آج کا زمانہ سائنس اور روشن خیالی کا دور کہلاتاہے۔ اسی
لیے جب ہم دین کی باتیں کرتے ہیں تو ذرا سا پڑھے لکھے لوگ فوراً کہہ دیتے
ہیں کہ ارے یہ تو دقیانوسی باتیں ہیں ، بے سرو پا کی باتیں ہیں ، آج سائنس
کہاں سے کہاں پہونچ گئی اور آپ لو گ یہیں پر اٹکے ہوئے ہیں ۔ اگر دین ایسا
کہتا ہے تو ذرا اس کے سائنٹفک وجوہات بھی بیان کریں۔
ایسے روشن خیال لوگوں نے بہت سے لوگوں کو دین سے متنفر کردیاہے اور ان کے
نزدیک دین بس متوسط طبقہ کے لیے ہی نجات دہندہ ہے۔اب چوںکہ اس کائنات ہستی
میںہر انسان کسی نہ کسی مذہب کا پیروکار ہے ،سو ایسے روشن خیال اور فرسودہ
عقائد کے لوگوں کو بھی دین کا سہارالینا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے آسانی کے لیے
وہ اسی دین یا مذہب کی پیروی میں آجاتے ہیں جس میں گھر کے بڑے بزرگ ہوتے
ہیں ۔
یہ جو ہر دینی مسئلہ کا سائنسی حل تلاش کرنے کا چلن ہوگیا ہے ۔ یہ اچھا بھی
ہے اور برا بھی ۔اچھا اس عنوان سے کہ وہ دین کی کورانہ تقلید نہیں کرتے کچھ
سمجھ بوجھ کے آگے بڑھنا چاہتے اوردین و دنیا کو ساتھ میں لے کر چلنا چاہتے
ہیں۔ برائی یہ کہ اس گرداب میں بعض لوگ اتنی دور تک نکل جاتے ہیں انہیں
سچائی نظر تک نہیں آئی۔ ان کی نظر میں دین ،ثانوی حیثیت کاحامل ہوجاتا ہے
جبکہ سائنس پہلا درجہ حاصل کرلیتی ہے ۔ یعنی دین، بنیاد نہیں بلکہ سائنس
بنیاد ہوجاتی ہے ۔
ایسے نظریات جنم لینے کے بہت سے وجوہات ہیں ۔ایک عام سادہ سی وجہ جسے بہت
زیادہ تکرار کیا جاتا ہے ،وہ یہ کہ علمائے دین نے علم سائنس کی غلط تفسیر
کی ہے ۔ چوں کہ قدیم زمانہ میں ایسے کئی معاملا ت پیش آچکے ہیں جہاں پہلے
ٹیکنالوجی کو حرام کہا گیا بعد میں وہی حلال ہوگئی ۔ جیسے اوائل ٹیکنالوجی
میں لاؤڈ اسپیکر حرام تھا اور اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ بغیر لاؤڈ اسپیکر
کے کام نہیں چلتا۔کسی زمانہ میں ٹیلی ویژن حرام ہو اکرتا تھااور آج گھر
گھر یہاں تک کہ مذہبی مقامات پر بھی ٹیلی ویژن کا استعمال عام ہوگیا ہے۔
علم سائنس بذات خود صد فی صد سچ اور حقیقت پر مبنی نہیں۔ اس میں روز بروز
تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیںاورحقیقت بدلتی رہتی ہے جبکہ دین اسلام ہزار
برسوں پہلے ہی کامل ہوچکا ہےاور اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہونے والی۔
قدیم سائنس دانوں کا نظریہ تھا کہ سورج ، زمین کے گرد گردش کرتا ہے اور
بظاہر زمین ساکت ہے لیکن صدیوں بعد اس نظریہ کی تردید کری گئی ۔ سب سے پہلے
اس نظریہ کی تردید کرنے والا سائنس داں پولینڈ کا ماہر فلکیات نیکولس کوپر
نیکس ہے ۔ اس نے اپنی کتاب (On the revolutions celestial spheres) میں
تحریر کیا کہ آسمان میں جو بھی حرکت نظرآتی ہے وہ آسمان کے حرکت کے سبب
نہیں ہے بلکہ زمین کے گردش کی وجہ سے ہے ۔ سورج کی بھی حرکت جس کا ہم
مشاہدہ کرتے ہیں وہ بھی سورج کی اپنی حرکت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ زمین کی
حرکت کی وجہ سے ہے ۔ اس طرح سائنس کے بہت سے نظریات تبدیل ہوئے ۔ پہلے کچھ
اور تھے اور بعد میں اس کی تصحیح کی گئی ۔ پہلے ہم بندر کی اولاد تھے لیکن
بعد میں حضرت آدم کی اولاد ثابت ہوئے ۔
یہ تمام اشتباہات دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنا کہ سائنس بے مصرف ہے ،بہت بڑی
غلطی ہے بلکہ علم سائنس ضروریات زندگی ہے ۔ نظریات قائم کرنا ، اس پر تنقید
کرنا، ریسرچ کرنا پھر قدیمی نظریہ کو جدید اور اپڈیٹیڈ لباس پہنا نا ،
متحرک قوم کی نشانی ہے ۔ اسلام نے بھی بارہا تحقیق، ریسرچ، تنقید اور سوال
قائم کرنے کی جانب متوجہ کرایا ہے ۔ بلکہ اسلام نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ
اگر ریسرچ میں غلطی بھی ہوگئی تو اس کی کوئی سزا نہیں ۔ ایک پوائنٹ پھر بھی
ملے گا۔اس دورہ تحقیق کو فقہی اصطلاح میں ’اجتہاد ‘کہاجاتا ہے ۔ آج کل
اجتہاد کے دروازہ بہت کم کھلتا ہے ۔ کبھی کبھار۔کوئی سوالی ہی نہیں ،سوالی
آتا بھی تو بے چارہ یاس و یسرت لیے واپس جاتا ہے ۔کیوں کہ کہیں نہ کہیں
ہمارے اندر اتنی شدت پسندی آگئی ہے کہ ہم سوال کرنےاور تنقید کرنے کو
علماکی توہین سمجھتے ہیں۔
آج کا جو زمانہ ہے کہ وہ درحقیقت سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے ۔ اگرہم سائنس
کا بغور مطالعہ کریں گے تو دین اسلام کو آفاقی مذہب ثابت کرنے میں مدد ملے
گی۔ بفرض، اگر یہی صورت حال ، رسول اسلام کے زمانہ میں ہوتی تو آپ کا
معجزہ علم سائنس ہوتا اور آپ اسی سائنس کے ذریعہ ،دین الٰہی کی حقانیت کو
ثابت کرتے ۔
ہررسول کو ان کے زمانہ میں غالب فن کے مطابق معجزہ دیا گیا ہے۔ مثال کے طور
پر رسول اسلام ﷺ کے زمانہ میں عرب کے لیے اعلیٰ ترین فخر عربی زبان کی
فصاحت و بلاغت تھی ، سو اللہ نے انہی کی زبان میں قرآن مجید کی شکل ایسا
فصیح و بلیغ کلام پیش کیا جس کے سامنے پورا عرب سجدہ ریز ہوگیا ۔صدیاں
گزرگئیں ،ایک آیت کا جواب نہ پیش کیا جاسکا۔
ہمارے اپنے نظریہ کے مطابق،دین مرکزی حیثیت رکھتا ہے ، چوں کہ اس میں
تبدیلی نہیں ۔سائنس ثانوی اورفی الوقت اسلام کے آفاقی اصول کو ثابت کرنے
کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ اس لیے پہلے دین پھر سائنس ۔ نہ دین بیزاری ، نہ
سائنس بیزاری۔اپنی اپنی جگہ دونوں کی عظمت ثابت ہے ۔
|