوریہ بڑے تزک احتشام
سے منایا گیا یعنی دستور ہند کے نفاذ کو سات دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر
گیا۔ برطانوی سامراج کے آخری مرحلے میں برطانوی صوبوں اور نوابی ریاستوں سے
براہ راست منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی نے
دسمبر 1946ء میں اپنا کام شروع کیا۔صدر مملکت رام ناتھ کووند نے امسال یوم
جمہوریہ کے موقع پر قوم کو یاد دلایا کہ ،’’ہندستان کاآئین 26 نومبر 1949
کو قانون ساز اسمبلی کے ذریعہ منظور کیا گیا تھا جسے اب ہم ’یوم آئین‘ کے
طور پر مناتے ہیں، البتہ اسے دو ماہ بعد اسے 1930 کے اس (یادگار) دن کا
موقع دیکھ کرنافذ کیا گیا کہ جب ہندوستان(عوام ) نے مکمل آزادی حاصل کرنے
کا عزم کیا تھا۔ 1930 سے 1947 تک، ہر سال 26 جنوری کو ’مکمل آزادی کا دن ‘
کےطور پر منایا جاتا تھا اور یہ اسی دن کا انتخاب آئین کے نفاذکی خاطر کیا
گیا تھا‘‘۔
صدر جمہوریہ گوکہ ملک کے اولین شہری ہیں اس کے باوجود وہ اپنی ایک مجبوری
کے سبب 26؍ جنوری کی تاریخ میں تفصیل سے نہیں جاسکے۔ جناب رام ناتھ کووند
اگر ایسا کرتے تو سرکار دربار کی ناراضی کا خطرہ مول لیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ
سن 1929 میں پنڈت جواہر لال نہرو کی صدارت میں کانگریس پارٹی کا لاہور میں
ایک اجلاس ہوا۔ اس کے اندر مکمل آزادی کے حصول کا عہد کرنے کے بعد انگریز
سامراج سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ 26 جنوری 1930 تک ہندوستان کو مکمل طور پر
آزاد کردے۔ اس طرح اس دن سےیومِ مکمل آزادی کا اہتمام شروع ہوگیا جو اگلے
17 سالوں تک جاری رہا اور بعد میں اسے ’یوم جمہوریہ ‘ کا نام دے دیا گیا ۔
موجودہ انتخابی ماحول میں چونکہ پنڈت نہرو اور لاہور کا نام لینا حزب
اقتدار کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے اس لیے صدر جمہوریہ نے تجاہل عارفانہ سے
کام لیا۔
صدر جمہوریہ نے امسال اپنی تقریر میں کہا کہ ،’’ قومی تعمیر ہمارے لئے ایک
مستقل کوشش ہے۔ جیسا کہ ایک خاندان میں ، اسی طرح ایک قوم میں؛ ایک نسل ،
اگلی نسل کے بہتر مستقبل کو یقینی بنانے کے لئے سخت محنت کرتی ہے۔ جب ہم نے
آزادی حاصل کی تھی تو نوآبادیاتی نظام کے استحصال نے ہمیں قطعی غربت سے
دوچار کیا تھا، لیکن ہم نے ان 75 سالوں میں متاثر کن ترقی کی ہے۔ نئے نئے
مواقع آنے والی نسل کے منتظر ہیں۔ ہمارے نوجوانوں نے ان مواقعوں سے فائدہ
اٹھایا ہے اور کامیابی کے نئےمعیار قائم کئے ہیں‘‘۔ ان کا یہ دعویٰ آزاد
معیشت کے اپنانے سے پہلے والی صورتحال کے تو مطابق تھا لیکن جب سے ملک اس
نئے راستے پر گامزن ہوا ہے ترقی کی سمت بدل گئی ہے۔ اب پھر ایک بار ملک کے
غریب عوام کو دن بہ دن غربت کے اندھیرے غار میں ڈھکیلا جارہا ہے ۔ اس کے
برعکس ایسٹ انڈیا کمپنی کی مانند ملک کے مٹھی بھرسرمایہ دار عوام کو لوٹ
رہے ہیں اور برطانوی سامراج کی طرح ان سے سانٹھ گانٹھ کرکے موجودہ سرکار
عیش کررہی ہے۔
2013؍ میں وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے بہت سارے نعرے ایجاد کیے مگر چائے پر
چرچا نے ان کی قسمت بدل دی ۔ سماجوادی پارٹی کے ایک مغرور رہنما نے وزارت
عظمیٰ کے امیدوار کی تضحیک کرتے ہوئے کہا تھا کہ:’’نریندر مودی وزیر اعظم
بننا چاہتے ہیں۔ ایک چائے کی دوکان سے آنے والا قومی نقطۂ نظر کا حامل
نہیں ہوسکتا۔ مثلاً ایک سپاہی کو اگر کپتان بنا دیا جائے تو وہ کپتان کا
نہیں بلکہ سپاہی کی نظر رکھے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بھیڑ تو مداری
بھی جمع کرلیتا ہے‘‘۔نریندر مودی نے اس بیان کو خوب بھنایا اور وزیر اعظم
بن گئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اقتدار میں بیٹھے ہو ئےلوگ غربت کے بارے میں
نہیں جانتے مگر وہ چونکہ ایک غریب خاندان میں پیدا ہوے، غربت میں زندگی
گزاری اس لیے انہیں پتہ ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ ’’ میں نے ریلوے اسٹیشن اور
ریل گاڑی میں چائے بیچی ہے اور چائے بیچنے والے ریلوے کے بارے میں وزیر سے
زیادہ جانتے ہیں‘‘ ۔ اس طرح کی جذباتی بیان سے ملک کے غریب لوگ فریب
کھاگئے۔ ان کومودی میں اپنا نجات دہندہ نظر آیا۔ انہیں یقین ہوگیا کہ اب
’اچھے دن ‘ آنے ہی والے ہیں لیکن مودی کو اقتدار سنبھالے ساڑھے سات سال کا
عرصہ گزر چکاہے ۔ اس عرصے میں وہ خواب ٹوٹ پھوٹ کر بکھرچکا ہے۔
پچھلے دنوں عالمی سطح پر معاشی عدم مساوات سے متعلق 2021 کی رپورٹ شائع
ہوئی ۔ اس کے مطابق ہندوستان کےامیر لوگوں کے ہاتھوں میں بہت زیادہ دولت
جمع ہوگئی ہے اور اس دوڑ میں غریب طبقہ پچھڑتا چلا جا رہا ہے۔ غریبوں اور
امیروں کے درمیان کی کھائی وسیع تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ عدم مساوات سے متعلق
عالمی ادارے 'ورلڈ ان ایکوالٹی لیب' کے مطابق ہندوستان کی 57 فیصد قومی
دولت پر صرف دس فیصد امیر ترین شہریوں کا قبضہ میں ہے جبکہ ملک کی پچاس
فیصد آبادی مجموعی دولت کے 13فیصد پر ہی گزارا کرنے پر مجبور ہے۔ اوسط
آمدنی والا طبقہ جس کی دولت تقریبا آٹھ لاکھ روپئے ہے کے پاس کل قومی
آمدنی کا 29.5 فیصد حصہ ہی ہے۔ کوویڈ وبا کے دوران امیر ترین شہریوں کی
دولت میں تاریخی اضافہ اور غریب طبقے کی حالت سنگین تر ہوگئی ہے۔ سرکاری
ادارے 'نتی آیوگ' کے مطابق ہندوستان کے ہر چار میں سے ایک فرد کسی نہ کسی
سطح پر غربت کا شکار ہے۔ اترپردیش میں فی الحال خوشحالی کا بڑا شور ہے مگر
خود سرکار یہ تسلیم کرتی ہے کہ وہاں چالیس فیصد سے زیادہ افراد غربت زدہ
ہیں۔
معروف عالمی ادارہ آکسفیم کے مطابق ملک کے اندر غربت میں اس قدر اضافہ ہوا
کہ ہندوستان سب سہارا افریقہ کی صف میں آگیا ہے۔ 2020 میں غریبوں کی تعداد
دو گنا ہوکر 13کروڑ 40 لاکھ ہوگئی۔ آکسفیم نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اس
دوران خودکشی کرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد نجی کاروبار کرنے والے اور
بے روزگار افراد کی تھی۔اس رپورٹ سے معلوم ہوا کہ کورونا کی وباء کے دوران
بار بار ٹیلی ویژن پر آکر پروچن دینے والے وزیر اعظم نے سن 2020-21 کے
ہیلتھ بجٹ میں مجموعی طورپر 10فیصد کی کمی کردی ۔ ایسے میں عوام کا آکسیجن
کی خاطر در بدر ٹھوکر کھانا کون سی حیرت کی بات ہے؟ اور لاشوں کے گنگا میں
تیرنے پر تعجب کیا معنیٰ؟آکسفیم کے سربراہ امیتابھ بیہر نے حکومت ہند سے
ایک ایسے اقتصادی نظام پر عمل پیرا ہونے کی اپیل کی کہ جو مبنی بر مساوات
پائیداری کو فروغ دےتاکہ ایک جمہوری نظام پر قائم ہو۔ اس میں دولت کی ہر
سطح پر تقسیم اور شمولیتی ترقی کی صلاحیت ہو تاکہ کوئی پچھڑنے نہ پائے۔
انہوں نےلفظی بیانات پر اکتفاء کرنے کے بجائے عدم مساوات اور غربت کا خاتمہ
کرنے والے ٹھوس اقدامات کرنے پر زور دیا لیکن چونکہ یہ نہیں ہوتا اس لیے 84
فیصد گھروں کی آمدنی گھٹ جاتی ہے اور ارب پتیوں کی تعداد 102 سے بڑھ کر
142 ہوجاتی ہے۔
معاشی برابری کے سماجی انصاف ایک صحتمند سماج کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس بابت
یوم جمہوریہ کے پہلےکی رات میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ
۔’’ ہندوستان ایک قدیم تہذیب ہے ، البتہ ایک نوجوان جمہوریہ ہے‘‘۔ صدر
جمہوریہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس قدیم تہذیب میں جو نسلی تفاوت پایا جاتا
تھا وہ اب بھی موجود ہے بلکہ سرکار کی سرپرستی میں پھل پھول رہا ہے اور
دلتوں کی نئی نسل اس کا شکار ہے۔ اس ظلم کی چکی میں پسنے والے دلتوں نے جب
اپنے آپ کو صدیوں پرانی غلامی سے آزاد کرنے کی خاطر میناکشی پورم میں
اسلام قبول کیا تو سارے ملک میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔ میناکشی پورم نامی گاوں
کا مشرف بہ اسلام ہوجانا ذات پات کے نظام کی خاطر ایک خطرے کی گھنٹی تھا ۔
ذرائع ابلاغ میں اس کو پٹرو ڈالر سے جوڑ کر دیکھا جارہا تھا ۔ لالچ کی
بنیاد مذہب کی تبدیلی ہواّ کھرا کرنے کی مذموم کوشش ہورہی تھی۔ اس وقت
حقائق کا پتہ لگانے کی خاطر سرکاری افسران کے ایک وفدکو میناکشی پورم بھیجا
گیا۔ اس وفد میں اتفاق سے معروف دلت دانشور اور ڈرامہ نویس پروفیسر رام
ناتھ نام دیو چوہان بھی شامل تھے۔
ڈاکٹر رفیق پارنیرکر کو ایک ملاقات میں پروفیسر چوہان نے اپنا چشم دید
واقعہ سنایا۔ موصوف کے مطابق جب وہ لوگ میناکشی پورم پہنچے تو وفد کے اعلیٰ
افسر گاڑی کو چائے کی دوکان پر روک وہیں سے اپنی تفتیش شروع کردی ۔ وہ افسر
چائے کی دوکان کے مالک پر برس پڑا اور سوالات کی بوچھار کردی ۔ آخر میں اس
نے پوچھا کہ آخر تم لوگوں کو اسلام قبول کرنے کےنتیجے میں کیا ملا؟ چائے
والے نے کہا صاحب پہلے چائے پیجیے پھر بتاتا ہوں۔ اس کے بعدجب سب چائے پی
چکے تو وہ بولا جب تک میں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا آپ جیسا کوئی افسر
میری دوکان پر رک چائے نہیں پیتا تھا ۔ کیوں کہ میں اچھوت تھا لیکن آج آپ
نے چائے پی ۔اسلام قبول کرنے سے تبدیلی واقع ہوگئی ہے۔ اس جواب سے متاثر
ہوکر پروفیسررام ناتھ چوہان نے ساکشی پورم نام کا ڈرامہ لکھا اور اس کے
ذریعہ یہ شہادت پیش کردی۔ پونہ کا قدامت پسند سنگھ پریوار اس کو برداشت
نہیں کرسکا اور اسے رکوا دیا گیا ۔ وطن عزیز میں اس نسلی امتیاز و تفریق کا
واحد حل اسلام ہی ہے بشرطیکہ لوگ اس کو مانیں ورنہ یوم جمہوریہ آتا جاتا
رہے گا لیکن یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|