انسانی دماغ کا ارتقاء

شروع کرتے ہیں اپنے خالق کے نام سے کہ جسنے نا صرف ہمیں بولنا سکھایا بلکہ لکھنا بھی سکھایا.
جانور تو بے زبان ہوتے ہیں جبکہ ہمارے پاس زبانیں ہیں جنکی مدد سے ہم ناصرف آپس میں بات چیت کرتے ہیں بلکہ سوچنے اور سمجھنے کے لیے بھی اسی کو استعمال کرتے ہیں۔
اگر ایک مفروضے کے تخت ایک انسان کو بچن سے ہی بندروں کے ساتھ چھوڑ دیا جائے تو اس بچے کا انجام کیا ہوگا؟
کیا وہ کوئی زبان خود سے کوئی زبان تخلیق کر پائے گا؟
وہ بڑا ہوکر ایک بندر بنے گا یا انسان؟
ایک ایسا انسان جو کسی انسانی معاشرے سے دور کردیا جائے تو وہ کبھی بھی انسان نہیں بن پائے گا اور نا ہی انسانوں کی طرح سوچنے کی صلاحیت حاصل کر پائے گا۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ انسان کا ارتقا دیگر حیوانوں کی طرح محض حیاتیاتی یعنی بایولاجیکل نہیں ہے بلکہ آغاز سے اب تک یہ سو فیصد لوجیکل ہے، اور یہ لاجکس ہی اسمیں بایولوجیکل تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہیں۔
اور اس لاجک کا آغاز ہوتا ہے اس پہلے لفظ سے جو دنیا کے پہلے انسان نے اپنی عقل سے ایجاد کیا تھا جسکے بعد اسنے اتنے الفاظ ایجاد کردیے وہ ایک زبان بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
اور اس ایک زبان کی مدد سے لاتعداد زبانیں بنتی چلی گئیں اور انسان انہی زبانوں کی مدد سے علوم تلاش کرتا چلا جارہا ہے۔
ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور اسی لیے ساری دنیا اس بات سے اتفاق بھی کرتی ہے۔
یعنی انسان کی ہر ایجاد کے پیچھے کوئی نا کوئی ضرورت، مقصد، آئیڈیا یا مجبوری ضرور ہوتی ہے۔
انسانی دماغ کے ارتقا کا سفر اسی ایک خیال یا آئیڈیے سے ہوتا ہے جو اس پہلے لفظ کے پیچھے چھپا ہے۔
اس ایک خیال تک پہنچنے کے لیے یہ ایک طویل لاجیکل کہانی کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے جسکا آغاز اسی ایک خیال کی تلاش سے شروع ہوگا۔
کہانی کے پہلے حصے کا نام ہے پروجیکٹ آدم یہ حصہ اس انسان سے شروع ہوگا جسنے اس زمین پر پہلی بار زبان سازی کا آغاز کیا، اور ہماری اس کہانی کے مطابق اس انسان کا نام آدم تھا، اور زمین پر یہی وہ پہلا جاندار تھا جسنے با قائیدا زبان سازی کا آغاز کیا ورنہ اس سے قبل اس زمین پر سارے جاندار صرف اپنے احساسات سے ملنے والی معلومات کی اندھی تقلید میں لگے ہوئے تھے، جیسے آج بھی لگے ہوئے ہیں یعنی زمین پر پھیلے لاتعداد بے زبان چرند پرند اسکی ایک مثال ہیں کہ جو فقط فطرت سے ملنے والے احساسات کے پیچھے بھاگتے دوڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
تو چلیں پہلے اس انسان کو عقل کی مدد سے تلاش کرتے ہیں اور اس تلاش کے نتیجے میں ملنے والے پہلے انسان پر ایک کہانی تشکیل دیں گے۔
ناظرین دنیا میں بے شمار زبانیں بولی، سمجھی اور لکھی جاتی ہیں لیکن یہ سب کی سب انسانوں نے خود بنائی ہیں۔
اور زبان سازی کے ارتقائی سفر کا جائزہ لیتے ہوئے اگر ہم پیچھے کی طرف جائیں تو واضع نظر آئے گا کہ ہر زبان پہلے سے موجود کسی زبان کی مدد سے انسانوں نے خود بنائی ہوگی۔
اور اسی طرح اسی سوچ کے تسلسل کو جاری رکھا جائے تو ہم یہ بات اب یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام زبانیں جاکر کسی ایک زبان پر ختم ہو جائیں گی۔
یعنی کوئی ایک زبان تھی جسکی مدد سے انسان نسل در نسل زبانیں بناتا چلا آرہا ہے۔
اور اسی طرح اگر اس پہلی زبان کے ارتقائی سفر کا جائزہ لیتے ہوئے ہم مزید پیچھے جائیں تو ہماری عقل ایک لفظ پر جا کر رک جائے گی یعنی اس زبان کا آغاز ایک لفظ سے ہوا تھا۔
ہماری کہانی کے اس حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانیت کا آغاز ایک لفظ سے ہوا تھا تو یہ ایک لفظ اس بات کا اشارہ ہے کہ ساری انسانیت کا آغاز کسی ایک انسان سے ہوا تھا جس کے دماغ میں کوئی ایسی چیز آگئی تھی جسکے بارے میں وہ کسی دوسرے کو بتانا چاہتا تھا لیکن بتا نہیں پارہا تھا اور مجبورن اسے الفاظ تخلیق کرنا پڑے۔
اور اسی ایک خیال کی مدد سے بننے والی زبان نے انسان کو ایک کے ایسے سفر پر روانہ کر دیا کہ جس میں اس نے اپنے ہی دماغ کے اندر چھپی بے شمار صلاحیتوں کو تلاش کر کر کے کام میں لانا شروع کردیا۔
جو عقل ہمیں چند جملوں کی مدد سے دنیا کے پہلے انسان اور انسان کی پہلی ایجاد تک پہنچا سکتی ہے تو وہی عقل ہمیں اس خیال تک کیوں نہیں پہنچائے گی جو اس پہلے لفظ کے پیچھے چھپا ہے جسکی وجہ سے آج ہم بولتے بھی ہیں تو با قائیدا ایک زبان کا استعمال کرکے اور سوچتے بھی ہیں تو وہ با قائیدا اسی زبان کا استعمال کرکے۔
شروع کرتے ہیں اپنے خالق کے نام سے کہ جسنے نا صرف ہمیں بولنا سکھایا بلکہ لکھنا بھی سکھایا.
جانور تو بے زبان ہوتے ہیں جبکہ ہمارے پاس زبانیں ہیں جنکی مدد سے ہم ناصرف آپس میں بات چیت کرتے ہیں بلکہ سوچنے اور سمجھنے کے لیے بھی اسی کو استعمال کرتے ہیں۔
اگر ایک مفروضے کے تخت ایک انسان کو بچن سے ہی بندروں کے ساتھ چھوڑ دیا جائے تو اس بچے کا انجام کیا ہوگا؟
کیا وہ کوئی زبان خود سے کوئی زبان تخلیق کر پائے گا؟
وہ بڑا ہوکر ایک بندر بنے گا یا انسان؟
ایک ایسا انسان جو کسی انسانی معاشرے سے دور کردیا جائے تو وہ کبھی بھی انسان نہیں بن پائے گا اور نا ہی انسانوں کی طرح سوچنے کی صلاحیت حاصل کر پائے گا۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ انسان کا ارتقا دیگر حیوانوں کی طرح محض حیاتیاتی یعنی بایولاجیکل نہیں ہے بلکہ آغاز سے اب تک یہ سو فیصد لوجیکل ہے، اور یہ لاجکس ہی اسمیں بایولوجیکل تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہیں۔
اور اس لاجک کا آغاز ہوتا ہے اس پہلے لفظ سے جو دنیا کے پہلے انسان نے اپنی عقل سے ایجاد کیا تھا جسکے بعد اسنے اتنے الفاظ ایجاد کردیے وہ ایک زبان بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
اور اس ایک زبان کی مدد سے لاتعداد زبانیں بنتی چلی گئیں اور انسان انہی زبانوں کی مدد سے علوم تلاش کرتا چلا جارہا ہے۔
ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور اسی لیے ساری دنیا اس بات سے اتفاق بھی کرتی ہے۔
یعنی انسان کی ہر ایجاد کے پیچھے کوئی نا کوئی ضرورت، مقصد، آئیڈیا یا مجبوری ضرور ہوتی ہے۔
انسانی دماغ کے ارتقا کا سفر اسی ایک خیال یا آئیڈیے سے ہوتا ہے جو اس پہلے لفظ کے پیچھے چھپا ہے۔
اس ایک خیال تک پہنچنے کے لیے یہ ایک طویل لاجیکل کہانی کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے جسکا آغاز اسی ایک خیال کی تلاش سے شروع ہوگا۔
کہانی کے پہلے حصے کا نام ہے پروجیکٹ آدم یہ حصہ اس انسان سے شروع ہوگا جسنے اس زمین پر پہلی بار زبان سازی کا آغاز کیا، اور ہماری اس کہانی کے مطابق اس انسان کا نام آدم تھا، اور زمین پر یہی وہ پہلا جاندار تھا جسنے با قائیدا زبان سازی کا آغاز کیا ورنہ اس سے قبل اس زمین پر سارے جاندار صرف اپنے احساسات سے ملنے والی معلومات کی اندھی تقلید میں لگے ہوئے تھے، جیسے آج بھی لگے ہوئے ہیں یعنی زمین پر پھیلے لاتعداد بے زبان چرند پرند اسکی ایک مثال ہیں کہ جو فقط فطرت سے ملنے والے احساسات کے پیچھے بھاگتے دوڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
تو چلیں پہلے اس انسان کو عقل کی مدد سے تلاش کرتے ہیں اور اس تلاش کے نتیجے میں ملنے والے پہلے انسان پر ایک کہانی تشکیل دیں گے۔
ناظرین دنیا میں بے شمار زبانیں بولی، سمجھی اور لکھی جاتی ہیں لیکن یہ سب کی سب انسانوں نے خود بنائی ہیں۔
اور زبان سازی کے ارتقائی سفر کا جائزہ لیتے ہوئے اگر ہم پیچھے کی طرف جائیں تو واضع نظر آئے گا کہ ہر زبان پہلے سے موجود کسی زبان کی مدد سے انسانوں نے خود بنائی ہوگی۔
اور اسی طرح اسی سوچ کے تسلسل کو جاری رکھا جائے تو ہم یہ بات اب یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام زبانیں جاکر کسی ایک زبان پر ختم ہو جائیں گی۔
یعنی کوئی ایک زبان تھی جسکی مدد سے انسان نسل در نسل زبانیں بناتا چلا آرہا ہے۔
اور اسی طرح اگر اس پہلی زبان کے ارتقائی سفر کا جائزہ لیتے ہوئے ہم مزید پیچھے جائیں تو ہماری عقل ایک لفظ پر جا کر رک جائے گی یعنی اس زبان کا آغاز ایک لفظ سے ہوا تھا۔
ہماری کہانی کے اس حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانیت کا آغاز ایک لفظ سے ہوا تھا تو یہ ایک لفظ اس بات کا اشارہ ہے کہ ساری انسانیت کا آغاز کسی ایک انسان سے ہوا تھا جس کے دماغ میں کوئی ایسی چیز آگئی تھی جسکے بارے میں وہ کسی دوسرے کو بتانا چاہتا تھا لیکن بتا نہیں پارہا تھا اور مجبورن اسے الفاظ تخلیق کرنا پڑے۔
اور اسی ایک خیال کی مدد سے بننے والی زبان نے انسان کو ایک کے ایسے سفر پر روانہ کر دیا کہ جس میں اس نے اپنے ہی دماغ کے اندر چھپی بے شمار صلاحیتوں کو تلاش کر کر کے کام میں لانا شروع کردیا۔
جو عقل ہمیں چند جملوں کی مدد سے دنیا کے پہلے انسان اور انسان کی پہلی ایجاد تک پہنچا سکتی ہے تو وہی عقل ہمیں اس خیال تک کیوں نہیں پہنچائے گی جو اس پہلے لفظ کے پیچھے چھپا ہے جسکی وجہ سے آج ہم بولتے بھی ہیں تو با قائیدا ایک زبان کا استعمال کرکے اور سوچتے بھی ہیں تو وہ با قائیدا اسی زبان کا استعمال کرکے۔
تو چلیے کہانی کا آغاز کرتے ہیں۔
ناظرین آج سے تکریبن 13 ارب 70 کروڑ سال پہلے جب کچھ بھی تخلیق نہیں ہوا تھا اور ہر طرف صرف توانائیاں ہی توانائیاں پھیلی ہوئی تھیں۔
ان توانائیوں کے پاس اتنا علم تھا کہ یہ ایک پوری کائنات تخلیق کرنے جا رہی تھیں۔
انہی توائیوں میں ایک خیال بھی شامل تھا جو کس شکل میں تھا ہم نہیں جانتے مگر تھا ضرور کیوں کہ وہ کائنات کے پہلے انسان کے اپنے دماغ کے اندر سے اس تک پہنچا تھا اور یہ خیال اتنا طاقت ور تھا کہ پوری کائنات کے علم کا دروازہ اسی ایک خیال سے کھلتا تھا۔
یعنی جو بھی اس ایک خیال تک پہنچے گا تو کائنات کا وہ تمام کا تمام علم جسکی کی مدد سے کائنات تخلیق کی جائے گی وہ اسے ملنا شروع ہو جائے گا۔
وہ عظیم خیال بھی انہی توانیوں میں ہی کہں گم ہو چکا تھا، لیکن اب لگتا یوں تھا کہ منصوبے پر عمل کا وقت آگیا تھا۔
کیوں کہ تمام توانائیاں اب اسی ایک عظیم خیال کے گرد یکجا ہو رہی تھیں۔
کیوں کہ یہ وہ واحد چیز تھی جسکے زریعے پوری کائنات کے علم کا راستہ کھلنا تھا۔
اور یوں لگتا تھا جیسےکوئی بہت بڑی فوج اکٹھی ہو رہی ہے اور کسی بہت بڑے محاز کی طرف پیش قدمی چل رہی ہے۔
کروڑوں اربوں توانائیاں اب ایک جگہ یکجا ہو چکی تھیں اور پوری آب و تاب کے ساتھ اس ایک خیال کے گرد گھوم رہی تھیں۔
اچانک وہ گولا ایک زور دار دھماکے کے نتیجے میں پھٹا اور وہ توانائیاں ایک جانب پھیلنا شروع ہو گئیں اور اپنے اپنے کام میں لگ گئیں یعنی کائنات سازی کا عمل شروع کر دیا اسی دوران وہ خیال بھی اپنا سفر طے کرتا ہوا آگے کی جانب بڑھتا رہا۔
اور اسی سفر کے دوران لاتعداد کہکشائیں وجوم میں آنا شروع ہوئیں،
انہیں کہکشائوں میں ایک کہکشاں کے اندر ایک سورج بھی وجود میں آیا جسکے مدار میں کئی دوسرے سیاروں کے ساتھ ایک زمین نام کا سیارہ بھی شامل تھا۔
زمین بھی اپنی ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی آگے کی جانب بڑھ رہی تھی اور اس طویل سفر کے دوران ناجانے کہاں سے پانی کے بڑے بڑے گلیشیرز برف کی شکل میں زمین پر آکر گرنا شروع ہو گئے۔
وہ گلیشیئرز اتنے زیادہ تھے کہ جب سورج کی روشنی ان کو پکھلانا شروع کیا تو یہ سمندروں میں تبدیل ہونے لگے۔
اور اسکے لاکھوں سالوں بعد زمین پر پہلا سورج گرہن ہوتا ہوا، یہ سورج گرہن زمین کے لاکھوں سالوں کے ارتقائی سفر کے بعد پہلا سورج گرہن تھا۔
سمندر کی تیہ میں موجود گارے کے اندر وہ مادے جو لاکھوں سالوں سے سورج کی روشنی کے تسلسل کے ساتھ آنے اور جانے کے اتنے عادی ہو چکے تھے کہ اس اچانک انکے اندر بھی ایک ہلچل سی پیدا ہوئی اور زندگی پیدا کرنے والے مادے سمٹ کر اسی ایک خیال کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئے۔
یہاں تک کہ ایک زندہ جرسومہ وجود میں آگیا جو حرکت کرنے کرنے لگا اور زندگی کے مزید اجزا کو اپنے اندر سمیٹتا چلا گیا اور مختلف قسم کے سمندری جانداروں کی شکل میں نمودار ہونا شروع ہو گیا۔
سورج گرہن اسی طرح جاری رہے لیکن لگتا یوں تھا کہ یہ سورج گرہن پانی میں موجود زندہ اجسام کو پانی سے نکلنے پر اکسا رہے ہیں۔
اور بالآخر پانی میں موجود کچھ جاندار باہر نکلنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔
خشکی میں آنے کے بعد اب یہ جاندار مزید شکلوں میں نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے۔
وہ خیال بھی انہی کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا اب ہر جاندار کے دماغ کے ہی کسی گوشے کے اندر موجود تھا۔
اسی طویل ارتقائی سفر کے دوران زمین پر ایک جنگل وجود میں آتا ہے۔
یہ جنگل تکریبن لاکھوں سالوں سے اسی طرح قائمو دائم تھا یعنی ایک طویل عرصے سے ہر قسم کی قدرتی آفات سے محفوظ تھا۔
جنگل کیا تھا بلکہ جانوروں کی پوری ایک ایمپائر بن چکی تھی جسمیں ہر قسم کے جانور بڑی تعداد میں موجود تھے۔
اس طویل عرصے میں یہ جنگل لاکھوں سالوں سے ہر قسم کی قدرتی آفات سے بچا ہوا تھا اور یہی وجہ تھی کہ یہاں جانوروں کا ارتقا ایک طویل عرصے سے تسلسل کے ساتھ جاری او ساری تھا۔
لاکھوں سالوں کے اس ارتقائی سفر میں اس جنگل میں زندگی اب لاتعداد رنگوں میں بکھر چکی تھی۔
اسی جنگل میں دوسرے جانوروں کی طرح ایک جاندار اور بھی تھا اور یہ بھی اسی جنگل میں ایک قبیلے کی شکل میں آباد تھا جیسے دوسرے جاندار آباد تھے۔
اس جاندار کا نام ہیم تھا اور ہیم کا یہ قبیلہ بھی اتنا ہی پرانا تھا جتنا پرانا یہ جنگل تھا۔
ایک طویل ارتقائی سفر کے سبب ہیم بھی کئی رنگوں میں موجود تھا یعنی لال گلابی رنگت سے لے کر سیاہ ترین رنگت والے ہیم اسی جنگل میں جگہ جگہ گھونتے پھرتے دکھائی دیتے تھے۔
ہیم کی سوچوح کا محور بھی دوسرے جانداروں کی طرح خوراک کا حصول اور اپنی بقا اور تحفظ کو جنگل میں یقنی بنا کر رکھنا ہی تھا۔
یہ محفوظ ترین غاروں میں اپنا ٹھکانا بناتے جبکہ دن بھر خوراک تلاش کرتے اور سورج ڈوبنے سے پہلے ہی اپنے محفوظ ٹھکانوں کی طرف لؤٹ جاتے اور جب تک سورج نہیں نکلتا لمبی تان کے سوتے رہتے۔
لاکھوں سالوں میں رات رات بھر سونے کی عادت نے اب ہیم کی رات میں دیکھنے کی صلاحیت اس سے ہمیشہ کے لیے چھین لی تھی۔
لیکن اسکی لرننگ اسکلز دوسرے جانداروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو چکی تھیں کیوں کہ لاکھوں سالوں سے یہ نا صرف ایک دوسرے سے سیکھتا چلا جا رہا تھا بلکہ جنگل کے دیگر جانداروں سے بھی سیکھنے کی کوشش کرتا تھا اور ہر سیکھی ہوئی چیز کو اپنے بچوں کو بھی سکھانے کی کوشش کرتا تھا۔
لاکھوں سالوں میں اسکی سیکھنے کی صلاحیت نے اسے دوسرے جانداروں کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور بنا دیا تھا۔
اس طویل عرصے میں اس جاندار نے جنگل کے تکریبن دوسرے تمام جانداروں سے بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔
مثلن یہ وہ واحد جاندار تھا جو بندر کی طرح درختوں پر چڑھ بھی سکتا تھا۔
جبکہ اپنے بچے کو ہاتھوں میں اٹھا کر کینگرو اور کی وی کی طرح دو پیروں پر چلنا بھی سیکھ چکا تھا۔
اس میں طوطے کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ آواز کو کاپی کرنے کی بھی صلاحیت تھی اور یہی وجہ تھی کہ یہ شیر کی طرح دھاڑتا بھی تھا اور پرندوں کی طرح گنگناتا بھی تھا۔
یہ جہاں جہاں بھی آباد تھے وہاں دن بھر انکے مو سے نکنے والی آوازوں کے شور سے گونجتا رہتا تھا۔
وہ خود بھی ان میں سے کسی آواز کا مطلب یا معنی نہیں جانتے تھے لیکن پھر بھی اسکی فطرت میں یہ چیز شامل ہوچکی تھی کہ وہ ہر اس آواز کو کاپی کرتا تھا جو اسکے کانوں کو بھلی لگتی تھی۔
اس جاندار کو ہم ایک عقلمند جاندار تو کہہ سکتے ہیں لیکن اسے انسان نہیں کہا جا سکتا اور اسکی دو بڑی وجوہات ہیں۔
اور وہ یہ ہے کہ یہ جاندار اپنے دماغ سے کوئی نیا آئی ڈیا خود سے تخلیق نہیں کر سکتا تھا یعنی وہ صرف دوسرے جانداروں کو کاپی کرنے کا ایکسپرٹ تھا۔
اور یہی وجہ تھی کہ تقریبن ایک لاکھ سال سے اسکی لرننگ گروتھ رکی ہوئی تھی اور اسکی وجہ یہ تھی کہ اسے اب کچھ بھی نیا سیکھنے کو نہیں مل رہا تھا اور جو یہ سیکھ چکا تھا وہی اپنے بچوں کو سکھاتا جارہا تھا۔
جبکہ دوسری سب سے بڑی کمزوری اسکی یہ تھی کہ یہ معلومات کو بالکل اسی طرح اپنے دماغ میں محفوظ کرتا تھا جیسے دوسرے جاندار کرتے ہیں یعنی انسانوں کی طرح الفاظ کی شکل میں ایک زبان تخلیق کرنے کا علم اسکے پاس نہیں تھا۔
اور دوسرے جانداروں کی طرح یہ بھی اپنے احساسات کے ہی پیچھے بھاگتا دکھائی دیتا تھا۔
یہ وہ وقت ہے کہ جب زمین کا ارتقائی سفر جاری تھا اور اسی دوران زمین کے خشکی والے حصوں میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ جاری تھا، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں جنگلات تباہ ہو رہے تھے اور نئے جزیرے اور سب کونٹیننٹس وجود میں آرہے تھے۔
زمین میں ہونے والی اسی توڑ پھوڑ کے دوران ایک روز یہ جنگل بھی لپیٹ میں آگیا اور شدید زلزلے کے جھٹکے آنا شروع ہو گئے۔
اس تمام تر تباہی میں سارا جنگل سمندر برد ہو گیا تھا لیکن اسی جنگل کا ایک ٹکڑا ایک جزیرے کی شکل میں بچ گیا اور بہت سے دوسرے جاندار اور ہیم کا ایک کم عمر جوڑا حادثاتی طور پر اسی جزیرے والے حصے میں موجود ہونے کی وجہ سے بچنے میں کامیاب ہو گئے۔
مگر یہ دونوں بھی دو مختلف مقامات پر تھے اور ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔
ناظرین ڈی این اے کی مدد سے کی جانے نیشنل جیوگرافک چینل کی ایک تحقیق کے مطابق پہلے انسانی جوڑے کے ایک فرد کا ڈی این اے کوڈ ایم ون سکسٹی ایٹ ہے لے ہازا اس جوڑے کے ایک فرد کا نام فی الحال ہم ایم ون سکسٹی ایٹ ہی فرض کر رہے ہیں۔
وہ خیال دوسرے تمام جانداروں کی طرح اس ایم ون سکسٹی ایٹ کے دماغ کے اندر بھی کہیں موجود تھا لیکن دوسرے جانداروں کی طرح ایم ون سکسٹی ایٹ بھی اس سے لا علم تھا۔
ایم ون سکسٹی ایٹ ہیم کا ایک کمسن بچہ تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ دن کا وقت تھا اور ایم ون سکسٹی ایٹ خوراک تلاش کرتا کرتا آج کافی دور نکل آیا تھا۔
لیکن اچانک موسم تبدیل ہونا شروع ہو گیا اور آسمان پر کالی گھٹائیں آنی شروع ہو گئیں۔
ایم ون سکسٹی ایٹ نے اپنے ٹھکانے کی طرف دوڑنا چاہا مگر وہ حصہ جہاں اسکا قبیلہ آباد تھا اسے پانی میں دھنستا ہوا دکھائی دیا اور اس پر پانی آنا شروع ہو گیا۔
ایم ون سکسٹی ایٹ نے جب یہ منظر دیکھا تو جان بچانے کے لیے اب اس نے تباہی کی مخالف سمت دوڑنا شروع کردیا۔
وہ کافی دیر تک دوڑتا رہا اور دوڑتے دوڑتے اب شام ہو چکی تھی، اور وہ اب ایک میدان میں کھڑا تھا جہاں اندھیرا مسلسل چھاتا چلا جا رہا تھا۔
وہ سہم کر وہیں بیٹھ گیا، یہاں تک کہ اب مکمل اندھیرا چھا چکا تھا اور اسکی دیکھنے کی صلاحیت نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
وہ پہلے ہی کافی ڈرا ہوا تھا لیکن اب ایک خوف کا احساس تھا جو اس تنہائی اور تاریکی کی وجہ سے اس پر مسلسل طاری ہوتا جارہا تھا۔
وہ کافی تھک بھی گیا تھا اور اسے کچھ دکھائی بھی نہیں دے رہا تھا لے ہازا وہ اسی جگہ لیٹ گیا۔
وہاں اس وقت کوئی بھی نہیں تھا لیکن اس تاریکی میں بھی اسکی آنکھیں کسی کو تلاش کررہی تھیں۔
وہ آنکھیں اس وقت ایک احساسے تحفظ تلاش کر رہی تھیں جو اسے اسکی ماں اور اسکے خاندان اور قبیلے سے ملتا تھا۔
وہ ایک عام جاندار تھا جو سب کچھ بھول چکا تھا اور انہیں واپس یاد کرنے کے لیے اب اس کے پاس صرف ایک ہی آپشن تھا کہ وہ ان سے ریلیٹڈ اسے کچھ دکھے، یا بو آئے یا آواز تو شائد وہ انکی مدد سے انکے خیالات تک پہنچ سکتا تھا ورنہ انکے خیالات تک بھی پہنچنے کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔
ماضی کو تو وہ کافی حد تک بھول ہی چکا تھا لیکن ایک احساس اب بھی اسے اپنے تحفظ کے لیے کسی کو تلاش کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔
وہ رات یقینن ایک سیاہ ترین رات تھی یعنی اتنی کہ اسے اپنے ہاتھ تک دکھائی نہیں دے رہے تھے لیکن ایک تارہ تھا آسمان پر جو اس وقت چمک رہا تھا، مگر وہ تارہ صرف ہمارے لیے ہی ایک تارہ تھا، اسکے لیے تو وہ روشنی کا ایک احساس تھا جو آنکھوں کے راستے اسکے دماغ تک پہنچ رہا تھا اور بس۔
روشنی کے اس ایک احساس نے اسکی تنہائی کے احساس کو ختم کردیا تھا کیوں کہ اب وہ بہت محبت سے اسے دیکھے ہی جارہا تھا۔
وہ اس روشنی کی مدد سے ایک احساسے تحفظ حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا لے ہازا وہ اس تارے کو دیکھتے دیکھتے کب سو گیا اسے خود پتہ نہیں چلا، لیکن جب آنکھ کھلی تو صبح ہوچکی تھی۔
وہ اٹھا تو اسے کافی بھوک لگ رہی تھی لے ہازا وہ خوراک کی تلاش میں چل پڑا اور پھلوں کے کچھ درختوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا جہاں سے اسنے پھل کھا کر اپنا بیٹ بھرا اور سارا دن یونہی جنگل میں گھومتا پھرتا اور خوراک تلاش کر کر کے کھاتا رہا۔
لیکن جب رات کی تاریکی چھانا شروع ہوئی تو اسنے بھی ایک درخت کے اوپر اپنے لیے ایک محفوظ جگہ تلاش کری اور لیٹ گیا۔
لیکن رات کی تاریکی کے سبب آج پھر اس پر خوف کا وہی احساس طاری ہونا شروع ہوگیا تھا جو گزشتہ را تھا اور جب اسنے آسمان پر نظر دوڑائی وہ تارہ اسے پھر نظر آگیا۔
اسے دیکھتے ہی اسکے دل کو سکون ملا اور وہ اسے دیکھتے دیکھتے بے خوف ہو کر سوگیا۔
اسنے اس تارے کو یاد کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ ناکام رہا کیوں کہ تارے کے خیال تک پہنچنے کے لیے اسکے پاس نا تو کوئی نشانی تھی اور نا ہی کو ئی لفظ کے جسکی مدد سے اسکے خیال تک پہنچ پاتا لیکن پھر بھی اسکی نظریں آسمان پر کچھ تلاش کر رہی تھیں۔
کچھ دن تک تو وہ اسی طرح اس تارے کو کبھی دیکھ پاتا اور کبھی نہیں دیکھ پاتا، لیکن دن نکلتے ہی اسے بھول جاتا اور خوراک کی تلاش میں لگ جاتا۔
مگر جو اس نے دیکھا وہ اس تارے سے بھی زیادہ روشن تھا یعنی اسکی روشنی کا احساس اس تارے کی روشنی سے بھی زیادہ تھا لے ہازا وہ تارے کو بھول کر اسے دیکھنا شروع ہوگیا۔
کئی دن تک وہ یونہی ہر رات اب چاند کو دیکھتے دیکھتے سوجاتا۔
ایک روز چاند اتنا روشن تھا کہ وہ رات کی تاریکی میں بھی دیکھ پا رہا تھا۔
اور یہی وجہ تھی کہ آج یہ بہت خوش تھا۔
لیکن اسکی یہ خوشی بھی زیادہ دن برقرار نا رہہ سکی اور وہ چاند بھی چھپتے چھپتے ایسا چھپا کہ نظر ہی نہیں آیا۔
اب نا آسمان پر کوئی تارہ تھا نا ہی چاند لیکن اسکی نظریں اس تلاش کی شاید عادی ہوچکی تھی۔
وہ اس پوری رات سو نہیں پایا لیکن جب اسنے سورج کو نکتے ہوئے دیکھا تو اسے دیکھ کر وہ چاند اور ستارے دونوں کو بھول گیا اور اسی کو اسنے اپنے لیے سب سے اہم سمجھنا شروع کردیا۔
وہ دن بھر سورج کا پیچھا کرتا یعنی اسے نکلتے ہوئے دیکھتا اور بہت خوش ہوتا اور جب رات ہوتی تو آسمان پر موجود چاند کو تلاش کرنے لگتا۔
ایسے ہی دن گزرتے گئے اور چاند بھی اب چھپ گیا تھا لیکن وہ تارہ اب بھی اپنی جگہ پر موجود تھا لے ہازا اسکا دماغ اس تارے کی مدد سے چاند کے خیال تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا، جسکے سبب وہ کسی حد تک اپنے خوف کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
گویا اس کے دماغ نے چاند کے نا ہوتے ہوئے بھی چاند کے خیال تک پہنچنے کے لیے ایک نشانی بنالی تھی۔
ایک روز ایک عجیب واقعہ ہوا, دن کا وقت تھا اور وہ اس وقت ساحل کے پاس کھڑا تھا کہ اچانک اندھیرا چھانا شروع ہوگیا، پرندے اپنے گھونسلوں کی طرف جانا شروع ہوگئے جبکہ دوسرے چوپائے بھی اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف دوڑنا شروع ہوگئے، اسکی نظر سمندر پر پڑی تو وہاں بھی اسے ہلچل سی نظر آئی یعنی سمندری جانور پانی کی سطح پر آکر اچھل رہے تھے۔
اس نے بھی وہی سمجھا جو سارے جانور سمجھے یعنی رات ہو رہی ہے لے ہازا وہ بھی اپنے ٹھکانے کی طرف دوڑنا شروع ہوگیا۔
لیکن جب اسکی نظر آسمان پر پڑی تو اسکی آنکھوں نے ایک عجیب منظر دیکھا اور جسے دیکھتے ہی وہ وہیں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔
وہ چاند جو اسے رات میں تخفظ کا احساس دلاتھا اب سورج کی روشنی کو روکے اسکے سامنے آتا جا رہا تھا، اور جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا سورج بھی اسکے پیچھے چھپتا چلا جارہا تھا۔
یہاں تک کہ چاند نے سورج کی ساری روشنی کو روک لیا، اور اب وہ چاند اسے سورج سے بھی زیادہ طاقت ور نظر آرہا تھا کیوں کہ وہ چاند سورج کے آگے ایسے اسکی روشنی کو روکے موجود تھا جیسے وہ سورج سے بھی زیادہ طاقت ور ہو۔
آنکھوں کے سامنے موجود منظر اور اس میں موجود چاند نے اسکے دماغ کو اب تارے کے خیال تک بھی پہنچا دیا تھا۔
اور اب وہ ان تینوں کا خیال ایکساتھ اپنے دماغ میں لانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔
جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ اب اسکا دماغ ایک کیلکولیشن کی طرف چلا گیا جسمیں اسکے دماغ نے ان تینوں کا موازنہ کرنا شروع کردیا۔
حقیقت تو یہ تھی کہ اسکا دماغ کیلکولیشن کر ہی نہیں سکتا تھا لے ہازا اسکا دل اب ان تینوں سے بیزار ہوچکا تھا اور اس نے ان تینیوں کو ایک دھوکہ سمجھ کر مسترد کردیا۔
اور یہی وجہ تھی کہ اس بار اسکی نظریں کسی اور کو تلاش کر رہی تھیں جو ان تینوں سے زیادہ طاقتور ہو۔
ایک خوف کے عالم میں اب اسکی نظریں پورے آسمان میں ان تینوں سے زیادہ طاقتور کچھ تلاش کررہی تھیں۔
لیکن اسکی نظریں تھک کر واپس لؤٹ آئیں، اور اسے ان تینیوں سے زیادہ طاقور کچھ نا نظر آیا تو اسکے دماغ کے اندر ایک خلا پیدا ہوگیا۔
اور اس خلا کو اسکا دماغ ایک نتیجے کی شکل میں پر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
اور یہ نتیجہ وہ اپنے ہی دماغ کے اندر سے تلاش کرکے لایا تھا۔
یہ تمام جانداروں کے ارتقا کی تاریخ میں وہ لمحہ اے جدائی تھا کہ جب ایک جاندار نے احساسات کی شکل میں باہر کی دنیا سے ملنے والی معلومات کے مقابلے میں ایک ایسے نتیجہ کو حقیقت مان لیا تھا جسے وہ اپنے ہی دماغ کے اندر سے تلاش کر کے لایا تھا۔
نتیجہ چونکہ اسنے اپنے ہی دماغ کے اندر سے تلاش کیا تھا لےہازا اسکے پاس دکھانے کو اسکی کوئی مثال نہیں تھی اسکے لیے۔
لیکن ابھی وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ نتیجہ اسنے ایک کامیاب کیلکولیشن کے نتیجے میں حاصل کیا ہے۔
اس کیلکولیشن نے اس کے دماغ کے جس گوشے سے جواب لاکر دیا تھا وہ اس تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔
یہ کائنات میں کسی جاندار کی پہلی کامیاب کیلکولیشن تھی کہ جسمیں کوئی جاندار نتیجہ باہر کی دنیا سے نہیں بلکہ اپنے ہی دماغ کے اندر سے ڈھونڈ کر لایا تھا۔
یہ اس کی ایک بہت عظیم کامیابی تھی اور اب وہ اس کامیابی کو محسوس بھی کررہا تھا۔
یہ اسکے دماغ کا پہلا خیال تھا کہ جس تک پہنچنے کے لیے اسے کسی سہارے کی ضرورت پیش نہیں آرہی تھی اور اسکی وجہ یہ تھی کہ وہ واحد خیال تھا جو اسی کے دماغ کے کسی گوشے سے اس تک پہنچا تھا۔
یہ وہ پہلا جاندار تھا جو اس خیال تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکا تھا جسکی مدد سے وہ ایک زبان بنانے میں کامیاب ہوجائےگا۔
ناظرین یہ ایک لوجیکل کہانی ہے اس میں ہم جتنے بھی مفروضے تخلیق کر رہے ہیں یہ سب ممکنات میں سے ہیں یعنی ان میں کوئی ایسی عقل سے ماورہ بات نہیں ہے کہ جسکی بنیاد پر کوئی انسان یہ کہہ سکے کہ اس کہانی میں کوئی اللوجیکل بات کا سہارہ لیا گیا ہے۔
اسی لاجیکل تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اگلی ویڈیو میں وہ پہلا انسان اس ایک خیال کی مدد سے ایک زبان تخلیق کرے گا۔
وہ محض ایک خیال کی مدد سے ایک زبان کیسے تخلیق کرلے گا؟
یہ جاننے کے لیے اگلی قسط ضرور پڑہیں شکریہ

 

Babar Khan
About the Author: Babar Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.