وطن عزیزمیں جس طرح کے حالات پیدا کییجارہے ہیں وہ وطن
عزیز کی عالمی برادری مین ناصرف بدنامی ہو تی ہے بلکہ اس کی وجہ سے ملکی
معیشت کا بیڑا بھی غرق ہو ا ہے کوئی بھی لانگ مارچ احتجاج ودھرنے ہوں انکی
وجہ سے شہریوں کا جینا محال ہوجاتاہے اوپر سے رہی سہی کثر انتظامیہ کی غلط
سیکیورٹی پالیسی کی وجہ سے خراب ہو جاتی ہے جس سے لوگوں میں غصہ و اپنے ملک
سے بیزاری دیکھنے کوملتی ہے اب پی ڈی ایم پاکستان پیپلز پارٹی اورجماعت
اسلامی دھرنے ومارچ نکالنے جارہے ہیں سیاسی مارچ جوبھی ہوتاہے وہ سیاستدان
کے مفاد کیلئے ہوتاہے اوریہ صرف عوام کو کٹھ پتلی کی طرح نچاتے رہتے ہینیہ
سب کچھ عوام کے لئے نہیں ہے بلکہ ان سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات کے لئے
تھا ان کے اس اکھٹا ہونے میں کوئی بھی عوامی مسئلہ جیسا کہ لوڈشیدنگ ،گیس
کا بحران ،آتے کا بحران امن و امان کا مسئلہ یا دوسرے دیگر مسائل کے بارے
میں کوئی غور نہیں اپنی تقاریرجھاڑتے ہیں ایک دوسرے پرالزام تراشی کرکے’’
یہ جاوہ جا‘‘ عوام کو اس بارے میں ضرور سوچنا چاہیے کہ جب بھی ان سیاسی
جماعتوں کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو وہ سب ایک ہو جاتے ہیں کھبی
پی ڈی ایم کی شکل میں کبھی میثاق جمہوریت کی شکل میں کھبی این آر او کی شکل
میں لیکن کیا وجہ ہے کہ کھبی یہ تمام جماعتیں ملک کے غریب عوام کو ریلیف
دینے کے لئے ایسے معاہدے نہیں کرتی کیا ہم عوام ان کے لئے کچھ نہیں ہیں اگر
حکومت یا اپوزیشن جماعتوں کو اپنی نوکری خطرے میں لگے تو یہ لوگ فورا ایک
ہو جاتے ہیں اس کے بر عکس اگر معاملہ عوام کے فائدے کا ہو تو یہ اس کو طول
دے دے کر اتنا لمبا کر دیتے ہیں ہیں کہ اس کے فوائد ایک غریب تک پہنچنے سے
پہلے ہی اپنی افادیت کھو دیتے ہیں۔پوزیشن پی ڈی ایم کی شکل میں ہویاالگ الگ
جماعت کی شکل میں وہ یقیناً حکمران جماعت کا بال بھی بانکانہیں کرسکتی
کیونکہ ایک مثال ہے دل وچ ہووے سچ تاں گلی وچ کھڑانچ یعنی سچے آدمی کوکوئی
ڈرنہیں ہوتااسلئے وہ جوبھی کرے مگرہمارے حکمران سارے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں
اس لیے نیب کا سن کے سب سن ہوجاتے ہیں اورپتلی گلی پکڑلیتے ہیں جس
کاسہارالے کے حکمران جماعت نے بغیرکسی دقت کے اپنے ساڑھے تین سال گزارلیے
اب کراچی میں جماعت اسلامی دھرنادینے کے بعدپورے پاکستان میں 101دھرنوں
کااعلان کرچکی ہے ان کاکہناہے کہ کراچی میں لوگوں کا سرمایہ غیرمحفوظ ہے۔
شہری کسی پراجیکٹ میں سرمایہ لگاتے ہیں بعد میں معلوم ہوتا ہے یہ تو
غیرقانونی تھا۔کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ میں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔ سندھ حکومت
نے لینڈ مافیا کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ سوسائٹیز کے ہزاروں الاٹیز مارے
مارے پھر رہے ہیں، کوئی انصاف دینے والا نہیں۔ نہ عدالتیں سنتی ہیں نہ سندھ
حکومت۔ ان سوسائٹیز میں کراچی کے ہزاروں افراد کی جمع پونجی لگی ہوئی ہے۔
آئے روز احتجاج کرتے ہیں مگر لینڈ مافیاز کے خلاف کارروائی کرنے والا کوئی
نہیں ہے۔تفصیل تولمبی ہے مگرمختصراً یہ کہ جماعت اسلامی کے مطابق 2013 ء
میں پیپلز پارٹی نے کراچی سے ٹرانسپورٹ، پانی، بلڈنگ کنٹرول، کے ڈی اے، ماس
ٹرانزٹ، سالڈ ویسٹ اور ماسٹر پلان کے ادارے چھینے تھے اور 2021 ء میں صحت
اور تعلیم سمیت باقی اداروں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ سندھ حکومت نے کراچی کے
تمام اداروں پر قبضہ کر کے مستقبل کے میئر کراچی کو شوبوائے بنا دیا ہے۔
میئر کوئی میگا پراجیکٹ بھی لانچ نہیں کرسکے گا۔ پیپلز پارٹی نے جس طرح
اندرون سندھ تمام ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، شہروں اور دیہاتوں کو تباہ و
برباد کر دیا ہے، اب وہ کراچی کو بھی لاڑکانہ اور تھر بنا رہی ہے۔ان اداروں
پر قبضہ کرنے کا مقصد جیالوں کی بھرتیاں ہیں۔ سندھ اسمبلی کے باہر جماعت
اسلامی کا دھرنا اسی لیے ہے کہ کراچی کو تمام بلدیاتی ادارے اور صحت،
ٹرانسپورٹ و تعلیم کا نظام واپس کیا جائے تاکہ شہر کے لوگ شہر کی ترقی و
بہتری کے فیصلے خود کریں۔ جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ کراچی کے روشن مستقبل
کے لیے ہر فرد کو دھرنے میں آنا چاہیے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مسلک یا
پارٹی سے ہو۔ جماعت اسلامی کے مطابق کراچی دھرنے کے مطالبات درحقیقت ہر
کراچی والے کے مطالبات ہیں۔دنیا کے تمام بڑے شہروں کی طرح ٹرانسپورٹ کا
پورا نظام میئر کے پاس ہونا چاہیے۔ سندھ حکومت نے 14 سال میں صرف 10 بسیں
چلائی تھیں جبکہ آج کراچی کو 5 ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ جب 2001 ء سے 2005 ء
تک کراچی میں ایک با اختیار سٹی ناظم تھا تو صرف 4 سال میں 364 بڑی اور
کشادہ ائر کنڈیشنڈ بسیں 15 سے زائد روٹس پر چلتی تھیں۔ 2005 ء سے 2010 ء تک
دوسری شہری حکومت نے مزید 70 بسیں چلائیں جبکہ پیپلز پارٹی نے 14 سال میں
صرف 10 بسیں چلائی ہیں۔اب جماعت اسلامی نہ تون لیگ کے ساتھ ہے نہ ہی پی پی
پی کواپناسمجھتی ہے اورنہ ہی تحریک انصاف کواپنانے کوتیارہے دوسری طرف
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی ٹریکٹرمارچ کیلئے
اپنی کمرکس لی ہے حکومت نے ملک میں زرعی بحران، گیس بحران پیدا کیا ہم اس
کی مذمت کر تے ہیں، وفاقی حکومت عوام کے سر سے چھت چھین رہی ہے، عوام
موجودہ حکومت سے نجات چاہتے ہیں، ظالم حکومت عوام سیروزگارچھین رہی ہے جبکہ
پاکستان پیپلزپارٹی کی لیگل ٹیم نے 16ہزار برطرف لوگوں کو انصاف دلایا اور
پیپلزپارٹی نے ہی ملک کو ہمیشہ مسائل سے نکالا۔نے ملک میں فوری الیکشن کا
مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے موجودہ تمام مسائل اور عوام کو درپیش
مشکلات کا حل فوری صاف ، شفاف اور غیرجانبدار الیکشن ہیں، ملک کے مسائل کا
حل صرف جمہوریت، جموریت اور جموریت ہے۔ اس جعلی حکومت کو بے نقاب کریں گے،
پیپلزپارٹی نے حکومت کے خلاف وائٹ پیپر جاری کیا، الیکشن میں دھاندلی کے
خلاف تاج حیدر نے رپورٹ تیار کی ہے جس کو جلد عوام کے سامنے لایا جائیگا،
ہم اس جعلی حکومت کی دھاندلی کے ثبوت سامنے لائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ
حکومت زبردستی منی بجٹ منظورکرانا چاہتی ہے، پاکستان کی معاشی خودمختاری کو
سرینڈر کر دیا گیا، اسٹیٹ بینک پرپابندیاں لگائی جارہی ہیں، اسٹیٹ بینک نہ
پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوگا اور نہ ہی عدالتی نظام کو جواب دہ ہوگا۔انہوں نے
کہا کہ موجودہ ناجائز، نالائق، اور نا اہل حکومت نے ملک کی معاشی خودمختاری
کا سودا کیا، پاکستان کے عوام مشکل ترین صورتحال سے دوچار ہیں، منی بجٹ
عوام دشمن ہے، منی بجٹ عوام کی جیب پر ڈاکا ہے۔بلاول کا کہنا تھا کہ عالمی
اداروں کے سامنے معاشی خود مختاری کا سودا کیا گیا ہے، اسٹیٹ بینک
پارلیمان، عدلیہ کے بجائے آئی ایم ایف کو جوابدہ ہوگا۔'پی ٹی آئی فارن
فنڈنگ کی مزید تحقیقات کی جائیں'انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کی
فارن فنڈنگ کی مزید تحقیقات کرے، پی ٹی آئی نے7سال تک فارن فنڈنگ کو
چھپایا، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ملک بھر میں کھاد بحران کے خلاف کسان
ریلیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی ملک میں گیس اور کھاد کے
بحران کی مذمت کرتی ہے، ملک میں کھاد کا بحران حکومت کا پیداکردہ ہے، زراعت
ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، زراعت متاثرہوگی تو پورے ملک کی معیشت
متاثر ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ ڈویڑن کی سطح پریوریا بحران کے خلاف کسانوں
کے ساتھ مل کرریلیاں نکالیں گے، ہمارے احتجاج کا سلسلہ اب نئے مرحلے میں
داخل ہوجائے گا۔'عوام اس حکومت کو مزید ایک دن بھی نہیں دینا چاہتے'
پاکستان کے عوام اس حکومت سے نجات چاہتے ہیں، صاف اورشفاف الیکشن کا مطالبہ
کرتے ہیں، ملک کے مسائل کا حل صرف جمہوریت، جمہوریت، جمہوریت میں ہے۔انہوں
نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) نے اپنے مارچ کا اعلان
کرنے سے پہلے مشاورت نہیں کی، پی ڈی ایم کو اپنے طریقہ کار کے مطابق مارچ
کرنے کا حق ہے، عوام اب اس حکومت کو ایک دن بھی مزید نہیں دینا چاہتے، اپنا
احتجاج آج سے ہی شروع کر رہے ہیں۔حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کرتے
ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی 27 فروری کو مزار قائد سے احتجاجی تحریک
شروع کر رہی ہے، حکومت کے خلاف ہر وہ ا?پشن اور جہد وجہد کریں گے جو
جمہوریت میں اپوزیشن کا حق ہوتاہے، معاشی بحران پر حکومت کیخلاف میدان میں
نکلا ہوں۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ
اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار رہاہے، چاہتیہیں کہ سارے ادارے نیوٹرل اور غیر
جانب دار رہیں، عمران خان کی سلیکشن پر ہمارا مؤقف واضح ہے ان کا کہنا تھا
کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے 2011 میں ذوالفقار علی بھٹو کے کیس میں نظر ثانی
درخواست دائر کی تھی، عدالت درخواست پرسماعت کرے اور فیصلے کو عدالتی قتل
قراردے، عدالت اپنے اوپر لگے ہوئے عدالتی قتل کے داغ کو دھوئے، عدالت کو
ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف دینا چاہیے، پاکستان کے عوام کو انصاف دینا
چاہیے۔بلاول بھٹو زرداری کا پنجاب کے 9 اضلاع سے 80 سے زائد مقامی حکومتوں
کے بلدیاتی نمائندگان کی پارٹی میں شمولیت کے بعد ہونے والی تقریب سے خطاب
کرتیہوئے کہنا تھا کہ اس حکومت نے ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں دینیکا وعدہ
کیا تھا مگر الٹا برسر روزگار لوگوں سے روزگار چھین کر انہیں بھی بیروزگار
کر دیا ہے۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ موجودہ نا لائق، نا اہل حکمران 2021
میں بھی لوگوں کیلیے گھر نہیں بناسکے، 50 لاکھ گھر بنانے کے جھوٹے وعدے کیے
مگر الٹا غریبوں کے سر سے چھت چھین لی ہے۔ پاکستان کے عوام جانتے ہیں کہ
پیپلزپارٹی وہ جماعت ہے جو لوگوں کو روزگار دیتی ہے، آپ جانتے ہیں کہ ملک
کے عوام بینظیر بھٹو شہید کے لیے کہتے تھے کہ بنظیر آئے گی روزگار لائیگی،
پیپلزپارٹی نے اپنے ہر دور میں روزگار کی فراہمی کے اپنے ہی ریکارڈ کو بہتر
کیا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے عوام اب زیادہ دیر
انتظار نہیں کرسکتے، عوام اب اس نا اہل، نالائق حکومت کیعذاب سے نجات چاہتے
ہیں اور اس جدوجہد میں مجھے عوام کے ساتھ کی ضرورت ہے اور اس جدوجہد میں آپ
میرے سب سے طاقت ور بازو بنیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں اختیارات
نچلی سطح تک منتقل ہوں، ہم چاہتے ہیں کہ اختیارات مرکز سے صوبوں اور صوبوں
سے مقامی حکومتوں کومنتقل ہوں، ہم چاہتے ہیں کہ سندھ کی طرح کا بااختیار،
طاقتور لوکل گورنمنٹ سسٹم پورے ملک میں نافذ کیا جائے۔بلاول بھٹو کا کہنا
تھا کہ سندھ کے نئے بلدیاتی نظام میں پولیس افسران، ہسپتالوں اور اسکولوں
کے حکام کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ہر دو ہفتے بعد لوکل کونسل کو رپورٹ دے
گی اور کونسل ان کے مسائل حل کرے گی۔محترم قارئین آخرمیں آپکویقین
دلاتاچلوں ان مارچ اوردھرنوں کا تحریک انصاف کوکوئی فرق نہیں پڑے گاوہ چپ
کرکے اپناوقت گزارلیں گے کیونکہ دل وچ ہووے سچ تاں گلی وچ کھڑانچ۔
|