اظہار یکجہتی کشمیر اور ہمارا کردار

تحریر: امیر عبدالقدیر اعوان
آج کا دن ہم اظہار یکجہتی کشمیر کے طور پر منا رہے ہیں۔کہتے ہیں کشمیر کی مدد کرو،کس طرح مدد کرو؟ ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کرلو۔کوئی فوت ہو گیا، کیا کرو؟ اس کے لیے موم بتی جلا دو۔ یہ اصول کہاں سے لیے ہیں؟ غزوات و سرایا کوئی نہیں پڑھے۔ ریاست مدینہ کے قیام میں حالات کوئی نہیں پڑھے۔ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کی نظر جس طرف گئی اس پر جان مال اور اولاد قربان، آپ کی ذات تو بہت بلند ہے۔ کیسی کیسی تکالیف سے آپﷺ گزرے؟ہم کیا کہتے ہیں بولو نہیں دشمن مارے گا۔ بنیاد رکھتے ہو ریاست مدینہ کی۔ایسی صورت حال میں مدد بھی پہنچے گی حالات بھی بدلیں گے۔ ضرورت کیا ہے؟ اپنے پاوں پر تو کھڑے ہوں اور اس کھڑے ہونے کے لیے نور ایمان چاہئے۔

مخلوق خد ا کو انصاف دلانا جس قوم کے ذمے تھاوہ خود مظلوم ہے،اس پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔کشمیر میں جو ظلم ہو رہا ہے اگر ہم اس تسلی میں بیٹھیں کہ وہ صرف وہیں تک رکے گا۔ اس کی مثال جنگل کی آگ کی طرح ہے۔ایک کونے میں جہاں سے آگ لگے گی وہاں سے جو کچھ ہے وہ تو جلے گا، باقی جنگل کے درخت یہ محسوس کریں کہ یہ آگ آگے نہیں آئے گی،ایسا نہیں ہے۔اﷲ جانے کس رخ کی ہوا چلے اور وہ آگ کہاں تک بڑھتی چلی جائے؟ یہ وہ موضوعات ہیں جو ہم سمیت اور خصوصی مقتدر حصے جو ذمہ داران ہیں،ان کو دیکھ لیں۔ جب ہم سارے من حیث القوم اپنی اپنی حیثیت میں،اپنا وقت گزارنے کو دیکھیں گے کہ میرے پاس جو وقت ہے یہ اچھا گزر جائے تو ہم اپنی اولاد کو کیا دے کر جارہے ہیں؟نہ ہماری کوئی قدر سلامت رہی، نہ ہمارا کوئی اخلاق سلامت ہے اور نہ ہی دین میں کوئی اتفاق و اتحاد رہا۔ جب بھی کوئی بیماری اٹھتی ہے، اس کا جتنا بھی علاج کر لیں۔اس کے سبب کا علاج نہ ہو تووہ بیماری ٹھیک نہیں ہوتی۔اگر کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے تو جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں۔وہاں جاکر دیکھ لیں،وہاں کیا ہو رہا ہے؟ یہاں جہاں میں اور آپ مخاطب ہیں، یہاں انصاف کے تقاضے دیکھ لیں۔ اپنی زندگیوں میں انصاف دیکھ لیں۔ جہاں میرا اور آپ کا اختیار ہے۔ وہاں اپنے ایک ایک عمل کو جانچ کر دیکھ لیں۔ کیا ہم انصاف کر رہے ہیں؟ کیا ہم سچ بول رہے ہیں؟ کیا ہمارے معاملات انصاف کی گواہی دیتے ہیں؟جو جس حیثیت میں ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ نظام ہستی میں چلا رہا ہوں۔مجھ سے کوئی نہ پوچھے۔گلوبلی دنیا کو دیکھیں تو پوری دنیا میں مسلمان امت کمزوری اور زوال کی طرف ہے جہاں جہاں ظلم ہو رہا ہے، ہم اظہار ہمدردی کررہے ہیں۔اس اظہار کو دیکھیں تو دکھ ہوتا ہے۔ایک وقت تھا جب مسلمان عددی حصے میں کم تھے اور غیر مسلم مظلوم کا مداوا کرنے کا سبب تھے۔آج عددی حصوں میں مسلمان قوم تمام مذاہب کے ماننے والوں میں سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جبکہ کسی کا مداوا تو کجا خود مظلوم ہے۔کیا فرق ہے؟ اسلام۔ وطن عزیز کے کسی پہلو پر بات ہو، ہمارے کشمیری بھائیوں کی تکالیف کا اظہارہو،اس اظہار یکجہتی میں پوری پاکستانی قوم کایک زبان کھڑا ہونا، کوئی پہلو لیں۔ میں حیران ہوتا ہوں، امت مسلمان،ظالم، مظلوم، ساری بحث ہے۔لفظ اسلام پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔ہم جو بھی قدم اٹھا رہے ہیں یاجس راہ کو چل رہے ہیں۔ کاش ایک لفظ پر متفق ہو جائیں: اسلام۔اگر ہم عمومی معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔زندگی میں کتنے زیروبم آتے ہیں؟ پسند و ناپسند کے کتنے پہلو آتے ہیں؟ کتنے ایسے پہلو ہیں جہاں انسان چاہ کچھ رہا ہے، اظہار کچھ کر رہا ہے؟ درکار کچھ ہے، مانگ کچھ اور رہا ہے؟ لیکن جب جہادبالنفس کی بات آئے گی تو اپنی ہر خواہش کو رب ِ کائنات کے حکم پر قربان کر دیا جائے گا۔ جہاں کلام ذاتی جہاد بالنفس کی تعلیم دے رہا ہے، جہاں ارشادات محمد الرسول اﷲ ﷺ جہاد بالنفس کی نزاکت بیان فرما رہے ہیں۔وہاں ایسے حالات میں جہاد بالسیف کا بھی ارشاد فرمایا گیا ہے میں نے آج تک لفظ جہاد کا اظہار کسی کی زبان سے نہیں سنا۔ جب ہم اصل مرض پر نہیں جائیں گے تو دوا ممکن نہیں ہے۔ میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ مجھے جو سن رہے ہیں وہ تلوار اٹھا لیں۔ اس کا بھی نظام ہے۔ اس ذمہ داری کا تعین اسلام فرماتا ہے۔ کس، کس کے ذمہ ہے؟ یاد رکھنا، جتنا کردار میرے ذمہ ہے اور جتنا کردار مقتدر حصوں اور عامۃ الناس سے لے کر آخری طاقت رکھنے والے بندے تک ہے۔جتنا،جتنا حصہ ہے، ان مظلومین کے ایک ایک خون کے قطرے کا حساب روز محشر سب کو دینا ہو گا۔آج ہم بچتے رہیں۔ فلاں ملک ناراض ہو جائے گا، فلاں قوم ناراض ہو جائے گی۔ اس سارے میں کوئی کسر رہ گئی ہے کہ ہم پر جہاں ظلم نہ کیا گیا ہو۔ کتنے مہینوں سے کشمیر میں کرفیو نافذ ہے؟ جہاں کرفیو نافذ ہوتاہے، وہاں نقل وحرکت رک جاتی ہے۔ آ پ غورتو کریں؟ کتنے دن؟ وہاں دوا تو کجا کھانے کا نوالہ میسر ہے یا نہیں؟ ہمیں نہیں معلوم۔کسی کی عزت کا لٹنا تو کجا، کسی کی عزت محفوظ رہی یا نہ رہی۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں؟

یہ وطن عزیز بڑی قربانیوں کے بعد ہمیں نصیب ہوا ہے۔ اس کے اندر تقسیم در تقسیم ہمارے کردار نے کی ہے اور ایک چیز اور عرض کروں کہ کہیں کسی کا کوئی دشمن پیدا ہوتا ہے۔ دشمنی کا سبب بنتا ہے تو دشمنی ہوتی ہے۔ اس وطن عزیز کے دشمن،اس کے وجود میں آنے سے پہلے موجود ہیں۔ یہ سارا یہی نہیں ہے کہ ساری ہمارے بے عملی کے نتائج ہیں یا ہم خرابی کر رہے ہیں۔ ہماری بے عملی اور خرابی ہمیں اندھا کر رہی ہے۔ اپنے کردار کی خرابی تو ہے ہی جو لوگ باہر بیٹھے، اس ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں،ہم ان کے بھی آلہ کار بنتے جا رہے ہیں۔

کشمیر کو کیا کہتے ہیں؟ جنت نظیر۔ جنت میں شیطان کا تصور نہیں ہے، وہاں شیطان نہیں ہے۔یہ جو جنت نظیر کہا جاتا ہے اور وہاں شیاطین بیٹھے ہیں؟یہ کیا ہے؟یہ ہماری بے عملی کے نتائج ہیں، ہماری عبادات کے سودے ہیں۔ وہ عبادات کے سودے، عبادات کو عبادات کے درجے تک نہیں پہنچنے دیتے۔وہ اسباب جو ہمارے عروج کے تھے، آج ہمارے اندر نہیں ہیں اور ان کا نہ ہونا ہمارے زوال کا سبب ہے۔دنیا میں جب آپ ظالم کو دیکھیں۔وہ کہتے ہیں کہ ظالم مارتا بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتا یعنی شکایت بھی نہیں کرنے دیتا کہ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ جن اصول و ضوابط کو نبی کریم ﷺنے اختیار فرمایا۔ان اصول و ضوابط پر بات کوئی نہیں کرتا۔ دنیا کی بات کرتے ہیں اور جب دنیا کی بات کرتے ہیں تو دنیا میں ہم اتنے نالائق ہیں کہ جو اقوام ہم سے آگے ہیں۔ ہم ان کے پیچھے بھی نہیں، مرہون منت ہیں۔ ان سے لے کر کھاتے ہیں۔ممکن نہیں ہے کہ کوئی بندہ مومن ہو جس کے سینے میں ایمان موجزن ہوجسے توکل علی اﷲ نصیب ہوجو آخرت کو دیکھ کر جی رہا ہو۔اس کا راستہ بھی کوئی کاٹنے کی جرا?ت کر سکے۔

حضرت امیر محمد اکرم اعوان رحمۃ اﷲ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ وسط ایشائی ریاستوں کا ایک شہزادہ جس کی حکومت گر گئی، ملک محکوم ہو گیا، لیکن اس کے جو بھی بچے کھچے فوجی تھے ان کے ساتھ لڑتا رہا اور غالباً ہلاکوخان خود کمان کررہا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ شہزادے کو قتل کیا جائے تا کہ بغاوت کا سر ہی ختم کیا جائے۔وہ لڑتے ہوئے اٹک کے دریا تک پہنچ گیا۔اٹک کے دریا پر پہنچنے پر شہزادے کا کوئی چارہ نہ رہا، سپاہی اس کے شہید ہو گئے تو اس نے گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔جب دریا میں گھوڑا ڈال چکا تو تاتاری بھی کنارے پر پہنچ گئے۔ انہوں نے کمانیں کھینچیں تو ہلاکو خان نے کہا ’’کمانیں نیچے کر لو اس پر اب کوئی تیر نہیں برسائے گا‘‘ کیوں؟ دوسری طرف سلطان التتمش کی حکومت تھی۔ اگر وہ اس بات پر اکڑ گیا کہ میری سرحد پر تو نے ایک فرد کو مارا ہے تو اسے ہم روک نہیں سکیں گے۔وہی تاتاری تھے جو سروں کے مینار بنا رہے تھے۔ جن کو خوف کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ دریا،دو ممالک کی سرحد تھی۔ ملکیت ادھر کی ہی نہیں تھی۔ جرا?ت نہیں ہوئی ادھر کے بندے پر جس سے لڑائی ہو رہی ہے۔ جوان سے بھاگ رہا ہے کہ اس پر تیر بھی برسائیں۔کیوں؟ انہوں نے ملک تعمیر کیے تھے۔کن بنیادوں پر
تعمیر کئے تھے؟ جن بنیادوں پر ریاست مدینہ نبی کریم ﷺ نے تعمیر فرمائی۔ زبانی نہیں۔

رب کریم فرما رہے ہیں وَکَذَّبَ بِہٖ قَوْمُکَ وَھُوَ الْحَقُّ ط قُلْ لَّسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ (اَ لْاَنْعَام: 66) (ترجمہ اکرم التراجم) ’’اوراس (قرآن)کوآپ کی قوم نے جھٹلایا حالانکہ وہ سچ ہے۔فرما دیجئے میں تم پر داروغہ نہیں ہوں‘‘ یہ قانون ہے۔ جب جب یہ آئے گا حق سے دوری ہو گی۔حق سے دوری ظالم بھی پیدا کرے گی اور جب ظالم پیدا ہوں گے تو مظلوم بھی ضرور ہوں گے اور اس کے حل کے لیے کیا واپس حق پرنہ جایا جائے؟ اسلامی اصولوں سے کیوں گھبراتے ہو؟ کیا جن کا ڈر ہے،وہ ملک الموت کو روک لیں گے؟ کیا جن کا ڈر ہے، اگر اﷲ کو زندگی مقصود ہوئی تو یہ موت دے دیں گے؟کیا جن کو دیکھ کر بہشت کی باتیں کرتے ہو؟ریاست مدینہ کی مثال ہم دیتے تھکتے نہیں ہیں۔ وہاں صحابہ کرام نے پیٹ پر پتھر بھی باندھے لیکن بات انصاف کی، کی۔ بات اس اصول کے تحت کی گئی جو رب کائنات نے ارشاد فرمائے وَکَذَّبَ بِہٖ قَوْمُکَ وَھُوَ الْحَق یہ ارشاد محض اس وقت تک کا نہیں ہے۔ ایک قوم تک کانہیں ہے اور یہ قوموں کافرمان ہے۔ جو بھی ارشادات باری تعالیٰ پرعمل کرے گا۔ اس ارشاد کے تحت کسی نہ کسی درجے میں آپ بھی قوم میں شامل ہو جائیں گے۔آج بھی اپنے اپنے درجے کے مطابق آپ ﷺ کا جو اقرار کرے گا، قوم میں شامل ہوتا چلا جائے گا وَھُوَ الْحَقُّ تو بھائی ہٹ کر دیکھ لو۔ ہم ہٹ کر دیکھ رہے ہیں۔ پلٹ کر دکھ لوبہتری آتی ہے کہ نہیں آتی۔اگر کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے، جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں، وہاں جا کر دیکھ لیں۔ جہاں میں اور آپ مخاطب ہیں۔یہاں کیا ہو رہا ہے؟ یہ جو کلام ذاتی بیان فرما رہا ہے، یہ فرق ہے۔ اﷲ کریم ہمیں ایمان کی یہ صورت عطا فرمائے کہ ہماری سیرت کے ایک ایک ریشے تک یہ جذب ہو اور یہی ایک ہماے مسائل کا حل ہے۔
میرا بھی نام ہے میں ہوں غلام آقا کا میں ان کے زیر قدم ہوں میں بے مقام نہیں

مضبوطی کیا ہوتی ہے؟وہ یکجہتی سے آتی ہے۔ اگر آپ غور کریں ہمیں قوموں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور دعویٰ ایمان کے ساتھ ہمیں پھر قومی طور پراس درجے تک تقسیم کر دیا گیا ہے کہ ہم باہم دست وگریبان ہوگئے ہیں تو ضرورت ہے اتفاق کی،اتفاق حاصل کرنے کی کیا صورت ہوگی؟جب ہم اپنا فرض کی ادائیگی کو دیکھیں گے، جس کی تعلیم اسلام دیتا ہے۔ اس اتفاق اور اتحاد میں اور مزید کیا ضرورت پیش آئے گی؟ یہ ملک میرا ہے۔ اس ملک کے ادارے چاہے وہ کسی صورت میں ہیں۔آرمی کی صورت میں ہے، عدلیہ کی صورت میں، پارلیمنٹ کی صورت میں ہے۔ وہ کیا ہیں؟وہ میرے ہیں۔ یہ عوام میری ہے، یہ لوگ میرے ہیں،یہ دعویٰ ہم میں سے ہر پاکستانی کا ہو۔ جب سب کچھ میرا ہے جو میرے ذمے ہے، اپنے ان پیاروں کی ادائیگی کے لیے، بہتری کے لیے جو میرا ذمہ ہے۔کیا وہ کوئی اور آکر ادا کریں گے؟ یہ تو وہ حالات ہیں جو دنیا کے ہمارے سامنے ہے۔ ہماری کمزوریاں، ہماری خطائیں،اﷲ ہمیں معاف فرمائے۔لیکن دنیا میں سارا کچھ ایسے ہی نہیں ہے،جیسے ہم دیکھ رہے ہیں کہ رات دن اور صبح بے شک رہے ایک نظام ہے۔ حقیقی نظام تقوینی نظام سے ہے جو منجانب اﷲ فیصلے ہیں۔ من جانب اﷲ فیصلوں میں نبی کریم ﷺ کی بشارت ہے کہ غزوۃا لہند ہو گااور غزوۃ الہند آپ ﷺ کی بنفس نفیس اس درجے کی شرکت،توجہ نصیب ہو گی کہ آپ ﷺ نے اسے غزوہ ارشاد فرمایا اور فرمایا اس میں جو مجاہد شریک ہوں گے شہدا ء یا غازی،قیامت کے دن ایسے خوش بخت ہوں گے کہ ان سے حساب نہیں لیاجائے گا۔ خیرالقرون سے ہمارے اجداد کے مدفن اس خطے میں ملتے ہیں۔کس لیے؟کہ نبی کریم ﷺ نے اس غزوے کا ارشاد فرمایا ہے، تب سے لوگ چل رہے ہیں۔ اس آلاو? کو اور آگ دو اور حدت پیدا کرو۔ ہمیں گھبراہٹ نہیں ہے، ہمارے تو اجداد اسی انتظار میں دفن ہوتے آئے ہیں، ہمیں بھی انتظار ہے کہ اﷲ ہمیں نبی کریم ﷺ کے حکم پر غزوۃالہند کا مجاہد بنائے۔ اس میں ہماری جانیں جائیں۔ ہماری گردنیں اڑیں۔

اے میری قوم! آپ کو نبی کریم ﷺ نے بشارت بیان فرمائی ہے،اپنے اس رشتے کو جانو۔اگر بائیس کروڑ ہم ہیں تو بائیسواں کروڑواں پاکستان کا یہ حصہ میرے پاس بھی ہے۔اس کی تعمیر میں،میں نے کتنا کردار ادا کیا ہے؟ اﷲ کریم ہمیں توفیق عمل عطا فرمائے۔ یہ زندگی شکرگزاری کی صورت میں، حقیقت کے ساتھ ادا کرنے کی اور اسے گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اﷲ کریم ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو۔ ہمیں باعمل مسلمان بنائے۔ ہمارے کشمیری بھائی جو ظلم و ستم سہہ رہے ہیں انہیں صبر و حوصلہ دے، طاقت دے۔ان ظالموں کو اﷲ کریم اپنے انجام تک پہنچائے۔ اﷲ کریم دنیا بھر کے مسلمانوں کواس امتی کے رشتے کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آئیں اس انتظار میں نہ بیٹھیں کہ کوئی کیا کرے؟ اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ اس لیے کہ میرا اﷲ راضی ہو، اس لیے کہ یہ تعلیم فرمائی ہے نبی کریم ﷺ نے اس لیے کہ اس کے نتائج روز محشر میں نے، آپ نے، ہم سب نے دیکھنے ہے۔
 

M M Ali
About the Author: M M Ali Read More Articles by M M Ali: 18 Articles with 13909 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.